عربوں سے محبت کرو۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

یوسف-2

محفلین
وعن ابن عباس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أحبوا العرب لثلاث : لأني عربي والقرآن عربي وكلام أهل الجنة عربي " . رواه البيهقي في " شعب الإيمان "
اورحضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''تین اسباب کی بناء پر تمہیں عرب سے محبت رکھنی چاہئے ایک تواس وجہ سے کہ میں عرب میں سے ہوں دوسرے اس وجہ سے کہ قرآن عربی زبان میں ہے اور تیسرے اس وجہ سے کہ جنتیوں کی زبان عربی ہے ۔

اللہ تمام مسلمانا نِ عالم کو (دانستہ یا نادانستہ) عربوں کی انفرادی خامیوں کی وجہ سے عرب قوم سے نفرت کرنے سے محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین
 
بلاشك امام بيھقي نے اس كو شعب الايمان ميں ذكر كيا ہے ليكن ساتھ ميں اس كى سند كے بارے ميں کچھ کہا ہے، اور دوسرے محدثين نے اس كو موضوعات كى كتب ميں شامل كيا ہے۔ اس ليے يہ موضوع روايت ہے۔
 

حماد

محفلین
یوسف ثانی بھائ آپ اپنی انا کی تسکین کی خاطر ایک موضوع یعنی گھڑی ہوئ حدیث پر اصرار نہ کریں۔ مجھے معلوم ہے کہ کم از کم آپ مجھ سے بہت زیادہ نیک اور پرہیزگار انسان ہیں۔ لیکن حضور ﷺ کی جانب ایک من گھڑت بات کو منسوب کرنا اور پھر اس پر اصرار کرنا میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ اللہ ہمیں ایسی دانستہ، نادانستہ گستاخیوں سے محفوظ رکھے۔ آمین
 

باسم

محفلین
ابن حجر ھیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے "مبلغ الارب فی فخر العرب" کے نام سے رسالہ تصنیف کیا ہے جس میں ایسی احادیث کو جمع کیا ہے جو عربوں کے چنیدہ ہونے اور ان سے بغض کی ممانعت کا بیان ہے۔
حوالہ
روى الحاكم والبيهقي عن ابن عمر - رضي الله تعالى عنهما - قال: قال رسول الله صلى الله تعالى عليه وصحبه وسلم: لما خلق الله الخلق اختار العرب، ثم اختار من العرب قريشا، ثم اختار من قريش بني هاشم، ثم اختارني من بني هاشم، فأنا خيرة من خيرة . سكت عنه الذهبي
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب اللہ رب العزت نے مخلوقات کو پیدا فرمایا تو عربوں کو منتخب فرمایا، پھر عربوں سے قریش کو پھر قریش سے بنو ہاشم کو پھر بنو ہاشم میں سے مجھے منتخب فرمایا لہذا مجھے بہتر لوگوں میں سے منتخب کیا گیا ہے۔

وأخرج الحاكم في المستدرك والطبراني في المعجم الكبير والأوسط عن ابن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : وخلق الخلق فاختار من الخلق بني آدم، واختار من بني آدم العرب، واختار من العرب مضر، واختار من مضر قريشا، واختار من قريش بني هاشم، واختارني من بني هاشم، فأنا خيار إلى خيار، فمن أحب العرب فبحبي أحبهم، ومن أبغض العرب فببغضي أبغضهم .

قال الهيثمي: وفيه حماد بن واقد وهو ضعيف يعتبر به، وبقية رجاله وثقوا
وقال الهيتمي في مبلغ الأرب: حديث سنده لا بأس به، وإن تكلم الجمهور في غير واحد من روات۔ه.

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا فرمایا تو ان میں سے بنو آدم کو منتخب فرمایا، بنو آدم سے عرب کو، عرب سے مضر کو، مضر سے قریش کو، قریش سے بنوہاشم کو اور مجھے بنو ہاشم میں سے منتخب فرمایا لہذا میں اچھی لوگوں میں منتخب کیا گیا ہوں، لہذا جس نے عربوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے عربوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا۔
وأخرج الطبراني في المعجم الأوسط عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله حين خلق الخلق بعث جبريل، فقسم الناس قسمين، فقسم العرب قسما، وقسم العجم قسما، وكانت خيرة الله في العرب، ثم قسم العرب قسمين، فقسم اليمن قسما، وقسم مضر قسما، وقسم قريشا قسما، وكانت خيرة الله في قريش، ثم أخرجني من خير ما أنا منه . قال الهيتمي في مبلغ الأرب : سنده حسن
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جب مخلوقات کو پیدا فرمایا تو جبریل علیہ السلام کو بھیج کر لوگوں کو دو قسموں میں تقسیم فرمادیا ایک قسم عربوں کی اور ایک قسم عجمیوں کی بنادی اور اللہ تعالیٰ کا انتخاب عربوں کا تھا پھر عربوں کو دو قسموں میں تقسیم کرکے ایک قسم یمنیوں کی ایک قسم مضر کی اور ان میں سے ایک قسم قریش کی بنادی، پھر اللہ تعالیٰ کا انتخاب قریش کے بارے میں تھا پھر مجھے ان بہترین لوگوں میں بھیج دیا جن میں میں ہوں۔
وروى مسلم وغيره عن واثلة بن الأسقع يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الله اصطفى كنانة من ولد إسماعيل، واصطفى قريشا من كنانة، واصطفى من قريش بني هاشم، واصطفاني من بني هاشم
واثلہ بن الاسقع کہتے ہیں میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے سنا: اللہ تعالیٰ نے اولاد اسماعیل میں سے کنانہ کو اور ان میں سے قریش کو اور ان میں سے بنو ہاشم کو اور بنو ہاشم میں سے میرا انتخاب فرمایا ہے۔
وأخرج الترمذي والحاكم وغيرهما عن سلمان قال قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا سلمان؛ لا تبغضني فتفارق دينك. قلت: يا رسول الله كيف أبغضك وبك هدانا الله! قال: تبغض العرب فتبغضني قال: هذا حديث حسن غريب وقال الحاكم: هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه وقال الذهبي في التلخيص: قابوس بن أبي ظبيان تكلم فيه
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے سلمان مجھ سے بغض نہ رکھنا ورنہ دین سے ہاتھ دھو بیٹھو گے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں کیسے آپ سے بغض رکھ سکتا ہوں حالانکہ آپ کے ذریعے سے اللہ نے مجھے ہدایت عطا فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم عربوں سے بغض رکھو گے تو مجھ سے بغض رکھو گے۔
 

شمشاد

لائبریرین
مجھے ایک بات پوچھنی ہے کہ عربوں سے محبت کرنے کے لیے عربوں کو کہا گیا ہے یا غیر عربوں کو عربوں سے محبت کرنے کےلیے کہا گیا ہے؟

جہاں تک میرا مشاہدہ ہے موجودہ دور میں عرب خود عربوں سے محبت نہیں کرتے۔
 

یوسف-2

محفلین
یوسف ثانی بھائ آپ اپنی انا کی تسکین کی خاطر ایک موضوع یعنی گھڑی ہوئ حدیث پر اصرار نہ کریں۔ مجھے معلوم ہے کہ کم از کم آپ مجھ سے بہت زیادہ نیک اور پرہیزگار انسان ہیں۔ لیکن حضور ﷺ کی جانب ایک من گھڑت بات کو منسوب کرنا اور پھر اس پر اصرار کرنا میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ اللہ ہمیں ایسی دانستہ، نادانستہ گستاخیوں سے محفوظ رکھے۔ آمین
یہ آپکا حسن ظن ہے، ورنہ تو میں بہت ہی گنہگار بندہ ہوں۔
یہ دھاگہ الگ سے اس لئے شروع کیا گیا ہے تاکہ اس پر اہل علم اپنی اپنی رائے پیش کریں۔ کیا کسی حدیث کو (خواہ ہو ضعیف یا موضوع ہی کیوں نہ ہو) زیر بحث لانا کوئی معیوب بات ہے۔ کیا حدیث کی کتب سے تمام ایسی حدیث کو حذف کردیا گیا ہے اور قرآن و حدیث کے طالب علموں کو ایسی احادیث درسگاہوں میں پڑھائی نہیں جاتی؟؟؟
(1) کیا میں نے اپنی طرف سے کوئی ’’من گھڑت بات‘‘ کو حدیث بنا کر پیش کیا ہے یا (2) حدیث کی ایک مستند کتاب میں موجود ایک حدیث کو حوالہ کے ساتھ بحث کے لئے پیش کیا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ آپ اتنے ناسمجھ ہیں کہ ان دونوں باتوں میں فرق کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔
اس حدیث کی سند کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ایک ضعیف حدیث ہے اور یہ بھی کہ یہ ایک موضوع حدیث ہے۔ گویا اس حدیث کے ’’ضعیف‘‘ ہونے کا بھی امکان ہے ۔ ضعیف حدیث کے بارے میں محدثین کی رائے ہے کہ اگر حدیث کے متن کا تعلق عقائد یا حرام و حلال سے ہو تو اس پر ’’عمل‘‘ نہیں کیا جائے گا۔ (یہ نہیں کہ پڑھایا بھی نہیں جائے گا اور انہیں احادیث کی کتب سے باہر نکال دیا جائے گا) لیکن ’’فضائل‘‘ سے متعلق ہو تو اس پرعمل کیا جاسکتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
 

صرف علی

محفلین
السلام علیکم
معذرت اس حدیث کو پڑھ کر کچھ سوال ذہیں میں آگئے ہیں :
1۔ کیا ان عربوں میں وہ عرب بھی شامل ہیں جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم پر ظلم کئے تھے ۔
2۔ان میں وہ بھی شامل ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے مقابل جنگ میں واصل جہنم ہوگئے تھے ۔
3۔ان میں وہ بھی شامل ہیں جو بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے ایک دوسرے کوقتل رہیےتھے ۔
4۔ان میں وہ بھی شامل ہیں جن کے ہاتھ ایل بیت علیھم السلام کے خون سے رنگھیے ہوئے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ
کیا کرے کس سے محبت کرے کیا عرب ہونا کیسی تخصیص کا سبب بنتا ہے تو بنی اسرئیل بھی تو اس تخصیص کے حامل ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟
والسلام
 
السلام علیکم
معذرت اس حدیث کو پڑھ کر کچھ سوال ذہیں میں آگئے ہیں :

3۔ان میں وہ بھی شامل ہیں جو بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے ایک دوسرے کوقتل رہیےتھے ۔
اس سوال سے آپ کی کیا مراد ہے ۔
ایک بہن نے اوپر اس حدیث کی اسنادی حیثیت بیان کردی تو اس میں اتنا کلام کیوں ہورہا ہے ۔ آخر مستند احادیث کے ذخیرے مثلا البخاری ، مسلم رحمہما اللہ میں بیان کردہ احادیث شریفہ کو بیان کیوں نہیں کیا جاتا ؟؟؟
موضوع حدیث اصل میں حدیث نہیں ہوتی یعنی وہ کلام نبی علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نہیں ہوتا لہذا جب اس کی اسنادی حیثیت ظاہر ہوجائے تو اس سے کسی طرح کا بھی استدلال درست نہیں ہے ۔ موضوع احادیث جان بوجھ کر بیان کرنے والے پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وعید ہے جس میں جھوی بات منسوب کرنے والے کیلئے جھنم کو ٹھکانہ ہونے کا فرمایا گیا ہے ۔
 

صرف علی

محفلین
السلام علیکم
شاید آپ تاریخ نہیں پڑھتے ہیں یہ سوال جس نے تاریخ پڑھی ہو اس کے لئے واضح ہے اور جو پڑھ کر بھی کچھ نا سمجھنا چاہیے تو اس کا کچھ نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
والسلام
 
بہر حال میں نے تاریخ پڑھی ہے اور اچھی طرح سمجھی بھی ہے اور الحمدللہ عقیدت میں غلو اور اندھا پن پیدا کرکے نہیں پڑھی ۔اگر آپ اپنے سوال کی وضاحت نہیں کرسکتے تو سیدھی طرح کہہ دیں کہ میں وضاحت نہیں کرسکتا۔ آپ کے سوال سے یہ اشتباہ پیدا ہوتا ہے کہ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد امت میں جنگ وجدل شروع ہوگیا جو کہ غلط ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت راشدہ کا قیام عمل میں آیا اور اس دور میں عظیم الشان برکات نازل ہوتی رہیں ۔ فتوحات اسلامیہ کہاں کہاں تک پھیل گئیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اللہ کا کلمہ بلند کرنے کیلئے سلطنت فارس و روم سے ٹکرا گئے اور یہ صرف خلافت صدّیق رضی اللہ عنہ کے چند کارہائے نمایاں ہیں۔

تاریخ کے مطالعے سے میں آپ کے سوال کو تب سمجھوں گا جب آپ اپنے سوال میں موجود ابہام کو دور کریں گے کیونکہ آپ نے کِس دور کی طرف اشارہ کرنا چاہا ہے اور کن اشخاص کو ہدف بنا رہے ہیں ، یہ واضح نہیں ہے ۔
 
ضعیف حدیث کے بارے میں محدثین کی رائے ہے کہ اگر حدیث کے متن کا تعلق عقائد یا حرام و حلال سے ہو تو اس پر ’’عمل‘‘ نہیں کیا جائے گا۔ (یہ نہیں کہ پڑھایا بھی نہیں جائے گا اور انہیں احادیث کی کتب سے باہر نکال دیا جائے گا) لیکن ’’فضائل‘‘ سے متعلق ہو تو اس پرعمل کیا جاسکتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب

میرے بھائی ! جب آپ جانتے تھے کہ محدثین نے اس حدیث کو موضوع اور ضعیف کہا ہے تو آپ پر لازم تھا کہ اس کی سند کے حوالے سے یہ ضرور لکھتے کہ محدثین نے اس کی سند کے حوالے سے یہ کہا ہے ۔ اگر اسے پڑھ کر کوئی عربوں کے قصیدے پڑھنا اور دوسروں کو ان کی فضیلت باور کروانا شروع کردے تو یہ کوئی اچھی بات نہیں ہوگی ۔ اور اس دور میں کسی بھی حدیث شریف کی سند کی تحقیق نہایت آسان ہوگئی ہے۔

ایک اور بات جس کی میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ : (چونکہ میں علم حدیث میں طفل مکتب کی حیثیت بھی نہیں رکھتا لیکن میرے ایک عزیز بھائی جو ملک کے معروف حدیث اسکالر ڈاکٹر سہیل حسن صاحب مدظلہ (ابن مولانا عبد الغفار حسن ) کے شاگرد ہیں ، نے اس حوالے سے میری رہنمائی کی ہے )
1: ضعیف حدیث کو بیان کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے استعمال کیلئے کچھ اور شرائط بھی ہیں
2: ہر ضعیف حدیث کو فضائل میں استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
 

صرف علی

محفلین
بہر حال میں نے تاریخ پڑھی ہے اور اچھی طرح سمجھی بھی ہے اور الحمدللہ عقیدت میں غلو اور اندھا پن پیدا کرکے نہیں پڑھی ۔اگر آپ اپنے سوال کی وضاحت نہیں کرسکتے تو سیدھی طرح کہہ دیں کہ میں وضاحت نہیں کرسکتا۔ آپ کے سوال سے یہ اشتباہ پیدا ہوتا ہے کہ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد امت میں جنگ وجدل شروع ہوگیا جو کہ غلط ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت راشدہ کا قیام عمل میں آیا اور اس دور میں عظیم الشان برکات نازل ہوتی رہیں ۔ فتوحات اسلامیہ کہاں کہاں تک پھیل گئیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اللہ کا کلمہ بلند کرنے کیلئے سلطنت فارس و روم سے ٹکرا گئے اور یہ صرف خلافت صدّیق رضی اللہ عنہ کے چند کارہائے نمایاں ہیں۔

تاریخ کے مطالعے سے میں آپ کے سوال کو تب سمجھوں گا جب آپ اپنے سوال میں موجود ابہام کو دور کریں گے کیونکہ آپ نے کِس دور کی طرف اشارہ کرنا چاہا ہے اور کن اشخاص کو ہدف بنا رہے ہیں ، یہ واضح نہیں ہے ۔
ماشاءاللہ کیا بات ہے پڑھی ہے آپ نے اور غلو بھی پیدا نہیں ہوا۔ مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے کہ بحث برای برای میں اپنے آپ کو مبتلا کروجب حدیث میں عربوں کے لئے تو کیوں زمان بیان نہیں ہوا تو میں کئوں کوئی زمان بیان کروں
 

ساجد

محفلین
ماشاءاللہ کیا بات ہے پڑھی ہے آپ نے اور غلو بھی پیدا نہیں ہوا۔ مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے کہ بحث برای برای میں اپنے آپ کو مبتلا کروجب حدیث میں عربوں کے لئے تو کیوں زمان بیان نہیں ہوا تو میں کئوں کوئی زمان بیان کروں
محترم صرف علی صاحب ، آپ سے گزارش ہے کہ آپ اپنا نکتہ نظر کھل کر بیان کریں اور علمی دلیل کے ساتھ بات کو آگے بڑھائیں۔
آپ نے تاریخ کے حوالے سے ایک دعوی کیا تھا جس کی دلیل آپ کے ذمہ بنتی ہے۔ اگر آپ بحث کو یوں ہی طول دیتے رہے تو آپ کے مزید پیغامات کو منظور کرنے سے محفل انتظامیہ قاصر ہو گی۔
 
Top