بھلکڑ
لائبریرین
خود سے ناراض ، زمانے سے خفا رہتے ہیں
جانے کیا سوچ کے ہم سب سے جدا رہتے ہیں
کس طرح آ کے بسے کوئی تری بستی میں
تیری بستی میں تو پتھر کے خدا رہتے ہیں
عمر گذری ہو اندھیروں کے نگر میں جن کی
وہ زمانے کے لیۓ بن کے دیا رہتے ہیں
دور ہیں مجھ سے بظاہر گو مرے سب اپنے
میرے دِل میں وہ مگر مثلِ دعا رہتے ہیں
میں نے مانا کہ مرے ساتھ نہیں ہیں لیکن
وہ مرے دل کی مگر بن کے صدا رہتے ہیں
ہم نے مانا کہ سزاوار نہیں اہلِ وفا
جانے کس جرم کی پاتے وہ سزا رہتے ہیں
ملک و ملت پہ جو مٹتے ہیں ،شہیدانِ وطن
جسم مٹنے پہ بھی زندہ وہ سدا رہتے ہیں
جن کو بچپن سے ہی اپنوں کی محبت نہ ملے
ان کے جیون میں ہمیشہ ہی خلا رہتے ہیں
ایک وہ ہیں کہ جفا جن کا ہے شیوہ عذراؔ
ایک ہم ہیں کہ جو پابندِ وفا رہتے ہیں
(عذراناز)