زہیر عبّاس
محفلین
تمام تعریفیں اس پروردگار کے لئے جو تمام جہانوں کا رب ہے اور درودو سلام ہو حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی مطہر آل و اولاد پر ۔
کائنات کا آغاز کیسے ہوا؟ اس میں ہم اور ہماری دنیا سمیت نظر آنے والا مادہ کہاں سے آیا اور کیسے بنا؟ غالباً اس سوال نے انسانیت کو کافی عرصے سے پریشان کیا ہوا ہے اور وہ مسلسل اس جستجو میں ہے کہ کسی طرح کائنات کے آغاز و ارتقاء کے مراحل کی اچھی طرح سے تفہیم حاصل کر لے۔ پھیلتی ہوئی کائنات کا تصور کچھ زیادہ عرصہ پرانا نہیں ہے ۔ پچھلی صدی کے تیسرے عشرے کے اختتام تک ایڈون ہبل نے اپنے مشاہدات سے ثابت کیا کہ صرف ملکی وے کہکشاں ہی کل کائنات نہیں ہے بلکہ یہ تو کھربوں کہکشاؤں میں سے صرف ایک کہکشاں ہے اور اس نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ یہ بھی ثابت کیا کہ کائنات پھیل رہی ہے۔
پھیلتی ہوئی کائنات کا اثر علم کائنات پر بہت عمیق پڑا ، اگر وقت کو پیچھے کی طرف چلانا شروع کیا جائے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب ہر چیز ایک ایسے نقطے میں سمائی ہوئی ہوگی جس کا حجم صفر اور کمیت لامتناہی ہوگی۔ بالفاظ دیگر کائنات کا آغاز عدم سے ہوا یا دوسرے الفاظ میں کائنات عدم سے وجود میں آئی۔
عدم سے وجود میں آنے والی کائنات کو موحد ین و ملحدین دونوں نے اپنے اپنے عقائد کو ثابت کرنے کے لئے استعمال کرنا شروع کیا۔ زیر نظر کتاب مشہور نظری طبیعیات دان اور ماہر تکوینیات لارنس ایم کراس کی" آ یونیورس فرام نتھنگ"، کا اردو ترجمہ ہے۔ لارنس ایک کٹر ملحد ہیں اور جیسا کہ انہوں نے اس کتاب کی تمہید باندھتے ہوئے لکھا کہ اس کتاب کا لکھنے کا اصل مقصد اس بات کو ثابت کرنا ہے کہ کائنات عدم سے وجود میں بغیر کسی خالق کی موجودگی سے آسکتی ہے ۔ بہرحال لارنس کے ملحدانہ عقائد سے قطع نظر اس کتاب میں بڑی خوبی سے کائنات کے عدم سے وجود میں آنے کی کہانی کوسائنسی نقطہ نظر سے بیان کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے ترجمے کو شائع کرنے کا مقصد ملحدانہ عقائد کی ترویج نہیں بلکہ اس کائنات کی ابتداء کے بارے میں تازہ ترین تحقیق و افکار کا اشتراک ہے۔
مترجم
زہیر عبّاس
تمہید
خواب ہو یا ڈراؤنا خواب جاگنے کے بعد ہمیں اسی کی یاد کے ساتھ رہنا ہوتا ہے ، بعینہ جیسے ہمیں اپنے تجربے کے ساتھ زندہ رہنا ہوتا ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جس میں سائنس پوری طرح سے سرایت کر گئی ہے اور جو پوری اور حقیقی دونوں ہی ہے۔ ہم کسی کی حمایت کرکے اس کو کھیل میں نہیں بدل سکتے۔
جیکب برونوسکی
میں شروع میں ہی بغیر کسی لگی لپٹے بغیر یہ تسلیم کرتا ہوں کہ میں اس پر یقین نہیں رکھتا کہ تخلیق کے لئے کسی خالق کی ضرورت ہے جو دنیا کے تمام مذاہب کی بنیاد ہے۔ یخ موسم سرما کی صبح میں برف کے گالے سے لے کر موسم گرما کی پھوار کی طویل دوپہر کے بعد تھرتھراتی قوس و قزح تک ہر روز خوبصورت اور معجزاتی اجسام یکایک ظاہر ہوتے ہیں ۔ اس کے باوجود کوئی اور نہیں بلکہ جذباتی بنیاد پرست تجویز کرتے ہیں کہ اس طرح کا ہر جسم پیار اور عرق ریزی اور سب سے اہم کسی مقصد سے کسی خدائی حکمت کی تخلیق ہے۔ حقیقت میں کئی عام آدمی اور سائنس دان ہماری اس لیاقت پر مسرور ہوتے ہیں جس سے ہم بیان کر سکتے ہیں کہ کس طرح سے برف کا گالا اور قوس و قزح خود بخود خوبصورت قوانین طبیعیات کی بنیاد پر ظاہر ہو جاتی ہیں۔
بلاشبہ کوئی بھی پوچھ سکتا ہے اور کئی ایسا کرتے بھی ہیں، "قوانین طبیعیات کہاں سے آئے ؟"بلکہ زیادہ تو یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں، "یہ قوانین کس نے بنائے ہیں ؟"اگر کوئی اس پہلے استفسار کا جواب بھی دے سکتا ہو، تو سوال کرنے والا پھر بھی اکثر پوچھتا ہے، 'لیکن یہ آئے کہاں سے ؟"یا "اسے کس نے بنایا ہے ؟" وغیرہ وغیرہ۔
بالآخر کئی صاحب فکر لوگ بظاہر پہلی وجہ کی ضرورت کی طرف آئے جیسا کہ پلاٹو، اقیناس یا جدید رومی کیتھولک گرجا گھر اس کو ایسا سمجھتے ہیں لہٰذا وہ کسی خدائی ہستی کو فرض کرتے ہیں : ایک ایسا خالق جو موجود ہے اور یہاں ہمیشہ کوئی یا کوئی چیز ابدی اور جا بجا موجود ہو گا/ ہوگی۔
بہرحال پہلی وجہ کا اعلان اب بھی جواب طلب ہے، "خالق کو کس نے تخلیق کیا ہے ؟"بہرحال اس بحث میں کیا فرق ہے کہ کوئی ایک ازلی خالق کا وجود ہے یا کائنات بغیر کسی خالق کے ازل سے موجود ہے ؟
یہ دلائل ہمیشہ مجھے اس مشہور کہانی کی یاد دلاتے ہیں جس میں ایک ماہر کائنات کے ماخذ کے بارے میں لیکچر دے رہا تھا ( کبھی اس کو برٹرینڈ رسل اور کبھی ولیم جیمز کہا جاتا ہے )، جس کو ایک عورت نے للکارا تھا جس کو یقین تھا کہ دنیا کو ایک عظیم کچھوے نے تھاما ہوا ہے، اور اس کچھوے کو ایک اور دوسرے کچھوے نے، اور اس کو۔ ۔ ۔ ایک اور کچھوے نے " اور یوں یہ سلسلہ نیچے تک چلا جاتا ہے !" کسی تخلیقی قوت کی ایک لامحدود مراجعت جس نے اپنے آپ کو خود جنا تھا یہاں تک کہ کچھ تخیلاتی قوت جو ان کچھووں سے بھی عظیم ہے، اور اس کے تو قریب بھی نہیں پھٹکتی جس نے کائنات کی تخلیق کی ہے۔ اس بات سے قطع نظر اس لامحدود رجعت کے استعارہ حقیقت میں اصل عمل کے قریب تر ہو سکتا ہے جس کے ذریعہ کائنات وجود میں آئی بجائے کوئی اس کو کسی واحد خالق سے بیان کرے۔
سوال سے دور جاتے ہوئے خدا کے ساتھ مقابلہ روک کر یہ دلیل دیتے ہوئے شاید لگ سکتا ہے کہ لامتناہی رجعت سے بچا جا سکتا ہے تاہم یہاں پر میں اپنے منتر کو پکارتا ہوں : کائنات ایسی ہے جیسی کہ ہونی چاہئے، چاہئے ہمیں اچھا لگے یا نہ لگے۔ خالق کا وجود یا عدم وجود ہماری خواہشات سے آزاد ہے۔ خدا کے بغیر دنیا یا مقصد سخت یا فضول لگ سکتا ہے تاہم یہ بذات خود خدا کے حقیقی وجود کے لئے کافی نہیں ہے۔
بعینہ اسی طرح ہمارا دماغ لامتناہی کو نہیں سمجھ سکتا (اگرچہ ریاضی، ہمارے دماغ کی پیداوار اس سے کافی اچھے طریقے سے نمٹ لیتی ہے )، تاہم یہ ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ لامحدود کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ہماری کائنات مکانی یا دنیاوی طور پر لامحدود ہو سکتی ہے۔ یا جیسا کہ رچرڈ فائن مین نے ایک مرتبہ کہا تھا، قوانین طبیعیات ایک لامحدود چھلکے والی پیاز کی طرح ہیں، جب بھی ہم نئے پیمانہ پر کھوج کرتے ہیں نئے قوانین لاگو ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ بس ہم کچھ نہیں جانتے ! دو ہزار برس سے سوال، "یہاں عدم کے بجائے وجود کیوں ہے ؟" معمے کو حل کرنے کے لئے ایک مبارزت کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے کہ ہماری کائنات جس میں وسیع ستارے، کہکشائیں، انسان اور کون جانتا ہے کہ اس میں اور کیا کچھ ہو سکتا ہے بغیر کسی صورت گری، نیت یا مقصد کے بنی ہے۔ اگرچہ عام طور پر اس کو بطور فلسفیانہ یا مذہبی سوال کے طور پر رکھا جاتا ہے، تاہم یہ پہلا اور نمایاں سوال جہاں کے بارے میں ہے، لہٰذا اس کو حل کرنے کی کوشش کے لئے پہلی اور اول جگہ سائنس ہی ہے۔
اس کتاب کا مقصد بہت سادہ ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ دکھاؤں کہ کس طرح سے جدید سائنس مختلف صورتوں میں اس جملے اور اس سوال کو مخاطب کر سکتی ہے کہ یہاں عدم کے بجائے وجود کیوں ہے: وہ جواب جو نہ صرف شاندار خوبصورت مشاہدات سے حاصل کیا گیا ہے بلکہ جدید طبیعیات کی بنیاد بنانے والے نظریات تمام کے تمام بتاتے ہیں کہ عدم سے وجود حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ حقیقت میں عدم سے وجود ہی کائنات کو بننے کے لئے درکار تھا۔
مزید براں تمام نشانات بتاتے ہیں کہ ایسے ہی ہماری کائنات بنی ہے۔
میں لفظ پر یہاں زور دے سکتا ہوں کیونکہ ہمارے پاس کبھی بھی اتنی تجربی اطلاعات نہیں تھیں کہ اس سوال کو صریح طور پر حل کر سکتے۔ تاہم یہ حقیقت کہ کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے نہ صرف معقول ہے بلکہ کم از کم میرے لئے بہت اہم ہے۔
آگے جانے سے پہلے، میں چند الفاظ "عدم" کے تصور کے بارے میں کہنا چاہتا ہوں - ایک ایسا موضوع جس پر میں بعد میں تفصیل سے بات کروں گا۔ میں نے یہ سیکھا ہے کہ جب اس سوال کو عوامی جگہوں پر زیر بحث کیا جائے تو ان فلسفیوں اور عالم دین کو کوئی چیز پریشان نہیں کرتی جو مجھ سے اس تصور سے کہیں زیادہ غیر متفق ہوتے ہیں کہ میں بطور سائنس دان ٹھیک طور سے "عدم" کو نہیں سمجھتا۔ ( میں یہاں یہ کہنے سے باز نہیں آتا کہ عالم دین عدم کے زیادہ ماہر ہیں۔)
وہ زور دیتے ہیں کہ "عدم" کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کو میں بیان کر رہا ہوں۔ عدم ایک طرح سے مبہم اور غیر واضح "عدم وجود" ہے۔ یہ مجھے اپنی وہ سعی یاد دلاتا ہے جو میں نے "ذہین صورت گری" کو بیان کرنے میں لگائی تھی جب میں نے تخلیقیوں سے بحث کرنا شروع کی تھی، جس سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ کوئی واضح تعریف نہیں ہے بجز اس کے کہ یہ کہا جائے کہ یہ کیا نہیں ہے۔ ذہین صورت گری سادہ طور پر ارتقاء کی مخالفت کرنے والوں کو ایک چھتری تلے متحد کر دیتی ہے۔
اسی طرح کچھ فلسفی اور کئی عالم دین "عدم" کی تعریف اور تعریف نو اس طرح نہیں کرتے جیسا کہ سائنس دان حالیہ طور پر اس کو بیان کرتے ہیں۔
تاہم میرے خیال میں اسی چیز میں زیادہ تر عالم دین اور کچھ جدید فلسفی فکری طور پر دیوالیہ ہیں۔ یقینی طور پر "عدم" ہر طرح سے طبیعی ہے جیسا کہ "وجود" بطور خاص اگر اس کو "کسی چیز کی غیر موجودگی" کے طور پر بیان کیا جائے۔ لہٰذا ہماری یہ غرض ہے کہ ان دونوں مقداروں کی طبیعی ماہیت کو ٹھیک طرح سے سمجھیں۔ بغیر سائنس کے کوئی بھی تعریف الفاظ سے زیادہ نہیں ہو گی۔
ایک صدی پہلے کوئی بھی "عدم" کو بطور خالص خالی جگہ کے بیان کرتا تھا، جس میں کوئی حقیقی مادّی ہستی نہیں ہوتی، اس پر بہت تھوڑی بحث ہو سکتی تھی۔ تاہم گزشتہ صدی کے نتائج نے ہمیں بتایا کہ خالی خلاء حقیقت میں اس پائیدار عدم سے کہیں دور ہے جس کو ہم نے یہ جانے بغیر پہلے سے ہی فرض کیا ہوا ہے کہ قدرت کس طرح کام کرتی ہے۔ اب مجھے مذہبی ناقدین بتاتے ہیں کہ میں خالی جگہ کو "عدم" سے بیان نہیں کر سکتا بلکہ اس کا حوالہ "کوانٹم خلاء" سے دیا جا سکتا ہے تاکہ اس کو فلسفی اور عالم دین کے قیاس کردہ "عدم" سے الگ بیان کیا جا سکے۔
تو چلیں ایسا ہی ٹھیک ہے۔ تاہم تب کیا ہو گا اگر ہم "عدم" کو مکان و زمان کی غیر موجودگی سے بیان کریں ؟ کیا یہ کافی ہے ؟ ایک بار پھر مجھے شبہ ہے کہ یہ۔ ۔ ۔ ۔ ایک مرتبہ کے لئے ہو گا۔ تاہم جیسا کہ میں بیان کروں گا مکان و زمان بذات خود طبیعی طور پر خود سے ظاہر ہو سکتے ہیں لہٰذا اب ہم جان گئے ہیں کہ یہ "عدم" اصل میں کوئی عدم نہیں ہے جس سے مسئلہ ہو۔ اور ہمیں بتایا گیا کہ "حقیقی" عدم سے فرار کے لئے خدا کی ضرورت ہوتی ہے، اس فرمان سے جس سے "عدم" کو بیان کیا جاتا ہے "کہ جس سے صرف خدا ہی کچھ تخلیق کر سکتا ہے۔ "
یہ بات کافی افراد نے اس وقت تجویز کی جس میں ان سے اس مسئلہ پر بات کر رہا تھا کہ اگر کوئی کچھ تخلیق کے لئے "مخفی" چیز ہے، یعنی کہ یہ اصل میں حقیقی عدم نہیں ہے۔ اور بے شک قوانین قدرت جنہوں نے ہمیں کچھ اس طرح کہ امکان دیئے کہ ہمیں حقیقی عدم وجود کے دور سے دور لے جائیں۔ تاہم جب میں دلیل دوں کہ شاید قوانین بذات خود خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں تو میں شاید اس صورتحال کو اس طرح سے پیش کروں گا جو کہ اچھی نہیں ہو گی کیونکہ جس نظام میں بھی قوانین بنیں گے وہ حقیقی عدم نہیں ہو گا۔
نیچے تک کچھوے ہیں ؟ میں ایسا نہیں سمجھتا۔ تاہم کچھوے اس لئے پسندیدہ ہوتے ہیں کیونکہ سائنس کھیل کا میدان اس طرح سے تبدیل کرتی ہے جس سے لوگ بے آرام ہو جاتے ہیں۔ بلاشبہ سائنس کا ایک مقصد یہی ہے (کوئی سقراط کے وقت میں اس کو "قدرتی فلسفہ" کہہ سکتا تھا)۔ بے آرامی کا مطلب یہ ہے کہ ہم نئی بصیرت کی دہلیز پر ہیں۔ بے شک "خدا" کو بلانے سے مشکل سوالات سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی کہ "کیسے " محض ذہنی طور پر سست ہے۔ الغرض اگر تخلیق کا کوئی امکان ہی نہیں ہے تب خدا نے کوئی بھی چیز نہیں تخلیق کی ہو گی۔ یہ صرف معنوی دھوکہ دہی ہو گی کہ زور دیا جائے کہ امکانی لامحدود رجعت کو اس لئے نظر انداز کیا ہے کیونکہ خدا قدرت سے ماورا ہے لہذا وجود کا "امکان" بذات خود اس عدم کا حصّہ نہیں ہے جس سے وجود قائم ہوا۔
یہاں میرا اصل مقصد اس بات کا مظاہرہ کرنا ہے کہ درحقیقت سائنس نے کھیل کے میدان کو تبدیل کر دیا ہے، لہٰذا عدم کی ماہیت سے متعلق یہ تجریدی اور بے ثمر مباحثے، عملیاتی کوششوں سے بدل دیئے گئے ہیں جو وضاحت کرتے ہیں کہ اصل میں ہماری کائنات کا آغاز کس طرح سے ہوا تھا۔ میں بہرحال ہمارے حال اور مستقبل پر پڑنے والے اس کے ممکنہ مضمرات کے بارے میں بھی بات کروں گا۔
یہ ایک بہت ہی اہم حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ جب بات ہماری کائنات کے ارتقاء کے فہم کی آتی ہے تو مذہب اور دین غیر متعلقہ ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ اکثر بغیر کسی اصطلاح کی تعریف جس کی بنیاد تجربی ثبوت پر رکھی ہوئی عدم پر سوالات کو مرکز بنا کر اس کو گنجلک کر دیتے ہیں۔
اگرچہ ہم ابھی تک مکمل طور پر اپنی کائنات کے ماخذ کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکے تاہم کوئی ایسی وجہ موجود نہیں ہے جو اس سلسلے کو بدلنے کی امید دے۔ مزید براں میں ایسا سمجھتا ہوں کہ بالآخر یہی بات ہماری فہم ان چیزوں کے لئے ہے جس پر مذہب اپنی اجارہ داری سمجھتا ہے جیسا کہ انسانی اخلاقیات۔
سائنس قدرت کی فہم کو مزید بہتر کرنے کے لئے کافی موثر ہے کیونکہ سائنسی مزاج تین اہم اصولوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں : (1) ثبوت جہاں بھی لے جاتے ہوں ان کی پیروی کرو؛ (2) اگر کسی کے پاس نظریہ ہے، تو کوئی ایسا ہونا چاہئے جو اس کو غلط ثابت کرنے کی اتنی ہی کوشش کرے جتنی کوئی اس کو صحیح ثابت کرنے کے لئے کرتا ہے ؛ (3) سچائی کا حتمی ثالث تجربہ ہے، وہ سکون نہیں جو کسی کے پہلے سے موجود یقین کی وجہ سے ملے نہ ہی اس وجہ سے جو کسی نظریاتی نمونے کی خوبصورتی یا نفاست کی وجہ سے منسوب ہو۔
تجربات کے نتائج جس کی میں وضاحت کروں گا نہ صرف بروقت ہیں بلکہ وہ غیر متوقع بھی ہیں۔ وہ گل گاری جو سائنس ہماری کائنات کے ارتقاء کی وضاحت کرتے ہوئے کرتی ہے اس سے کہیں زیادہ زرخیز اور کہیں زیادہ متحیر کر دینے والی ہے جتنی کہ کوئی الہامی تصویر یا کوئی انسانی گڑھی ہوئی فرضی کہانی ہو۔ قدرت ان چونکا دینے والی چیزوں کے ساتھ آتی ہے جو اس سے کہیں زیادہ آگے کی ہوتی ہیں جن کو انسانی دماغ پیدا کر سکتا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران کونیات، ذرّاتی نظریئے اور ثقل میں ہیجان انگیز پیش رفت مکمل طور پر ہمارے کائنات کو دیکھنے کی نظر کو تبدیل کر دیتی ہے جس میں چونکا دینے والی اور گہرے مضمرات اس کے ماخذ اور اس کے مستقبل کی ہماری سمجھ ہے۔ لہٰذا اگر آپ ذومعنویت کو بھول سکتے ہوں تو لکھنے کے لئے کوئی بھی دلچسپ بات نہیں ہے۔
اس کتاب لکھنے کا اصل محرک کہانیوں یا اعتقاد پر حملہ کرنے سے نہیں آیا بلکہ اس کا محرک علم کو پھیلانے کی میری خواہش اور اس کے ساتھ ہماری مطلق حیرت انگیز اور دلچسپ کائنات بنی ہے۔
ہماری تلاش ہمیں اپنی پھیلتی ہوئی کائنات کے بعید ترین حصّوں کی بھول بھلیوں میں بگ بینگ کے ابتدائی لمحات سے لے کر مستقل بعید تک لے جائے گی، اور اس میں گزشتہ صدی میں طبیعیات میں ہونے والی سب سے حیرت انگیز دریافت بھی شامل ہو سکتی ہے۔
حقیقت میں اس کتاب کو لکھنے کا فوری محرک کائنات کے بارے میں گہری دریافت جو گزشتہ تین دہائیوں میں میری اپنی سائنسی تحقیق ہے جس کا اختتام حیران کن نتائج پر ہوا یعنی کہ کائنات میں زیادہ تر توانائی کچھ پراسرار اب ناقابل توضیح صورت میں تمام خالی خلاء میں سرائیت کی ہوئی ہے۔ ایسا کہنا کم بیانی نہیں ہو گا کہ یہ دریافت جدید علم کائنات میں کھیل کے میدان کو تبدیل کر دے گی۔
اس دریافت نے اس تصور کی نئی حیرت انگیز حمایت کو پیدا کیا ہے کہ ہماری کائنات ٹھیک طور سے عدم سے ہی وجود میں آئی ہے۔ یہ ہمیں ترغیب دیتی ہے کہ دوبارہ ان عملیات کے قیاسات کے بارے میں سوچیں جو اس کے ارتقاء پر اثر ڈالتے ہیں اور حتمی طور پر اس سوال پر بھی کہ آیا قدرت کے قوانین واقعی میں بنیادی ہی ہیں یا نہیں۔ ان میں سے ہر ایک اپنے آپ میں اب اس سوال کو اٹھاتا ہے کہ آیا یہاں بجائے عدم کے وجود کیوں ہے، یہ اب کم متاثر کن لگتا ہے اگرچہ یہ مکمل طور پر اثر پذیر نہیں جیسا کہ میں وضاحت کرنے کی امید کرتا ہوں۔
اس کتاب کا براہ راست آغاز اکتوبر 1999ء سے ہوتا ہے جب میں نے ایک لیکچر لاس انجیلیس میں اسی عنوان کے ساتھ دیا تھا۔
مجھے کافی حیرت ہوئی کہ لیکچر کی یوٹیوب ویڈیو جس کو رچرڈ ڈاکنز فاؤنڈیشن نے دستیاب کروایا تھا ایک طرح سے سنسنی سی بن گئی تھی، اس کتاب کے لکھنے تک اس کو دس لاکھ مرتبہ دیکھا گیا ہے اور اس کے حصّوں کی کافی نقول ملحد و موحد دونوں ہی اپنے مباحثوں میں استعمال کر رہے ہیں۔
موضوع میں واضح دلچسپی کی اور ویب پر کچھ مہمل تبصروں اور میرے لیکچر کے بعد کافی میڈیا کی پیروی کی وجہ سے مجھے لگا کہ اس تصور کا مزید مکمل حوالگی کے ساتھ بیان کرنا بہتر ہو گا جو میں اس کتاب میں لکھوں گا۔ یہاں میں اس موقع کو اپنی دلیلوں کو دینے کے لئے استعمال کرتا ہوں جو اس وقت میں نے پیش کی تھی جو مکمل طور علم کائنات میں ہونے والے حالیہ انقلاب پر مرکوز ہے جس نے ہماری کائنات کی تصویر کو تبدیل کر دیا جو خلاء کی توانائی اور علم الا شکال کے ساتھ نسبت رکھتی ہے اور جس کو میں اس کتاب کے پہلے دو تہائی حصّے میں بیان کروں گا۔
درمیان کے عرصے میں کئی گزشتہ اور تصورات جنہوں نے میرے خیالات کو بنایا تھا ان کے بارے میں کافی سوچا؛ اور میں نے اس بارے میں دوسروں کے ساتھ بات چیت بھی کی جن کا رد عمل اس قسم کے جوش کے ساتھ تھا جو سرایت کر جانے والا تھا؛ اور میں نے ذرّاتی طبیعیات میں ہونے والی پیش رفت کے تاثر کو بطور خاص ہماری کائنات کے ماخذ اور اس کی ماہیت کے بارے میں مزید گہرائی میں دیکھا ۔ بالآخر میں نے اپنے کچھ دلائل ان لوگوں کے سامنے رکھے جو اس کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں اور اس طرح سے کرنے میں کچھ ایسی اندرونی بصیرت حاصل ہو گئی جس نے مجھے میری دلیلوں کو مزید بہتر کرنے کا موقع دیا۔
وہ خیالات جو میں بالآخر یہاں بیان کرنے کی کوشش کروں گا، ان کو بیان کرنے میں مجھے کچھ بہت ہی حکیم رفیق طبیعیات دانوں سے بات چیت کرنے کی وجہ سے فائدہ ہوا۔ بطور خاص میں ایلن گتھ اور فرینک ویلزک کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے بات چیت و خط و کتابت کے لئے اپنا قیمتی وقت نکالا اور میرے دماغ میں موجود کچھ پریشان کر دینے والے خیالات کو حل کیا اور کئی جگہوں پر میری اپنی تشریحات کو بہتر بنانے کے لئے مدد کی۔
فری پریس کے لیزلی میریڈتھ اور ڈومینک انفاسو، سائمن اینڈ سچسٹر کی دلچسپی کی وجہ سے اس موضوع پر کتاب کے امکان کی ہمت بندھی، اس کے بعد میں اے اپنے دوست کرسٹوفر ہٹچنس سے رابطہ کیا جو ایک سب سے زیادہ عالم اور لائق افراد میں سے ایک ہیں جن کو میں جانتا ہوں، جنہوں نے خود سے میرے لیکچر میں سے دلائل لے کر اپنے شاندار سائنس اور مذہب کے مباحثے میں استعمال کیا۔ کرسٹوفر نے اپنی خراب صحت کے باوجود مہربانی کے ساتھ سخاوت و بہادری سے مقدمہ لکھا۔ دوستی اور اعتماد کے اس برتاؤ کے لئے میں ان کو ہمیشہ شکر گزار رہوں گا۔ بدقسمتی سے کرسٹوفر کی بیماری نے بالآخر اس حد تک ان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا کہ مقدمہ مکمل کرنا باوجود ان کی زبردست کوششوں کے ناممکن ہو گیا۔ بہرحال خوش قسمتی سے میرے فصیح و لائق دوست، معروف سائنس دان اور مصنف رچرڈ ڈاکنز نے پہلے ہی پس نوشت لکھنے کے لئے حامی بھر لی تھی۔ جب میرا پہلا مسودہ مکمل ہو گیا تو انہوں نے کچھ مختصر پیرائے میں جس کی خوبصورتی اور صراحت ششدر کر دینے والی تھی اور ساتھ ساتھ عاجز بھی۔ میں تو اس کے دبدبے سے ڈر گیا۔ لہٰذا کرسٹوفر، رچرڈ اور درج بالا تمام لوگوں کے لئے میں ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی اور مجھے ایک مرتبہ دوبارہ کمپیوٹر پر جانے اور لکھنے کی ترغیب دینے کے لئے میں ان سب کا شکر گزار ہوں۔