میر مہدی مجروح عدو پر ہے یہ لطفِ دم بدم کیا؟ - میر مہدی حسین مجروح رحمتہ اللہ علیہ

کاشفی

محفلین
غزل
(میر مہدی حسین مجروح‌رحمتہ اللہ علیہ)
عدو پر ہے یہ لطفِ دم بدم کیا؟
ہوئے وہ آپ کے قول و قسم کیا؟
ملیں اس تندخو سے جا کے ہم کیا
یہ سچ ہے آب و آتش ہوں بہم کیا
ذرا ذرے کی تم مقدار دیکھو
ہمارا بیش و کم کیا اور ہم کیا
کھڑے ہیں چوکڑی بھولے جو آہو
نظر ان کا پڑا اندازِ رم کیا؟
نہاں ہر شکر میں ہے سو شکایت
مگر سمجھیں گے وہ طرز رقم کیا
وہ میری لاش پر بولے یہ ہنس کر
"بھلا صاحب ہمیں‌دیتے ہو دم کیا!"
جھپکنا آنکھ کا منزل رساں ہے
یہاں سے دور ہے ملکِ عدم کیا
معطر ہیں غضب جھونکے ہوا کے
کھلی ہے ان کی زلفِ خم بہ خم کیا؟
مزا ہے جب کہ خم منہ سے لگا ہو
ہمارے کام کا ہے جام جم کیا
جپے سو بار اک بوسہ دے کر
وہ جانے شیوہء اہلِ کرم کیا
کہا میں نے کہ "مر جاؤں؟" تو بولے
کہ "تم جیسوں کے مرجانے کا غم کیا!"
جفا بھی بے محل ہے مدعی پر
وہ کیا جانے کہ ہے لطفِ ستم کیا
نہ ملنے کی قسم کھائی تو بولے
"ارے تو کیا ہے اور تیری قسم کیا!"
وہ اک بوسہ پہ بھی لیتے نہیں دل
بھلا قیمت کریں اس سے بھی کم کیا
ہوا قرب خدا، چھوڑی خودی جب
کریں ہم اپنے مرجانے کا غم کیا
ہمارے دل سے پوچھو اس کی لذت
رقیبوں کا بھلا ذوقِ ستم کیا
کہا سچ حضرت ناظم نے مجروح
"ہماری زندگی کیا اور ہم کیا"
 

کاشفی

محفلین
سید محمد نقوی صاحب
فاتح الدین بشیر صاحب
محمد وارث صاحب
فرخ منظور صاحب
فَری صاحبہ
اور
شاہ حسین صاحب

آپ تمام محفلین کا بیحد شکریہ۔۔ خوش رہیں۔
 
Top