محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ مسلم فیملی لاز میں عدت کے دوران نکاح کو جرم قرار نہیں دیا گیا اور نہ ہی اسے غیر قانونی قرار دے کر اس کیلئے کوئی سزا مقرر ہے تاہم اسے بے قاعدہ یا بے ضابطہ کہا جاسکتا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کی سابق جج ناصرہ جاوید اقبال نے کہا کہ علماء کا اپنا موقف ہے تاہم عدت کے دوران نکاح حرام نہیں ہے بلکہ یہ بے قاعدہ ہے اور ایسی صورت میں جب عدت کی مدت ختم ہو جائے گی تو یہ نکاح از خود ریگولر ہو جائے گا، عدت کی مدت کے دوران نہ صرف نکاح ہو سکتا ہے بلکہ کچھ حدود و قیود کے ساتھ رخصتی بھی ہوسکتی ہے تاہم ہم ایسے نکاح یا شادی کو حرام قرار نہیں دے سکتے بلکہ ایک سقم والی شادی کہہ سکتے ہیں جونہی عدت کی مقررہ مدت ختم ہو گی یہ سقم بھی دور ہو جائے گا اور یہ نکاح یا شادی ریگولر ہو جائے گی۔
فوجداری قانون کے ماہرآفتاب احمد باجوہ نے کہا کہ مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961 کے تحت چیئرمین ثالثی کونسل طلاق موثر ہونے کا سرٹیفیکٹ جاری کریگی جو طلاق ہونے کے 90دن کے بعد جاری کیا جاتا ہے اس کا مطلب ہے کہ خاتون کو طلاق موثر ہو گئی ہے اور اب وہ جہاں مرضی چاہے نکاح کر سکتی ہے، 90دن کی مدت اس لئے رکھی گئی تاکہ اگر خاتون حاملہ ہو تو پتہ چل جائے ، آج کے جدید دور اور ٹیکنالوجی چند ہفتوں کے حمل اور دنوں کے حمل کو بھی ظاہر کر سکتی ہے اگر عورت حاملہ نہیں تو وہ نکاح کر سکتی ہے تاہم ایسا نکاح بےقاعدہ ہوگا غیرقانونی نہیں۔ پاکستان کے قوانین عدت کے دوران نکاح کے معاملہ پر خاموش ہیں اس لئےایسے نکاح کو غیرقانونی یا قابل سزا نہیں کہا جاسکتا۔
سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ عبدالرحمان نے کہا کہ عائلی قوانین میں ایسی کوئی شق نہیں جس کے تحت عدت کے دوران نکاح کو جرم قرار دیا گیا ہو ،اس لئے ایسا نکاح غیرقانونی تونہیں البتہ یہ بے قاعدہ ہو سکتا ہے اور رائج قوانین میں اس کے لئےکی سزا کا تعین نہیں ہے۔
روزنامہ جنگ
آخری تدوین: