توقیر عالم
محفلین
بابا رحمتے کا انصاف بھی عجیب ہےیعنی عمران خان (صادق و امین) قانون کی گرفت سے پھر بچ گیا۔ ایسا تو ہوتا ہے ایسے کاموں میں
بابا رحمتے کا انصاف بھی عجیب ہےیعنی عمران خان (صادق و امین) قانون کی گرفت سے پھر بچ گیا۔ ایسا تو ہوتا ہے ایسے کاموں میں
بالکل اور اسے سیاسی ایشو بنایا جا رہا ہے۔ نون لیگ اور جیو نیوز کو شرم آنی چاہئے۔ مگر آئے گی نہیں کہ پیسا انکا خدا ہےاللہ تو بس یہ چاہتا ہے کہ عورت خُلع لیتے وقت یہ یقینی بنائے کہ وہ حاملہ نہیں ہے۔
پہلا حیض ہی اُسکے حاملہ نہ ہونے کو کنفرم کرے گا اور یہ کنفرم ہوتے ہی عورت دوسرے نکاح کے لیے آزاد ہے۔
خلع کی عدت کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ وہ کہتے ہیں جو آپ نے بیان کیا اور کچھ خلع اور طلاق میں فرق نہیں کرتے۔عمران خان کی جانِب سے ایک ایسی خاتُون سے نکاح کو غیر شرعی قرار دیا جارہا ہے جسکی مُبیّنہ طور پر عِدّت پُوری نہیں ہُوئی تھی۔ یہ تنقید کرنے والے دین کے بارے میں اُتنا ہی جانتے ہیں جتنا اُنکی مسجد کا مولوی اُنہیں اُس دِن بتادے جب یہ سال میں دو بار عید کی نماز پڑھنے مسجِد یا اپنے اہلِ خانہ کے جنازے کے لیے جنازہ گاہ جاتے ہیں۔
اگر کسی کو اِس بارے میں سُنّت کی رہنُمائی چاہیے ہو تو
ترمزی کی حدیث گیارہ سو پچاسی،
ابُوداؤد کی حدیث دوہزار دو سو اُنتّیس،
نَسائی کی حدیث تین ہزار چار سو ستانوے دیکھ لے۔
اگر عورت نے خُود خُلع لی ہے تو وہ خُلع کے بعد ہونے والے پہلے حیض کے فوراََ بعد کسی اور سے نکاح کر سکتی ہے خواہ پہلاحیض خُلع سے اگلے دن شرُوع ہو جائے تو وہ خُلع کے دس دِن میں کسی اور سے نکاح کرسکتی ہے۔
یعنی خُود طلاق لینے والی عورت کی عِدّت پہلے حیض تک ہے جو ایک دِن سے چند مہینے ہوسکتی ہے۔
خُلع لینے والی عورت خُود ہی بتائے گی کب اُسکی عِدّت ختم سمجھی جائے۔
اللہ تو بس یہ چاہتا ہے کہ عورت خُلع لیتے وقت یہ یقینی بنائے کہ وہ حاملہ نہیں ہے۔
پہلا حیض ہی اُسکے حاملہ نہ ہونے کو کنفرم کرے گا اور یہ کنفرم ہوتے ہی عورت دوسرے نکاح کے لیے آزاد ہے۔
اللہ سے ڈریں۔ اپنے سیاسی مفادات یا مُخالفت میں دین اور نکاح جیسے مُقدس رشتے کو مت لائیے۔۔۔
فیصل بھائی ایک سنجیدہ فقہی مسئلے میں آپ نے بھی فاروق سرور کی طرح لہسن کا تڑکا لگا دیا ہے۔ اب دلائل تو دونوں طرف موجود ہیں، جیساکہ زیک نے کہا۔ اب اگر کوئی اپنے دلائل پیش کرکے آپ کو بھی اس جیسے خطابات سے نواز دے تو شاید آپ ناراض ہوجائیں (یا شاید نہ ہوں) میرا مقصد یہ ہے کہ خالص فقہی مسائل میں گفتگو کا مزا تب ہی ہے جب بیچ میں تڑکے نہ لگائے جائیں۔یہ تنقید کرنے والے دین کے بارے میں اُتنا ہی جانتے ہیں جتنا اُنکی مسجد کا مولوی اُنہیں اُس دِن بتادے جب یہ سال میں دو بار عید کی نماز پڑھنے مسجِد یا اپنے اہلِ خانہ کے جنازے کے لیے جنازہ گاہ جاتے ہیں۔
عمران خان کی جانِب سے ایک ایسی خاتُون سے نکاح کو غیر شرعی قرار دیا جارہا ہے جسکی مُبیّنہ طور پر عِدّت پُوری نہیں ہُوئی تھی۔ یہ تنقید کرنے والے دین کے بارے میں اُتنا ہی جانتے ہیں جتنا اُنکی مسجد کا مولوی اُنہیں اُس دِن بتادے جب یہ سال میں دو بار عید کی نماز پڑھنے مسجِد یا اپنے اہلِ خانہ کے جنازے کے لیے جنازہ گاہ جاتے ہیں۔
اب جہاں اختلاف علماء میں بھی ہو وہاں ہم کسی پر یکطرفہ حرام کاری کا فتوی کیسے لگا سکتے ہیں جبکہ ان کا عمل کسی ایک دلیل کی موافقت میں ہو.... ایسے میں بھی انہیں نشانہ مشق بنانا درست نہ ہوگا اور علماء کا طرز عمل ایسا ہرگز نہیں ہوتاخلع کی عدت کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ وہ کہتے ہیں جو آپ نے بیان کیا اور کچھ خلع اور طلاق میں فرق نہیں کرتے۔
اسی لئے اس بابت میں نے نہ پہلے کچھ کہا تھا نہ آپ کی پوسٹ کے جواب میں کچھ لکھا۔اب جہاں اختلاف علماء میں بھی ہو وہاں ہم کسی پر یکطرفہ حرام کاری کا فتوی کیسے لگا سکتے ہیں جبکہ ان کا عمل کسی ایک دلیل کی موافقت میں ہو.... ایسے میں بھی انہیں نشانہ مشق بنانا درست نہ ہوگا اور علماء کا طرز عمل ایسا ہرگز نہیں ہوتا
ماشاءاللہ۔۔۔ بہت خوشی ہوئی یہ جان کر۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ جاننے کے بعد ان احباب سے محبت ہو گئی ہے۔سید عمران بھائی ما شاء اللہ مفتی ہیں اور عبید انصاری بھائی ما شاء اللہ عالمِ دین ہیں۔
ارے بھائی یہ محض ان کا حسن ’’ظن‘‘ ہے۔۔۔ماشاءاللہ۔۔۔ بہت خوشی ہوئی یہ جان کر۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ جاننے کے بعد ان احباب سے محبت ہو گئی ہے۔
اللہ عزوجل ان کے علم و عمل میں برکت دے۔۔۔ آمین۔
عدت کی روح وہی ہے جو اوپر فیصل بھائی نے بیان کی ہے۔ یعنی اس بات کا تعین ہو کہ آیا خاتون حاملہ ہیں یا نہیں۔ یہ کام آجکل کے جدید دور میں چند دنوں میں ہو جاتا ہے۔ یوں عدت کے دنوں کو جان بوجھ کر کھینچنا جبکہ تعین ہو چکا ہو کہ خاتون حاملہ نہیں ہے بذات خود غیر شرعی ہےخلع کی عدت کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ وہ کہتے ہیں جو آپ نے بیان کیا اور کچھ خلع اور طلاق میں فرق نہیں کرتے۔
عدت کی روح وہی ہے جو اوپر فیصل بھائی نے بیان کی ہے۔ یعنی اس بات کا تعین ہو کہ آیا خاتون حاملہ ہیں یا نہیں۔ یہ کام آجکل کے جدید دور میں چند دنوں میں ہو جاتا ہے۔ یوں عدت کے دنوں کو جان بوجھ کر کھینچنا جبکہ تعین ہو چکا ہو کہ خاتون حاملہ نہیں ہے بذات خود غیر شرعی ہے
ذرا ہتھ ہولا رکھ یار!!!عدت کی روح وہی ہے جو اوپر فیصل بھائی نے بیان کی ہے۔ یعنی اس بات کا تعین ہو کہ آیا خاتون حاملہ ہیں یا نہیں۔ یہ کام آجکل کے جدید دور میں چند دنوں میں ہو جاتا ہے۔ یوں عدت کے دنوں کو جان بوجھ کر کھینچنا جبکہ تعین ہو چکا ہو کہ خاتون حاملہ نہیں ہے بذات خود غیر شرعی ہے
یہ مسائل ہم نے خود بنائے ہوئے ہیں۔ شریعت تو آسان ہے۔ طلاق یا خلا یافتہ کی عدت اتنے اتنے دن ہوگی مقرر کرنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی جبکہ اصل مسئلہ خاتون کا حاملہ ہونا سے متعلق ہے۔ اگر ایک سادہ میڈیکل ٹیسٹ یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ خاتون حاملہ نہیں ہیں تو عدت کا وقت کئی ماہ جبرا واجب کرنا نہ صرف غیر شرعی ہے بلکہ اس خاتون کیساتھ بھی انتہا درجہ کی زیادتی ہےنکاح طلاق کے مسائل پر حال ہی میں کافی بحث و مباحثے پہ مبنی ایک تھریڈ بنایا گیا تھا۔ اس خبر کا اشتراک بھی عدنان بھائی نے کیا تھا۔ اور اب بھی۔۔ خود آپ دوبارہ آتے نہیں۔۔ اورسب کو شروع کرکے غائب ہوجاتے ہیں۔۔
بھائی میں بہت تنگ ہوں ان بحث و مباحثے سے۔۔ میں نا عالم نا مفتی۔۔ سو میرے پاس ایسا علم نہیں کہ لکیر کا فقیر ہونے کے باوجود بحث کروں۔۔ البتہ اتنا ضرور کہوں گی یہ مدت معین کرنا ہماری خود ساختہ مقرر کی ہوئی مدت نہیں بلکہ یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے۔ ایک شرعی حکم۔۔ باقی مینوں معاف رکھویہ مسائل ہمارے خود کے بنائے ہوئے ہیں۔ شریعت تو آسان ہے۔ طلاق یا خلا کی عدت اتنے اتنے دن ہوگی مقرر کرنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی جبکہ اصل مسئلہ خاتون کا حاملہ ہونا سے متعلق ہے۔ اگر ایک سادہ میڈیکل ٹیسٹ یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ خاتون حاملہ نہیں ہیں تو عدت کا وقت مہینہ سے اوپر رکھنا نہ صرف غیر شرعی ہے بلکہ اس خاتون کیساتھ بھی انتہا درجہ کی زیادتی ہے
ذرا اس بندے کا نام بتائیں۔ اس کی تو۔۔۔۔۔مسائل ہم نے خود بنائے ہوئے ہیں۔
یہ مدت اس زمانہ میں مقرر کی گئی جب حمل کا میڈیکل ٹیسٹ لینا ممکن نہیں تھا۔ آجکل کے جدید دور میں زیادہ سے زیادہ دو ہفتے بعد ہی یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ آیا خاتون حاملہ ہیں یا نہیں۔ اس جدت کی سہولت ہونے کے باوجود ۳ ماہ کی عدت پر قائم رہنا مرد و عورت دونوں کیلئے مسائل پیدا کرتا ہےبھائی میں بہت تنگ ہوں ان بحث و مباحثے سے۔۔ میں نا عالم نا مفتی۔۔ سو میرے پاس ایسا علم نہیں کہ لکیر کا فقیر ہونے کے باوجود بحث کروں۔۔ البتہ اتنا ضرور کہوں گی یہ مدت معین کرنا ہماری خود ساختہ مقرر کی ہوئی مدت نہیں بلکہ یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے۔ ایک شرعی حکم۔۔ باقی مینوں معاف رکھو