مصطفیٰ زیدی عدالت (نظم)۔ مصطفیٰ زیدی

فرخ منظور

لائبریرین
عدالت

خدائے قُدّوس کی بُزرگ اور عظیم پلکیں
زمیں کے چہرے پہ جُھک گئی ہَیں
زمین کی دُخترِ سعید اپنے آنسوؤں اور ہچکیوں میں
شفیق ، ہمدرد باپ کی بارگاہ کا اک ستُون تھامے
گُنہ کا اقرار کر رہی ہے

ترے فرشتے ۔۔۔۔۔۔۔
ترے فرشتے کہ جن کی قسمت میں محض تسبیح و نَے نوازی
نہ سوزِ فطرت نہ دل گُدازی
یہ وُہ ہیں جن کے شریر اور بدمزاج بچوں
نے آسماں کے کئی ستاروں کو توڑ کر
اپنے ہات میں خُون کر دیا ہے
یہ وُہ ہیں جن کی غلام رُوحوں
نے صبح کے دیوتا کا مندر
سفید برفانی چوٹیوں کی بلندیوں سے ہٹا دیا ہے
اَگر یہی ہے گُنہ کہ جب
دیوتا کے تلووں پہ دربدر ٹھوکروں کی کثرت
سے آبلے پُھوٹنے لگے تھے
تو ایک معصوم بھولی بھالی حسین لڑکی نے اپنے گھر میں
اُسے بلایا تھا ، اُس کے زخموں کو دھو کے مرہم لگا دیا تھا
اُسے محبت کی نرم، پاکیزہ لوریوں میں سُلا دیا تھا

تو پھر خُدایا
تری کنواری ، سعید لڑکی
گناہ کا اعتراف کر کے
سزا کی حقدار ہو گئی ہے

مصطفیٰ زیدی
(شہرِ آذَر)
 
آخری تدوین:
Top