عین لام میم
محفلین
(گزشتہ سے پیوستہ)
ہمارا میزبان ایک نوجوان شخص تھا، انگریزی طرز کے جدید تراش خراش کے کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ داڑھی مونچھ سے بے نیاز چہرہ بہرحال دیسی تھا۔ علیک سلیک ہوئی، خاصی گرم جوشی کا مظاہرہ کیا گیا ۔
” ویلکم مرزا صاحب! سفر کیسا رہا آپکا؟ کوئی پرابلم تو نہیں ہوئی؟ آپکو زیادہ ویٹ تو نہیں کرنا پڑا۔”
ہم خاموش رہے کہ بات کی سمجھ نہیں آئی ٹھیک سے۔
“ایکچوئلی آجکل سیکیورٹی کی وجہ سے زیادہ چیکنگ ہو رہی ہے۔” وہ بولتے رہے۔
“ہائیں! کس کی وجہ سے کون ہو رہی ہے۔ ۔ ۔ !”
“لگتا ہے میں ایکسائٹمنٹ میں زیادہ بول رہا ہوں۔”
” نہیں میاں! بول تو زیادہ نہیں رہے، پر بول کیا رہے ہو یہ سمجھ نہیں آرہا ہمیں!”
“اوہ! آئی ایم سوری۔ ۔ ۔لیکن کیوں؟”
“میاں ! ذرا صاف اور صرف اردو بولو تا کہ مجھ غریب کے بھی کچھ پلّے پڑے۔ہم زبانِ غیر سے قطعی ناا ٓشنا ہیں۔”
” میں معذرت خواہ ہوں مرزا صاحب! دراصل یہاں ایسے بولنا اردو ہی کہلاتا ہے۔ لیکن میں آیندہ خیا ل رکھوں گا کہ انگریزی الفاظ نہ استعمال کروں۔”
خیر صاحبو! آگے بڑھتے ہیں کہ ابھی تو آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ اپنے رہنما کے ساتھ ہم ایک لمبی سی موٹر میں بیٹھ کر قیام گاہ کی طرف روانہ ہوئے۔ باہر کی دنیا بھی اردو زبان کی طرح رنگ برنگی نظر آئی۔ نہ کوئی دیسی نظر آ رہا تھا نہ ہی ولایتی، بس سب کچھ ‘آدھا تیتر آدھا بٹیر ‘ لگ رہا تھا!
ہمارے راہنما کا نام تو تھا سردار محمد جبران نواز خان لیکن بقول اسکے سب اسے پیار سے “جِبز” کہتے ہیں!”میاں ! ہم تمہیں جِبز تو نہیں خیر صرف جبران کہہ لیتے ہیں۔” جبران میاں نے بتایا کہ ہمارے رہنے کا انتظام و انصرام ایک تعلیمی ادارے کی جانب سے کیا گیا ہے۔ ادارے کا نام انگریزی میں تھا جو کہ ضعفِ پیری کے باعث ہم بھول گئے ہیں، ہاں! ایک اصطلاح ہمیں یاد ہے جو اس ادارے کے نام میں تھی ” انفارمیشن ٹیکنالوجی” اور اس اصطلاح کا اردو مترادف جبران میاں کو معلوم نہ تھا بلکہ شاید تھا ہی نہیں! خیر اس نے ہمیں اتنا بتا دیا کہ یہ آجکل کی خاصی اہم اصطلاح ہے اور یہ معلوماتِ عامہ کے جدید نظام کی عام لوگوں تک رسائی اور اس کے عام زندگی میں عمل دخل کے متعلق جو تکنیکی عوامل کار فرما ہیں، ان کے بارے میں یہ اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ یہ تشریح ہم نے خود اپنے آپ کو سمجھانے کے واسطے وضع کی ہے وگرنہ جبران میاں کی وضاحت تو خاصی غیرواضح تھی!
موٹر ایک بلند و بالا عمارت کے سامنے جا رکی جس کی پیشانی پہ لکھا تھا ” ہوٹل موتی محل”، عمارت کے اندر داخل ہوئے تو واقعی کسی محل کا گمان ہونے لگا۔ ماحول خاصا امیرانہ اور خوابناک سا تھا۔ استقبالیہ، جسے اردو میں ‘ ریسپشن’ لکھا جاتا ہے، پر ایک خاتون نے بڑے رکھ رکھاؤ سے ‘پاکستانی اردو ‘ میں بات کی ۔ پہلے سےہماری لئے محفوظ شدہ کمرے کی چابی میزبان کی طرف بڑھاتے ہوئے خاتون خوشدلی سے مسکرائیں اور گویا ہوئیں ” ویلکم ٹو موتی محل”۔ ۔ ۔ اتنی اردو ہم اب تک تو جان ہی گئے تھے۔
کمرے کی طرف جاتے ہوئے ہم نے جبران میاں سے پوچھا کہ بھائی! یہ جگہ جگہ ” رُوم” کیوں لکھا نظر آ رہا ہے؟ کیا ملکِ روم سے کوئی نسبت ہے یا کچھ اور۔ ۔ ۔ ویٹنگ روم، باتھ روم، اور تو اور یہ نماز رُوم۔ ۔ ۔کیا معنی!
بولے مرزا صاحب روم مطلب کمرہ ، انگریزی میں کمرے کو کہتے ہیں، ہم نے کہا میاں! انگریزی میں توہر تختی پہ ساتھ لکھا ہوتا ہے پھر یہ اردو ترجمے میں بھی دُم چھلہ ساتھ لگانے کی کیا تُک ہے! ظاہر ہے اس کا جواب اُس بیچارے کے پاس نہیں تھا۔ اور ہوتا بھی کیسے، پاکستان میں اپنے قیام کے دوران جس چیز کا ہمیں سب سے زیادہ رنج رہا وہ یہی تھی کہ جہاں جاؤ آپ کو فرنگی زبان میں سلام دعا، خیر سگالی کے جملے سننے کو ملیں گے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ زبانیں سیکھنا غلط ہے یا کوئی زبان کسی دوسری سے اچھی یا بُری ہے لیکن یہ ضرور کہتے ہیں کہ اپنی زبان اپنے ملک میں نہ بولی اور لکھی جائے گی تو اور کہاں ہو گی!
یوں تو آپ جس بھی گلی محلے یا سڑک سے گزریں آپ کو اردو میں جگہ جگہ لکھا نظر آئے گا:
“یہاں پیشاب کرنا منع ہے”
کوڑے کو آگ لگانا جُرم ہے”
“بیمثال شادی کورس” ۔۔۔” جرمن طبی دواخانہ”
” عامل ناگی کالیا بنگالی بابا”۔ ۔ ۔ اور نجانے کیا کیا!!
سنیاسی بابوں کے ساتھ ساتھ سیاسی بابوں کے بھی اشتہارات دیواروں کی زینت بنے ہوتے ہیں لیکن جہاں کوئی کام کی بات لکھی ہو گی تو زبانِ غیر سے استفادہ کیا گیا ہوگا۔ ۔ ۔!
یہ تحریر اور اس مضمون کی پہلی قسط آپ میرے بلاگ پر بھی پڑھ سکتے ہیں اور اپنی آراء بھی ارسال کر سکتے ہیں۔
ہمارا میزبان ایک نوجوان شخص تھا، انگریزی طرز کے جدید تراش خراش کے کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ داڑھی مونچھ سے بے نیاز چہرہ بہرحال دیسی تھا۔ علیک سلیک ہوئی، خاصی گرم جوشی کا مظاہرہ کیا گیا ۔
” ویلکم مرزا صاحب! سفر کیسا رہا آپکا؟ کوئی پرابلم تو نہیں ہوئی؟ آپکو زیادہ ویٹ تو نہیں کرنا پڑا۔”
ہم خاموش رہے کہ بات کی سمجھ نہیں آئی ٹھیک سے۔
“ایکچوئلی آجکل سیکیورٹی کی وجہ سے زیادہ چیکنگ ہو رہی ہے۔” وہ بولتے رہے۔
“ہائیں! کس کی وجہ سے کون ہو رہی ہے۔ ۔ ۔ !”
“لگتا ہے میں ایکسائٹمنٹ میں زیادہ بول رہا ہوں۔”
” نہیں میاں! بول تو زیادہ نہیں رہے، پر بول کیا رہے ہو یہ سمجھ نہیں آرہا ہمیں!”
“اوہ! آئی ایم سوری۔ ۔ ۔لیکن کیوں؟”
“میاں ! ذرا صاف اور صرف اردو بولو تا کہ مجھ غریب کے بھی کچھ پلّے پڑے۔ہم زبانِ غیر سے قطعی ناا ٓشنا ہیں۔”
” میں معذرت خواہ ہوں مرزا صاحب! دراصل یہاں ایسے بولنا اردو ہی کہلاتا ہے۔ لیکن میں آیندہ خیا ل رکھوں گا کہ انگریزی الفاظ نہ استعمال کروں۔”
خیر صاحبو! آگے بڑھتے ہیں کہ ابھی تو آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ اپنے رہنما کے ساتھ ہم ایک لمبی سی موٹر میں بیٹھ کر قیام گاہ کی طرف روانہ ہوئے۔ باہر کی دنیا بھی اردو زبان کی طرح رنگ برنگی نظر آئی۔ نہ کوئی دیسی نظر آ رہا تھا نہ ہی ولایتی، بس سب کچھ ‘آدھا تیتر آدھا بٹیر ‘ لگ رہا تھا!
ہمارے راہنما کا نام تو تھا سردار محمد جبران نواز خان لیکن بقول اسکے سب اسے پیار سے “جِبز” کہتے ہیں!”میاں ! ہم تمہیں جِبز تو نہیں خیر صرف جبران کہہ لیتے ہیں۔” جبران میاں نے بتایا کہ ہمارے رہنے کا انتظام و انصرام ایک تعلیمی ادارے کی جانب سے کیا گیا ہے۔ ادارے کا نام انگریزی میں تھا جو کہ ضعفِ پیری کے باعث ہم بھول گئے ہیں، ہاں! ایک اصطلاح ہمیں یاد ہے جو اس ادارے کے نام میں تھی ” انفارمیشن ٹیکنالوجی” اور اس اصطلاح کا اردو مترادف جبران میاں کو معلوم نہ تھا بلکہ شاید تھا ہی نہیں! خیر اس نے ہمیں اتنا بتا دیا کہ یہ آجکل کی خاصی اہم اصطلاح ہے اور یہ معلوماتِ عامہ کے جدید نظام کی عام لوگوں تک رسائی اور اس کے عام زندگی میں عمل دخل کے متعلق جو تکنیکی عوامل کار فرما ہیں، ان کے بارے میں یہ اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ یہ تشریح ہم نے خود اپنے آپ کو سمجھانے کے واسطے وضع کی ہے وگرنہ جبران میاں کی وضاحت تو خاصی غیرواضح تھی!
موٹر ایک بلند و بالا عمارت کے سامنے جا رکی جس کی پیشانی پہ لکھا تھا ” ہوٹل موتی محل”، عمارت کے اندر داخل ہوئے تو واقعی کسی محل کا گمان ہونے لگا۔ ماحول خاصا امیرانہ اور خوابناک سا تھا۔ استقبالیہ، جسے اردو میں ‘ ریسپشن’ لکھا جاتا ہے، پر ایک خاتون نے بڑے رکھ رکھاؤ سے ‘پاکستانی اردو ‘ میں بات کی ۔ پہلے سےہماری لئے محفوظ شدہ کمرے کی چابی میزبان کی طرف بڑھاتے ہوئے خاتون خوشدلی سے مسکرائیں اور گویا ہوئیں ” ویلکم ٹو موتی محل”۔ ۔ ۔ اتنی اردو ہم اب تک تو جان ہی گئے تھے۔
کمرے کی طرف جاتے ہوئے ہم نے جبران میاں سے پوچھا کہ بھائی! یہ جگہ جگہ ” رُوم” کیوں لکھا نظر آ رہا ہے؟ کیا ملکِ روم سے کوئی نسبت ہے یا کچھ اور۔ ۔ ۔ ویٹنگ روم، باتھ روم، اور تو اور یہ نماز رُوم۔ ۔ ۔کیا معنی!
بولے مرزا صاحب روم مطلب کمرہ ، انگریزی میں کمرے کو کہتے ہیں، ہم نے کہا میاں! انگریزی میں توہر تختی پہ ساتھ لکھا ہوتا ہے پھر یہ اردو ترجمے میں بھی دُم چھلہ ساتھ لگانے کی کیا تُک ہے! ظاہر ہے اس کا جواب اُس بیچارے کے پاس نہیں تھا۔ اور ہوتا بھی کیسے، پاکستان میں اپنے قیام کے دوران جس چیز کا ہمیں سب سے زیادہ رنج رہا وہ یہی تھی کہ جہاں جاؤ آپ کو فرنگی زبان میں سلام دعا، خیر سگالی کے جملے سننے کو ملیں گے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ زبانیں سیکھنا غلط ہے یا کوئی زبان کسی دوسری سے اچھی یا بُری ہے لیکن یہ ضرور کہتے ہیں کہ اپنی زبان اپنے ملک میں نہ بولی اور لکھی جائے گی تو اور کہاں ہو گی!
یوں تو آپ جس بھی گلی محلے یا سڑک سے گزریں آپ کو اردو میں جگہ جگہ لکھا نظر آئے گا:
“یہاں پیشاب کرنا منع ہے”
کوڑے کو آگ لگانا جُرم ہے”
“بیمثال شادی کورس” ۔۔۔” جرمن طبی دواخانہ”
” عامل ناگی کالیا بنگالی بابا”۔ ۔ ۔ اور نجانے کیا کیا!!
سنیاسی بابوں کے ساتھ ساتھ سیاسی بابوں کے بھی اشتہارات دیواروں کی زینت بنے ہوتے ہیں لیکن جہاں کوئی کام کی بات لکھی ہو گی تو زبانِ غیر سے استفادہ کیا گیا ہوگا۔ ۔ ۔!
یہ تحریر اور اس مضمون کی پہلی قسط آپ میرے بلاگ پر بھی پڑھ سکتے ہیں اور اپنی آراء بھی ارسال کر سکتے ہیں۔