عدم سے وجود میں آئی ہوئی کائنات

زہیر عبّاس

محفلین

تمام تعریفیں اس پروردگار کے لئے جو تمام جہانوں کا رب ہے اور درودو سلام ہو حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی مطہر آل و اولاد پر ۔

کائنات کا آغاز کیسے ہوا؟ اس میں ہم اور ہماری دنیا سمیت نظر آنے والا مادہ کہاں سے آیا اور کیسے بنا؟ غالباً اس سوال نے انسانیت کو کافی عرصے سے پریشان کیا ہوا ہے اور وہ مسلسل اس جستجو میں ہے کہ کسی طرح کائنات کے آغاز و ارتقاء کے مراحل کی اچھی طرح سے تفہیم حاصل کر لے۔ پھیلتی ہوئی کائنات کا تصور کچھ زیادہ عرصہ پرانا نہیں ہے ۔ پچھلی صدی کے تیسرے عشرے کے اختتام تک ایڈون ہبل نے اپنے مشاہدات سے ثابت کیا کہ صرف ملکی وے کہکشاں ہی کل کائنات نہیں ہے بلکہ یہ تو کھربوں کہکشاؤں میں سے صرف ایک کہکشاں ہے اور اس نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ یہ بھی ثابت کیا کہ کائنات پھیل رہی ہے۔

پھیلتی ہوئی کائنات کا اثر علم کائنات پر بہت عمیق پڑا ، اگر وقت کو پیچھے کی طرف چلانا شروع کیا جائے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب ہر چیز ایک ایسے نقطے میں سمائی ہوئی ہوگی جس کا حجم صفر اور کمیت لامتناہی ہوگی۔ بالفاظ دیگر کائنات کا آغاز عدم سے ہوا یا دوسرے الفاظ میں کائنات عدم سے وجود میں آئی۔

عدم سے وجود میں آنے والی کائنات کو موحد ین و ملحدین دونوں نے اپنے اپنے عقائد کو ثابت کرنے کے لئے استعمال کرنا شروع کیا۔ زیر نظر کتاب مشہور نظری طبیعیات دان اور ماہر تکوینیات لارنس ایم کراس کی" آ یونیورس فرام نتھنگ"، کا اردو ترجمہ ہے۔ لارنس ایک کٹر ملحد ہیں اور جیسا کہ انہوں نے اس کتاب کی تمہید باندھتے ہوئے لکھا کہ اس کتاب کا لکھنے کا اصل مقصد اس بات کو ثابت کرنا ہے کہ کائنات عدم سے وجود میں بغیر کسی خالق کی موجودگی سے آسکتی ہے ۔ بہرحال لارنس کے ملحدانہ عقائد سے قطع نظر اس کتاب میں بڑی خوبی سے کائنات کے عدم سے وجود میں آنے کی کہانی کوسائنسی نقطہ نظر سے بیان کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے ترجمے کو شائع کرنے کا مقصد ملحدانہ عقائد کی ترویج نہیں بلکہ اس کائنات کی ابتداء کے بارے میں تازہ ترین تحقیق و افکار کا اشتراک ہے۔


مترجم
زہیر عبّاس


تمہید​


خواب ہو یا ڈراؤنا خواب جاگنے کے بعد ہمیں اسی کی یاد کے ساتھ رہنا ہوتا ہے ، بعینہ جیسے ہمیں اپنے تجربے کے ساتھ زندہ رہنا ہوتا ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جس میں سائنس پوری طرح سے سرایت کر گئی ہے اور جو پوری اور حقیقی دونوں ہی ہے۔ ہم کسی کی حمایت کرکے اس کو کھیل میں نہیں بدل سکتے۔

جیکب برونوسکی


میں شروع میں ہی بغیر کسی لگی لپٹے بغیر یہ تسلیم کرتا ہوں کہ میں اس پر یقین نہیں رکھتا کہ تخلیق کے لئے کسی خالق کی ضرورت ہے جو دنیا کے تمام مذاہب کی بنیاد ہے۔ یخ موسم سرما کی صبح میں برف کے گالے سے لے کر موسم گرما کی پھوار کی طویل دوپہر کے بعد تھرتھراتی قوس و قزح تک ہر روز خوبصورت اور معجزاتی اجسام یکایک ظاہر ہوتے ہیں ۔ اس کے باوجود کوئی اور نہیں بلکہ جذباتی بنیاد پرست تجویز کرتے ہیں کہ اس طرح کا ہر جسم پیار اور عرق ریزی اور سب سے اہم کسی مقصد سے کسی خدائی حکمت کی تخلیق ہے۔ حقیقت میں کئی عام آدمی اور سائنس دان ہماری اس لیاقت پر مسرور ہوتے ہیں جس سے ہم بیان کر سکتے ہیں کہ کس طرح سے برف کا گالا اور قوس و قزح خود بخود خوبصورت قوانین طبیعیات کی بنیاد پر ظاہر ہو جاتی ہیں۔

بلاشبہ کوئی بھی پوچھ سکتا ہے اور کئی ایسا کرتے بھی ہیں، "قوانین طبیعیات کہاں سے آئے ؟"بلکہ زیادہ تو یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں، "یہ قوانین کس نے بنائے ہیں ؟"اگر کوئی اس پہلے استفسار کا جواب بھی دے سکتا ہو، تو سوال کرنے والا پھر بھی اکثر پوچھتا ہے، 'لیکن یہ آئے کہاں سے ؟"یا "اسے کس نے بنایا ہے ؟" وغیرہ وغیرہ۔

بالآخر کئی صاحب فکر لوگ بظاہر پہلی وجہ کی ضرورت کی طرف آئے جیسا کہ پلاٹو، اقیناس یا جدید رومی کیتھولک گرجا گھر اس کو ایسا سمجھتے ہیں لہٰذا وہ کسی خدائی ہستی کو فرض کرتے ہیں : ایک ایسا خالق جو موجود ہے اور یہاں ہمیشہ کوئی یا کوئی چیز ابدی اور جا بجا موجود ہو گا/ ہوگی۔

بہرحال پہلی وجہ کا اعلان اب بھی جواب طلب ہے، "خالق کو کس نے تخلیق کیا ہے ؟"بہرحال اس بحث میں کیا فرق ہے کہ کوئی ایک ازلی خالق کا وجود ہے یا کائنات بغیر کسی خالق کے ازل سے موجود ہے ؟

یہ دلائل ہمیشہ مجھے اس مشہور کہانی کی یاد دلاتے ہیں جس میں ایک ماہر کائنات کے ماخذ کے بارے میں لیکچر دے رہا تھا ( کبھی اس کو برٹرینڈ رسل اور کبھی ولیم جیمز کہا جاتا ہے )، جس کو ایک عورت نے للکارا تھا جس کو یقین تھا کہ دنیا کو ایک عظیم کچھوے نے تھاما ہوا ہے، اور اس کچھوے کو ایک اور دوسرے کچھوے نے، اور اس کو۔ ۔ ۔ ایک اور کچھوے نے " اور یوں یہ سلسلہ نیچے تک چلا جاتا ہے !" کسی تخلیقی قوت کی ایک لامحدود مراجعت جس نے اپنے آپ کو خود جنا تھا یہاں تک کہ کچھ تخیلاتی قوت جو ان کچھووں سے بھی عظیم ہے، اور اس کے تو قریب بھی نہیں پھٹکتی جس نے کائنات کی تخلیق کی ہے۔ اس بات سے قطع نظر اس لامحدود رجعت کے استعارہ حقیقت میں اصل عمل کے قریب تر ہو سکتا ہے جس کے ذریعہ کائنات وجود میں آئی بجائے کوئی اس کو کسی واحد خالق سے بیان کرے۔

سوال سے دور جاتے ہوئے خدا کے ساتھ مقابلہ روک کر یہ دلیل دیتے ہوئے شاید لگ سکتا ہے کہ لامتناہی رجعت سے بچا جا سکتا ہے تاہم یہاں پر میں اپنے منتر کو پکارتا ہوں : کائنات ایسی ہے جیسی کہ ہونی چاہئے، چاہئے ہمیں اچھا لگے یا نہ لگے۔ خالق کا وجود یا عدم وجود ہماری خواہشات سے آزاد ہے۔ خدا کے بغیر دنیا یا مقصد سخت یا فضول لگ سکتا ہے تاہم یہ بذات خود خدا کے حقیقی وجود کے لئے کافی نہیں ہے۔

بعینہ اسی طرح ہمارا دماغ لامتناہی کو نہیں سمجھ سکتا (اگرچہ ریاضی، ہمارے دماغ کی پیداوار اس سے کافی اچھے طریقے سے نمٹ لیتی ہے )، تاہم یہ ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ لامحدود کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ہماری کائنات مکانی یا دنیاوی طور پر لامحدود ہو سکتی ہے۔ یا جیسا کہ رچرڈ فائن مین نے ایک مرتبہ کہا تھا، قوانین طبیعیات ایک لامحدود چھلکے والی پیاز کی طرح ہیں، جب بھی ہم نئے پیمانہ پر کھوج کرتے ہیں نئے قوانین لاگو ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ بس ہم کچھ نہیں جانتے ! دو ہزار برس سے سوال، "یہاں عدم کے بجائے وجود کیوں ہے ؟" معمے کو حل کرنے کے لئے ایک مبارزت کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے کہ ہماری کائنات جس میں وسیع ستارے، کہکشائیں، انسان اور کون جانتا ہے کہ اس میں اور کیا کچھ ہو سکتا ہے بغیر کسی صورت گری، نیت یا مقصد کے بنی ہے۔ اگرچہ عام طور پر اس کو بطور فلسفیانہ یا مذہبی سوال کے طور پر رکھا جاتا ہے، تاہم یہ پہلا اور نمایاں سوال جہاں کے بارے میں ہے، لہٰذا اس کو حل کرنے کی کوشش کے لئے پہلی اور اول جگہ سائنس ہی ہے۔

اس کتاب کا مقصد بہت سادہ ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ دکھاؤں کہ کس طرح سے جدید سائنس مختلف صورتوں میں اس جملے اور اس سوال کو مخاطب کر سکتی ہے کہ یہاں عدم کے بجائے وجود کیوں ہے: وہ جواب جو نہ صرف شاندار خوبصورت مشاہدات سے حاصل کیا گیا ہے بلکہ جدید طبیعیات کی بنیاد بنانے والے نظریات تمام کے تمام بتاتے ہیں کہ عدم سے وجود حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ حقیقت میں عدم سے وجود ہی کائنات کو بننے کے لئے درکار تھا۔

مزید براں تمام نشانات بتاتے ہیں کہ ایسے ہی ہماری کائنات بنی ہے۔

میں لفظ پر یہاں زور دے سکتا ہوں کیونکہ ہمارے پاس کبھی بھی اتنی تجربی اطلاعات نہیں تھیں کہ اس سوال کو صریح طور پر حل کر سکتے۔ تاہم یہ حقیقت کہ کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے نہ صرف معقول ہے بلکہ کم از کم میرے لئے بہت اہم ہے۔

آگے جانے سے پہلے، میں چند الفاظ "عدم" کے تصور کے بارے میں کہنا چاہتا ہوں - ایک ایسا موضوع جس پر میں بعد میں تفصیل سے بات کروں گا۔ میں نے یہ سیکھا ہے کہ جب اس سوال کو عوامی جگہوں پر زیر بحث کیا جائے تو ان فلسفیوں اور عالم دین کو کوئی چیز پریشان نہیں کرتی جو مجھ سے اس تصور سے کہیں زیادہ غیر متفق ہوتے ہیں کہ میں بطور سائنس دان ٹھیک طور سے "عدم" کو نہیں سمجھتا۔ ( میں یہاں یہ کہنے سے باز نہیں آتا کہ عالم دین عدم کے زیادہ ماہر ہیں۔)

وہ زور دیتے ہیں کہ "عدم" کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کو میں بیان کر رہا ہوں۔ عدم ایک طرح سے مبہم اور غیر واضح "عدم وجود" ہے۔ یہ مجھے اپنی وہ سعی یاد دلاتا ہے جو میں نے "ذہین صورت گری" کو بیان کرنے میں لگائی تھی جب میں نے تخلیقیوں سے بحث کرنا شروع کی تھی، جس سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ کوئی واضح تعریف نہیں ہے بجز اس کے کہ یہ کہا جائے کہ یہ کیا نہیں ہے۔ ذہین صورت گری سادہ طور پر ارتقاء کی مخالفت کرنے والوں کو ایک چھتری تلے متحد کر دیتی ہے۔

اسی طرح کچھ فلسفی اور کئی عالم دین "عدم" کی تعریف اور تعریف نو اس طرح نہیں کرتے جیسا کہ سائنس دان حالیہ طور پر اس کو بیان کرتے ہیں۔

تاہم میرے خیال میں اسی چیز میں زیادہ تر عالم دین اور کچھ جدید فلسفی فکری طور پر دیوالیہ ہیں۔ یقینی طور پر "عدم" ہر طرح سے طبیعی ہے جیسا کہ "وجود" بطور خاص اگر اس کو "کسی چیز کی غیر موجودگی" کے طور پر بیان کیا جائے۔ لہٰذا ہماری یہ غرض ہے کہ ان دونوں مقداروں کی طبیعی ماہیت کو ٹھیک طرح سے سمجھیں۔ بغیر سائنس کے کوئی بھی تعریف الفاظ سے زیادہ نہیں ہو گی۔

ایک صدی پہلے کوئی بھی "عدم" کو بطور خالص خالی جگہ کے بیان کرتا تھا، جس میں کوئی حقیقی مادّی ہستی نہیں ہوتی، اس پر بہت تھوڑی بحث ہو سکتی تھی۔ تاہم گزشتہ صدی کے نتائج نے ہمیں بتایا کہ خالی خلاء حقیقت میں اس پائیدار عدم سے کہیں دور ہے جس کو ہم نے یہ جانے بغیر پہلے سے ہی فرض کیا ہوا ہے کہ قدرت کس طرح کام کرتی ہے۔ اب مجھے مذہبی ناقدین بتاتے ہیں کہ میں خالی جگہ کو "عدم" سے بیان نہیں کر سکتا بلکہ اس کا حوالہ "کوانٹم خلاء" سے دیا جا سکتا ہے تاکہ اس کو فلسفی اور عالم دین کے قیاس کردہ "عدم" سے الگ بیان کیا جا سکے۔

تو چلیں ایسا ہی ٹھیک ہے۔ تاہم تب کیا ہو گا اگر ہم "عدم" کو مکان و زمان کی غیر موجودگی سے بیان کریں ؟ کیا یہ کافی ہے ؟ ایک بار پھر مجھے شبہ ہے کہ یہ۔ ۔ ۔ ۔ ایک مرتبہ کے لئے ہو گا۔ تاہم جیسا کہ میں بیان کروں گا مکان و زمان بذات خود طبیعی طور پر خود سے ظاہر ہو سکتے ہیں لہٰذا اب ہم جان گئے ہیں کہ یہ "عدم" اصل میں کوئی عدم نہیں ہے جس سے مسئلہ ہو۔ اور ہمیں بتایا گیا کہ "حقیقی" عدم سے فرار کے لئے خدا کی ضرورت ہوتی ہے، اس فرمان سے جس سے "عدم" کو بیان کیا جاتا ہے "کہ جس سے صرف خدا ہی کچھ تخلیق کر سکتا ہے۔ "

یہ بات کافی افراد نے اس وقت تجویز کی جس میں ان سے اس مسئلہ پر بات کر رہا تھا کہ اگر کوئی کچھ تخلیق کے لئے "مخفی" چیز ہے، یعنی کہ یہ اصل میں حقیقی عدم نہیں ہے۔ اور بے شک قوانین قدرت جنہوں نے ہمیں کچھ اس طرح کہ امکان دیئے کہ ہمیں حقیقی عدم وجود کے دور سے دور لے جائیں۔ تاہم جب میں دلیل دوں کہ شاید قوانین بذات خود خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں تو میں شاید اس صورتحال کو اس طرح سے پیش کروں گا جو کہ اچھی نہیں ہو گی کیونکہ جس نظام میں بھی قوانین بنیں گے وہ حقیقی عدم نہیں ہو گا۔

نیچے تک کچھوے ہیں ؟ میں ایسا نہیں سمجھتا۔ تاہم کچھوے اس لئے پسندیدہ ہوتے ہیں کیونکہ سائنس کھیل کا میدان اس طرح سے تبدیل کرتی ہے جس سے لوگ بے آرام ہو جاتے ہیں۔ بلاشبہ سائنس کا ایک مقصد یہی ہے (کوئی سقراط کے وقت میں اس کو "قدرتی فلسفہ" کہہ سکتا تھا)۔ بے آرامی کا مطلب یہ ہے کہ ہم نئی بصیرت کی دہلیز پر ہیں۔ بے شک "خدا" کو بلانے سے مشکل سوالات سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی کہ "کیسے " محض ذہنی طور پر سست ہے۔ الغرض اگر تخلیق کا کوئی امکان ہی نہیں ہے تب خدا نے کوئی بھی چیز نہیں تخلیق کی ہو گی۔ یہ صرف معنوی دھوکہ دہی ہو گی کہ زور دیا جائے کہ امکانی لامحدود رجعت کو اس لئے نظر انداز کیا ہے کیونکہ خدا قدرت سے ماورا ہے لہذا وجود کا "امکان" بذات خود اس عدم کا حصّہ نہیں ہے جس سے وجود قائم ہوا۔

یہاں میرا اصل مقصد اس بات کا مظاہرہ کرنا ہے کہ درحقیقت سائنس نے کھیل کے میدان کو تبدیل کر دیا ہے، لہٰذا عدم کی ماہیت سے متعلق یہ تجریدی اور بے ثمر مباحثے، عملیاتی کوششوں سے بدل دیئے گئے ہیں جو وضاحت کرتے ہیں کہ اصل میں ہماری کائنات کا آغاز کس طرح سے ہوا تھا۔ میں بہرحال ہمارے حال اور مستقبل پر پڑنے والے اس کے ممکنہ مضمرات کے بارے میں بھی بات کروں گا۔

یہ ایک بہت ہی اہم حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ جب بات ہماری کائنات کے ارتقاء کے فہم کی آتی ہے تو مذہب اور دین غیر متعلقہ ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ اکثر بغیر کسی اصطلاح کی تعریف جس کی بنیاد تجربی ثبوت پر رکھی ہوئی عدم پر سوالات کو مرکز بنا کر اس کو گنجلک کر دیتے ہیں۔

اگرچہ ہم ابھی تک مکمل طور پر اپنی کائنات کے ماخذ کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکے تاہم کوئی ایسی وجہ موجود نہیں ہے جو اس سلسلے کو بدلنے کی امید دے۔ مزید براں میں ایسا سمجھتا ہوں کہ بالآخر یہی بات ہماری فہم ان چیزوں کے لئے ہے جس پر مذہب اپنی اجارہ داری سمجھتا ہے جیسا کہ انسانی اخلاقیات۔

سائنس قدرت کی فہم کو مزید بہتر کرنے کے لئے کافی موثر ہے کیونکہ سائنسی مزاج تین اہم اصولوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں : (1) ثبوت جہاں بھی لے جاتے ہوں ان کی پیروی کرو؛ (2) اگر کسی کے پاس نظریہ ہے، تو کوئی ایسا ہونا چاہئے جو اس کو غلط ثابت کرنے کی اتنی ہی کوشش کرے جتنی کوئی اس کو صحیح ثابت کرنے کے لئے کرتا ہے ؛ (3) سچائی کا حتمی ثالث تجربہ ہے، وہ سکون نہیں جو کسی کے پہلے سے موجود یقین کی وجہ سے ملے نہ ہی اس وجہ سے جو کسی نظریاتی نمونے کی خوبصورتی یا نفاست کی وجہ سے منسوب ہو۔

تجربات کے نتائج جس کی میں وضاحت کروں گا نہ صرف بروقت ہیں بلکہ وہ غیر متوقع بھی ہیں۔ وہ گل گاری جو سائنس ہماری کائنات کے ارتقاء کی وضاحت کرتے ہوئے کرتی ہے اس سے کہیں زیادہ زرخیز اور کہیں زیادہ متحیر کر دینے والی ہے جتنی کہ کوئی الہامی تصویر یا کوئی انسانی گڑھی ہوئی فرضی کہانی ہو۔ قدرت ان چونکا دینے والی چیزوں کے ساتھ آتی ہے جو اس سے کہیں زیادہ آگے کی ہوتی ہیں جن کو انسانی دماغ پیدا کر سکتا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران کونیات، ذرّاتی نظریئے اور ثقل میں ہیجان انگیز پیش رفت مکمل طور پر ہمارے کائنات کو دیکھنے کی نظر کو تبدیل کر دیتی ہے جس میں چونکا دینے والی اور گہرے مضمرات اس کے ماخذ اور اس کے مستقبل کی ہماری سمجھ ہے۔ لہٰذا اگر آپ ذومعنویت کو بھول سکتے ہوں تو لکھنے کے لئے کوئی بھی دلچسپ بات نہیں ہے۔

اس کتاب لکھنے کا اصل محرک کہانیوں یا اعتقاد پر حملہ کرنے سے نہیں آیا بلکہ اس کا محرک علم کو پھیلانے کی میری خواہش اور اس کے ساتھ ہماری مطلق حیرت انگیز اور دلچسپ کائنات بنی ہے۔

ہماری تلاش ہمیں اپنی پھیلتی ہوئی کائنات کے بعید ترین حصّوں کی بھول بھلیوں میں بگ بینگ کے ابتدائی لمحات سے لے کر مستقل بعید تک لے جائے گی، اور اس میں گزشتہ صدی میں طبیعیات میں ہونے والی سب سے حیرت انگیز دریافت بھی شامل ہو سکتی ہے۔

حقیقت میں اس کتاب کو لکھنے کا فوری محرک کائنات کے بارے میں گہری دریافت جو گزشتہ تین دہائیوں میں میری اپنی سائنسی تحقیق ہے جس کا اختتام حیران کن نتائج پر ہوا یعنی کہ کائنات میں زیادہ تر توانائی کچھ پراسرار اب ناقابل توضیح صورت میں تمام خالی خلاء میں سرائیت کی ہوئی ہے۔ ایسا کہنا کم بیانی نہیں ہو گا کہ یہ دریافت جدید علم کائنات میں کھیل کے میدان کو تبدیل کر دے گی۔

اس دریافت نے اس تصور کی نئی حیرت انگیز حمایت کو پیدا کیا ہے کہ ہماری کائنات ٹھیک طور سے عدم سے ہی وجود میں آئی ہے۔ یہ ہمیں ترغیب دیتی ہے کہ دوبارہ ان عملیات کے قیاسات کے بارے میں سوچیں جو اس کے ارتقاء پر اثر ڈالتے ہیں اور حتمی طور پر اس سوال پر بھی کہ آیا قدرت کے قوانین واقعی میں بنیادی ہی ہیں یا نہیں۔ ان میں سے ہر ایک اپنے آپ میں اب اس سوال کو اٹھاتا ہے کہ آیا یہاں بجائے عدم کے وجود کیوں ہے، یہ اب کم متاثر کن لگتا ہے اگرچہ یہ مکمل طور پر اثر پذیر نہیں جیسا کہ میں وضاحت کرنے کی امید کرتا ہوں۔

اس کتاب کا براہ راست آغاز اکتوبر 1999ء سے ہوتا ہے جب میں نے ایک لیکچر لاس انجیلیس میں اسی عنوان کے ساتھ دیا تھا۔

مجھے کافی حیرت ہوئی کہ لیکچر کی یوٹیوب ویڈیو جس کو رچرڈ ڈاکنز فاؤنڈیشن نے دستیاب کروایا تھا ایک طرح سے سنسنی سی بن گئی تھی، اس کتاب کے لکھنے تک اس کو دس لاکھ مرتبہ دیکھا گیا ہے اور اس کے حصّوں کی کافی نقول ملحد و موحد دونوں ہی اپنے مباحثوں میں استعمال کر رہے ہیں۔

موضوع میں واضح دلچسپی کی اور ویب پر کچھ مہمل تبصروں اور میرے لیکچر کے بعد کافی میڈیا کی پیروی کی وجہ سے مجھے لگا کہ اس تصور کا مزید مکمل حوالگی کے ساتھ بیان کرنا بہتر ہو گا جو میں اس کتاب میں لکھوں گا۔ یہاں میں اس موقع کو اپنی دلیلوں کو دینے کے لئے استعمال کرتا ہوں جو اس وقت میں نے پیش کی تھی جو مکمل طور علم کائنات میں ہونے والے حالیہ انقلاب پر مرکوز ہے جس نے ہماری کائنات کی تصویر کو تبدیل کر دیا جو خلاء کی توانائی اور علم الا شکال کے ساتھ نسبت رکھتی ہے اور جس کو میں اس کتاب کے پہلے دو تہائی حصّے میں بیان کروں گا۔

درمیان کے عرصے میں کئی گزشتہ اور تصورات جنہوں نے میرے خیالات کو بنایا تھا ان کے بارے میں کافی سوچا؛ اور میں نے اس بارے میں دوسروں کے ساتھ بات چیت بھی کی جن کا رد عمل اس قسم کے جوش کے ساتھ تھا جو سرایت کر جانے والا تھا؛ اور میں نے ذرّاتی طبیعیات میں ہونے والی پیش رفت کے تاثر کو بطور خاص ہماری کائنات کے ماخذ اور اس کی ماہیت کے بارے میں مزید گہرائی میں دیکھا ۔ بالآخر میں نے اپنے کچھ دلائل ان لوگوں کے سامنے رکھے جو اس کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں اور اس طرح سے کرنے میں کچھ ایسی اندرونی بصیرت حاصل ہو گئی جس نے مجھے میری دلیلوں کو مزید بہتر کرنے کا موقع دیا۔

وہ خیالات جو میں بالآخر یہاں بیان کرنے کی کوشش کروں گا، ان کو بیان کرنے میں مجھے کچھ بہت ہی حکیم رفیق طبیعیات دانوں سے بات چیت کرنے کی وجہ سے فائدہ ہوا۔ بطور خاص میں ایلن گتھ اور فرینک ویلزک کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے بات چیت و خط و کتابت کے لئے اپنا قیمتی وقت نکالا اور میرے دماغ میں موجود کچھ پریشان کر دینے والے خیالات کو حل کیا اور کئی جگہوں پر میری اپنی تشریحات کو بہتر بنانے کے لئے مدد کی۔

فری پریس کے لیزلی میریڈتھ اور ڈومینک انفاسو، سائمن اینڈ سچسٹر کی دلچسپی کی وجہ سے اس موضوع پر کتاب کے امکان کی ہمت بندھی، اس کے بعد میں اے اپنے دوست کرسٹوفر ہٹچنس سے رابطہ کیا جو ایک سب سے زیادہ عالم اور لائق افراد میں سے ایک ہیں جن کو میں جانتا ہوں، جنہوں نے خود سے میرے لیکچر میں سے دلائل لے کر اپنے شاندار سائنس اور مذہب کے مباحثے میں استعمال کیا۔ کرسٹوفر نے اپنی خراب صحت کے باوجود مہربانی کے ساتھ سخاوت و بہادری سے مقدمہ لکھا۔ دوستی اور اعتماد کے اس برتاؤ کے لئے میں ان کو ہمیشہ شکر گزار رہوں گا۔ بدقسمتی سے کرسٹوفر کی بیماری نے بالآخر اس حد تک ان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا کہ مقدمہ مکمل کرنا باوجود ان کی زبردست کوششوں کے ناممکن ہو گیا۔ بہرحال خوش قسمتی سے میرے فصیح و لائق دوست، معروف سائنس دان اور مصنف رچرڈ ڈاکنز نے پہلے ہی پس نوشت لکھنے کے لئے حامی بھر لی تھی۔ جب میرا پہلا مسودہ مکمل ہو گیا تو انہوں نے کچھ مختصر پیرائے میں جس کی خوبصورتی اور صراحت ششدر کر دینے والی تھی اور ساتھ ساتھ عاجز بھی۔ میں تو اس کے دبدبے سے ڈر گیا۔ لہٰذا کرسٹوفر، رچرڈ اور درج بالا تمام لوگوں کے لئے میں ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی اور مجھے ایک مرتبہ دوبارہ کمپیوٹر پر جانے اور لکھنے کی ترغیب دینے کے لئے میں ان سب کا شکر گزار ہوں۔​
 

فاخر رضا

محفلین
اس گفتگو کو سمجھنے کے لئے جن علوم اور اصطلاحات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ان کا ذکر کہاں مل سکتا ہے. میں نے تو ابھی تک کائنات کے آغاز کا دینی ورژن ہی پڑھا ہے. رہنمائی فرمائیں.
 

زہیر عبّاس

محفلین
اس گفتگو کو سمجھنے کے لئے جن علوم اور اصطلاحات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ان کا ذکر کہاں مل سکتا ہے
ویسے تو یہ کتاب عوام الناس کے لئے ہی لکھی گئی ہے ۔ بہرحال اگر آپ نے سائنس پڑھی ہے اور علم طبیعیات کی تھوڑی سی شد بد ہے تب اور زیادہ بہتر طور پر سمجھ میں آسکتی ہے ۔

مزید علم فلکیات اور موضوع سے متعلق آپ اردو محفل کے زمرے "سائنس اور ہماری زندگی" میں موجود لڑیوں کو دیکھ سکتے ہیں ۔ کچھ کا حوالہ میں دے دیتا ہوں :


مزید معلومات اور تراجم کے لئے آپ میرے بلاگ "جہان سائنس " پر بھی وزٹ کرسکتے ہیں۔
 

فاخر رضا

محفلین
ویسے تو یہ کتاب عوام الناس کے لئے ہی لکھی گئی ہے ۔ بہرحال اگر آپ نے سائنس پڑھی ہے اور علم طبیعیات کی تھوڑی سی شد بد ہے تب اور زیادہ بہتر طور پر سمجھ میں آسکتی ہے ۔

مزید علم فلکیات اور موضوع سے متعلق آپ اردو محفل کے زمرے "سائنس اور ہماری زندگی" میں موجود لڑیوں کو دیکھ سکتے ہیں ۔ کچھ کا حوالہ میں دے دیتا ہوں :


مزید معلومات اور تراجم کے لئے آپ میرے بلاگ "جہان سائنس " پر بھی وزٹ کرسکتے ہیں۔
عین نوازش. بہت شکریہ
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب 1 -1

ایک پراسرار کائناتی کہانی: آغاز - حصّہ اوّل



کسی بھی سفر میں شریک ابتدائی اسرار یہ ہوتا ہے کہ کس طرح سے مسافر پہلی مرتبہ سفر کے آغاز کی جگہ پہنچا؟

- لوئیس بوگاں، میرے کمرے کے اطراف میں سفر

یہ ایک سیاہ اور طوفانی رات تھی۔

1916ء کی ابتداء میں البرٹ آئن سٹائن نے ابھی اپنی زندگی کا عظیم کام مکمل ہی کیا تھا، ایک دہائی طویل، زبردست ذہنی جد و جہد کر کے اس نئے ثقل کے نظریئے کو اخذ کیا تھا جس کو اس نے عمومی نظریہ اضافیت کا نام دیا تھا۔ تاہم یہ صرف کشش ثقل کا نیا نظریہ ہی نہیں تھا بلکہ یہ مکان و زمان کا نیا نظریہ بھی تھا۔ یہ وہ پہلا سائنسی نظریہ تھا جس نے محض یہ نہیں بتایا کہ کائنات میں کس طرح اجسام حرکت کرتے ہیں بلکہ یہ بھی بتایا کہ کس طرح سے کائنات بذات خود ارتقا پاتی ہے۔

بہرحال صرف ایک رکاوٹ تھی۔ جب آئن سٹائن نے اپنے نظریئے سے کائنات کی بحیثیت مجموعی وضاحت کرنی چاہی تو یہ بات صاف تھی کہ نظریہ اس کائنات پر لاگو نہیں ہوتا تھا جس میں ہم بظاہر رہتے ہیں۔

اب تقریباً سو برس بعد اس بات کا سمجھنا کافی مشکل ہے کہ کائنات کی تصویر ایک انسانی زندگی کے دوران کس حد تک تبدیل ہو گئی ہے۔ جہاں تک 1917ء میں سائنسی سماج کا تعلق تھا کائنات ساکن اور ابدی تھی اور صرف ہماری کہکشاں ملکی وے پر مشتمل تھی جس کے اطراف میں لامحدود تاریک اور خالی خلاء تھا۔ بہرحال یہی وہ چیز تھی جس کو آپ رات کے آسمان پر اپنی نگاہ اٹھا کر یا چھوٹی دوربین سے دیکھتے ہیں اور اس وقت اس پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔

آئن سٹائن کا نظریہ جیسا کہ اس سے پہلے نیوٹن کا کشش ثقل کا نظریئے تھا اسی کی طرح خالص اجسام کے درمیان کشش کی قوت کو بیان کرنا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خلاء میں واقع کمیتیں ہمیشہ کے لئے ساکن نہیں رہ سکتی۔ ان کی آپس کی ثقلی کشش بالآخر ان کو اندر کی طرف منہدم کر دے گی، جو بظاہر ساکن کائنات کے نظریئے کے ساتھ میل نہیں کھاتا۔

یہ حقیقت کہ عمومی اضافیت اس وقت کی کائنات کی تصویر کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی اس کے لئے ایک ایسا پریشان کن امر تھا جس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے، کچھ ایسی وجوہات ہیں جو مجھے آئن سٹائن اور عمومی اضافیت کے بارے میں کہانیوں کے بارے میں یک سو نہیں ہونے دیتیں اور یہ ہمیشہ مجھے پریشان کرتی ہیں۔ عام طور پر فرض کیا جاتا ہے کہ آئن سٹائن کئی برسوں تک بند کمرے میں الگ رہ کر خالص تصورات اور وجوہات کا استعمال کرتے ہوئے کام کرتا تھا اور پھر اس خوبصورت نظریئے کے ساتھ حقیقت سے آزاد ہو کر آیا (شاید جس طرح سے کچھ اسٹرنگ نظریاتی آج کل ہیں !)۔ تاہم اس طرح کی بات سچائی سے کوسوں دور ہے ۔

آئن سٹائن نے ہمیشہ گہرے تجربات و مشاہدات سے رہنمائی حاصل کی ہے۔ اگرچہ اس نے کئی "فکری تجربات" اپنے دماغ میں ادا کئے تھے اور عشروں تک سخت محنت کی اس دوران اس نے نئی ریاضی سیکھی اور آخر میں ایک ایسے نظریئے کو بنانے کے راستے پر کئی غلط نظریوں کے پیچھے بھی گیا جو حقیقت میں ریاضیاتی طور پر خوبصورت تھے۔ اکلوتا سب سے اہم لمحہ جو عمومی اضافیت کی محبت میں قائم ہوا تھا اس کو مشاہدے سے ثابت ہونا تھا۔ اپنے نظریئے کو مکمل کرنے کے آخری مصروف ترین ہفتے کے دوران جب جرمن ریاضی دان ڈیوڈ ہلبرٹ سے مقابلہ بھی چل رہا تھا، اس نے اپنی مساوات کا استعمال ایک غیر واضح فلکی طبیعیات کا حساب لگانے کے لئے کیا یعنی کہ سورج کے گرد عطارد کے "حیض شمسی" (قریب ترین مقام) کو تھوڑا سے درست کیا۔

بہت عرصے پہلے سے فلکیات دانوں نے غور کیا کہ کہ عطارد کا مدار نیوٹن کے قانون سے تھوڑا سا ہٹا ہوا ہے۔ بجائے مکمل بیضوی صورت کے جو خود پر واپس لوٹ آئے، عطارد کا مدار ناقابل تصور چھوٹی مقدار سے آگے بڑھتا ہے : 43 آرک سیکنڈز (لگ بھگ ایک درجہ کا 1/100) فی صدی (جس کا مطلب ہے کہ سیارہ ایک مدار پورا کرنے کے بعد اسی نقطہ پر نہیں آتا، تاہم مدار کی سمت ہر چکر کو پورا کرنے کے بعد تھوڑی سی تبدیل ہوتی ہے اور بالآخر مرغولہ نما نمونہ بناتی ہے )۔

جب آئن سٹائن نے عمومی نظریہ اضافیت کو استعمال کر کے اپنا حساب لگایا تو نتیجہ بالکل ٹھیک آیا۔ جیسا کہ آئن سٹائن کے سوانح نگار ابراہیم پیس نے بیان کیا: "میں سمجھتا ہوں کہ اس دریافت نے شاید آئن سٹائن کی تمام سائنسی زندگی میں سب سے زیادہ جذباتی اثر ڈالا"۔ اس نے دل کے خفقان کو ایسا محسوس ہونے کا دعویٰ کیا جیسے کہ "کسی نے اندر زبردست چٹکی کاٹی ہو"۔ ایک ماہ بعد جب وہ اپنا نظریہ ایک دوست کو بطور "منفرد خوبصورتی" کے بیان کر رہا تھا، اس کی ریاضیاتی خوشی کی صورت حقیقت میں عیاں تھی تاہم دل کے خفقان کا کوئی ذکر نہیں تھا۔

بہرحال ساکن کائنات کے امکان سے متعلق عمومی اضافیت اور مشاہدات کے درمیان ظاہری اختلاف لمبا عرصہ نہیں چلا۔ (اگرچہ اس نے ایسا کیا تھا کیونکہ آئن سٹائن نے اپنے نظریئے میں ایک تبدیلی کو متعارف کروایا تھا جس کو بعد میں اس نے اپنی عظیم غلطی کہا تھا۔ لیکن اس کے بارے میں مزید بعد میں گفتگو ہوگی۔ ) ہر کوئی (امریکہ میں کچھ اسکول بورڈز کے علاوہ) اب جانتا ہے کہ کائنات ساکن نہیں بلکہ پھیل رہی ہے اور اس پھیلاؤ کی شروعات ناقابل تصور گرم، کثیف بگ بینگ میں لگ بھگ 13 ارب 72 کروڑ برس پہلے ہوا۔ اتنی ہی اہم بات یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری کہکشاں شاید ان 4 کھرب کہکشاؤں میں سے ایک ہے جو قابل مشاہدہ کائنات میں موجود ہے۔ لگتا ہے کہ ہم ابتدائی ارضی نقشہ ساز ہیں جنہوں نے کائنات کے نقشے کو عظیم تر پیمانے پر بنانا شروع کیا ہے۔ زیادہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ حالیہ عشروں میں ہم نے اپنی کائنات کی تصویر میں انقلابی تبدیلیاں دیکھی ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب 1 - 2
ایک پراسرار کائناتی کہانی: آغاز - حصّہ دوم



اس دریافت نے کہ کائنات ساکن نہیں ہے بلکہ پھیل رہی ہے، فلسفیانہ اور مذہبی اہمیت پر کافی عمیق اثر ڈالا ہے کیونکہ یہ بتاتی ہے کہ ہماری کائنات کی ابتداء تھی۔ ابتداء سے تخلیق سمجھ میں آتی ہے اور تخلیق جذبات کو ابھارتی ہے۔ 1929ء میں بگ بینگ کے نظریئے پر ہماری پھیلتی ہوئی کائنات کی دریافت نے کئی عشرے خود مختار طور پر مشاہداتی ثبوت حاصل کرنے میں لگا دیئے، پاپ پائیس XII نے 1915ء میں اس کی خبر بطور پرانے عہد نامے کے ثبوت کے طور پر دے دی تھی۔ جیسا کہ انہوں نے لکھا:

ایسا لگتا ہے کہ موجود دور کی سائنس صدیوں کو ایک ہی وار میں قدیمی کن فیکون [روشن ہو جا]، کے واقعے کی شاہد ہونے میں کامیاب ہو گئی جب مادّے کے ساتھ عدم سے روشنی اور اشعاع کا پھٹاو ہوا تھا اور عناصر ٹوٹ کر بلوئے گئے اور انہوں نے کروڑوں کہکشائیں تشکیل دیں۔ اس ٹھوس پن کے ساتھ جو جسمانی ثبوت کی خاصیت لگتی ہے، [سائنس] نے کائنات کے ہنگامے کی تصدیق لہذا، تخلیق ہوئی تھی۔ ہم کہتے ہیں : "لہذا، ایک خالق موجود ہے۔ لہذا، خدا موجود ہے ! "

اصل کہانی تھوڑی سی زیادہ دلچسپ ہے۔ در حقیقت وہ پہلا شخص جس نے بگ بینگ کی تجویز پیش کی وہ بیلجین کا پادری اور طبیعیات دان جارج لیمیترے تھا۔ لیمیترے مہارتوں کی قابلیت کا ایک قابل ذکر مجموعہ تھا۔ اس نے اپنی تعلیم بطور انجنیئر کے شروع کی، جنگ عظیم اول میں توپچی بنا، اور اس کے بعد ریاضی کی طرف منتقل ہو گیا جبکہ رہبانیت کا مطالعہ 1920ء کے ابتدائی عشرے میں کیا۔ اس کے بعد اس کی توجہ علم کائنات پر ہو گئی، سب سے پہلے اس نے برطانوی مشہور فلکی طبیعیات دان سر آرتھر ایڈنگٹن کے ساتھ ہارورڈ پر منتقل ہونے سے پہلے تحقیق کی اور بالآخر ایم آئی ٹی سے طبیعیات میں دوسری ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔

1927 ء میں، اپنی دوسری ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کرنے سے پہلے، لیمیترے نے اصل میں آئن سٹائن کی عمومی اضافیت کو حل کر لیا تھا اور مظاہرہ کیا کہ نظریہ ایک غیر ساکن کائنات کے بارے میں پیش گوئی کرتا ہے اور اصل میں تجویز دیتا ہے کہ جس کائنات میں ہم رہ ہے ہیں وہ پھیل رہی ہے۔ تصور اتنا دھماکہ خیز تھا کہ آئن سٹائن نے بذات خود دلنشینی سے اس پر اس بیان کے ساتھ اعتراض کیا "تمہاری ریاضی درست ہے، تاہم تمہاری طبیعیات گھناؤنی ہے۔ "

بہرحال، لیمیترے کو اس کے بعد سے زور مل گیا اور 1930ء میں اس نے مزید تجویز کیا کہ ہماری پھیلتی ہوئی کائنات اصل میں ایک لامتناہی نقطے سے شروع ہوئی تھی، جس کو اس نے "قدیمی جوہر" کا نام دیا، اور یہ شروعات شاید تخلیق کا کنایہ تھا، "ایک دن بغیر گزرے کل کے ساتھ۔ "

اس طرح سے بگ بینگ جس کی پیش گوئی پوپ پیس نے کی اس کی تجویز پہلی مرتبہ ایک پادری نے کی تھی۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ لیمیترے پادری کی اس تصدیق سے بہت خوش ہو گا، تاہم اس نے پہلے ہی خود سے اپنے دماغ میں اس کو رد کر دیا اس تصور کے ساتھ کہ اس سائنسی نظریئے کے دینیاتی عواقب ہوں گے اور بالآخر اس نے ایک پیراگراف کو اپنے 1913ء کے بگ بینگ کے مقالے سے اس مسئلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے نکال کر دیا۔

حقیقت میں لیمیترے نے پوپ کے تخلیق کے ثبوت کے دعویٰ پر اپنا اعتراض بگ بینگ کے ذریعہ اٹھایا (کم از کم اس لئے نہیں کہ اس نے احساس کر لیا تھا کہ اگر اس کا نظریہ بعد میں غلط ثابت ہوا تب رومن کیتھولک تخلیق کے دعوے کی ہمسری کی جا سکے گی)۔ اس وقت تک، وہ ویٹی کن کی پونٹی فیکل اکیڈمی میں چن لیا گیا تھا اور بعد میں اس کا صدر بھی بن گیا تھا۔ جیسا کہ اس نے لکھا، " جہاں تک میں دیکھ سکتا ہوں، اس طرح کا نظریہ بالکل مابعد طبیعیات یا مذہبی سوال سے مکمل طور پر ماوراء رہے گا۔ "پوپ نے اس موضوع کو پھر کبھی عوام کے سامنے نہیں رکھا۔

یہاں ایک قابل قدر سبق ہے۔ جیسا کہ لیمیترے نے تسلیم کر لیا تھا کہ بگ بینگ چاہئے وقوع پذیر ہوا ہو یا نہ ہو یہ ایک مذہبی نہیں سائنسی سوال ہے۔ مزید براں اگر بگ بینگ وقوع پذیر ہوا تھا (جس کی تمام ثبوت اب غالب طور پر حمایت کرتے ہیں )، کوئی بھی مذہبی یا مابعد طبیعیاتی پیش گوئیوں پر انحصار کرتے ہوئے اس کی مختلف طرح سے تشریح کر سکتا ہے۔ آپ بگ بینگ کو خالق کے تجویز کرنے والے کے طور پر دیکھ سکتے ہیں اگر آپ ضرورت سمجھتے ہیں یا بحث کر سکتے ہیں کہ عمومی اضافیت کی ریاضی کائنات کے ارتقاء کو اس کی شروعات سے کسی بھی خدائی مداخلت کے بیان کرتی ہے۔ تاہم اس طرح کی مابعد طبیعیاتی پیش گوئی بگ بینگ کی بذات خود طبیعیاتی تصدیق سے خود مختارانہ طور پر ہو گی اور ہماری اس کی فہم غیر متعلق ہو گی۔ بلاشبہ طبیعیاتی اصولوں کو سمجھنے کے لئے جو اس کے ماخذ کو مخاطب کریں گے جب ہم صرف پھیلتی ہوئی کائنات کے وجود سے آگے جائیں گے، سائنس اس پیش گوئی پر مزید روشنی ڈال سکتی ہے جیسا کہ میں دلیل دوں گا کہ یہ ایسا ہی کرتی ہے۔ کسی بھی صورت میں نہ تو لیمیترے اور نہ ہی پوپ پئیس سائنسی دنیا کو قائل کر سکتے تھے کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ بلکہ جیسا کہ تمام اچھی سائنس میں ہوتا ہے، ثبوت احتیاط سے کئے گئے مشاہدات سے آتے ہیں، اس صورت میں ثبوت ہبل نے جمع کئے تھے، یہ بات مجھے انسانیت پر یقین رکھنے میں عظیم مدد دیتی ہے کیونکہ اس نے شروعات ایک وکیل کے کی تھی اور پھر ایک فلکیات دان بن گیا۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب 1 - 3

ایک پراسرار کائناتی کہانی: آغاز - سوم



اس سے قبل 1925ء میں ہبل نے اہم دریافت نئی ماؤنٹ ولسن کی 100 انچ کی ہو کر دوربین کے ساتھ کی تھی، جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی دوربین تھی۔ (موازنے کے لئے، اب ہم اس سے دس گنا زیادہ بڑی قطر کی اور سو گنا بڑے حجم کی دوربین بنا رہے ہیں ! ) اس وقت تک دستیاب دوربینوں کے ساتھ ماہرین فلکیات اجسام کی دھندلی تصاویر کو الگ کر چکے تھے کہ وہ سادہ طور پر ہماری کہکشاں کے ستارے نہیں ہیں۔ وہ ان کو سحابئے کہتے تھے، جو بنیادی طور پر لاطینی زبان میں "دھندلی چیزوں " (اصل میں "بادل") کو کہا جاتا ہے۔ وہ اس پر بھی بحث کرتے تھے کہ یہ اجسام ہماری کہکشاں کے اندر یا باہر ہیں۔

کیونکہ اس وقت تک کائنات کا رائج نقطہ نظر یہ تھا کہ ہماری کہکشاں ہی سب کچھ ہے، زیادہ تر ماہرین فلکیات "ہماری کہکشاں کے اندر" کے پڑاؤ میں ہی شامل تھے، جن کی رہنمائی ہارورڈ کے مشہور ماہر فلکیات ہارلو شپیلی کر رہے تھے۔ شیپلی نے پانچویں جماعت سے اسکول جانا چھوڑ دیا تھا اور خود سے ہی پڑھائی کی تھی اور بالآخر پرنسٹن گئے۔ اس نے فلکیات پڑھنے کا فیصلہ پہلا مضمون چن کر کیا جو اسے نصاب تعلیم میں ملا۔ بنیادی کام میں اس نے مظاہرہ کیا کہ ملکی وے پہلے سمجھے جانے کے مقابلے میں کافی بڑی ہے اور سورج اس کے مرکز میں نہیں ہے بلکہ ایک غیر دلچسپ کونے پر اس کے مضافات میں ہے۔

وہ فلکیات میں ایک ناقابل شکست قوت تھی اور لہٰذا اس کے نظریات سحابیہ کی ماہیت پر قابل غور تھے۔ 1925ء میں نئے سال کے دن کے موقع پر، ہبل نے نام نہاد سحابیہ پر اپنی دو برس کی تحقیقی نتائج شایع کئے جس میں وہ ان سحابیوں بشمول اب اینڈرومیڈا کہلانے والے سحابیہ میں کئی طرح کے متغیر ستاروں کی شناخت کرنے کے قابل ہو گیا تھا جن کو قیقاؤسی متغیر ستارے کہتے ہیں۔

سب سے پہلا 1784ء میں مشاہدہ کیا گیا، قیقاؤسی متغیر ستارے وہ ستارے ہیں جن کی روشنی باقاعدہ مدت میں بدلتی رہتی ہے۔ 1908ء میں ایک گمنام اور اس وقت بے قدر مستقبل کی ماہر فلکیات دان ہینریٹا سوان لیوٹ ہارورڈ کالج آبزرویٹری میں بطور "کمپیوٹر" کے لگی۔ ("کمپیوٹر" وہ عورتیں تھیں جو رصدگاہ کی عکسی تختیوں میں درج ہونے والے روشن ستاروں کی فہرست کو بناتی تھیں ؛ اس وقت تک عورتوں کو رصدگاہ کی دوربین کے استعمال کی اجازت نہیں تھی۔ ) خود مختار کلیسائی جماعت کے وزیر اور زائر کی نسل میں سے، لیوٹ نے ایک حیرت انگیز دریافت کی، جس پر اس نے مزید 1912ء میں روشنی ڈالی: اس نے دیکھا کہ قیقاؤسی سیاروں کی روشنی میں اور ان کی روشنی کے تغیر کی مدت میں ایک باقاعدہ تعلق موجود تھا۔

لہٰذا اگر کوئی کسی ایک معلوم مدت کے واحد قیقاؤسی کے فاصلے کا تعین کر سکے (جس کا تعین بعد میں 1913ء میں کر لیا گیا تھا)، تب اسی مدت کے دوسرے قیقاؤسیوں کی روشنی کی پیمائش اس بات کی اجازت دے گی کہ ان دوسرے ستاروں کے فاصلے کا تعین کیا جا سکے ! کیونکہ مشاہدہ کیا گیا ستاروں کی روشنی معکوس طور پر ستارے کے فاصلے کے مربع سے کم ہوتی ہے (روشنی کرے پر یکساں پھیلتی ہے جس کا حجم فاصلے کے مربع کے حساب سے بڑھتا ہے، اور اس طرح کیونکہ روشنی بڑے کرے پر پھیلتی ہے، روشنی کی شدت کسی بھی مشاہدہ کردہ نقطے پر کم کرے کے حجم کے حساب سے الٹ طور پر ہوتی ہے )، دور دراز کے ستاروں کا فاصلے کا تعین کرنا فلکیات میں ہمیشہ سے ایک پریشان کن کام رہا ہے۔

لیوٹ کی دریافت نے میدان میں انقلاب برپا کر دیا۔ (ہبل خود، جسے نوبل انعام کے لئے نظر انداز کر دیا گیا تھا، اکثر کہتا تھا کہ لیوٹ کا کام انعام کا حقدار تھا، اگرچہ وہ کافی خود کفیل تھا اور غالباً وہ صرف اس لئے یہ تجویز دیتا تھا کیونکہ وہ بعد میں اپنے کام کی وجہ سے خود بھی قدرتی طور پر انعام کا اشتراک کرنے والا تھا۔) اصل میں کاغذی کارروائی رائل سویڈش اکیڈمی میں شروع بھی ہو گئی تھی تاکہ لیوٹ کو 1924ء میں انعام کے لئے نامزد کیا جائے تاہم اس وقت معلوم ہوا کہ وہ تین برس پہلے سرطان کی وجہ سے انتقال کر چکی ہے۔ اپنی شخصیت کی طاقت کے بل بوتے پر خود سے ترقی کی استعداد اور بطور مشاہد کی مہارت کی بدولت ہبل کا نام گھر گھر جانے لگا جبکہ لیوٹ کے لئے صد افسوس کہ صرف میدان کے جوشیلے ہی لیوٹ کو جانتے ہیں۔

ہبل نے اپنے قیقاؤسی کے پیمائش اور لیوٹ کی مدت-روشنی کے تعلق کو استعمال کر کے قطعی طور پر ثابت کیا کہ اینڈرومیڈا اور کئی دوسرے سحابیہ میں قیقاؤسی اتنے دور تھے کہ وہ ملکی وے کے اندر نہیں ہو سکتے تھے۔ اینڈرومیڈا ایک دوسری جزیرہ نما کائنات کے طور پر دریافت ہوئی، ایک اور مرغولہ نما کہکشاں جو ہماری کہکشاں کے جیسی ہی تھی، اور مزید ایک کھرب کہکشاؤں میں سے ایک تھی، اب ہم جانتے ہیں کہ وہ ہماری قابل مشاہدہ کائنات میں موجود ہیں۔ ہبل کے نتائج کافی حد تک غیر مبہم تھے کہ فلکیاتی دنیا - بشمول شیپلی جو حادثاتی طور پر اس وقت تک ہارورڈ کالج آبزروویٹی کا منتظم بن چکا تھا، جہان لیوٹ نے اپنے اختراعی کام کو مکمل کیا تھا - تیزی سے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا کہ ملکی وے ہی صرف ہمارے آس پاس نہیں ہے۔ یکایک معلوم کائنات کا حجم ایک ہی قدم میں پھیل کر صدیوں میں ہونے والے اضافہ سے زیادہ ہو گیا۔ جس طرح سے باقی چیزیں تبدیل ہوئی تھیں اسی طرح سے اس کا کردار بھی تبدیل ہو گیا تھا۔

اس ڈرامائی دریافت کے بعد، ہبل اس اعزاز پر اکتفا کر سکتا تھا، تاہم وہ اس کے بعد بڑی مچھلی کے پیچھے لگ گیا اور اس صورتحال میں بڑی کہکشاؤں کے۔ اس وقت تک کی دور کی کہکشاں میں موجود مزید مدھم قیقاؤسیوں کی پیمائش کر کے وہ اس قابل ہوا کہ کائنات کا اور بڑے پیمانے پر نقشہ بنا سکے۔

بہرحال جب اس نے ایسا کیا تو اس نے کچھ ایسا دریافت کیا جو اس سے بھی شاندار تھا: کائنات پھیل رہی تھی!​
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب 1 - 4
ایک پراسرار کائناتی کہانی: آغاز - چہارم


ہبل نے یہ نتائج اپنی پیمائش کی گئی کہکشاؤں کے فاصلے کا موازنہ ایک دوسرے امریکی فلکیات دان، ویسٹو سلیفر کی پیمائش کردہ مختلف جوڑے سے کیا، جس نے ان کہکشاؤں سے آتی ہوئی روشنی کے طیف کی پیمائش کی تھی۔ اس طرح کے طیف کی ماہیت اور وجود کو سمجھنے کے لئے مجھے آپ کو جدید فلکیات کی بالکل ابتداء میں لے کر جانا ہو گا۔

فلکیات میں ایک سب سے اہم دریافت یہ تھی کہ ستاروں کا مادّہ اور زمین کا مادّہ کافی حد تک ایک ہی جیسا تھا۔ اس کی شروعات آئزک نیوٹن کے ساتھ ویسی ہی ہوئی جیسی کہ جدید سائنس میں زیادہ تر چیزوں کی ہوئی تھی۔ 1665ء میں نیوٹن نے ، جو اس وقت کا نوجوان سائنس دان تھا، اپنے کمرے کو تاریک کرکے اپنی کھڑکی کے دروازے میں ایک سوراخ کرکے روشنی کی ایک مہین کرن کو ایک منشور کے ذریعہ اندر داخل کیا اور سورج کی روشنی کو قوس و قزح کے رنگوں میں ٹوٹتے ہوئے دیکھا۔ وہ سمجھ گیا کہ سورج سے آنے والی سفید روشنی میں تمام رنگ شامل ہیں، اور وہ درست تھا۔

ایک سو پچاس سال بعد، ایک اور سائنس دان نے پھیلتی ہوئی روشنی کا مزید احتیاط سے تجزیہ کیا، اور رنگوں کے درمیان تاریک پٹیوں کو دریافت کیا، وہ سمجھ گیا کہ اس کی وجہ سورج کے بیرونی کرہ ہوائی میں موجود مادّے ہیں جو روشنی کے مخصوص رنگوں یا طول امواج کو جذب کر رہے ہیں۔ یہ "جذبی خط"، جیسا کہ وہ جانے گئے، اس روشنی کے طول امواج کے ساتھ شناخت ہو سکتے ہیں جن کی پیمائش زمین پر موجود معلوم مادوں بشمول، ہائیڈروجن، آکسیجن، لوہا، سوڈیم، اور کیلشیم کے جذب ہونے سے کی تھی ۔

1868ء میں ایک اور سائنس دان نے سورج کے طیف کے پیلے حصّے پر دو نئے جذبی خطوط کا مشاہدہ کیا جو زمین پر موجود کسی بھی معلوم عنصر کے مطابق نہیں تھے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ یہ کسی نئے عنصر کی وجہ سے ہو گا جس کو اس نے ہیلیئم کا نام دیا۔ ایک نسل کے بعد، ہیلیئم زمین پر دریافت ہو گئی۔

دوسرے ستارے سے آنے والی اشعاع کے طیف کو دیکھنا ان کی ساخت، درجہ حرارت اور ارتقاء کو سمجھنے کا ایک اہم سائنسی آلہ تھا۔ 1912ء میں شروعات کر کے سلیفر نے متعدد سحابیوں سے آنے والی روشنی کے طیف کا مشاہدہ کیا اور پایا کہ طیف قریبی ستاروں سے ملتا جلتا ہے بجز اس کے کہ تمام جذبی خطوط طول امواج میں اتنی ہی مقدار میں منتقل تھے۔

اس مظہر کو بعد میں شناسا "ڈوپلر اثر" سے سمجھا جا سکتا ہے، جس کا نام آسٹرین طبیعیات دان کرسچین ڈوپلر کے اعزاز میں رکھا گیا، جس نے 1814ء میں وضاحت کی کہ آپ کی طرف حرکت کرتے ہوئے منبع سے آنی والی امواج کھنچی ہوئی ہوں گی بشرطیکہ منبع آپ سے دور جا رہا ہو گا یا سکڑی ہوئی ہوں گی بشرطیکہ اگر حرکت کرتا ہوا جسم آپ کی طرف آ رہا ہو۔ یہ اس مظہر کا عکاس ہے جس سے ہم سب شناسا ہیں، اور جس سے مجھے سڈنی ہیرس کارٹون کی عام طور پر یاد آ جاتی ہے جہاں دو کاؤ بوائے اپنے گھوڑوں پر میدانوں میں بیٹھے ہوئے ہیں اور دور سے آتی ہوئی ریل کو دیکھ رہے ہیں، اور ایک دوسرے کو کہتا ہے، "مجھے اس دور سے آتی ہوئی ریل کی سیٹی کے بجنے سے پیار ہے ۔کیونکہ تعدد ارتعاش کا زور ڈوپلر اثر کی وجہ سے تبدیل ہو جاتا ہے ! "حقیقت میں ٹرین کی سیٹی یا ایمبولینس کے سائرن کی آواز زیادہ ہو گی اگر ٹرین یا ایمبولینس آپ کی طرف حرکت کر رہی ہے اور کم اس وقت ہو گی جب وہ آپ سے دور جا رہی ہو گی۔

یہ معلوم ہوا کہ وہی مظہر جو روشنی کی امواج کے لئے وقوع پذیر ہوتا ہے وہی صوتی امواج کے لئے ہوتا ہے، اگرچہ اس کی وجہ تھوڑی سی الگ ہوتی ہے۔ روشنی کی امواج ایک ایسے منبع سے جو آپ سے دور ہو رہا ہو یا تو اس کے خلاء میں مقام کے حرکت کرنے سے یا پھر خلاء کے پھیلاؤ کی وجہ سے، کھنچتی ہیں، اور لہٰذا وہ سرخی مائل ہوتی ہیں جتنا کہ انہیں نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ بصری طیف کا آخر سرخ طویل طول موج ہے، جبکہ آپ کی طرف آنے والے منبع کی طرف کی امواج سکڑی ہوئی اور نیلی مائل ہوں گی۔

1912ءمیں سلیفر نے مشاہدہ کیا کہ تمام سحابی مرغولوں سے آنے والی روشنی کے جذبی خطوط لگ بھگ منظم طریقے سے طویل طول امواج کی طرف منتقل ہیں ( اگرچہ کچھ جیسا کہ اینڈرومیڈا مختصر طول امواج کی طرف منتقل ہے )۔ لہٰذا اس نے ٹھیک طرح سے استنباط کیا کہ زیادہ تر اجسام ہم سے قابل غور سمتی رفتاروں سے دور جا رہے ہیں۔

ہبل اس قابل تھا کہ ان مرغولہ کہکشاؤں (جیسا کہ وہ اب جانی جاتی ہیں ) کے فاصلوں کے اپنے مشاہدات کا موازنہ سلیفر کی سمتی رفتاروں سے کرے جس سے وہ دور جا رہی ہیں۔ 1929ء میں، ماؤنٹ ولسن کے عملہ رکن، ملٹن ہماسن (جس کی تیکنیکی لیاقت ایسی تھی کہ اس نے ماؤنٹ ولسن میں نوکری بغیر کسی ہائی اسکول کے ڈپلوما کے حاصل کی ) کی مدد سے، حیرت انگیز تجربی تعلق کے دریافت کا اعلان کیا،جو اب ہبل کا قانون کہلاتا ہے : دور جاتی ہوئی سمتی رفتار اور کہکشانی فاصلے کے درمیان ایک خطی تعلق ہے۔ یعنی، کہکشائیں جو ہم سے زیادہ دور ہیں وہ ہم سے زیادہ تیز رفتار سے دور جا رہی ہیں !

جب پہلی مرتبہ اس حیرت انگیز حقیقت کو پیش کیا گیا کہ لگ بھگ تمام کہکشائیں ہم سے دور جا رہی ہیں، اور وہ جو ہم سے دوگنا زیادہ دور ہیں وہ دوگنا رفتار سے دور جا رہی ہیں، جو تین گنا ہم سے دور ہیں تو تین گنا رفتار سے وغیرہ وغیرہ - تو اس کا مطلب عیاں ہونے لگا تھا: ہم کائنات کے مرکز میں تھے ! جیسا کہ کچھ دوستوں نے نصیحت کی، کہ مجھے روزانہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ یہ ایسا نہیں تھا۔ بلکہ یہ تو ٹھیک طرح سے اس تعلق سے میل کھاتی تھی جس کی لیمیترے نے پیش گوئی کی تھی۔ ہماری کائنات اصل میں پھیل رہی تھی۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب 1 - 5
ایک پراسرار کائناتی کہانی: آغاز - حصّہ پنجم



میں نے اس کی وضاحت کے لئے مختلف طریقوں کی کوشش کی ہے، اور سچ بات یہ ہے کہ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی ایسا اچھا طریقہ ہے تاوقتیکہ کہ آپ کنویں کے مینڈک بن کر نہ سوچیں - اس صورت میں کائناتی کنویں سے باہر۔ یہ دیکھنے کہ لئے کہ ہبل کے قانون کا کیا مطلب ہے، آپ کو ہماری کہکشاں کے قریب بین فوقیت والے نقطے سے اپنے آپ کو ہٹانا ہو گا اور ہماری کائنات کو باہر سے دیکھنا ہو گا۔ اگرچہ سہہ جہتی کائنات کے باہر سے کھڑا ہو کر دیکھنا بہت مشکل لگتا ہے تاہم دو جہتی کائنات کے باہر کھڑا ہونا آسان ہے۔ اگلے صفحے پر میں نے ایک اس طرح کی پھیلتی ہوئی کائنات کو دو مختلف ادوار میں بنایا ہے۔

آپ دیکھ سکتے ہیں، کہکشائیں دوسرے وقت میں ایک دوسرے سے اور دور ہیں۔

ابھی تصور کریں کہ آپ کسی بھی ایک کہکشاں میں دوسرے وقت t2 میں رہ رہے ہیں جس کو میں سفید سے نشان t2 وقت پر لگاؤں گا۔

یہ دیکھنے کے لئے کہ اس کہکشاں کے فوقیت والے نقطے سے کائنات کا ارتقاء کیسا ہو گا، میں نے سادے طور پر بائیں طرف والی تصویر کو دائیں والے سے منطبق کر دی ہے اور کہکشاں کو سفید کے اوپر رکھ دیا ہے۔

مرحبا! اس کہکشاں کے فوقیت والے نقطے سے ہر دوسری کہکشاں دور جا رہی ہے، اور جو دو گنا دور ہیں وہ اسی وقت میں دو گنا دور ہو گئیں، جو تین گنا دور تھی وہ تین گنا زیادہ فاصلے پر ہو گئیں وغیرہ وغیرہ۔ جب تک کوئی کنارہ نہیں ہو گا کہکشاؤں پر موجود محسوس کریں گے کہ وہ پھیلاؤ کے مرکز میں ہیں۔

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی کون سی کہکشاں کا انتخاب کرتا ہے۔ ایک اور کہکشاں لیں، اور عمل کو دہرائیں : آپ کے نقطہ نگاہ کے لحاظ سے اس وقت یا تو ہر چیز کائنات کا مرکز ہے، یا پھر کوئی بھی جگہ نہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ہبل کی کائنات پھیلتی کائنات کے مطابق ہے۔

اب جب ہبل اور ہماسن نے پہلی مرتبہ 1929ء میں اطلاع دی کہ انہوں نے نہ صرف فاصلے اور دور جاتی ہوئی سمتی رفتار کے درمیان ایک خطی تعلق کا بتلایا ہے بلکہ انہوں نے پھیلاؤ کی شرح کے بارے میں بھی خود سے مقداری تخمینہ دیا۔ یہاں پر وہ اصل اعداد و شمار ہیں جو اس وقت پیش کئے گئے :

جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں، ہبل کا ایک سیدھی لکیر کو اس کے اعدادوشمار کے جوڑے میں بیٹھنے کا قیاس تھوڑا سا زیادہ خوش قسمت رہا۔ (واضح طور پر کچھ تعلق ہے، لیکن آیا کیا ایک سیدھا خط سب سے بہتر قیاس ہے یہ بات صرف اعدادوشمار سے واضح نہیں ہے۔ ) پلاٹ سے اخذ کی ہوئی پھیلاؤ کی حاصل کردہ شرح بتاتی ہے کہ ایک کہکشاں جو دس لاکھ پارسیک دور ہے (30 لاکھ نوری برس) - کہکشاؤں کے درمیان علیحدگی کی اوسط - وہ ہم سے 500 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے دور جا رہی ہے۔ بہرحال یہ اندازہ اتنا بھی اچھا نہیں تھا۔

اس کی وجہ دیکھنے کے لئے نسبتاً آسان ہے۔ اگر آج ہر چیز ایک دوسرے سے دور جا رہی ہے، تب شروع میں وہ ایک دوسرے کے قریب تھے۔ اب اگر قوت ثقل ایک تجاذبی قوت ہے، تب اس نے کائنات کے پھیلاؤ کو لامحالہ طور پر سست کر دیا ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ کہکشائیں جو ہم سے آج 500 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے دور ہو رہی ہیں وہ پہلے اور تیزی سے حرکت کر رہی ہوں گی۔

اگر ہم ایک لمحے کے لئے فرض کریں کہ کہکشائیں ہمیشہ سے اسی سمتی رفتار سے دور جا رہی ہیں، تو ہم الٹا حساب لگا سکتے ہیں کہ کتنے عرصے پہلے تک وہ ہماری کہکشاں کے مقام پر تھیں۔ کیونکہ وہ کہکشائیں جو دوگنا زیادہ دور ہیں وہ دوگنا تیز رفتار سے حرکت کر رہی ہیں، اگر ہم الٹا حساب لگائیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ وہ ہماری جگہ پر اسی وقت پر منطبق تھیں۔

حقیقت میں تمام قابل مشاہدہ کائنات ایک واحد نقطے، بگ بینگ، پر اس وقت موجود تھی جس کا اندازہ ہم اس طرح سے لگاتے ہیں۔

اس طرح کا تخمینہ کائنات کی عمر کی اوپری حد ہے، کیونکہ اگر کہکشائیں کبھی تیز رفتار حرکت کر رہی تھیں، تو وہ اس تخمینہ کے ذریعہ حاصل کئے گئے وقت سے کہیں پہلے اس جگہ موجود ہوتی جہان وہ آج ہیں۔

ہبل کے تجزیے کی بنیاد پر یہ تخمینہ، بگ بینگ لگ بھگ 1 ارب 50 کروڑ پہلے واقع ہوا تھا۔ بہرحال 1929ء میں بھی ثبوت پہلے ہی سے واضح تھے (سوائے ٹینیسی، اوہائیو اور چند دوسری ریاستوں کے روحانی عالموں کے ) کہ زمین 3 ارب برس سے زیادہ عمر کی ہے۔

اب سائنس دانوں کے لئے یہ شرمندگی کی بات تھی کہ زمین کائنات سے زیادہ پرانی ہے۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ کہ بتاتی تھی کہ تجزیے کے ساتھ کچھ مسئلہ ہے۔

اس پریشانی کی وجہ سادہ حقیقت تھی کہ ہبل کے فاصلے کے تخمینے کو ہماری کہکشاں کے قیقاؤسی تعلق سے حاصل کیا گیا تھا جو منظم طور پر غلط تھا۔ فاصلے کی سیڑھی کی بنیاد قریبی قیقاؤسی کو لے کر دور دراز کے قیقاؤسی کے فاصلے کا تخمینہ لگایا گیا تھا، اور اس کے بعد ان کہکشاؤں کے فاصلے کا تخمینہ لگایا گیا جہان پر مزید دور دراز قیقاؤسیوں کا مشاہدہ کیا گیا، یہ ناقص تھا۔

ان منظم اثرات کو کس طرح سے ٹھیک کیا اس کی تاریخ یہاں پر بیان کرنے کے لئے بہت طویل و پر پیچ ہے، بہرصورت اس سے فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اب ہمارے پاس اس سے کہیں زیادہ بہتر فاصلاتی تخمینہ جات ہے۔

ہبل سے لی گئی تصاویر میں سے ایک میری سب سے پسندیدہ نیچے ہے :


یہ بہت ہی دور دراز اور کافی عرصے پہلے (کافی عرصے پہلے کی اس لئے کیونکہ کہکشاں کی روشنی نے ہم تک پہنچنے کے لئے کچھ 5 کروڑ سے زائد برس لئے ) کی خوبصورت مرغولہ نما کہکشاں کو دکھاتی ہے ۔ ایک مرغولہ نما کہکشاں جیسا کہ یہ ہے، جو ہماری اپنی کہکشاں سے ملتی ہے، اس میں لگ بھگ 1 کھرب ستارے موجود ہیں۔ غالباً اس کے روشن قلب میں لگ بھگ 10 ارب ستارے ہیں۔ نچلے بائیں کونے کے ستاروں پر غور کریں جو اتنی روشنی سے دمک رہے ہیں کہ جتنی 10 ارب ستاروں کی روشنی ہوتی ہے۔ اس کو پہلی مرتبہ دیکھ کر آپ بھی معقول طور پر یہ فرض کریں گے کہ یہ ہماری اپنی کہکشاں میں کافی قریب ستارہ ہے جو تصویر کے درمیان میں آ گیا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہ وہی دور دراز کہکشاں کا ستارہ ہے، جو 5 کروڑ نوری برس سے زیادہ دور ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب 1 - 6
ایک پراسرار کائناتی کہانی: آغاز - حصّہ ششم



ظاہر ہے، یہ کوئی عام ستارہ نہیں ہے۔ یہ وہ ستارہ ہے جو بس پھٹا ہی ہے، ایک نوتارا، کائنات میں سب سے روشن آتش بازی دکھانے والا۔ جب ایک ستارہ پھٹتا ہے، وہ مختصراً (ایک مہینے کے دوران یا اتنا ہی) بصری روشنی میں 10 ارب ستاروں کی روشنی جتنا چمکتا ہے۔

ہمارے لئے خوشی کی بات ہے کہ ستارے بہت زیادہ نہیں لگ بھگ ایک کہکشاں میں ایک صدی میں ایک کے قریب پھٹتا ہے۔ تاہم ہم خوش قسمت ہیں کہ وہ ایسا کرتے ہیں کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ہم یہاں موجود نہ ہوتے۔ ایک سب سے زیادہ شاعرانہ حقیقت جو میں کائنات کے بارے میں جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ لگ بھگ ہمارے جسم میں موجود ہر جوہر کبھی اس ستارے کے اندر تھا جو پھٹا تھا۔ مزید براں، آپ کے بائیں ہاتھ کے جوہر شاید اس ستارے سے الگ دوسرے ستارے سے آئے ہوں جو آپ کے دائیں ہاتھ میں ہیں۔ واقعی سچ میں ہم ستاروں کے بچے ہیں، اور ہمارے جسم ستاروں کی دھول سے بنے ہیں۔

ہم یہ کیسے جانتے ہیں ؟ ٹھیک ہے کہ ہم بگ بینگ کی تصویر کو ماضی تک لے جا سکتے ہیں جب کائنات ایک سیکنڈ عمر کی تھی، اور ہم حساب لگا سکتے ہیں کہ تمام مادّہ ایک دبے ہوئے پلازما کی صورت میں تھا جس کا درجہ لگ بھگ 10 ارب ڈگری (کیلون پیمانے ) پر تھا۔ اس درجہ حرارت پر نیوکلیائی تعاملات فوری طور پر پروٹون اور نیوٹران کے درمیان وقوع پذیر ہو سکتے ہیں کیونکہ جب وہ آپس میں بندھتےتو مزید ہونے والے ٹکراؤ میں ٹوٹ کر بکھر جاتے۔ اس عمل کے بعد جب کائنات ٹھنڈی ہوئی، ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنی بار یہ قدیمی نیوکلیائی جز ہائیڈروجن سے بھاری جوہروں کے مرکزے باندھ لیں گے یعنی کہ ہیلیئم، لیتھیم علی ہذا القیاس)۔

جب ہم ایسا کرتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر لیتھیم کے بعد کوئی مرکزہ نہیں ملتا، قدرت میں پایا جانے والا تیسرا ہلکا ذرہ قدیمی آگ کے گولے یعنی کہ بگ بینگ میں بنا۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے حسابات درست ہیں کیونکہ ہلکے ترین عناصر کی ہماری کائناتی فراوانی ان مشاہدات کے مطابق ہے۔ ان ہلکے ترین عناصر کی فراوانی ہائیڈروجن، ڈیوٹیریئم (بھاری ہائیڈروجن کے مرکزے )، ہیلیئم، اور لیتھیم دس کی قوت نما سے مختلف ہوتے ہیں (لگ بھگ 25 فیصد پروٹون اور نیوٹران، کمیت کے لحاظ سے ہیلیئم بنتے ہیں، جبکہ ہر دس ارب میں سے ایک نیوٹران اور پروٹون لیتھیم کا مرکزہ بناتا ہے )۔ یہ ناقابل یقین حد، مشاہدے اور نظریاتی تخمینہ جات متفق ہوتے ہیں۔

یہ سب سے مشہور، اہم اور کامیاب پیش گوئی بتاتی ہے کہ بگ بینگ اصل میں واقع ہوا تھا۔ صرف ایک گرم بگ بینگ ہی ہلکے عناصر کی مشاہدہ کردہ فراوانی کو پیدا کر سکتا اور حالیہ کائنات کے پھیلاؤ کی مشاہدہ کردہ مطابقت کو برقرار رکھ سکتا ہے۔ میں اپنی پچھلی جیب میں ایک جیبی کارڈ رکھتا ہوں جو ہلکے عناصر کی فراوانی کی پیش گوئیوں کے تقابل کو ظاہر کرتا ہے تاکہ ہر مرتبہ جب میں کسی ایسے شخص سے ملوں جو بگ بینگ کے واقع ہونے پر یقین نہیں رکھتا تو میں اس کو یہ دکھا سکوں۔ ظاہر سی بات ہے کہ مجھے بحث میں زیادہ دور تک نہیں جانا پڑتا کیونکہ اعدادوشمار شاذونادر ہی ان لوگوں کو متاثر کرتے ہیں جنہوں نے پہلے ہی سے یہ فیصلہ کر لیا ہو کہ تصویر کے ساتھ کچھ مسئلہ ہے۔ پھر بھی میں اس کارڈ کو لے کر چلتا ہوں اور اس کتاب میں بعد میں آپ کو بھی دکھاؤں گا۔

اگرچہ لیتھیم کچھ لوگوں کے لئے اہم ہو سکتی ہے، باقی لوگوں کے لئے اہم تمام بھاری عناصر ہیں جیسے کہ کاربن، نائٹروجن، آکسیجن، لوہا وغیرہ۔ یہ بگ بینگ میں نہیں بنے تھے۔

صرف وہ جگہ جہان یہ بن سکتے ہیں وہ ستاروں کے غضبناک قلب ہیں۔ اور آج آپ کے جسم میں ان کے آنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اگر یہ ستارے پھٹنے والی قسم کے ہوں، اپنی پیداوار کو کائنات میں اگل دیں تاکہ وہ ایک دن اس ستارے کے گرد جس کو ہم سورج کہتے ہیں چھوٹے نیلے سیارے میں اور اس کے ارد گرد کثیف ہو سکیں۔ ہماری کہکشاں کی تاریخ کے دوران، لگ بھگ 20 کروڑ ستارے پھٹے ہیں۔ ان انگنت ستاروں نے اپنے آپ کو قربان کیا، اگر آپ چاہیں تو، کہ ایک دن آپ پیدا ہو سکیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات انہیں نجات دہندہ کے طور پر اہل بناتی ہے۔​
 
آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
باب 1 - 7
ایک پراسرار کائناتی کہانی: آغاز - حصّہ ہفتم



ٹائپ la نوتارا کہلانے ولے یہ ایک مخصوص قسم کے پھٹتے ہوئے ستارے ہیں جن کو 1990ء کے عشرے میں احتیاط کے ساتھ کی گئی تحقیق میں دیکھا گیا جن کی غیر معمولی خاصیت تھی: زیادہ درستگی کے ساتھ، یہ ٹائپ la جو جبلی طور پر روشن ہوتے ہیں طویل عرصے تک چمکتے ہیں۔ اگرچہ نظریاتی طور پر اس کا باہمی ربط مکمل طور پر نہیں سمجھا گیا تاہم تجربی طور پر بہت قریب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ نوتارے بہت ہی اچھی "معیاری شمعیں "ہیں۔ اس سے ہمارا یہ مطلب ہوتا ہے کہ یہ نوتارے فاصلوں کی پیمائش کے لئے استعمال ہو سکتے ہیں کیونکہ ان کی جبلی چمک براہ راست پیمائش سے دریافت شدہ ان کے فاصلے پر منحصر ہے۔ اگر ہم ایک نوتارے کو دور دراز کی کہکشاں میں دیکھتے ہیں اور ہم دیکھ سکتے ہیں کیونکہ وہ بہت زیادہ روشن ہوتے ہیں - تب ہم یہ دیکھ کر کہ وہ کتنا عرصہ چمکتے ہیں، ان کی جبلی چمک کو اخذ کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد اپنی دوربینوں سے اس کی ظاہری چمک کی پیمائش کر کے ہم درست طور پر اخذ کر سکتے ہیں کہ نوتارا اور اس کی میزبان کہکشاں کتنی دور ہے۔ اس کے بعد کہکشاں میں موجود ستارے کی روشنی کی "سرخ منتقلی" کی پیمائش کر کے ہم اس کی سمتی رفتار کا تعین کر سکتے ہیں، اور اس طرح سمتی رفتار کا تقابل فاصلے سے کر کے کائنات کے پھیلاؤ کی شرح کو اخذ کرتے ہیں۔

ابھی تک تو اچھا ہے، تاہم اگر نوتارا ہر سو برس یا اسی طرح کے عرصے میں ایک کہکشاں میں ایک مرتبہ پھٹتا ہے، تو اس کو ہمارے کبھی بھی دیکھنے کا امکان کتنا ہے ؟ بہرحال ہماری اپنی کہکشاں میں دیکھا جانے والا زمین پر آخری نوتارا جوہانس کیپلر نے 1604ء میں دیکھا تھا! اصل میں یہ کہا جاتا ہے کہ ہماری کہکشاں میں دیکھے جانے والے نوتارے صرف کسی عظیم ماہر فلکیات کی زندگی کے دوران ہی دیکھے جاتے ہیں، اور یقینی طور پر کیپلر اس پر پورا اترتا تھا۔

آسٹریا میں ایک منکسر المزاج ریاضی کے معلم کے شروعات کرنے کے بعد کیپلر فلکیات دان ٹائیکو براہی (جس نے خود سے ہماری کہکشاں میں ایک اور پہلے نوتارے کا مشاہدہ کیا تھا اور بدلے میں ڈنمارک کے بادشاہ نے اس کو پورا جزیرہ عطا کیا تھا) کا ماتحت بنا، اور ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں لئے جانے والے آسمان پر سیاروں کے مقام کا براہی کے اعدادوشمار کا استعمال کر کے، کیپلر نے اپنے مشہور زمانہ سیاروی حرکت کے قوانین کو سترویں صدی میں اخذ کیا:

1۔ سیارے سورج کے گرد بیضوی صورت میں چکر لگاتے ہیں۔

2۔ سیارے اور سورج کے درمیان ایک منسلک خط وقت کے برابر وقفوں کے درمیان برابر ہوتا ہے۔

3۔ سیارے کے مداری مدت کا جذر المربع براہ راست اس کے مدار کے جزوی-اہم محور (یا دوسرے الفاظ میں بیضوی کا "جزوی-اہم محور"، بیضوی کے سب سے چوڑے حصّے کے فاصلے کے نصف) کے مکعب (تیسری قوت) سے متناسب ہوتا ہے۔

ان قوانین نے لگ بھگ ایک صدی کے بعد نیوٹن کے کشش ثقل کے قوانین کو اخذ کرنے کی بنیاد ڈالی۔ اس شاندار شراکت کے علاوہ، کیپلر نے کامیابی کے ساتھ اپنی ماں کا جادوگری کے مقدمے میں دفاع کیا اور وہ چیز لکھی جو شاید پہلا سائنسی قصہ تھا، چاند کے سفر کی کہانی۔

آج کل، نوتارے کو دیکھنے کا ایک سادہ طریقہ یہ ہے کہ مختلف تحصیل علم میں مصروف طالبعلموں کو آسمان میں ہر کہکشاں دے دی جائے۔ بہرحال ایک سو برس کچھ زیادہ الگ نہیں ہیں، کم از کم کائناتی لحاظ سے ایک پی ایچ ڈی کرنے کے لئے درکار اوسط وقت کے لئے تو بالکل بھی نہیں، اور سند حاصل کرنے والے طالبعلم سستے اور کثرت سے ہیں۔ بخوشی، بہرحال، ہمیں رسائی کے لئے اس طرح کے شدید اقدامات کی ضرورت نہیں ہے، بہت ہی سادہ وجہ ہے : کائنات بڑی اور پرانی ہے، نتیجتاً، نایاب واقعات ہر وقت ہوتے رہتے ہیں۔

کسی رات کو جنگل یا صحرا میں جائیں جہاں آپ ستارے دیکھ سکیں اور اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائیں، اپنی انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کے درمیان ایک ننھا سا دائرہ ایک سکے جتنا بنائیں۔ اس کو اس تاریک حصّے پر رکھیں جہان بظاہر کوئی ستارہ نہ ہو۔ تاریک پٹی پر ایک کافی بڑی اس قسم کی دوربین جو آج ہمارے پاس موجود ہے آپ لگ بھگ 100,000 کہکشاؤں کو دیکھ سکتے ہیں، جس میں سے ہر ایک میں ارب ہا ستارے موجود ہیں۔ کیونکہ نوتارا سو برس میں ایک مرتبہ پھٹتا ہے، 100,000 کہکشاؤں کو دیکھنے کے ساتھ، آپ امید کر سکتے ہیں کہ اوسطاً لگ بھگ تین ستارے ایک دن میں پھٹتے ہیں۔

ماہر فلکیات صرف یہ کرتے ہیں۔ وہ دوربین کے لئے وقت مانگتے ہیں، اور کسی رات وہ ایک ستارے کو پھٹتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں، کسی رات دو کو، اور کسی رات کو جب رات ابر آلود ہو تو وہ کوئی بھی نہیں دیکھ سکتے۔ اس طرح سے کئی جماعتیں ہبل کے مستقل کو 10 فیصد غیر یقینی سے کم کے ساتھ تعین کرنے کے قابل ہو گئیں۔ نیا عدد، کہکشاؤں کے لئے اوسطاً ہر 30 لاکھ نوری برس دور 70 کلومیٹر فی سیکنڈ، لگ بھگ ہبل اور ہماسن کے اخذ کردہ عدد سے 10 گنا چھوٹا ہے۔ نتیجتاً ہم کائنات کی عمر کو 1.5 ارب برس کے بجائے 13 ارب برس کا اخذ کرتے ہیں۔ جیسا کہ میں بعد میں وضاحت کروں گا کہ یہ مکمل طور پر ہماری کہکشاں میں پرانے ترین ستاروں کی عمر کے آزاد تخمینہ جات سے مطابقت رکھتی ہے۔

براہی سے کیپلر تک، لیمیترے سے آئن سٹائن اور ہبل تک، اور ستاروں کے طیف سے لے کر ہلکے ترین عناصر کی کثرت تک، جدید سائنس کے چار سو برسوں نے پھیلتی کائنات کی شاندار اور مسلسل تصویر بنائی ہے۔ ہر چیز ایک ساتھ ملتی ہے۔ بگ بینگ کی صورت اچھی حالت میں ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب 2 - 1

ایک پراسرار کائناتی کہانی: کائنات کا وزن - حصّہ اوّل




'معلوم' معلوم ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں۔ کچھ 'نامعلوم' معلوم ہیں۔ یعنی کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے۔ تاہم کچھ 'نامعلوم' نامعلوم بھی ہیں۔ کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جن کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ ہم نہیں جانتے۔

-ڈونلڈ رمزفیلڈ

اس بات کو قائم کرنے کے بعد کہ کائنات کا نقطہ آغاز تھا، اور وہ نقطہ آغاز محدود اور ماضی میں قابل پیمائش وقت میں ہوا تھا، ایک قدرتی طور پر سوال پوچھنے کے لئے اٹھتا ہے، "اس کا اختتام کیسے ہو گا؟"

سچ بات تو یہ ہے کہ یہی وہ سوال تھا جو مجھے میرے پسندیدہ مضمون یعنی کہ ذراتی طبیعیات سے علم کائنات میں لانے کا سبب بنا۔ 1970ء اور 1980ء کے عشرے کے دوران، نہ صرف ہماری کہکشاں کے ستاروں اور گیس کی حرکت بلکہ بڑے گروہوں میں موجود جھرمٹ کہلانے والی کہکشاؤں کی حرکت کی مفصل پیمائش سے یہ تیزی سے واضح ہو رہا تھا کہ کائنات میں آنکھوں اور دوربینوں کے دیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔

کشش ثقل وہ اہم قوت تھی جو کہکشاؤں کے بہت بڑے پیمانے پر کام کر رہی تھی، لہٰذا اس پیمانے پر اجسام کی حرکت کی پیمائش ہمیں اس قابل بناتی ہے کہ ثقلی کشش کی کھوج کریں جو اس حرکت کا سبب بنتی ہے۔ اس طرح کی پیمائش کی شروعات 1970ء کی دہائی میں امریکی فلکیات دان ویرا رابن اور ان کے رفقاء کے ابتدائی کام سے ہوئی۔ رابن نے اپنی ڈاکٹریٹ کی سند جارج ٹاؤن سے رات کی کلاسز لے کر حاصل کی اور اس وقت ان کا شوہر گاڑی میں انتظار کر رہا ہوتا تھا کیونکہ ان کو گاڑی چلانی نہیں آتی تھی۔ انہوں نے ملازمت کی درخواست پرنسٹن میں دی، تاہم 1975ء تک وہ یونیورسٹی اپنے فلکیاتی پروگرام کی سند میں عورتوں کو آنے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ رابن وہ دوسری خاتون ہیں جن کو کبھی رائل آسٹرونامیکل سوسائٹی کا سونے کا تمغا ملا۔ یہ انعام اور اس کے دیگر اعزاز جس کی وہ مستحق تھی اس کی جڑیں ہماری کہکشاں کی گردش کی اوّلین پیمائش سے نکلی تھیں۔ ستاروں اور گرم گیسوں کے مشاہدے سے جو ہماری کہکشاں کے مرکز سے سب سے دور تھے، رابن نے تعین کیا کہ یہ علاقے اس سے کہیں زیادہ تیز رفتاری سے حرکت کر رہے ہیں جتنی کہ ثقلی قوت کو انہیں کہکشاں کے اندر موجود تمام اجسام کی کمیت کی وجہ سے حرکت دینی چاہئے۔ ان کے کام کی وجہ سے ماہرین کونیات پر بالآخر یہ بات واضح ہو گئی کہ صرف اس حرکت کی ایک ہی توضیح ہے کہ ہماری کہکشاں میں اس سے کہیں زیادہ اہم کمیت موجود ہے جو نظر آنے والی گرم گیس اور ستاروں کی کمیت کو جمع کر کے ہو سکتی ہے۔

بہرحال اس نقطہ نظر میں ایک مسئلہ تھا۔ وہی حسابات جو بہت خوبصورتی کے ساتھ مشاہدہ کئے گئے ہلکے ترین عناصر (ہائیڈروجن، ہیلیئم، اور لیتھیم) کو کائنات میں بیان کرتے ہیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ کم و بیش کتنے پروٹون اور نیوٹران، عام مادّے کے اجزاء، کائنات میں موجود ہونے چاہئیں۔ اس کی وجہ ہے، جیسے کہ کسی بھی کھانے بنانے کی ترکیب میں، اور اس صورت میں نیوکلیائی پکانے میں - آپ کی حتمی پیداوار کی مقدار کا انحصار ہر اس جز پر ہوتا ہے جس سے آپ نے شروعات کی تھی۔ اگر آپ ترکیب میں دو کی جگہ چار انڈے استعمال کریں - تو آپ کو حتمی پیداوار زیادہ ملے گی، دوسری صورت میں آملیٹ۔ اس کے باوجود بگ بینگ سے نکلنے والی ابتدائی پروٹون اور نیوٹران کی کثافت جس کا تعین مشاہدہ کی گئی ہائیڈروجن، ہیلیئم، اور لیتھیم سے ہوتا ہے، وہ لگ بھگ اس مادّے کی مقدار کا دوگنا ہے جو ہم ستاروں اور گرم گیس میں دیکھتے ہیں۔ ان کے ذرّات کہاں ہیں ؟

پروٹون اور نیوٹران کو چھپانے کے لئے تصور کرنا آسان ہے (برف کے گولے، سیارے، ماہرین کونیات۔ ۔ ۔ اس میں سے کوئی بھی نہیں چمکتا)، لہٰذا کئی طبیعیات دانوں نے رائے قائم کی کہ اتنے ہی پروٹون اور نیوٹران تاریک اجسام میں ہیں جتنے کہ نظر آنے والوں میں۔ بہرحال، جب ہم جمع کر کے معلوم کرتے ہیں کہ کتنے "تاریک مادّے " کو موجود ہونا ہو گا تاکہ ہماری کہکشاں کے مادّے کی حرکت کو بیان کر سکے، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کل مادّے کا تناسب نظر آنے والے مادّے سے 2 اور 1 کا نہیں بلکہ تقریباً 10 اور 1 کا ہے۔ اگر یہ غلطی نہیں ہے، تب تاریک مادّہ پروٹون اور نیوٹران سے مل کر نہیں بن سکتا۔ وہ اتنے ہیں ہی نہیں۔

1980ء کے عشرے میں بطور نوجوان بنیادی ذراتی طبیعیات دان کے اس اجنبی تاریک مادّے کے وجود کے امکان کے بارے میں سیکھنا میرے لئے انتہائی دلچسپ تھا۔ اس کا مطلب تھا، واقعی، کہ کائنات میں غالب ذرّات وہ پرانی طرز کے نیوٹران اور پروٹون کی اقسام کے نہیں تھے، بلکہ ممکنہ طور پر کچھ نئی قسم کے بنیادی ذرّات تھے، کچھ ایسے جو زمین پر وجود نہیں رکھتے، تاہم کچھ پراسرار جو ستاروں کے درمیان اور بیچ میں بہتے ہیں اور خاموشی سے ثقلی شو کو چلاتے ہیں جس کو ہم کہکشاں کہتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
باب 2 - 2
ایک پراسرار کائناتی کہانی: کائنات کا وزن - دوم



اس سے بھی زیادہ دلچسپ، کم از کم میرے لئے، اس کا مطلب تین نئے تحقیقی خطوط ہیں جو بنیادی طور پر حقیقت کی نوعیت کو دوبارہ سے ظاہر کرتے ہیں۔

1۔ جن ذرّات کے بارے میں ، میں نے پہلے وضاحت کی ہے اگر یہ ذرّات بگ بینگ میں پیدا ہوئے تھے ، ان قوتوں کے تصور کو استعمال کرکے جو بنیادی ذرّات (بجائے مرکزے کے تعاملات جو بنیادی کثرت سے متعلقہ ہوں ) کے تعاملات کو چلاتی ہیں ہمیں اس قابل ہونا چاہئے کہ آج ہم کائنات میں موجود ممکنہ نئے ذرّات کی کثرت کے بارے میں تخمینہ جات لگانے میں کر سکتے ہیں۔

2۔ یہ ممکن ہے کہ کائنات میں تاریک مادّے کی کثرت کو ذرّاتی طبیعیات کے نظری خیالات کی بنیاد پر اخذ کیا جائے، اور تاریک مادّے کا سراغ لگانے کے نئے تجربات کی تجویز پیش کرنا بھی ممکن ہے - ان دونوں میں سے ایک ہمیں بتا سکتا ہے کہ یہاں کل کتنا مادہ موجود ہے لہٰذا کائنات کی جیومیٹری کیا ہو گی۔ طبیعیات کا کام ان چیزوں کی ایجاد کرنا نہیں ہے جن کو ہم دیکھ نہیں سکتے تاکہ ان چیزوں کو بیان کریں جن کو دیکھ سکتے ہیں، تاہم یہ ضرور ہے کہ معلوم کریں ہم کیا نہیں دیکھ سکتے - تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ پہلے کیا چیز ظاہر تھی، یعنی 'معلوم' نامعلوم۔ تاریک مادّے کے لئے ہر نیا بنیادی ذرّہ اس تاریک مادّے کے ذرّات کا براہ راست سراغ لگانے کے لئے تجربات کے لئے نئے امکانات کی تجویز دیتا ہے جو پوری کہکشاں میں پھر رہے ہیں، اس کام کے لئے زمین پر نئے آلات بنا کر ان کا سراغ اس وقت لگایا جائے جب زمین ان کی خلاء میں حرکت میں حائل ہو۔ دور دراز اجسام کی تلاش کرنے کے لئے دوربین کا استعمال کرنے کے بجائے، اگر تاریک مادّے کے ذرّات پوری کہکشاں میں منتشر ہو کر سرایت کئے ہوئے ہیں، تب وہ ہمارے ساتھ اب بھی ہیں، اور ارضی سراغ رساں ممکن ہے کہ ان کے وجود کو ظاہر کر دیں۔

3۔ ہم تاریک مادے کی نوعیت، اور اس کی کثرت کا تعین کر سکیں، تو ہم اس بات کا تعین کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں کہ کس طرح سے کائنات کا اختتام ہو گا۔

آخری امکان سب سے زیادہ دلچسپ ہے لہٰذا میں اس سے شروعات کروں گا۔ بے شک میں علم کائنات میں اس لئے ملوث ہوا تھا کیونکہ میں پہلا شخص بننا چاہتا تھا جو یہ جانے کہ کائنات کا اختتام کیسے ہو گا۔

اس وقت یہ ایک اچھا خیال تھا۔

جب آئن سٹائن نے اپنی عمومی نظریہ اضافیت کو بنایا تھا، اس کے قلب میں یہ امکان تھا کہ خلاء مادّے یا توانائی کی موجودگی میں خم زدہ ہو سکتا ہے۔ یہ نظریاتی تصور 1919ء میں اس وقت صرف قیاس سے زیادہ نہیں تھا جب دو مہمات نے سورج گرہن کے دوران سورج کے گرد ستاروں کی روشنی کو خم زدہ بعینہ ویسے ہی دیکھا جیسا کہ آئن سٹائن نے سورج کی موجودگی میں خلاء کو اس کے ارد گرد خم زدہ ہونے کا قیاس کیا تھا۔ آئن سٹائن فوری طور پر مشہور ہو گیا اور گھر گھر جانا جاننے لگا۔ (آج زیادہ تر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ پہلے پیش کی جانے والی 2 E = mc کی مساوات کی وجہ سے مشہور ہوا تھا، پر ایسا نہیں تھا)، جو اس کے پندرہ برس کے بعد آئی تھی۔

اب جب خلاء ممکنہ طور پر خم زدہ ہے، تب ہماری پوری کائنات کی جیومیٹری یکایک کافی زیادہ دلچسپی کی حامل ہو جاتی ہے۔ ہماری کائنات کی کل مادّے کی مقدار پر منحصر، اس کی شکل تین جیومیٹریوں میں سے ایک کی صورت ہو سکتی ہے، جس کو کھلی، بند یا چپٹا کہہ سکتے ہیں۔

اس بات کا تصور کرنا مشکل ہے کہ سہ جہتی خم زدہ خلاء اصل میں کیسی دکھائی دیتی ہو گی۔ کیونکہ ہم سہ جہتی ہستیاں ہیں، ہم اس سے زیادہ آسانی سے خم زدہ جہتی خلاء کے بارے میں بدیہی طور پر تصور نہیں کر سکتے جیسا کہ مشہور کتاب فلیٹ لینڈ جیسی دو جہتی مخلوق تصور کر سکتی تھی کہ ان کی دنیا اگر وہ کرہ کی طرح خمیدہ ہو تو تیسری جہت کے شاہد کو کیسی لگتی ہو گی۔ مزید براں اگر خم بہت چھوٹا ہے، تو یہ تصور کرنا محال ہے کہ کوئی اس کو روز مرہ زندگی میں کیسے دیکھے گا، بعینہ جیسے قرون وسطیٰ میں کم از کم کافی لوگ سمجھتے تھے کہ زمین کو چپٹا ہونا چاہئے کیونکہ ان کے نقطہ نظر سے یہ چپٹی نظر آتی تھی۔

خمیدہ سہ جہتی کائنات کا تصور بند کائنات میں کرنا مشکل ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ سہہ جہتی کرہ، جو کافی خوبصورت لگتا ہے - تاہم کچھ پہلوؤں کی آسانی سے وضاحت کی جا سکتی ہے۔ اگر آپ ایک بند کائنات میں کسی ایک سمت میں کافی دور تک دیکھیں گے، تو آپ کو اپنے سر کا پچھلا حصّہ نظر آئے گا۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب 2 - 3
ایک پراسرار کائناتی کہانی: کائنات کا وزن - حصّہ سوم



اگرچہ یہ اجنبی جیومیٹریاں بات کرنے کے لئے دلچسپ یا متاثر کن لگتی ہیں، کام کرنے کے لئے ان کی موجودگی کے بہت زیادہ عواقب ہوں گے۔ عمومی اضافیت ہمیں واضح طور پر بتاتی ہے کہ بند کائنات جس کی توانائی کی کثافت پر مادّے کا غلبہ ہے جیسے کہ ستارے اور کہکشائیں، اور بلکہ مزید اجنبی تاریک مادّہ، لامحالہ طور پر ایک دن بگ بینگ کے الٹ عمل -عظیم چرمراہٹ میں منہدم ہو جائے گی، اگر آپ چاہیں۔ ایک کھلی کائنات لا متناہی شرح پر ہمیشہ پھیلنا جاری رکھے گی، اور ایک چپٹی کائنات بالکل کنارے پر ہو گی، آہستہ تو ہو گی تاہم کبھی رکے گی نہیں۔

تاریک مادّے کی مقدار کا تعین کر کے کائنات کی کل کثافت کی کمیت معلوم کر کے ہمیں پرانے سوال کے جواب کو ظاہر کرنے کی وعید ملتی ہے (کم از کم ٹی ایس ایلویٹ جتنا پرانا): کیا کائنات کا اختتام دھماکے میں یا بسورتے ہوئے ہو گا؟ تاریک مادّے کی کل فراوانی کی مہم کم از کم نصف صدی پرانی ہے، اور کوئی اس کے بارے میں پوری کتاب لکھ سکتا ہے، اصل میں یہ کام اپنی کتاب نمونہ کامل میں کر چکا ہوں۔ بہرحال اس صورت میں، میں مظاہرہ کروں گا (دونوں الفاظ اور پھر تصویر کے ساتھ)، کہ یہ سچ ہے کہ ایک تصویر کم از کم ہزار الفاظ (یا شاید ایک لاکھ الفاظ )کے برابر ہوتی ہے۔

کائنات میں سب سے بڑی ثقلی طور پر بندھی ہوئی ساخت کہکشاؤں کے فوق جھرمٹ کہلاتی ہے۔ اس طرح کے اجسام میں ہزاروں انفرادی کہکشائیں یا زیادہ ہو سکتی ہیں اور کروڑوں نوری برس تک پھیلی ہوئی ہو سکتی ہیں۔ ان فوق جھرمٹوں میں زیادہ تر کہکشائیں موجود ہوتی ہیں اور درحقیقت ہماری اپنی کہکشاں کہکشاؤں کے سنبلہ فوق جھرمٹ کے اندر واقع ہے، جس کا مرکز لگ بھگ ہم سے 6 کروڑ نوری برس دور ہے۔

کیونکہ فوق جھرمٹ بہت ہی بڑے اور بہت زیادہ ضخیم ہوتے ہیں، بنیادی طور پر کوئی بھی چیز جس میں موجود ہو گی وہ یہی جھرمٹ ہوں گے۔ لہٰذا اگر ہم ان کہکشاؤں کے فوق جھرمٹوں کا وزن کریں اور اس کے بعد کائنات میں ان فوق جھرمٹوں کی کل کمیت کا تخمینہ لگائیں، تب ہم "کائنات کا وزن" بشمول تاریک مادّے کے کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد عمومی اضافیت کی مساوات کا استعمال کر کے، ہم تعین کر سکتے ہیں کہ آیا بند کائنات کے لئے مادّہ میسر ہے یا نہیں۔

ابھی تک تو کافی اچھا چل رہا ہے، تاہم ہم کس طرح سے ان اجسام کا وزن کریں گے جو کروڑوں نوری برس پر پھیلے ہوئے ہیں ؟ جواب بہت سادہ ہے ۔ کشش ثقل کا استعمال کریں۔

1936ء میں، البرٹ آئن سٹائن نے ایک شوقیہ فلکیات دان، روڈی منڈل، کی درخواست پر ایک مختصر مضمون ایک جریدے میں شایع کیا جس کا عنوان "ثقلی میدان میں ستارے کی روشنی کے انحراف سے عدسے -جیسی سرگرمی۔ " اس مختصر مضمون میں آئن سٹائن نے حیران کن حقیقت کا مظاہرہ کیا کہ خلاء بذات خود عدسے کی طرح برتاؤ کرتی ہے، روشنی کو خم دیتی ہے اور اس کو بڑا کرتی ہے، جس طرح سے میرے پڑھنے کے چشمے کے عدسے کرتے ہیں۔

1936ء میں یہ مہربان اور نرم وقت تھا، اور آئن سٹائن کے مقالے کی غیر رسمی ابتداء پڑھنا دلچسپ ہے، جو بہرحال ایک ممتاز سائنسی جریدے میں شایع ہوا تھا: "کچھ وقت پہلے آر ڈبلیو منڈل میرے پاس آیا اور مجھ سے کچھ حسابات کے نتائج کو شایع کرنے کا کہا، جو میں نے اس کی درخواست پر کر دیا۔ یہ مضمون اس کی خواہش کو پورا کرتا ہے۔ "غالباً یہ غیر رسمی سرفرازی اس کو ملی تھی کیونکہ وہ آئن سٹائن تھا، تاہم میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ اس دور کا نتیجہ تھا، جب سائنسی نتائج ہمیشہ اس زبان میں شائع کئے جاتے تھے جس سے عام اسلوب گفتگو کو نکال دیا جاتا تھا۔

کسی بھی صورت میں، یہ حقیقت کہ روشنی خمیدہ خط پرواز کی پیروی کرتی ہے اگر خلاء خود سے مادّے کی موجودگی میں خمیدہ ہو، عمومی اضافیت کا یہ پہلا اہم اندازہ تھا اور دریافت نے آئن سٹائن کو بین الاقوامی شہرت دلائی، جیسا کہ میں نے ذکر کیا تھا۔ تو غالباً یہ کچھ زیادہ حیرت کی بات نہیں ہے (جیسا کہ حالیہ طور پر دریافت ہوا ہے ) کہ 1912ء میں، اصل میں اس سے پہلے جب آئن سٹائن نے اپنی عمومی اضافیت کا نظریہ مکمل کیا تھا، اس نے حسابات لگائے، جیسا کہ اس نے کوشش کی کہ کچھ قابل مشاہدہ مظاہر مل سکیں جو فلکیات دانوں کو اس کے تصورات کو جانچنے کے لئے قائل کر سکیں - جو لازمی طور پر اس سے مشابہ ہوں جو اس نے 1936ء میں جناب مینڈل کی درخواست پر شایع کئے تھے۔ غالباً کیونکہ وہ انہیں نتائج پر 1912ء میں پہنچ گیا تھا جو اس نے 1936ء میں اپنے مقالے میں بعنوان "اس مظہر کو دیکھنے کا کوئی موقع نہیں ہے" شایع کیا، اس نے کبھی بھی اپنے پہلے کے کام کو شایع کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اصل میں دونوں ادوار کی اس کی نوٹ بک کی جانچ کے بعد، ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ بعد میں اس کو یاد بھی رہا ہو گا کہ اس نے چوبیس برس پہلے اصل حسابات لگائے تھے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب 2 - 4
ایک پراسرار کائناتی کہانی: کائنات کا وزن - حصّہ چہارم



دونوں واقعات میں جو چیز آئن سٹائن نے سمجھ لی تھی وہ یہ کہ ثقلی میدان میں روشنی خمیدہ ہونے کا مطلب ہو سکتا ہے کہ اگر روشن اجسام کسی کمیت کی تقسیم کے درمیان حائل ہونے والی جسم کے پیچھے ہو، مختلف سمتوں میں جانے والی روشنی کی اشعاع حائل ہونے والی تقسیم کے ارد گرد خمیدہ ہو کر دوبارہ ایک نقطہ پر مرکوز ہوں گے، بالکل ایسے جیسا کہ وہ اس وقت کرتے ہیں جب وہ ایک عام عدسے میں اندر آتے ہیں، جس سے یا تو اصل جسم کو بڑا کر دیتا ہے یا پھر اصل جسم کی کئی نقول کو بناتی ہے، جس میں سے کچھ ہو سکتا ہے کہ بگڑی ہوئی ہوں (نیچے تصویر دیکھیں )۔

جب اس نے پس منظر میں حائل ستارے کا دور دراز ستارے کے عدسے کے لئے اندازہ لگائے گئے اثرات کا حساب لگایا تو اثر اتنا چھوٹا تھا کہ وہ مطلق طور پر ناقابل پیمائش لگا، جس نے اسے یہ اوپر بتایا ہوا تبصرہ کرنے پر مجبور کیا - یعنی کہ اس کا امکان نہیں ہے کہ اس طرح کے کسی مظہر کا کبھی بھی مشاہدہ کیا جا سکے گا۔ نتیجتاً، آئن سٹائن نے سمجھا کہ اس کے مضمون کی عملی قدر کم ہو گی۔ جیسا کہ اس نے اس وقت سائنس کے مدیر کے نام اپنے تشریحی مراسلے میں لکھا: "مجھے اس چھوٹی اشاعت کے لئے، جو جناب مینڈل نے مجھ سے زبردستی لکھوایا، آپ اپنے تعاون کا شکریہ ادا کرنے دیں۔ اس کی کوئی خاص قدر نہیں ہے، تاہم یہ اس بیچارے لڑکے کو خوش کر دے گی۔ "

بہرحال، آئن سٹائن فلکیات دان نہیں تھا اور اس بات کا کوئی بھی احساس کر سکتا ہے کہ آئن سٹائن نے جس اثر کا اندازہ لگایا نہ صرف وہ قابل پیمائش تھا بلکہ وہ مفید بھی تھا۔ اس کی افادیت ستارے کے پیچھے ستارے کے عدسے سے نہیں بلکہ اس کا اطلاق کافی بڑے نظام کے دور دراز اجسام کے عدسے جیسا کہ کہکشائیں یا بلکہ کہکشاؤں کے جھرمٹ پر کر کے حاصل ہوتی ہے۔ آئن سٹائن کی اشاعت کے چند ماہ کے اندر، کالٹک کے ذہین فلکیات دان فرٹز زویکی نے فزیکل ریویو میں ایک مقالہ جمع کروایا جس میں اس نے اس درست طور پر اس امکان کے عملی اطلاق کا مظاہرہ کیا (اور بلاواسطہ طور آئن سٹائن کو ستاروں کے بجائے کہکشاؤں کے ممکنہ عدسی اثر کے بارے میں زیر بار کیا)۔

زویکی ایک چڑچڑا کردار اور اپنے وقت سے کہیں آگے تھا۔ 1933ء تک اس نے کوما جھرمٹ میں کہکشاؤں کی اضافی حرکت کا تجزیہ، نیوٹن کے حرکت کے قوانین کے استعمال کو کر کے کر لیا تھا، یعنی کہ کہکشائیں اتنی تیزی سے حرکت کر رہی تھیں کہ ان کو الگ الگ ہو جانے چاہئے تھا، اور جھرمٹ کو تباہ کر دینا چاہئے تھا تاوقتیکہ جھرمٹ میں مزید کمیت صرف ستاروں کی کمیت سے 100 گنا سے بھی زیادہ ہو۔ اس طرح اس کو صحیح طریقے سے تاریک مادّے کا دریافت کرنے والا سمجھنا چاہئے، اگرچہ اس کا استنباط اتنا شاندار تھا کہ زیادہ تر فلکیات دان غالباً یہ سمجھتے تھے کہ اس کے حاصل کردہ نتائج کی کچھ کم اجنبی وضاحت ہو گی۔

1937ء میں زویکی کا ایک صفحے کا مقالہ بھی اتنا ہی قابل ذکر تھا۔ اس نے ثقلی عدسے کے تین مختلف استعمال تجویز کئے :(1) عمومی اضافیت کی جانچ، (2) حائل کہکشاؤں کو بطور ایک قسم کی دوربین کے طور پر استعمال کر کے دور دراز کے اجسام کو بڑا کرنا جو بصورت دیگر زمینی دوربینوں سے نظر نہیں آتے، اور سب سے اہم، (3) اس اسرار کو حل کرنا کہ آیا کیوں جھرمٹ بصری مادّے کو ملانے کے بعد بھی زیادہ بھاری نظر آتے ہیں :"سحابیہ کے قریب روشنی کے خمیدہ ہونے کے مشاہدات سحابیوں کے سب سے زیادہ براہ راست کمیت کا تعین کر سکتے ہیں اور مذکورہ بالا اختلاف کو دور کر سکتے ہیں۔ "

زویکی کا مقالہ اب چوہتر برس کا ہو چکا ہے تاہم کائنات کی کھوج کے لئے ثقلی عدسے کے استعمال کی جدید تجویز لگتا ہے۔ اصل میں ہر ایک تجویز جو اس نے کی اس کو کامیاب ہونا تھا، اور آخری والی سب سے زیادہ اہم تھی۔ دور دراز کوزار کا حائل کہکشاؤں سے ثقلی عدسہ پہلی مرتبہ 1987ء اور 1998ء میں زویکی کے ثقلی عدسے کی مدد سے سحابیہ کو وزن کرنے کے اکسٹھ برس کے بعد مشاہدہ کیا گیا، بڑے جھرمٹ کی کمیت کا تعین ثقلی عدسے کے استعمال کو کر کے کیا گیا۔

اس سال میں، طبیعیات دان ٹونی ٹائیسن اور اس کے رفقاء نے اب کالعدم بیل لیبارٹریز میں (جس کی سائنسی عظیم اور عالی شان اور نوبل انعام حاصل کرنے کی روایت ٹرانزسٹر کی دریافت سے پس منظر کی خرد امواج کی اشعاع کی دریافت تک رہی ہے ) ایک دور دراز کا بڑا جھرمٹ دیکھا جس کو رنگا رنگ نام CL 0024 +1654 دیا گیا تھا، اور جو لگ بھگ 5 ارب نوری برس دور تھا۔ ہبل خلائی دوربین سے لی گئی اس خوبصورت تصویر میں، دور دراز کہکشاں کی ایک سے زیادہ تصویر کی ایک شاندار مثال جو 5 ارب نوری برس کے فاصلے پر ایک جھرمٹ کے پیچھے موجود ہے ایک بہت زیادہ بگڑی ہوئی اور لمبوتری تصویر کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے جو بصورت دیگر عام طور پر گول کہکشائیں ہوتی ہیں۔

اس تصویر کو دیکھ کر تخیل کے لئے ایندھن ملتا ہے۔ سب سے پہلے اس تصویر میں ہر نقطہ ایک ستارہ نہیں کہکشاں ہے۔ اور غالباً ہر کہکشاں میں 1 کھرب ستارے موجود ہیں جن کے ساتھ غالباً دسیوں کھربوں سیارے اور شاید کافی عرصے رہنے والی تہذیب بھی ہو گی۔ میں نے کہا کہ کافی پہلے ختم ہونے والی کیونکہ تصویر 5 ارب برس پرانی ہے۔ یہ روشنی لگ بھگ ہمارے سورج اور اس کے گرد زمین بننے سے 50 کروڑ پہلے خارج ہوئی تھی۔ تصویر میں شامل کئی ستارے اب باقی نہیں رہے ہوں گے، کیونکہ انہوں نے اپنا نیوکلیائی ایندھن ارب ہا برسوں پہلے ختم کر دیا ہو گا۔ اس کے آگے، بگڑی ہوئی تصویر درستگی سے دکھاتی ہے کہ جو زویکی دلیل دیتا تھا وہ ممکن تھی۔ تصویر کے مرکز کے بائیں طرف بڑی بگڑی ہوئی تصویر اس دور دراز کہکشاں کی بہت زیادہ بڑی (اور لمبی) کی گئی تصویر ہے، جو بصورت دیگر غالباً نظر ہی نہیں آتی۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب 2 - 5
ایک پراسرار کائناتی کہانی: کائنات کا وزن - حصّہ پنجم



اس تصویر سے پیچھے کی طرف کام کر کے جھرمٹ میں کمیت کی تقسیم کا تعین کرنا ایک پیچیدہ اور ریاضیاتی چیلنج ہے۔ ایسا کرنے کے لئے ٹائیسن کو جھرمٹ کے لئے کمپیوٹر کا ماڈل بنانا تھا اور منبع سے آنے والی جھرمٹ میں اشعاع کا سراغ تمام ممکنہ سمتوں میں، عمومی اضافیت کے قوانین کا استعمال کر کے مناسب راستوں کا تعین اس وقت تک کرنا تھا جب تک نتائج محققین کے مشاہدات سے بہترین طور پر میل نہیں کھا جاتے۔ جب دھول بیٹھ گئی، ٹائیسن اور رفقاء نے ایک ترسیمی تصویر لی جو درست طور پر بتا رہی تھی کہ کمیت نظام کی اس تصویر میں اصل تصویر میں کہاں پر واقع ہے :

اس تصویر میں کچھ عجیب چیزیں چل رہی ہیں۔ گراف میں موجود نوکیں خطوط نظر آنے والی کہکشاؤں کے مقام کو اصل تصویر میں ظاہر کرتی ہیں، تاہم نظام کی زیادہ تر کمیت کہکشاؤں کے درمیان ہموار تاریک تقسیم واقع ہے۔ اصل میں، 40 فیصد سے زیادہ کمیت کہکشاؤں کے درمیان نظر آنے والے مادّے کی نسبت سے نظام میں زیادہ موجود ہے (صرف ستاروں کے مقابلے میں 300 سے زائد جبکہ باقی نظر آنے والا مادّہ ان کے گرد گرم گیس کی صورت میں ہے )۔ تاریک مادّہ واضح طور پر صرف کہکشاؤں کی حد تک نہیں تھا بلکہ کہکشاؤں کے جھرمٹوں کی کمیت پر بھی غالب تھا۔

میرے جیسے ذرّاتی طبیعیات اس بات کو جان کر حیران نہیں ہوئے تھے کہ تاریک مادّہ جھرمٹوں پر بھی غالب ہے۔ اگرچہ ہمارے پاس براہ راست ثبوت نہیں تھے، ہم سب امید کرتے تھے کہ تاریک مادّے کی مقدار چپٹی کائنات کی صورت کے لئے کافی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ بصری مادّے سے 100 گنا زیادہ تاریک مادّہ کائنات میں موجود ہے۔

وجہ بہت سادی ہے : ایک چپٹی کائنات ہی ریاضیاتی طور پر صرف خوبصورت کائنات ہوتی ہے۔ کیوں ؟جاننے کے لئے ساتھ رہئے۔

چاہئے تاریک مادّے کی کل مقدار چپٹی کائنات کو بنانے کے لئے موجود ہو یا نہ ہو، مشاہدات جیسا کہ ثقلی عدسے سے حاصل کردہ نتائج (میں آپ کو یاد دلاتا چلوں کہ ضخیم اجسام کے گرد خلاء کی مقامی خمیدگی سے حاصل کردہ ثقلی عدسے کے نتائج، ضخیم اجسام کے گرد مقامی لہروں کو نظر انداز کرتے ہیں ) اور فلکیات کے دوسری جگہوں سے حاصل کردہ مزید حالیہ مشاہدات تصدیق کرتے ہیں کہ کہکشاؤں اور جھرمٹوں میں تاریک مادّے کی کل مقدار اس سے کہیں زیادہ ہے جو بگ بینگ کے نیوکلیائی تالیف کے حسابات بتاتے ہیں۔ اب ہم کافی حد تک یقین رکھتے ہیں کہ تاریک مادّہ - جس کو میں دوبارہ دہراتا ہوں، کو مختلف آزاد ذرائع سے مختلف فلکی طبیعیاتی پس منظر سے حاصل کیا گیا ہے، کہکشاؤں سے کہکشاؤں کے جھرمٹوں تک - لازمی طور پر مکمل کسی اور نئی چیز سے بنا ہونا چاہئے، کچھ ایسا جو عام طور پر زمین پر نہیں پایا جاتا۔ اس طرح کا مادّہ، جو ستاروں کا مادّہ نہیں ہے، وہ زمین کا مادّہ بھی نہیں ہے۔ لیکن یہ کچھ ہے !

ہماری کہکشاں کے تاریک مادّے کے ابتدائی استخراج میں تجرباتی طبیعیات کے میدان کی مکمل طور پر ایک نئی قسم ہے، اور میں یہ خوشی سے کہتا ہوں کہ میں نے اس کی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ جیسا کہ میں مذکورہ بالا ذکر کیا ہے، تاریک مادّے کے ذرّات ہمارے ارد گرد موجود ہیں، اس کمرے میں جس میں، میں لکھ رہا ہوں اور "باہر" خلاء میں بھی۔ لہٰذا ہم تاریک مادّے کو دیکھنے کے لئے اور بنیادی ذرّے یا ذرّات کی نئی قسم کو جس سے مل کر وہ بنے ہیں تجربات کر سکتے ہیں۔

تجربات گہری زیر زمین سرنگوں اور کانوں میں کئے جا رہے ہیں۔ زیر زمین کیوں ؟ کیونکہ زمین کی سطح پر باقاعدگی سے تمام اقسام کی کائناتی اشعاع کی بمباری ہوتی ہے، سورج سے لے کر کافی دور دراز اجسام تک۔ کیونکہ تاریک مادّہ اپنی نوعیت میں برقی مقناطیسی طور پر متعامل ہو کر روشنی نہیں پیدا کرتا، ہم فرض کرتے ہیں کہ اس تعامل عام مادّے سے حد درجہ طور پر کمزور ہوتا ہے، لہٰذا اس کا سراغ لگانا حد درجے مشکل ہو گا۔ یہاں تک کہ اگر روزانہ ہمارے اوپر تاریک مادّے کے کروڑوں ذرّات کی بارش بھی ہوتی ہے، تو اس میں سے زیادہ تر تو ہم میں سے اور زمین سے گزر جاتے ہیں، اس بات کو "جانے " بغیر کہ ہم یہاں موجود ہیں اور ہم کو توجہ ہی نہیں دیتے۔ لہٰذا اگر آپ اس اصول کے بہت ہی نایاب اِستثنیٰ کے اثر کا سراغ لگانا چاہتے ہیں، تاریک مادّے کے ذرّات جو اصل میں مادّے کے جوہر سے ٹکراتے ہیں، تو آپ کو سراغ لگانے کے بہت ہی کمیاب اور کبھی کبھار ہونے والے واقعات کے لئے تیار ہونا پڑے گا۔ صرف زیر زمین میں ہی آپ کائناتی اشعاع سے اچھی طرح سے محفوظ ہوتے ہیں تاکہ اس طرح اصولی طور پر ممکن ہو سکے۔

جب میں یہ لکھ رہا ہوں، ایک ایسا ہی پرجوش امکان ابھر رہا ہے۔ جنیوا، سویٹزرلینڈ کے باہر، لارج ہیڈرون کولائیڈر، دنیا کا سب سے بڑا اور طاقتور ذرّاتی اسراع گر نے ابھی کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ تاہم ہماری پاس یقین کرنے کے لئے کئی وجوہات ہیں کہ بہت بلند توانائی جس پر پروٹون ایک ساتھ آلے میں ٹکراتے ہیں، صورتحال جیسی کہ بہت ابتدائی کائنات میں تھی ویسی بنائی جا سکتی ہے، اگرچہ ایسا بہت ہی چھوٹے خرد علاقے میں ہوتا ہے۔ ایسے علاقوں میں وہی تعاملات جنہوں نے پہلی مرتبہ اب تاریک مادّہ کہلانے والے ذرّات کو بہت ہی ابتدائی کائنات کے دوران بنایا تھا ہو سکتا ہے کہ تجربہ گاہ میں اسی طرح کے ذرّات کو پیدا کر دیں ! لہٰذا زبردست دوڑ لگی ہوئی ہے۔ تاریک مادّے کے ذرّات کا سراغ پہلے کون لگائے گا: گہرے زیر زمین میں کئے جانے والے تجرباتی یا لارج ہیڈرون کولائیڈر میں کئے جانے والے آزمائش کار؟ اچھی خبر یہ ہے کہ کوئی بھی جماعت دوڑ کو جیتے تب بھی کوئی بھی ہارے گا نہیں۔ یہ جان کر کہ مادّے کا حتمی جز کیا ہے سب جیت جائیں گے۔

یہاں تک کہ فلکی طبیعیاتی پیمائش جس کی میں نے وضاحت کی ہے تاریک مادّے کی شناخت کو ظاہر نہیں کرتی، یہ ہمیں بتاتی ہے کہ وہ کتنا موجود ہے۔ ایک حتمی کائنات میں مادّے کی کل مقدار کا براہ راست تعین ثقلی عدسے سے کی گئی پیمائش کے خوبصورت استنباط سے ایسا آیا جیسا کہ میں نے وضاحت کی تھی اور جھرمٹوں سے خارج ہونے والی ایکس رے کے مشاہدات سے مل گیا۔ جھرمٹوں کی کل کمیت کے آزاد تخمینہ جات لگانا ممکن ہے کیونکہ جھرمٹوں میں موجود گیس کا درجہ حرارت جو ایکس رے پیدا کر رہا ہے اس کا تعلق اس نظام کی کل کمیت سے ہے جس سے وہ خارج ہو رہے ہیں۔ نتائج حیران کن، اور جیسا کہ میں نے اشارہ دیا تھا ہم میں سے کئی سائنس دانوں کے لئے مایوس کن تھے۔ جب دھول بیٹھ گئی، لفظی اور تشبیہاتی طور پر، کہکشاؤں اور جھرمٹوں میں اور ان کے ارد گرد کل کمیت اس کمیت کا 30 فیصد نکلی جو آج ایک چپٹی کائنات کے لئے درکار ہے۔ (غور کریں کہ یہ اس نظر آنے والے مادّے سے 40 گنا تک زیادہ ہے، جو چپٹی کائنات کو بنانے کے لئے 1 فیصد سے بھی کم ہے۔ )

آئن سٹائن حیران رہ گیا ہوتا اس کی "چھوٹی اشاعت" حتمی طور پر بے سود ہونے سے کہیں زیادہ دور ہے۔ نئے اضافی حیران کن تجربات اور مشاہداتی آلات جنہوں نے کائنات کے نئے دریچے وا کر دیئے، نئی نظریاتی ترقی جو اس کو حیران اور خوش کر دیتی، اور تاریک مادّے کی دریافت جو اس کا فشار خون بڑھا دیتی، آئن سٹائن کا خمیدہ خلاء کی دنیا میں چھوٹا سا قدم حتمی طور پر ایک عظیم قدم میں بدل گیا۔ 1990ء کے ابتدائی عشرے میں، علم کائنات کا شجر ممنوع بظاہر حاصل ہو گیا تھا۔ مشاہدات نے تعین کر دیا تھا کہ ہم ایک کھلی کائنات میں رہتے ہیں، ایک ایسی جو ہمیشہ پھیلتی رہے گی۔ کیا واقعی ایسا ہی تھا؟​
 
Top