عین لام میم
محفلین
ملکِ عدم سے آنے والے جہاز میں سفر کرنا ہمارے لئے زندگی کے بعد کا سب سے اچھا سفر رہا۔ اپنی زندگی میں تو ہم نے بحری جہاز کے پانی پر تیرنے کے بارے میں سوچا تھا تو غش کھا گئے تھے کجا کہ اس دیوہیکل ہوائی جہاز میں اڑنا! خیر جیسے تیسے کر کے ٘منزل تک جانے والے جہاز میں سوار ہوئے۔ داخل ہوئے ہی تھے کہ ایک بھلی سی خوش پوش خاتون نے ہمیں ایک سو پینتالیس نمبر کی نشست پہ بٹھا دیا۔ نشست کیا تھی میاں، ہمیں تو دہلیٔ مرحوم کا تخت یاد آ گیا۔ پھر وہی خاتون ہمارے لئے رنگ رنگ کے مشروب اور اشیائے خورد لے آئیں (لگتا تھا کہ جہاز ان کے مجازی خدا کا ہے جو اتنی خاطر مدارات کر رہی ہیں!)، بعد میں معلوم ہوا کہ یہ اس جہاز کی خادمہ ہیں جنہیں ‘فضائی میزبان’ کہا جاتا ہے۔ نشست کو دیکھ کر ہم سوچ رہے تھے کہ جب رعایا کے لئے ایسی نشست ہے تو باشاہ کا کیا عالم ہو گا۔ ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ ہمارے ضمیر سے بآوازِ بلند ایک ‘ زنانہ’ آواز آئی “پی آئیے! میں خوش آمدید”
ہائیں! یہ ہمارے ضمیر کی آواز اور صرف و نحو دونوں خراب ہو گئیں!! پی آئیے ۔ ۔ میں۔ ۔ خوش آمدید۔ ۔ ارے میاں! الفاظ تو اردوئے معلیٰ کے ہی ہیں مگر متن کچھ واضع نہیں ہو رہا۔ ۔ ۔
ہمارے ساتھ والی نشست پر بیٹھے صاحب نے ہماری حیران و پریشان صورت دیکھی اور کچھ پہچاننے والے انداز میں بولے “ارے! آپ توو وہ ڈرامے والے مرزا غالب کی طرح لگ رہے ہیں!”
“میاں! لگ رہے ہیں کیا مطلب؟ ہم مرزا اسد اللہ خاں غالب ہی ہیں۔” اب کے حیران ہونے کی باری ان کی تھی۔ پھر جب ہم نے سفر کے دوران انہیں تفصیلاً بتایا کہ ہم عدم آباد سے خصوصی دعوت پر اسلامی جمہوریہ پاکستان جا رہے ہیں تو وہ ہمیں سمجھاتے ہوئے بولے کہ یہ آواز لاؤڈ اسپیکر یعنی ‘ آلۂ مکبر الصوت’ سے آرہی ہے اور ہوائی میزبان کی ہے۔ہم نے ااس جملے کا مطلب دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ پی آئیے نہیں پلکہ ‘پی۔آئی۔اے’ ہے، انگریزی زبان میں پاکستانی ہوئی کمپنی کا نام۔
خیر صاحبو! ہوئی کمپنی بہادر کا نام ‘پی۔آئی۔اے’ نہیں بلکہ ‘کھا پی کے آئیے’ ہونا چاہئے تھا کیونکہ وہاں کا کھانا تو ہمارے حلق سے نیچے نہیں اترا، نہ دہلی کے کلچے، نہ لاہوری چرغہ، اور نہ ہی بمبئی بریانی، کچھ بھی نہ ملا!
ہوائی جہاز میں ہم نے صدیوں کا سفر گھنٹوں میں طے کر لیا جبکہ ہوائی اڈے سے باہر نکلنے کا چند قدم کا فاصلہ ہم نے کوئی آدھے پہر میں طے کیا ہو گا۔ ہمارا ٹرنک، پان دان حتیٰ کہ اگالدان تک کھنگال کے رکھ دیا ان نیلی وردی والے سپاہیؤں نے! ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہوائی اڈے پر ہمارے استقبال کے لئے کوئی نہ کوئی نمائندہ موجود ہو گا۔ باہر نکلے تو یوں لگ رہا تھا کہ جیسے سارا پاکستان ہی آج واپس آ رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ اتنا رش کہ الامان الحفیظ! نطر دوڑائی تو ایک شخص ہمارے نام کی تختی اٹھائے کھڑا نظر آیا۔ جلّی حروف اور خالص نستعلیق خط میں اپنا نام لکھا دیکھ کر سفر کی تکان دور ہو گئی۔
نوٹ: اگر یہ تحریر آپ کو پسند آئی ہے تو تبصرہ ضرور کریں تا کہ میں اس مضمون کو آگے بڑھا سکوں۔ اور اگر پسند نہیں آئی تو بھی تبصرہ ضرور کریں ورنہ میں مزید لکھنے سے ہرگز باز نہ آؤں گا!
ہائیں! یہ ہمارے ضمیر کی آواز اور صرف و نحو دونوں خراب ہو گئیں!! پی آئیے ۔ ۔ میں۔ ۔ خوش آمدید۔ ۔ ارے میاں! الفاظ تو اردوئے معلیٰ کے ہی ہیں مگر متن کچھ واضع نہیں ہو رہا۔ ۔ ۔
ہمارے ساتھ والی نشست پر بیٹھے صاحب نے ہماری حیران و پریشان صورت دیکھی اور کچھ پہچاننے والے انداز میں بولے “ارے! آپ توو وہ ڈرامے والے مرزا غالب کی طرح لگ رہے ہیں!”
“میاں! لگ رہے ہیں کیا مطلب؟ ہم مرزا اسد اللہ خاں غالب ہی ہیں۔” اب کے حیران ہونے کی باری ان کی تھی۔ پھر جب ہم نے سفر کے دوران انہیں تفصیلاً بتایا کہ ہم عدم آباد سے خصوصی دعوت پر اسلامی جمہوریہ پاکستان جا رہے ہیں تو وہ ہمیں سمجھاتے ہوئے بولے کہ یہ آواز لاؤڈ اسپیکر یعنی ‘ آلۂ مکبر الصوت’ سے آرہی ہے اور ہوائی میزبان کی ہے۔ہم نے ااس جملے کا مطلب دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ پی آئیے نہیں پلکہ ‘پی۔آئی۔اے’ ہے، انگریزی زبان میں پاکستانی ہوئی کمپنی کا نام۔
خیر صاحبو! ہوئی کمپنی بہادر کا نام ‘پی۔آئی۔اے’ نہیں بلکہ ‘کھا پی کے آئیے’ ہونا چاہئے تھا کیونکہ وہاں کا کھانا تو ہمارے حلق سے نیچے نہیں اترا، نہ دہلی کے کلچے، نہ لاہوری چرغہ، اور نہ ہی بمبئی بریانی، کچھ بھی نہ ملا!
ہوائی جہاز میں ہم نے صدیوں کا سفر گھنٹوں میں طے کر لیا جبکہ ہوائی اڈے سے باہر نکلنے کا چند قدم کا فاصلہ ہم نے کوئی آدھے پہر میں طے کیا ہو گا۔ ہمارا ٹرنک، پان دان حتیٰ کہ اگالدان تک کھنگال کے رکھ دیا ان نیلی وردی والے سپاہیؤں نے! ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہوائی اڈے پر ہمارے استقبال کے لئے کوئی نہ کوئی نمائندہ موجود ہو گا۔ باہر نکلے تو یوں لگ رہا تھا کہ جیسے سارا پاکستان ہی آج واپس آ رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ اتنا رش کہ الامان الحفیظ! نطر دوڑائی تو ایک شخص ہمارے نام کی تختی اٹھائے کھڑا نظر آیا۔ جلّی حروف اور خالص نستعلیق خط میں اپنا نام لکھا دیکھ کر سفر کی تکان دور ہو گئی۔
نوٹ: اگر یہ تحریر آپ کو پسند آئی ہے تو تبصرہ ضرور کریں تا کہ میں اس مضمون کو آگے بڑھا سکوں۔ اور اگر پسند نہیں آئی تو بھی تبصرہ ضرور کریں ورنہ میں مزید لکھنے سے ہرگز باز نہ آؤں گا!