ہماری قومی اور سرکاری زبان عربی ہونی چاہیئے - - - - سچ تو یہ ہے
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ہ
اگر قیام پاکستان کے وقت حکومت پاکستان کے وزیر اور مشیر دانش مند ہوتے تو ڈھاکہ میں قومی زبان کے مسلے پر ہنگامہ نہ ہوتا۔غالباً رائے دینے والوں نے قائداعظم محمد علی جناح کو گمراہ کن اعداد و شمار دیے تھے، تبھی تو بنگلہ اور اردو کا جھگڑا کھڑا ہو گیا تھا ۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ قائداعظم کواصل حقائق سے مکمل طور پر لاعلم ہی رکھا گیا تھا ورنہ وہ جمہور پسند رہنما اکثریت کے جذبات کا ضرور بہ ضرور احترام کرتا اس کی بنیادی وجہِ یہ تھی کہ قائد اعظم کی خاندانی زبان گجراتی تھی اور سپوکن لیگویج انگلش تھی۔
انہوں نے اردو بھی محض اسی خیال کے تحت سیکھنے کی کوشش کی تھی ،کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ برصغیر کے تمام کے تمام مسلم عوام اردو ہی بولتے ہیں۔اگر ان کے ذہن میں ذرا سا بھی شبہ ہوتا تو وہ بنگالی عوام پر کسی ایک طبقے کی یا کسی فرد واحد کی مرضی یا فیصلہ ٹھونسنے کی کبھی بھی کوشش نہ کرتے۔
اگر اس ابتدائی دور میں دوراندیش ،معاملہ فہم ،حقائق پسنداور با اصول وزیر، مشیر ہماری مرکزی حکومت اور قیادت کا حصہ ہوتے تو بنگالی قوم پرست ناراض نہ ہوتے اورپھر دلوں میں نفرت اس قدر نہ بڑھتی کہ بھائی ہی بھائی کا جانی دشمن بن جاتا ،بلکہ ہماری قومی اور سرکاری زبان کا مسلہ بھی ان ہی ایام میں بخوبی حل ہوتا، پھر ہمارے مسائل اور آپس کی رنجشیں اتنی نہ بڑھتیں کہ انجام کار میں بنگلہ دیش بنانے کی نوبت آتی۔
جب ہماری اجتماعی نااہلیوں اور نا سمجھیوں کی بدولت ہمارے بنگالی بولنے والے بھائی ہم سے علیحدہ ہوگئے تھے اور بنگلہ دیش بن گیا تھا، تب باقی ماندہ پاکستان کو تو اردو کی سیادت اور قیادت پر متفق نظر آنا چاہیے تھا۔ کیونکہ بظاہر تو اس خطہ میں اردو کی پذیرائی ایسے ہی کی جاتی تھی جیسے کہ یہ زبان سبھی کو قبول ہے۔
مگر یہاں پر بھی مسلہ کہیں نہ کہیں چھپا ہوا تھا، اس لئے نظروں سے اوجھل تھا ۔وہ تو اس وقت سامنے آیا تھا ،جب سندھی قوم پرستوں نے ممتاز علی بھٹو کی قیادت میں سندھی زبان کو صوبہ سندھ کی سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
میں ذاتی طور پر نہ تو سندھی زبان کی ترویج، ترقی یا اس کے نفاذ کے خلاف ہوں اور نہ ہی اس فعل پر ممتاز علی بھٹو کو وطن کا غدار قرار دیتا ہوں کیونکہ اپنی مادری اور علاقائی زبان کی حفاظت کرنا ہر شخص کا بنیادی حق ہے اور یہ حق ہمیں ہمارے متفقہ آئین نے دیا ہے ۔اسی آئین کے تحت دیے گئے حق کے تحت میں یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ ممتاز علی بھٹو کے دوروزارت اعلیٰ کے دوران جتنے انسانوں کا قتل ہوا، جتنی جائد ادیں لوٹی، چھینی اور جلائی گئیں،جتنی لڑکیوں اور عورتوں کو اغواءکیا گیایا ان کی عزتیں لوٹی گئیں یا کوئی اور خلاف قانون بلوے ہوئے تھے ،سب کی غیر جانب دارانہ اور کھلی تحقیقات ہونی چاہئیں اور تمام مجرموں کو سزا بھی دی جانی چاہئے، تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہونے پائے۔
اسی طرح سے میں اس مطالبہ کی بھی حمایت کرتا ہوں کہ قیام بنگلہ دیش سے قبل ،مشرقی پاکستان میں جتنے بھی بنگالی اور غیر بنگالی ناحق قتل کئے گئے تھے اور جن جن عورتوں کی آبروریزی کی گئی تھی ۔ان سب کو انصاف دینے کے لئے سارے کے سارے حقائق کو سامنے لایا جائے اورمجرموں کو قرار واقعی سزا بھی دی جائے ،خواہ اس کے لئے مرے ہوئے لوگوں کے خلاف مقدمات چلانے کی ضرورت پڑے اور بعد میں ان کی قبروں پر ان کو دی گئی سزاﺅں کے کتبے گاڑے جائیں، تاکہ ہمارے ملک میں انصاف مہیا کرنے کی روایت قائم ہو۔انصاف ہونا چاہئے جلد یا بدیر!کیونکہ دین اسلام ہمیں انصاف اور عدل قائم کرنے کا حکم دیتا ہے۔
چونکہ اسلام میّت کی حرمت کا بھی حکم دیتا ہے اس لئے ان تاریخ کے مجرموں کی قبروں کو قطعاً نہ چھیڑا جائے۔
سچ تو یہ ہے کہ اردو زبان کو قومی زبان قرار دینے کے خلاف مزاحمت اور نفرت آج بھی موجود ہے۔کیونکہ نواب محمد اکبر بگٹی نے اپنی زندگی کے اختتامی سالوں میں اردو کی بجائے پنجابی زبان میں گفتگو کرنے کو ترجیح دی تھی۔ آپ کہیں گے کہ وہ تو غدار تھا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ ان فوجی جرنیلوں کا غدار وطن کا اپنا ہی ذاتی معیار ہے ۔میں تو ان پر بالکل ہی ٹرسٹ نہیں کرتا ۔ ان ظالموں نے تو فوج اور پاکستان کو اپنے ذاتی، گروہی اور مذہبی مفادات کے لئے اس بری طرح سے استعمال کیا ہے کہ دونوں کی اصلی شکلیں بگڑ کر بھیانک بن گئیں ہیں۔
پاکستان کی موجودہ بگڑی ہوئی امن و امان کی صورت حال اور تباہ شدہ اقتصادیات کے اصل ذمہ دار یہ جرنیل ہی تو ہیں جنہوں نے پاکستان کی نصف عمر ضائع کردی اور قوم کو نصف در نصف کر دیا ہے ۔جب کہ ہم اتنے احمق ہیں کہ اگر کسی جمہوری حکمران نے کوئی سختی کی تو بیلٹ بکس اورالیکشن کے عمل کے ذریعے سے اس کو ہٹانے کی بجائے فوجی جرنل کی گود میں جا بیٹھتے ہیں۔
پھرجب فوجی آتا ہے تو وہ جاتا ہی نہیں ،کیونکہ وہ کونسا ہم عوام کے ذریعے سے آیا تھا ، کہ اب ہم سے پوچھ کر جائے گا۔اب اگر ہم نے ایک برے سیاست دان سے پانچ برس کے بعد جان چھڑا لینی تھی، تواس سے بھی کہیں برے جرنل سے دس برس بعد بھی چھوٹ جائے تو غنیمت ہے۔پھر جنرل جاتے جاتے ملک کو اور بھی تقسیم کر جائے گایا کسی نہ کسی پاکستانی کو غدار کا خطاب دے جائے گا۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ جنرل ایوب نے پہلے مولانا مودودی جیسے جید عالم اور سیاسی رہنما کو غدار قرار دیا تھا اور پھر شیخ مجیب الرحمٰن کو۔
یہ وہی مجیب الرحمٰن ہے جو کہ قائد اعظمؒ اور محترمہ فاطمہ جناح ؒکے بعد بنگالی عوام کا مقبول لیڈر رہا ہے اور ہمارے ملک کے فوجی حکمران تو مقبول عوامی لیڈروں کو ہمیشہ سے ہی اپنے راستے کا کانٹا سمجھتے رہے ہیں۔
پاکستان اس روئے ارض کا واحد ملک ہے جس میں سب سے زیادہ کلمہ گو انسانوں کو کافر قرار دیا گیا ہے اور سب سے زیادہ مقبول عوامی رہنماﺅں کو غدار وطن کا تمغہ دیا گیا ہے۔ اگر ان فوجی حکمرانوں کے بس میں ہوتا تو وہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ مرحوم صاحب کو بھی غدار قرار دے ہی دیتے۔