با ادب
محفلین
عدم توازن
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی ........
ہمارے واسطے تو یہ کہنا بھی ممنوع ہے کہ جیسے حالات اب ہیں ویسے پہلے تو نہ تھے .....دنیا ادھر کی ادھر اور ادھر کی ادھر ہو جائے ہمارے حالات پہ چنداں فرق نہ پڑتا ہے نہ پڑے گا ۔
ہماری زندگی حادثات سے عبارت ہے آئے روز ایکسیڈنٹس کی عادت بد میں مبتلا ہیں ۔ عوام الناس کی پختہ رائے ہے ہو نہ ہو ان ایکسیڈنٹس کے پیچھے کوئی راز ضرور ہے اور اکثر تو اسے ہماری کم عقلی و بے وقوفی سے ہی جوڑتے ہیں کہ محترمہ کے پاس چونکہ عقل کی شدت سے کمی ہے تب ہی سڑک پہ لوٹنیاں کھا کے زندہ سلامت بچ جاتی ہیں ۔ ہاتھ ناک آنکھ منہ سر پیر کا کیا ہے ٹوٹنے کی چیزیں ہیں ٹوٹتی رہتی ہیں ٹوٹ گئیں تو نئی آجائیں گی ۔ بھلا بازار میں کیا نہیں ملتا؟ ؟ بس ایک روح نہیں پھونکی جا سکتی بندے میں ورنہ آئے دن روح نکالتے ڈبے میں بند کرتے جب جی چاہتا واپس جسم میں ...کچھ علم اللہ کے پاس ہی اچھے ہیں ورنہ اسکے بندے دق کرنے میں کوئی کثر اٹھا کے نہ رکھتے ۔
صاحبو! زندگی میں جب ایکسیڈنٹس کی تعداد بڑھ گئی تو سب کی گھورتی آنکھوں اور پھنکارتی زبانوں کی لاج رکھ کے ہم نے موٹر سائیکل کو خیرباد کہا اور اپنی ذاتی ٹانگوں پہ چلنے کو ترجیح دی ۔
لیکن اگر موت کو اور آفات کو عقل سے ٹالا جا سکتا تو دنیا کے تمام عقلمند آج زندہ اور خوش باش ہوتے۔
ہمارا تو وہ حساب نکلا
جن پہ تکیہ تھا وہی ٹانگیں دغا دینے لگیں ۔
آرام و سکون سے ہموار میدان پہ کھڑے تھے بے دھیانی میں پاؤں فقط ایک سیڑھی کے اسٹیپ پہ جا پڑا توازن نے ساتھ چھوڑا اور کتابیں گواہ ہیں کہ توازن یعنی ایکولیبریم بقائے عام و دوام کے لیے کس قدر ضروری ہے ...جہاں توازن کا دامن ہاتھ سے چھوٹا وہاں قسمت کا لکھا پھوٹا ۔
اور قسمت کے لکھے کو ہم موٹر سائیکل سے کنارہ کشی اختیار کر کے بھی ٹال نہیں سکے ۔
توازن کے بگڑتے ہی پاؤں مڑا اور ٹخنے کا کڑاکا نکل گیا ۔ روتے پیٹتے صاحب کو فون ملایا ہمارا ٹخنہ داغ مفارقت دے گیا ہے۔ انتہائی خوشی سے پھولے نہ سمائے ۔
ارے سبحان اللہ میں کب سے انتظار میں تھا کہ میں تو کب کا ٹخنہ تڑوائے بیٹھا ہوں بیگم کی طرف سے اب تک خاموشی کیوں ....
یہ بھی ایک الم ناک کہانی ہے لوگوں کے ہاں جڑواں بہن بھائی پیدا ہوتے ہیں ایک کو تکلیف لاحق ہو تو سنا ہے دوسرے کو بھی ہو جاتی ہے ہماری قسمت میں جڑواں میاں لکھے گئے ۔ جو تکلیف درد انھیں جب کبھی لاحق ہوئی اس میں پیارے اللہ میاں نے ہمارا حصہ ضرور رکھا۔ پچھلے سال وہ ٹخنہ تڑوا بیٹھے تھے اور کافی مہینے انتظار میں رہے کہ دیکھیے ہم پہ کب افتاد پڑتی ہے ۔ افتاد چونکہ کچھ تاخیر سے آن پڑی تھی اسی لیے وہ انتظار سے تنگ آچکے تھے لیکن مطلوبہ خبر ملتے ہی انکی باچھیں کھل گئیں ۔ اگر فون پہ نہ ہوتے تو ایک آدھ دانت ہم انکا بھی شہید فرما دیتے کہ حصے دار تو پھر ایسا ہی سہی ایک دانت تو ہمارا بھی ٹوٹا ہوا ہے آپکا بھی جائے تب ہی ایکولیبریم قائم ہوگا ۔
وائے قسمت کچھ توازن ہمیشہ عدم توازن کا شکار رہتے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی سہی........
سمیرا امام
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی ........
ہمارے واسطے تو یہ کہنا بھی ممنوع ہے کہ جیسے حالات اب ہیں ویسے پہلے تو نہ تھے .....دنیا ادھر کی ادھر اور ادھر کی ادھر ہو جائے ہمارے حالات پہ چنداں فرق نہ پڑتا ہے نہ پڑے گا ۔
ہماری زندگی حادثات سے عبارت ہے آئے روز ایکسیڈنٹس کی عادت بد میں مبتلا ہیں ۔ عوام الناس کی پختہ رائے ہے ہو نہ ہو ان ایکسیڈنٹس کے پیچھے کوئی راز ضرور ہے اور اکثر تو اسے ہماری کم عقلی و بے وقوفی سے ہی جوڑتے ہیں کہ محترمہ کے پاس چونکہ عقل کی شدت سے کمی ہے تب ہی سڑک پہ لوٹنیاں کھا کے زندہ سلامت بچ جاتی ہیں ۔ ہاتھ ناک آنکھ منہ سر پیر کا کیا ہے ٹوٹنے کی چیزیں ہیں ٹوٹتی رہتی ہیں ٹوٹ گئیں تو نئی آجائیں گی ۔ بھلا بازار میں کیا نہیں ملتا؟ ؟ بس ایک روح نہیں پھونکی جا سکتی بندے میں ورنہ آئے دن روح نکالتے ڈبے میں بند کرتے جب جی چاہتا واپس جسم میں ...کچھ علم اللہ کے پاس ہی اچھے ہیں ورنہ اسکے بندے دق کرنے میں کوئی کثر اٹھا کے نہ رکھتے ۔
صاحبو! زندگی میں جب ایکسیڈنٹس کی تعداد بڑھ گئی تو سب کی گھورتی آنکھوں اور پھنکارتی زبانوں کی لاج رکھ کے ہم نے موٹر سائیکل کو خیرباد کہا اور اپنی ذاتی ٹانگوں پہ چلنے کو ترجیح دی ۔
لیکن اگر موت کو اور آفات کو عقل سے ٹالا جا سکتا تو دنیا کے تمام عقلمند آج زندہ اور خوش باش ہوتے۔
ہمارا تو وہ حساب نکلا
جن پہ تکیہ تھا وہی ٹانگیں دغا دینے لگیں ۔
آرام و سکون سے ہموار میدان پہ کھڑے تھے بے دھیانی میں پاؤں فقط ایک سیڑھی کے اسٹیپ پہ جا پڑا توازن نے ساتھ چھوڑا اور کتابیں گواہ ہیں کہ توازن یعنی ایکولیبریم بقائے عام و دوام کے لیے کس قدر ضروری ہے ...جہاں توازن کا دامن ہاتھ سے چھوٹا وہاں قسمت کا لکھا پھوٹا ۔
اور قسمت کے لکھے کو ہم موٹر سائیکل سے کنارہ کشی اختیار کر کے بھی ٹال نہیں سکے ۔
توازن کے بگڑتے ہی پاؤں مڑا اور ٹخنے کا کڑاکا نکل گیا ۔ روتے پیٹتے صاحب کو فون ملایا ہمارا ٹخنہ داغ مفارقت دے گیا ہے۔ انتہائی خوشی سے پھولے نہ سمائے ۔
ارے سبحان اللہ میں کب سے انتظار میں تھا کہ میں تو کب کا ٹخنہ تڑوائے بیٹھا ہوں بیگم کی طرف سے اب تک خاموشی کیوں ....
یہ بھی ایک الم ناک کہانی ہے لوگوں کے ہاں جڑواں بہن بھائی پیدا ہوتے ہیں ایک کو تکلیف لاحق ہو تو سنا ہے دوسرے کو بھی ہو جاتی ہے ہماری قسمت میں جڑواں میاں لکھے گئے ۔ جو تکلیف درد انھیں جب کبھی لاحق ہوئی اس میں پیارے اللہ میاں نے ہمارا حصہ ضرور رکھا۔ پچھلے سال وہ ٹخنہ تڑوا بیٹھے تھے اور کافی مہینے انتظار میں رہے کہ دیکھیے ہم پہ کب افتاد پڑتی ہے ۔ افتاد چونکہ کچھ تاخیر سے آن پڑی تھی اسی لیے وہ انتظار سے تنگ آچکے تھے لیکن مطلوبہ خبر ملتے ہی انکی باچھیں کھل گئیں ۔ اگر فون پہ نہ ہوتے تو ایک آدھ دانت ہم انکا بھی شہید فرما دیتے کہ حصے دار تو پھر ایسا ہی سہی ایک دانت تو ہمارا بھی ٹوٹا ہوا ہے آپکا بھی جائے تب ہی ایکولیبریم قائم ہوگا ۔
وائے قسمت کچھ توازن ہمیشہ عدم توازن کا شکار رہتے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی سہی........
سمیرا امام