کعبہ میں لٹکی نظم
عربی ادب کی ایک لازوال نظم کا اردوترجمہ
امیر حسن نورانی کے قلم کا کرشمہ
-------------------------------------------
مکہ کے اطراف میں تین بہت بڑے میلے ہوتے تھے۔ ایک مجنہ میں، دوسرا ذوالمجاز میں اور تیسرا سب سے بڑا اور اہم میلہ عکاظ میں لگتا تھا۔ انہیں میلوں میں شعر و شاعری کی محفلیں گرم ہوتی تھیں، اور ہر قبیلے کے شاعر اپنا کلام سنا کر داد و تحسین حاصل کرتے تھے۔ عکاظ کے میلے میں سب سے بڑا اجتماع ہوتا تھا۔ جس میں تمام قبائل کے چھوٹے بڑے شاعر جو وہاں موجود ہوتے، اپنا کلام جوش و خروش سے سنایا کرتے تھے۔ کئی کئی دن یہ محفل جاری رہتی تھی۔ اس موقع پر جس شاعر کے کلام کو لوگ سب سے بہتر قرار دیتے، اس کو اس سال کا سب سے بڑا شاعر مانا جاتا تھا، اور مشہور روایت کے مطابق اس کا قصیدہ سونے کے پانی سے ایک خاص قسم کے ریشمی کپڑے سے لکھوا کر خانہ کعبہ میں لٹکایا جاتا اس کی شہرت سارے ملک میں پھیل جاتی تھی۔ کیونکہ اس میلے میں دور دراز سے آئے ہوئے لوگ موجود ہوتے تھے ۔ منتخب قصیدے کے اشعار ذوق و شوق سے لوگ زبانی یاد کرلیتے تھے۔
ایسے قصائد جو معلقات کہلاتے تھے، ان کی تعداد کے متعلق اختلاف ہے، بعض تذکروں اور تاریخوں میں ان قصائد کی تعداد دس بتائی گئی ہے۔ اور بعض نے نو اور بعضوں نے ساتھ لکھی ہے۔ سبعہ معلقہ کے سات شعراء حسب ذیل ہیں۔
۱۔ امراؤ القیس ۲۔ زہیر بن ابی سلمیٰ ۳۔ عمرو بن کلثوم التغلبی ۴۔ طرفہ ابن عبدالبکری ۵۔ عنترہ بن شدادالعبسی ۶۔ لبید بن ربیعہ العامری ۷۔ حارث بن حلزہ الیکشری۔
برصغیر کے مدراس اور جامعات کے نصاب میں معلقات کا جو مجموعہ مدت دراز سے شامل ہے وہ انہی مذکورہ بالاشعراء کے قصائد پر مشتمل ہے۔ اس بات پر اتفاق ہے کہ سب سے پہلے امراؤ القیس کا قصیدہ خانہ کعبہ میں لٹکایا گیا۔
امراؤ القیس زمانہ جاہلیت کے شعرا میں سب سے باکمال اور نامور شاعر تھا۔ اپنے شاعرانہ کمالات کے باعث، اس نے عالمگیر شہرت حاصل کی۔ جس طرف فارسی ادب میں حافظ اور سعدی اور اردو میں میر و غالب عظمت کے نشان سمجھ جاتے ہیں۔ اسی طرح امراؤ القیس عربی شاعری کی تاریخ میں ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس عظیم شاعر کا نام ابو الحارث اور لقب امراؤ القیس تھا۔ باپ کا نام مجربن عمروالکندی، ماں کا اسم گرامی فاطمہ اور قبیلہ بنو اسد سے تعلق تھا۔ ناز و نعم میں پرورش پائی۔ جوان ہوکر گمراہی اور بے راہروی اختیار کی۔ گھر سے نکل گیا، عشق لڑائے، چشمہ چشمہ، صحرا صحرا گھومتا رہا، گاتا رہا، شعر کہتا رہا۔ آخر کار باپ کے قتل نے ضمیر کو جنجھوڑا۔ امراؤ القیس نے قسم کھائی کہ انتقام لئے بغیر شراب اور گوشت کو منہ نہ لگاؤں گا۔ کافی عرصہ اپنے باپ کے قاتل قبیلے سے برسر پیکار رہا۔ معاملات بس سے باہر ہوئے تو روم کے قیصر سے امداد لینے گیا اور واپسی کے سفر میں وفات پائی۔ روایت ہے کہ زہر میں بجھا لباس زیب تن کرنے سے امراء موت کی وادی میں اترا اور یہ اس کے دشمنوں کی سازش تھی ۔ یہ واقعہ 539ء میں پیش آیا۔
امراؤ القیس پہلا عرب شاعر ہے جس نے محبوب کے گھر کے ویران کھنڈروں پر کھڑے ہوکر اسے یاد کرنے اور رونے کی رسم ایجاد کی۔ اس نے اپنے اشعار میں عورتوں سے عشق کا کھل کر اظہار کیا۔ عورتوں سے گفتگو اور معاملہ بندی میں وہ فحش الفاظ کے استعمال ہچکچاتا نہیں۔ اسی لئے اس کا کلام عریانیت اور جنسی جذبات کی تشریح سے بھرا ہوا ہے۔ پیش نظر نظم امراؤ کی داستان محبت کی ترجمان ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسے اپنی چچا زاد بہن عنیزہ سے عشق تھا لیکن ملنے کے مواقع مفقود تھے۔ ہجر کے اس موسم میں امراؤ نے کچھ سوچا اور محسوس کیا اسے شعروں کا روپ دے دیا۔ یوں عربی زبان کی وہ خوبصورت اور لازوال نظم وجود میں آئی ہے جسے سب سے پہلے خانہ کعبہ کے قابل سمجھا گیا۔
ان روکھی پھیکی تمہیدی سطور کو یہیں تمام کرتے ہوئے اب ہم امراؤ القیس کی شاہکار نظم( پیش کرتے ہے)۔
پہلا معلقہ: امراؤ القیس
(۱۔۲)۔۔۔۔۔اے میرے دوستو! اس جگہ تھوڑی دیر کے لئے ٹھہر جاؤ۔ یہ میری محبوبہ کا اجڑا ہوا ویران مکان ہے۔ آؤ ہم سب اس جگہ منزل محبوب پر ٹھہر کرآنسو بہا لیں۔ وہ مکان جو ریت کے ایک ترچھے ٹیلےپر، مقام دخول اور حومل کے درمیان نظر آ رہا ہے۔ جس کے ایک طرف مقام توضح اور دوسری جانب مقراۃ واقع ہیں۔ اس مقام کے نشانات شمالی اور جنوبی ہواؤں کے ایک دوسرے کے مخالف رخ چلنے کے سبب سے، اب تک ناپید نہیں ہوئے ہیں۔ کیونکہ جب ایک سمت کی ہوا، ریت اڑا کر ان نشانات کو چھپا دیتی ہے تو دوسرے رخ سے چلنے والی ہوا، اس ریت کو اڑا لے جاتی ہے۔ اسی طرح محبوب کی منزل کے نشانات مٹتے نہیں ہیں۔
(۳)۔۔۔۔۔دیکھو! تم کو منزل محبوب کے صحنوں میں سفید ہرنون کی مینگنیاں اس طرح بکھری ہوئی نظر آ رہی ہیں، گویا وہ سیاہ مرچ کے دانے ہیں۔ یعنی اب اس جگہ کو خالی اور ویران سمجھ کر ہرنوں نے اس کا اپنا مسکن بنالیا ہے۔
(۴)۔۔۔۔۔(شاعر آئندہ شعر میں اس دن کو بڑی حسرت سے یاد کرتا ہے، جس دن اس کی محبوبہ نے اس جگہ سے کوچ کیا تھا۔۔مؤلف)۔
اس منزل سے کوچ کرنے کے دن جب محبوب کے قبیلے والے روانہ ہو رہے تھے تو میں اس مقام کے قریب ہی ببول کے درختوں کی آڑ سے یہ منظر دیکھ کر، آنسو بہا رہا تھا، جس طرح خنظل1 توڑنے والے کی آنکھسے مسلسل آنسو بہتے ہیں۔
(۵)۔۔۔۔۔میرے دوستوں نے میری بات سن کر اپنی سواریاں میری محبوبہ کی ویران منزل کے قریب روک لیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا: تم رو ، رو کر اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔ ذرا صبر و ضبط سے کام لو۔
(۶)۔۔۔۔۔دوست مجھے گر یہ و زاری سے منع کر رہے تھے۔ مگر کیا کروں، میرے درد دل کا علاج تو یہی آنسو ہیں، جو بہا رہا ہوں (اپنے آپ سے سوال کرتا ہے) کیا منزل محبوب کے نشانات دیکھ کر رونے کا کوئی موقع ہے؟ بھلا اس جگہ میری فریاد سننے والا کون ہے۔ یہ نشانات مجھے کوئی سکون نہیں پہنچا سکتے۔ یہ رونا دھونا بے سود ہے۔
(۷)۔۔۔۔۔َ"شاعر اپنے کو مخاطب کرکے کہتا ہے" اس محبوبہ کی محبت میں تمہاری حالت اسی طرح ہوگئی ہے۔ جیسی اس سے پہلے ام حویرث اور اس کی پڑوسن ام رباب کے عشق میں ہوچکی ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب تم مقام ماسل میں تھے۔ یعنی جس طرح پہلے ان دو عورتوں کی محبت میں مبتلا ہوکر مصیبتیں اٹھا چکے ہو اور ان کے وصل سے محروم رہے، اسی طرح اس محبوب کی محبت میں بھی رنج و غم کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔
(۸)۔۔۔۔۔(اب ان دونوں محبوباؤں کو یاد کرکے کہتا ہے) جب وہ دونوں کھڑی ہوتی تھیں تو ان کے جسموں سے مشک جیسی خوشبو نکل کر چاروں طرف پھیل جاتی تھی۔ ایسامعلوم ہوتا تھا کہ جیسے نسیم صبح، لونگ کے باغوں سے خوشبو اڑا کر لائی ہے۔
(۹)۔۔۔۔۔(اس شعر میں اپنی اس حالت کا ذکر کرتا ہے، جو ان دونوںمحبوباؤں کی جدائی میں ہوئی) کہتا ہے، ان کی جدائی میں سوزش عشق اور شدت جذبات، کے باعث میری آنکھوں کے آنسو، سینے کے اندر بہنے لگے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میری تلوار کا پرتلہ بھیگ گیا۔
(۱۰)۔۔۔۔۔اپنے آپ کو مخاطب کرکے کہتا ہے، اب ہوش میں آؤ، تمہارا یہ رونا دھونا کب تک جاری رہے گا۔ رنج و غم کا ذکر کہاں تک کرتے رہو گے۔ بھلا یہ بھی تو یاد کرو ، کہ تم نے وہ اچھے دن بھی دیکھے ہیں۔ جن میں تم حسین و جمیل عورتوں کے وصل سے حسب دل خواہ لطف اندوز ہوتے رہنے، خاص طور پر مقام "دارۃ جلجل" کے دن کو کیوں بھول گئے، جب حالات زمانہ تمہارے موافق تھے۔
(۱۱)۔۔۔۔۔(گزرے دنوں کو یاد کرکے) کہتا ہے، خاص طور پر وہ دن کس قدر پر کیف تھا، جس دن میں نے حسین دوشیزاؤں کی خاطر اپنی سواری کی اونٹنی ذبح کر ڈالی تھی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان دوشیزاؤں نے میری اونٹنی کا سامان اپنی سواریوں پر لادلیا۔ ان سے ایسی توقع نہیں تھی۔
(۱۲)۔۔۔۔۔وہ کنواری لڑکیاں میری اونٹنی کا گوشت، اور اس کے بٹے ہوئے ریشم جیسی سفید چربی، بطور ہنسی دل لگی ایک دوسرے پر پھینکنے لگیں۔
(۱۳)۔۔۔۔۔"اور وہ دن کتنا خوشگوار تھا" جس دن میں اپنی محبوبہ عنیزہ کے محمل میں داخل ہوا، اس وقت اس نے مجھ سے کہا، تیرا برا ہو، تو مجھ کو پیدل چلنے پر مجبور کرے گا۔ یعنی میرا اونٹ اتنا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہے، کہ ہم دونوں اس پر بیٹھ سکیں۔
(۱۴)۔۔۔۔۔اور جب ہم دووں کے وزن سے اونٹ کا محمل ایک سمت کو جھک گیا، تو عنیزہ نے مجھ سے کہا، اے امراؤ القیس! تم نے میرے اونٹ کی کمر جھکادی، بس اب اس پر سے نیچے اتر جاؤ۔
(۱۵)۔۔۔۔۔میں نے عنیزہ کو جواب دیا کہ "تم اونٹ کی مہمار ڈھیلی چھوڑ دو، اور چلی چلو اور مجھے اپنے جو بن کے تر و تازہ میوےسے محروم نہ کرو۔ یعنی مجھے بوس و کنار کی اس لذت سے لطف اندوز ہونے دو، جس میں اس وقت مشغول ہوں۔
(۱۶)۔۔۔۔۔اے عنیزہ! میں تجھ ہی سے خواہش وصل نہیں کر رہا ہوں، بلکہ تجھ جیسی بہت سی حسین و جمیل عورتیں اور بھی ہیں، کہ جو حاملہ ہیں۔ جن کے پاس میں رات کی تاریکی میں پہنچ کر لذت وصل کی ترغیب کے ذریعے ان کو ایک سال کے بچہ کی طرف سے غافل کردیا۔ دودھ پلانے والی عورتوں کی تخصیص اس لیے کی ہے کہ کہ ان میں وصل کی خواہش کم ہوتی ہے۔
(۱۷)۔۔۔۔۔(شاعر اپنی عیاشی کے حالات کھل کر بیان کرتا ہے) جب حفاظتی تعویذ پہنے ہوئے ایک سال کا بچہ، اپنی ماں کی پشت سے روتا تھا، تو وہ اپنے جسم کا اوپر والا حصہ اس کی طرف پھیرتی تھی (شاعر اس بات پر فخر کرتا ہے، اور محبوباہ سے کہتا ہے کہ) ایسی حاملہ عورتوں کو اپنی طرف مائل کر لیا، تو پھر اے عنیزہ! تم تو کنواری ہو، پھر کس طرح مجھ سے گریز کر سکتی ہو۔
(۱۸)۔۔۔۔۔ایک روز اس محبوبہ (عنیزہ) نے ٹیلے کی پشت پر آڑ میں کھڑے ہوکر بڑی سختی اور ناگواری کے ساتھ مجھ سے ترک تعلق کی بات کی، اور مجھے چھوڑ کر چلے جانےکی قطعی قسم کھائی، ایسی قسم جس کو توڑا نہیں جاسکتا۔
(۱۹)۔۔۔۔۔میں نے اس سے کہا کہ اے فاطمہ (عنیزہ کا دوسرا نام) یہ ناز و نخرے چھوڑ دو، اور اگر تم نے مجھ سے ترک تعلق اور جدا ہونے کا فیصلہ کر ہی لیا تو پھر خوش اسلوبی سے علیحدگی اختیار کرو۔
(۲۰)۔۔۔۔۔شاید تم کو اس احساس نے دھوکہ میں ڈال دیا ہے اور تمہارے اندر غرور پیدا کر دیا ہے کہ تمہاری محبت مجھے مار ڈالے گی اور میں تمہارا ہر حکم بجا لاؤں گا، کہ میرا دل تمہارے حکم کا پابند ہے۔
(۲۱)۔۔۔۔۔تم نے میرے دل کے دو حصے کر دیے ہیں۔ ایک حصہ تو ختم ہوچکا ہے، اور دوسرا لوہے کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔
(۲۲)۔۔۔۔۔اگر تم کو میری کوئی عادت پسند نہیں ہے۔ کوئی خصلت بری معلوم ہوتی ہے۔ تو میرے کپڑوں سے اپنے کپڑے الگ کردو۔ یعنی مجھ سے ترک تعلق کرلو۔ اگر تمہیں جدائی پسند ہے تو میں بھی اسے پسند کرتا ہوں۔ حالانکہ یہ میرے لیے ہلاکت کا باعث ہوگی۔
(۲۳)۔۔۔۔۔تمہاری دونوں آنکھوں سے، جو آنسو بہتے ہوئے نظر آ رہے ہیں، وہ صرف اس لیے ہیں کہ میرے شکستہ دل پر تمہاری دونوں نگاہوں کے تیر اثر انداز ہوں۔ یہ دل جو پہلے ہی تمہارے عشق میں خستہ و خوار ہے اور زیادہ زخم خوردہس ہوجائے۔
(۲۴)۔۔۔۔۔محبت کی راہ میں لوگوں کی کورچشمی ختم ہوچکی ہے، لیکن میرے دل سے اس کا خیال نہیں نکل سکتا کیونکہ میں محبت میں آنکھ بند رکھتا ہوں، یعنی انجام سے بے خبر اندھی محبت میں مبتلا ہوں۔
(۲۵)۔۔۔۔۔بہت سی وہ حسین دوشیزائیں ہیں، جو پردہ نشین ہیں، جن کے خیموں کے آس پاس، سخت نگرانی کے سبب کوئی جانے کی ہمت نہیں کرسکتا۔ لیکن میں بغیر کسی خوف کے ان کے پاس پہنچ کر، لطف اندوز ہوتا ہوں۔ ان سے گھنٹوں ہنسی دل لگی کرتا ہوں۔
(۲۶)۔۔۔۔۔میں اس پردہ نشین محبوبہ سے ملنے کے لیے آگے بڑھ گیا جب کہ اس کے محافظ جو میرے قتل کے لیے بے چین تھے اس کی حفاظت کر رہے تھے۔
(۲۷)۔۔۔۔۔میں محبوبہ سے ملنے کے لیے اس وقت آگے بڑھا جس وقت آسمان پر کہکشاں کا کنارہ اس طرح چمک رہا تھا جس طرح ہار میں موتیوں کے دانے چمکتے ہیں۔ یعنی میں محبوبہ کے پاس اس وقت پہنچا جس وقت کہکشاں کے ستارے علیحدہ علیحدہ چمک رہے تھے۔
(۲۸)۔۔۔۔۔ان حالات میں، اپنی محبوبہ کے پاس اس وقت پہنچا، جب اس نے اپنے کپڑے اتار ڈالے تھے۔ اور شب خوابی کے لباس میں، پردے کے پاس کھڑی، میرا انتظار کر رہی تھی۔ (لباس شب خوابی اس لیے پہنا تھا کہ گھر کے لوگ سمجھ لیں کہ وہ سونے جا رہی ہے)۔
(۲۹)۔۔۔۔۔جب محبوبہ کے پاس پہنچ گیا، تو مجھے دیکھ کر اس نے کہا، خدا کی قسم تم کو ٹالنے کا کوئی حیلہ بہانہ مجھ سے بن نہیں پڑتا ہے۔ مجھ کو اس کی امید بھی نہیں ہے، کہ یہ جنون عشق کی گمراہی تم کو راہ راست پر آنے دے۔
(۳۰)۔۔۔۔۔میں اس کو پردے سے باہر لایا۔ اور ساتھ لے کر چلنے لگا، وہ ہم دونوں کے نشانات قدم مٹانے کے لیے، اپنی منقش چادر کا دامن زمین پر گھسیٹتی ہوئی چل رہی تھی، تاکہ قدموں کے نشانوں سے کوئی ہمارا سراغ نہ لگا سکے گا۔
(۳۱)۔۔۔۔۔جب ہم نے اس کے قبیلے کا میدان طے کر لیا اور ایک کشادہ ریگستان میں پہنچے، جو تہہ بہ تہہ ریت کے جم جانے سے بلند چبو ترے کی طرح تھا۔
(۳۲)۔۔۔۔۔تو میں نے اس کی زلفوں کی دونوں لٹیں پکڑ کر، اس کو اپنی طرف جھکایا، تو وہ بلا عذر جھک آئی۔ اس کی کمر بہت پتلی اور پنڈلیاں گداز ہیں۔
(۳۳)۔۔۔۔۔اس کا شکم سستا ہوا، کمر باریک، رنگت گوری، اور جسم چست ہے۔ سینہ آئنہ کی طرح چمکتا ہے اور جسم ڈھیلا ڈھالا نہیں ہے۔
(۳۴)۔۔۔۔۔اس کے گورے گورے رنگ میں، ہلکی ہلکی زردی کی جھلک نظر آتی ہے۔ بالکل شتر مرغ کے زردی مائل سفید انڈے کی طرح، جو ہاتھ لگانے سے میلا نہیں ہوتا ہے۔ اس کی پرورش ایسے صاف و شفاف پانی سے ہوتی ہے، جو گدلا نہیں ہوا تھا۔ یا وہ ایسے نرم و نازک سفید نرکل سے مشابہ ہے جس کی نشو و نما صاف ستھرے پانی میں ہوئی ہو۔
(۳۵)۔۔۔۔۔وہ محبوبہ، ناز و انداز دکھانے کے لیے ہم سے اٹھکھیلیاں کرتی ہے، اس طرح کہ اپنا حسین رخسار بطور لگاوٹ ہمارے سامنے کرتی ہے، اور اپنی آنکھوں کو مقام و جرہ کے وحشی بچہ دار ہرنوں کی طرح، اپنے اور میرے درمیان حائل کرلیتی ہے۔ میں ان مست نگاہوں کو دیکھ کر مدہوش ہو جاتا ہوں۔ اور تاب نظارہ باقی نہیں رہتی۔ (بچے والے ہرنوں کی تخصیص اس لیے کی ہے کہ وہ جس وقت محبت بھری نظر سے اپنے بچوں کو دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھیں نہایت دل کش اور خوشنما معلوم ہوتی ہیں)۔
(۳۶)۔۔۔۔۔وہ اپنی ہرن جیسی خوشنما گردن بلند کرتی ہے لیکن اس کی گردن ہرن کی طرح لمبی اور بے ڈول نہیں ہے۔ اور نہ زیور سے خالی ہے۔
(۳۷)۔۔۔۔۔اس کے گھنے اور کوئلے جیسے سیاہ گیسو، اتنے دراز ہیں کہ زینت کمر بن گئے ہیں، اور ایسے ابھرے ہوئے ہیں کہ کھجور کے خوشہ کی طرح نظر آتے ہیں۔
(۳۸)۔۔۔۔۔وہ گیسو اس طرح گوندھے گئے ہیں کہ ابھرے ہوئے نظر آتے ہیں اور گندھے ہوئے بال بے گندھے ہوئے بالوں میں چھپ جاتے ہیں۔ یعنی اس کے بال بہت زیادہ گھنے ہیں۔
(۳۹)۔۔۔۔۔اس کی کمر اونٹ کی مہار جیسی پتلی ہے۔ پنڈلی ایسی صاف و شفاف، جیسے تازہ نرکل کا پور، جو زیادہ سینچائی کے سبب سے نہایت نرم و نازک ہو۔ (عرب میں نرمی اور نزاکت کے لیے نرکل کی تشبیہ ضرب المثل ہے)۔
(۴۰)۔۔۔۔۔اس کی نرم و نازک انگلیاں، ایسی باریک اور سیدھی ہیں جیسے اسحل2 کی مسواکیں، یا وادی ظبی کے اس کیڑے کی طرح ہیں، جس کا جسم سفید اور سر سرخ ہوتا ہے۔
(۴۱)۔۔۔۔۔وہ دن چڑھے تک سوئی رہتی ہے۔ مشک کے کٹے ہوئے ٹکڑے، اس کے بستر پر پڑے رہتے ہیں۔ شب خوابی کا لباس پہننے کے بعد وہ کمر پر پٹکا نہیں باندھتی ہے۔ یہ کام اس کی خادمہ کا ہے۔ کیونکہ وہ خوش حال اور ناز پروردہ ہے۔ اپنے ہاتھ سے کوئی کام نہیں کرتی، اس کی خدمت کے لئے خادمائیں موجود ہیں۔
(۴۲)۔۔۔۔۔رات کی تاریکی میں وہ اپنے رخ تاباں سے روشنی پھیلا دیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے گویا وہ تارک الدنیا راہب کا چراغ ہے 3۔
(۴۳)۔۔۔۔۔ایسی بے نظیر حسینہ کو نظر بھر کر دیکھنے کے لیے، عقل مند اور پرہیز گار لوگ بھی مجبور ہوجاتے ہیں۔ ان کو اپنے جذبات پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے۔ پھر ایسی حالت میں کہ جب وہ کرتی اور انگیا زیب تن کیے ہو۔ یعنی جب وہ جذبات انگیز لباس میں نظر آتی ہے، تو اس وقت محتاط لوگوں اور زاہدوں کے دل و دماغ بھی جذبہ عشق سے مسحور ہوجاتے ہیں۔
(۴۴)۔۔۔۔۔اور لوگوں کے جذبات تو اس وقت سرد پڑ گئے،جب وہ نگاہوں سے اوجھل ہوگئی۔ لیکن میرا دل تو محبت کے رشتہ سے الگ نہیں ہوسکتا ۔ یعنی دوسری تو عشق کی گمراہی سے بچ گئے، لیکن میرا عشق جوں کا توں ہے۔
(۴۵)۔۔۔۔۔(محبوبہ) کے سامنے، عشق میں اپنی ثابت قدمی کا حال بیان کرتا ہے، تاکہ وہ متاثر ہوکر مہربان ہوجائے)۔ اے محبوبہ! میں نے ان لوگوں کو ناکام لوٹا دیا، جو تجھ سے محبت کرنے کے سبب مجھ سے دشمنی اور نزاع پر آمادہ ہیں، اور اپنے کو میرا ناصح سمجھتے ہیں۔ میں نے ایسے لوگوں کی نصیحت پر کان نہیں دھرے۔ بلکہ سنی ان سنی کردی۔
(۴۶)۔۔۔۔۔اور اس رات نے، جو سمندروں کی لہروں کی طرح، خوفناک اور تاریک تھی۔ میری آزمائش کے لئے، مصائب و آلام کی جھولیں مجھ پر ڈال دیں۔ وہ میرے ضبط و تحمل کی آزمائش کرنا چاہتی تھی۔
(۴۷)۔۔۔۔۔جب رات نے اپنی پشت دراز کی، سرین پیچھے کی طرف نکالا، اور سینہ کو ابھارا (یعنی رات طویل ہونے لگی) تو اس وقت میں نے اس سے کہا:
(۴۸)۔۔۔۔۔اے شب دراز، کیا تو صبح کا روپ اختیار نہیں کرسکتی؟ (پھر ہوش میں آ کر کہتا ہے) مگر وہ صبح تجھ سے بہتر نہیں ہوسکتی یعنی جس طرح میں دن میں پریشان رہتا ہوں، اسی طرح رات بھی بے چینی میں گزرتی ہے۔
(۴۹)۔۔۔۔۔اے شب دراز! تو کسی طرح ختم ہی نہیں ہو رہی ہے۔ تیری حالت پر تعجب ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تیرے ستارے، سن کی مضبوط رسی سے کسی سخت پتھر کے ساتھ باندھ دیے گئے ہیں کہ وہ اپنی جگہ سے حرکت ہی نہیں کرتے۔ جو کسی طرح صبح کی روشنی نظر آئے۔
(۵۰)۔۔۔۔۔میری قوم کے پاس پانی کے لیے بہت سی مشکیں ہیں جن کے دوال (یعنی تسمے) میں نے اپنے فرمانبردار اور بوجھ اُٹھانے والے کاندھوں پر اٹھائے ہیں۔ یعنی دوران سفر اپنے ساتھیوں کی خدمت بھی کرتا رہا ہوں۔ یعنی مجھے پانی سے بھری ہوئی مشکیں کاندھوں سے لٹکا کر ان کے لیے لاتا تھا۔
(۵۱)۔۔۔۔۔میں نے اپنے سفر کے دوران بہت سی وادیوں کو طے کیا ہے۔ ان میں وہ سنسان اور بے آب و گیاہ وادی غیر بھی ہے۔ جو گدھے کے پیٹ کی طرح سرسبزی و شادابی سے خالی تھی۔ اور اس وادی میں ایک بھیڑیا بھوک سے بیتاب ہوکر اس طرح چیخ رہا تھا، جیسے بازی ہارنے والا جواری چیختا ہے، جس کے بال بچے ہوں اور ان کے خرچ کے لئے کچھ بھی نہ بچا ہو، اور وہ حالت نااُمیدی میں غم و غصے سے بے چین ہوکر فریاد و فغاں میں مصروف ہو۔
(۵۲)۔۔۔۔۔جب وادی غیر میں وہ بھوکا بھیڑا چلایا تو میں نے اس سے کہا، اگر تو کبھی مالدار نہیں ہوا تو میں بھی تیری طرح کبھی صاحب ثروت نہ ہوسکا، یعنی ہم تم دونوں ایک جیسے ہیں۔ نہ تمہارے پاس کچھ ہے نہ میرے پاس، اس میں ہم اور تم یکساں ہیں۔
(۵۳)۔۔۔۔۔ہم دونوں کا حال یہ ہے کہ جب کچھ ہاتھ آتا ہے ، تو اس کو ضائع کردیتے ہیں، یعنی سب کچھ خرچ کر ڈالتے ہیں اور جو شخص میری طرح، اور تیری طرح کمائی کرے گا۔ آخر کو بھوک اور پیاس کے باعث دبلا ہوجائے گا۔ یعنی فضول خرچی کا انجام فقر و فاقہ ہوتا ہے۔
(۵۴)۔۔۔۔۔میں صبح تڑکےاس وقت بیدار ہوتا ہوں جب پرندے اپنے آشیانوں میں محو خواب ہوتے ہیں۔ اور ایک مضبوط، بلند قامت گھوڑے پر سوار ہوکر نکلتا ہوں۔ وہ ایسا گھوڑا ہے، جس کے جسم پر بال کم ہیں۔ اور اتنا تیز رفتا ہے، کہ جنگلی جانور اس کے آگے بھاگ نہیں سکتے۔ وہ ان کو بھی پکڑ لیتا ہے۔
(شاعر نے پہلے اپنی ان تکالیف کا ذکر کیا جو راہ عشق میں برداشت کرتا رہا، اسی کے ساتھ شب ہجر کی طوالت کی شکایت کی، پھر اپنی مہمان نوازی اور قوم کی غم خواری کا تذکرہ کیا۔ اور اپنی شہسواری کے کمالات بیان کئے۔ اب اپنے گھوڑے کی چستی، چالاکی اور تیز رفتاری کی تعریف بہترین انداز میں کرتا ہے: مؤلف)
(۵۵)۔۔۔۔۔"میرا" وہ گھوڑا چتکبرہ ہے۔ اتنا موٹا تازہ ہے کہ کاٹھی بھی اس کی پیٹھ سے پھسل کر گر جاتی ہے۔ وہ گھوڑا دشمن پر حملہ کرنے کے وقت زبردست حملہ آور ہے۔ اور جب اس کو پیچھے ہٹانا چاہو، تو بڑی تیزی سے ہٹا ہے۔ وہ آگے بڑھنے اور پیچھے ہٹنے میں بہت چست ہے۔ دونوں متضاد اوصاف اس میں موجود ہیں۔ وہ اس تیزی سے بڑھتا ہے جیسے سیلاب کے اثر سے کوئی پتھر پہاڑ سے پھسل کر گرتا ہے۔
(۵۶)۔۔۔۔۔ اس گھوڑے کا جسم چھریرا ہے، اس کے باوجود جب اس کو چلنے کا اشارہ کیا جاتا ہے، تو بہت گرم ہوجاتا ہے، اور جب وہ گرم ہوکر فراٹے بھرنے لگتا ہے، اس وقت اس کی آواز تیز آنچ پر لپکتی ہوئی پرجوش ہانڈی کی آواز سے مشابہ ہوتی ہے۔
(۵۷)۔۔۔۔۔ وہ ایسا گھوڑا ہے جو ایک چال کے بعد دوسری چال نکالتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ برستا ہوا مینہ ہے۔ حالانکہ اور گھوڑے تھک کر سست ہوجاتے ہیں اور سموں سے روندی ہوئی سخت زمین میں غبار اڑانے لگتے ہیں۔ یعنی جب اور اچھے اچھے گھوڑے کثرت سفر سے تھک کر زمین سے پاؤں رگڑنے لگتے ہیں، اور ان میں چلنے کی ہمت اور طاقت نہیں رہ جاتی ہے، اس وقت میرا گھوڑا تازہ دم اور سبک رفتار رہتا ہے۔
(۵۸)۔۔۔۔۔ میرا وہ گھوڑا دبلے پتلے نئے سوار کو اپنی تیز رفتاری کے باعث کمر سے پھسلا کر گرا دیتا ہے۔ اور موٹے تازے جسم والے تجربیکار سوار کے کپڑے پھینک دیتا ہے۔ یعنی اناڑی سوار کو تو گرا دیتا ہے اور مشتاق سوار کو بھی چالاکی کے باعث کپڑے درست کرنے کی مہلت بھی نہیں دیتا۔
(۵۹)۔۔۔۔۔وہ گھوڑا اتنا چالاک اور پھرتیلا ہے کہ کاوا دینے سے پھرکی کی طرح گھوم جاتا ہے۔ جیسے کسی لڑکے کے دونوں ہاتھوں نے پھر کی کو بار بار زور سے گھمایا ہو، اور اس سے آواز نکلتی ہو، یعنی وہ گھوڑا ذرا سے اشارے پر فراٹے بھرنے لگتا ہے۔
(۶۰)۔۔۔۔۔اس کی کمر ہرن کی طرح پتلی ہے، ٹانگیں شتر مرغ کے مانند سیدھی، اور گوشت سے بھری ہوئی ہیں۔ اور رفتار بھیڑیے جیسی ہے۔ چھلانگ لگانے میں لومڑی کے بچہ کی طرح پھرتیلا ہے، شاعر نے اس شعر میں چار تشبیہیں نہایت اچھی جمع کردی ہیں)۔
(۶۱)۔۔۔۔۔اس کا سینہ چوڑا چکلا ہے اور سارے اعضا مکمل ہیں۔ دم اتنی دراز کہ زمین سے کچھ ہی اونچی رہتی ہے۔ اور اتنی گھنی ہے کہ اگر اس کو پیچھے سے دیکھو تو دونوں ٹانگوں کے درمیانی فاصلہ کوگھنی دم سے ڈھکا ہوا پاؤگے۔ اس کی دم میں خم نہیں ہے، کہ عجیب سمجھا جاتا ہے۔
(۶۲)۔۔۔۔۔جب وہ گھوڑا ہمارے گھر کے پاس کھڑا ہوتا ہے تو اس کی چوڑی پشت اس پتھر کی طرح معلوم ہوتی ہے جس پر دلہن کے لیے خوشبو پیسی جاتی ہے۔ یا اندرائن کا پھل توڑا جاتا ہے۔
(۶۳)۔۔۔۔۔وہ گھوڑا اپنی تیز رفتار کے باعث نیزے سے زخمی ہوکر بھاگنے والی جنگلی گایوں سے اتنا قریب ہوجاتا ہے کہ اس کے سینہ پر ان کے خون کے چھینٹے ایسے نظر آتے ہیں، جیسے کنگھی کیے ہوئے ہوئے سفید بالوں پر مہندی کے عرق کے دھبے۔
(۶۴)۔۔۔۔۔ہمارے سامنے نیل گایوں کا ایک گلہ ظاہر ہوا، وہ گائیں گھومتی ہوئی گھاس چر رہی تھیں۔ ان کی دم اور گردن کے بال بہت گھنے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ لانبی چادروں میں ملبوس دوشیزائیں ہیں، جو مشہور بت "دوار" کا طواف کر رہی ہیں۔
(۶۵)۔۔۔۔۔ہم کو دیکھ کر وہ نیل گائیں پیچھے لوٹیں۔ اس وقت وہ سفیدی اور سیاہی آمیز یمنی مہرہ کے ہار کی طرح نظر آ رہی تھیں، جس میں جواہرات جڑے ہوئے ہوں، اور وہ ایک نجیب الطرفین لڑکے کی گردن میں آویزاں ہو۔ (نیل گایوں کو یمن کے مہرہ سے تشبیہہ دی ہے۔ کیونکہ وہ دو طرف سے سیاہ اور باقی سفید ہوتا ہے) (یمنی مہرہ کو مہرۂ سلیمانی کہا جاتا ہے)۔
(۶۶)۔۔۔۔۔میرے اس برق رفتار گھوڑے نے اپنی تیز روی اور چالاکی سے ہمیں گلہ کے آگے چلنے والی گایوں سے، اس طرح ملا دیا کہ پیچھے رہ جانے والی گائیں تتر بتر نہ ہوسکیں۔ اس طرح اس نے سب کو قابو میں کر لیا۔
(۶۷)۔۔۔۔۔اس تیز رفتار گھوڑے نے بہت پھرتی کے ساتھ چمٹ کر ایک نر اور ایک مادہ نیل گایوں کو آگے پیچھے سے نرغے میں لے لیا (یعنی شکار کرلیا) اس کے باوجود اس کے جسم سے پسینہ تک نہ نکلا۔ یعنی اتنی بھاگ دوڑ کے بعد بھی نہ وہ تھکا، نہ ہمت ہارا۔
(۶۸)۔۔۔۔۔اب ان شکار کی ہوئی نیل گایوں کا گوشت جو بہت زیادہ تھا اس کو پکانے والے لوگ دوگروہوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ گرم پتھروں یا کوئلوں پر کباب پکانے لگا اور دوسرے نے ہانڈیاں چڑھادیں۔ تاکہ گوشت جلدی تیار ہوجائے۔ (تھکے ماندے شکاریوں پر بھوک کا غلبہ ہوتا ہے اس لیے چاہتے تھے جلدی پک جائے)۔
(۶۹)۔۔۔۔۔ہم شکار کرنے اور گوشت اور کباب کے بعد شام کو گھر واپس آئے۔ ہمارے گھوڑے کا یہ حال تھا کہ تھکان کے باوجود، اس کے حسن و خوبصورتی میں کوئی کمی نہیں آئی تھی، بلکہ آنکھیں اس کی خوبیوں کا جائزہ لیتے وقت چکا چوند ہوجاتی تھیں۔ جب اس کے جسم کے اوپری حصہ پر نظر ڈالتے تو نگاہ نہیں پڑتی تھی اور نیچے کے حصے کی طرف دیکھتے تو بھی یہی حال ہوتا تھا۔
(۷۰)۔۔۔۔۔ساری رات زین اور لگام اس گھوڑے پر رہا، اور وہ رات بھر میرے سامنے کھڑا رہا۔ اس کو چراگاہ میں نہیں چھوڑا گیا۔ (شاعر نے اپنے گھورے کی قوت برداشت، محنت اور فرمانبرداری کا حال بتایا ہے)۔
(۷۱)۔۔۔۔۔اے میرے دوست تم اس چمکتی ہوئی بجلی کو دیکھ رہے ہو، آؤ میں تم کو ایسی بجلی دکھاؤں جس کی چمک بادلوں کے اندر ایسی تہ در تہ نظر آتی ہے، جیسے دونوں ہاتھوں کا حرکت کرنا۔
(۷۲)۔۔۔۔۔برق تاباں دو متحرک ہاتھوں سے مشابہ ہے۔ یا اس عیسائی راہب کے چراغوں کی طرح ہے جس نے اچھی طرح بٹی ہوئی۔ بیتوں پر خوب تیل چھڑک دیا ہو، اور وہ بتیاں اچھی طرح روشن ہوں۔
(۷۳)۔۔۔۔۔میں خود اور میرے ساتھی، بہت سوچ سمجھ کر مقام ضارخ اور عذیب کے درمیان چمکتی بجلی کا تماشا دیکھنے کے لیے بیٹھ گئے۔
(۷۴)۔۔۔۔۔بجلی کے چمکنے سے ہم کو معلوم ہوتا تھا کہ ہمارے دائیں جانب "قطن" پہاڑ پر بارش ہو رہی ہے اور بائیں طرف ستار اور یذل (نام پہاڑ) پر بھی پانی برس رہا ہے۔ بجلی کی چمک نہ ہوتی تو کچھ پتہ نہ چلتا۔
(۷۵)۔۔۔۔۔وہ بادل مقام کتیفہ پر ایسے زور سے پانی برسانے لگا کہ کنہل 4 کے مضبوط جڑوں والے بڑے برے درخت اکھڑ کر منہ کے بل گر پڑے۔
(۷۶)۔۔۔۔۔اور جب اس تیز و تند بارش کے چھینٹے "قنان" پہاڑ پر پڑے تو اس نے پہاڑی بکروں کو ہر جگہ سے نیچے اتار دیا۔ یعنی خوفناک بارش کے اثر سے اس پہاڑ پر رہنے والے بکرے اپنے سب ٹھکانوں کو خالی کر کے جان کے خوف سے نیچے اتر آئے۔
(۷۷)۔۔۔۔۔اس شدید بارش کے اثر سے موضع تیما کی یہ حالت ہوئی کی کھجور کے درختوں کا کوئی تنا کھڑ کر گرنے سے نہیں بچا، اور کوئی قلعہ منہدم ہونے سے نہیں رہ گیا اور قلعے جو مضبوط پتھروں سے تعمیر ہوئے تھے، یعنی نہ کوئی درخت محفوظ رہا نہ مکان سب گر گئے۔ بارش نے سب کو زمین بوس کر دیا۔
(۷۸)۔۔۔۔۔جب ثبیر پہاڑ پر، بڑے بڑے قطروں کا مینہ برسنے لگا، اور اس کی نالیوں سے جھاگ دار پانی بہا ، تو وہ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ گویا کوئی بڑا سردار دھاری دار کمبل اوڑھے بیٹھا ہے۔
(پھاڑ کی بہت سی نالیوں سے بہتے ہوئے جھاگ دار پانی کا منظر دیکھ کر شاعر نے، پہاڑ کو بڑے سردار اور نالیوں کو دھاری دار کمبل سے مشابہ ظاہر کیا ہے، بہت اچھی اور انوکھی تشبیہ ہے)۔
(۷۹)۔۔۔۔۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مجیمر پہاڑ کی چوٹیاں صبح کے وقت سیلاب اور کوڑے کرکٹ کی وجہ سے تکلے کا دمڑکا ہیں۔ یعنی مذکورہ پہاڑ کی چوٹیاں، گھاس پھوس اور کوڑے کے جمع ہونے کی وجہ کہ جو چوٹی تک پہنچ گیا تھا، اس کی وجہ سے وہ چوٹیاں دمڑکا کی طرح گول دکھائی دیتی تھیں۔
(۸۰)۔۔۔۔۔اس زور دار بادل نے اپنا سارا بوجھ صحرائےعبیط میں ڈال دیا ہے۔ یعنی بہت زیادہ پانی برسایا۔ بالکل اسی یمنی5 تاجر کی طرح جس کے پاس کپڑے کے بہت سے گٹھر ہوں۔ پانی برسنے کی تشبیہ کپڑے کے اس یمنی تاجر سے دی ہے جو بہت سارے تھان دکھانے کے لیے دور تک پھیلا دیتا ہے تاکہ خریدار اچھی طرح دیکھ سکیں۔
(۸۱)۔۔۔۔۔بارش کی وجہ سے موسم ایسا خوشگوار ہو گیا تھا کہ صحرا کے سفید پرندے فرط نشاط سے ہر طرف نغمہ سنج نظر آ رہے تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان پرندوں کو سیاہ مرچ ملی ہوئی عمدہ شراب پلائی گئی ہے، جس نے ان کو مست کردیا، اور وہ خوب چہک رہے ہیں۔
(۸۲)۔۔۔۔۔وادی جوا میں شدت باراں کے باعث جو پرندے اور درندے پانی میں غرق ہو گئے تھے، وہ اس وادی کے اطراف میں شام کے وقت جنگلی پیاز کی جڑوں کی طرح نظر آ رہے تھے۔ (شاعر نے کیچڑ میں لت پت ہونے والے جانوروں کو جنگلی پیاز کی جڑوں سے تشبیہ دی ہے)۔
۱۔ خطل، ایک درخت کا پھل ہے، جس کو توڑنے سے اسی طرح آنسو نکلنے لگتے ہیں جس طرح پیاز کاٹنے سے نکلتے ہیں، اردو میں اس کو اندرائن کہتے ہیں۔
۲۔ اسحل، پیلو، ایک درخت کا نام ہے جس کی لکڑی سے مسوا کیں بنتی ہیں۔ اردو میں اس کا نام پیلو ہے۔
۳۔ عرب میں یہ طریقہ جاری تھا کہ عیسائی راہب رات میں کسی اونچی جگہ پر چراغ روشن کردیتے تھے تاکہ بھولے بھٹکے مسافروں کو ان کے پاس جا کر راستہ معلوم کرنے میں آسانی ہو۔ بعض عرب قبائل بھی مسافروں کے لئے اونچے مقام پر آگ روشن کردیتے تھے۔ تاکہ ان کو مہمان نوازی کا موقع ملے۔ اور مسافر کو صحیح راہ بھی مل جائے۔
۴۔ کنہل ایک جنگلی درخت کا نام ہے جس کی لکڑی بہت مضبوط ہوتی ہے۔
۵۔ زمانہ قدیم میں ملک یمن کا بنا ہوا ریشمی کپڑا بہت مشہور تھا۔ برد یمانی (یمنی چادر) کا ذکر عربی نظم و نثر میں بہت ہے۔
عربی ادب کی ایک لازوال نظم کا اردوترجمہ
امیر حسن نورانی کے قلم کا کرشمہ
-------------------------------------------
مکہ کے اطراف میں تین بہت بڑے میلے ہوتے تھے۔ ایک مجنہ میں، دوسرا ذوالمجاز میں اور تیسرا سب سے بڑا اور اہم میلہ عکاظ میں لگتا تھا۔ انہیں میلوں میں شعر و شاعری کی محفلیں گرم ہوتی تھیں، اور ہر قبیلے کے شاعر اپنا کلام سنا کر داد و تحسین حاصل کرتے تھے۔ عکاظ کے میلے میں سب سے بڑا اجتماع ہوتا تھا۔ جس میں تمام قبائل کے چھوٹے بڑے شاعر جو وہاں موجود ہوتے، اپنا کلام جوش و خروش سے سنایا کرتے تھے۔ کئی کئی دن یہ محفل جاری رہتی تھی۔ اس موقع پر جس شاعر کے کلام کو لوگ سب سے بہتر قرار دیتے، اس کو اس سال کا سب سے بڑا شاعر مانا جاتا تھا، اور مشہور روایت کے مطابق اس کا قصیدہ سونے کے پانی سے ایک خاص قسم کے ریشمی کپڑے سے لکھوا کر خانہ کعبہ میں لٹکایا جاتا اس کی شہرت سارے ملک میں پھیل جاتی تھی۔ کیونکہ اس میلے میں دور دراز سے آئے ہوئے لوگ موجود ہوتے تھے ۔ منتخب قصیدے کے اشعار ذوق و شوق سے لوگ زبانی یاد کرلیتے تھے۔
ایسے قصائد جو معلقات کہلاتے تھے، ان کی تعداد کے متعلق اختلاف ہے، بعض تذکروں اور تاریخوں میں ان قصائد کی تعداد دس بتائی گئی ہے۔ اور بعض نے نو اور بعضوں نے ساتھ لکھی ہے۔ سبعہ معلقہ کے سات شعراء حسب ذیل ہیں۔
۱۔ امراؤ القیس ۲۔ زہیر بن ابی سلمیٰ ۳۔ عمرو بن کلثوم التغلبی ۴۔ طرفہ ابن عبدالبکری ۵۔ عنترہ بن شدادالعبسی ۶۔ لبید بن ربیعہ العامری ۷۔ حارث بن حلزہ الیکشری۔
برصغیر کے مدراس اور جامعات کے نصاب میں معلقات کا جو مجموعہ مدت دراز سے شامل ہے وہ انہی مذکورہ بالاشعراء کے قصائد پر مشتمل ہے۔ اس بات پر اتفاق ہے کہ سب سے پہلے امراؤ القیس کا قصیدہ خانہ کعبہ میں لٹکایا گیا۔
امراؤ القیس زمانہ جاہلیت کے شعرا میں سب سے باکمال اور نامور شاعر تھا۔ اپنے شاعرانہ کمالات کے باعث، اس نے عالمگیر شہرت حاصل کی۔ جس طرف فارسی ادب میں حافظ اور سعدی اور اردو میں میر و غالب عظمت کے نشان سمجھ جاتے ہیں۔ اسی طرح امراؤ القیس عربی شاعری کی تاریخ میں ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس عظیم شاعر کا نام ابو الحارث اور لقب امراؤ القیس تھا۔ باپ کا نام مجربن عمروالکندی، ماں کا اسم گرامی فاطمہ اور قبیلہ بنو اسد سے تعلق تھا۔ ناز و نعم میں پرورش پائی۔ جوان ہوکر گمراہی اور بے راہروی اختیار کی۔ گھر سے نکل گیا، عشق لڑائے، چشمہ چشمہ، صحرا صحرا گھومتا رہا، گاتا رہا، شعر کہتا رہا۔ آخر کار باپ کے قتل نے ضمیر کو جنجھوڑا۔ امراؤ القیس نے قسم کھائی کہ انتقام لئے بغیر شراب اور گوشت کو منہ نہ لگاؤں گا۔ کافی عرصہ اپنے باپ کے قاتل قبیلے سے برسر پیکار رہا۔ معاملات بس سے باہر ہوئے تو روم کے قیصر سے امداد لینے گیا اور واپسی کے سفر میں وفات پائی۔ روایت ہے کہ زہر میں بجھا لباس زیب تن کرنے سے امراء موت کی وادی میں اترا اور یہ اس کے دشمنوں کی سازش تھی ۔ یہ واقعہ 539ء میں پیش آیا۔
امراؤ القیس پہلا عرب شاعر ہے جس نے محبوب کے گھر کے ویران کھنڈروں پر کھڑے ہوکر اسے یاد کرنے اور رونے کی رسم ایجاد کی۔ اس نے اپنے اشعار میں عورتوں سے عشق کا کھل کر اظہار کیا۔ عورتوں سے گفتگو اور معاملہ بندی میں وہ فحش الفاظ کے استعمال ہچکچاتا نہیں۔ اسی لئے اس کا کلام عریانیت اور جنسی جذبات کی تشریح سے بھرا ہوا ہے۔ پیش نظر نظم امراؤ کی داستان محبت کی ترجمان ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسے اپنی چچا زاد بہن عنیزہ سے عشق تھا لیکن ملنے کے مواقع مفقود تھے۔ ہجر کے اس موسم میں امراؤ نے کچھ سوچا اور محسوس کیا اسے شعروں کا روپ دے دیا۔ یوں عربی زبان کی وہ خوبصورت اور لازوال نظم وجود میں آئی ہے جسے سب سے پہلے خانہ کعبہ کے قابل سمجھا گیا۔
ان روکھی پھیکی تمہیدی سطور کو یہیں تمام کرتے ہوئے اب ہم امراؤ القیس کی شاہکار نظم( پیش کرتے ہے)۔
پہلا معلقہ: امراؤ القیس
(۱۔۲)۔۔۔۔۔اے میرے دوستو! اس جگہ تھوڑی دیر کے لئے ٹھہر جاؤ۔ یہ میری محبوبہ کا اجڑا ہوا ویران مکان ہے۔ آؤ ہم سب اس جگہ منزل محبوب پر ٹھہر کرآنسو بہا لیں۔ وہ مکان جو ریت کے ایک ترچھے ٹیلےپر، مقام دخول اور حومل کے درمیان نظر آ رہا ہے۔ جس کے ایک طرف مقام توضح اور دوسری جانب مقراۃ واقع ہیں۔ اس مقام کے نشانات شمالی اور جنوبی ہواؤں کے ایک دوسرے کے مخالف رخ چلنے کے سبب سے، اب تک ناپید نہیں ہوئے ہیں۔ کیونکہ جب ایک سمت کی ہوا، ریت اڑا کر ان نشانات کو چھپا دیتی ہے تو دوسرے رخ سے چلنے والی ہوا، اس ریت کو اڑا لے جاتی ہے۔ اسی طرح محبوب کی منزل کے نشانات مٹتے نہیں ہیں۔
(۳)۔۔۔۔۔دیکھو! تم کو منزل محبوب کے صحنوں میں سفید ہرنون کی مینگنیاں اس طرح بکھری ہوئی نظر آ رہی ہیں، گویا وہ سیاہ مرچ کے دانے ہیں۔ یعنی اب اس جگہ کو خالی اور ویران سمجھ کر ہرنوں نے اس کا اپنا مسکن بنالیا ہے۔
(۴)۔۔۔۔۔(شاعر آئندہ شعر میں اس دن کو بڑی حسرت سے یاد کرتا ہے، جس دن اس کی محبوبہ نے اس جگہ سے کوچ کیا تھا۔۔مؤلف)۔
اس منزل سے کوچ کرنے کے دن جب محبوب کے قبیلے والے روانہ ہو رہے تھے تو میں اس مقام کے قریب ہی ببول کے درختوں کی آڑ سے یہ منظر دیکھ کر، آنسو بہا رہا تھا، جس طرح خنظل1 توڑنے والے کی آنکھسے مسلسل آنسو بہتے ہیں۔
(۵)۔۔۔۔۔میرے دوستوں نے میری بات سن کر اپنی سواریاں میری محبوبہ کی ویران منزل کے قریب روک لیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا: تم رو ، رو کر اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔ ذرا صبر و ضبط سے کام لو۔
(۶)۔۔۔۔۔دوست مجھے گر یہ و زاری سے منع کر رہے تھے۔ مگر کیا کروں، میرے درد دل کا علاج تو یہی آنسو ہیں، جو بہا رہا ہوں (اپنے آپ سے سوال کرتا ہے) کیا منزل محبوب کے نشانات دیکھ کر رونے کا کوئی موقع ہے؟ بھلا اس جگہ میری فریاد سننے والا کون ہے۔ یہ نشانات مجھے کوئی سکون نہیں پہنچا سکتے۔ یہ رونا دھونا بے سود ہے۔
(۷)۔۔۔۔۔َ"شاعر اپنے کو مخاطب کرکے کہتا ہے" اس محبوبہ کی محبت میں تمہاری حالت اسی طرح ہوگئی ہے۔ جیسی اس سے پہلے ام حویرث اور اس کی پڑوسن ام رباب کے عشق میں ہوچکی ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب تم مقام ماسل میں تھے۔ یعنی جس طرح پہلے ان دو عورتوں کی محبت میں مبتلا ہوکر مصیبتیں اٹھا چکے ہو اور ان کے وصل سے محروم رہے، اسی طرح اس محبوب کی محبت میں بھی رنج و غم کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔
(۸)۔۔۔۔۔(اب ان دونوں محبوباؤں کو یاد کرکے کہتا ہے) جب وہ دونوں کھڑی ہوتی تھیں تو ان کے جسموں سے مشک جیسی خوشبو نکل کر چاروں طرف پھیل جاتی تھی۔ ایسامعلوم ہوتا تھا کہ جیسے نسیم صبح، لونگ کے باغوں سے خوشبو اڑا کر لائی ہے۔
(۹)۔۔۔۔۔(اس شعر میں اپنی اس حالت کا ذکر کرتا ہے، جو ان دونوںمحبوباؤں کی جدائی میں ہوئی) کہتا ہے، ان کی جدائی میں سوزش عشق اور شدت جذبات، کے باعث میری آنکھوں کے آنسو، سینے کے اندر بہنے لگے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میری تلوار کا پرتلہ بھیگ گیا۔
(۱۰)۔۔۔۔۔اپنے آپ کو مخاطب کرکے کہتا ہے، اب ہوش میں آؤ، تمہارا یہ رونا دھونا کب تک جاری رہے گا۔ رنج و غم کا ذکر کہاں تک کرتے رہو گے۔ بھلا یہ بھی تو یاد کرو ، کہ تم نے وہ اچھے دن بھی دیکھے ہیں۔ جن میں تم حسین و جمیل عورتوں کے وصل سے حسب دل خواہ لطف اندوز ہوتے رہنے، خاص طور پر مقام "دارۃ جلجل" کے دن کو کیوں بھول گئے، جب حالات زمانہ تمہارے موافق تھے۔
(۱۱)۔۔۔۔۔(گزرے دنوں کو یاد کرکے) کہتا ہے، خاص طور پر وہ دن کس قدر پر کیف تھا، جس دن میں نے حسین دوشیزاؤں کی خاطر اپنی سواری کی اونٹنی ذبح کر ڈالی تھی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان دوشیزاؤں نے میری اونٹنی کا سامان اپنی سواریوں پر لادلیا۔ ان سے ایسی توقع نہیں تھی۔
(۱۲)۔۔۔۔۔وہ کنواری لڑکیاں میری اونٹنی کا گوشت، اور اس کے بٹے ہوئے ریشم جیسی سفید چربی، بطور ہنسی دل لگی ایک دوسرے پر پھینکنے لگیں۔
(۱۳)۔۔۔۔۔"اور وہ دن کتنا خوشگوار تھا" جس دن میں اپنی محبوبہ عنیزہ کے محمل میں داخل ہوا، اس وقت اس نے مجھ سے کہا، تیرا برا ہو، تو مجھ کو پیدل چلنے پر مجبور کرے گا۔ یعنی میرا اونٹ اتنا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہے، کہ ہم دونوں اس پر بیٹھ سکیں۔
(۱۴)۔۔۔۔۔اور جب ہم دووں کے وزن سے اونٹ کا محمل ایک سمت کو جھک گیا، تو عنیزہ نے مجھ سے کہا، اے امراؤ القیس! تم نے میرے اونٹ کی کمر جھکادی، بس اب اس پر سے نیچے اتر جاؤ۔
(۱۵)۔۔۔۔۔میں نے عنیزہ کو جواب دیا کہ "تم اونٹ کی مہمار ڈھیلی چھوڑ دو، اور چلی چلو اور مجھے اپنے جو بن کے تر و تازہ میوےسے محروم نہ کرو۔ یعنی مجھے بوس و کنار کی اس لذت سے لطف اندوز ہونے دو، جس میں اس وقت مشغول ہوں۔
(۱۶)۔۔۔۔۔اے عنیزہ! میں تجھ ہی سے خواہش وصل نہیں کر رہا ہوں، بلکہ تجھ جیسی بہت سی حسین و جمیل عورتیں اور بھی ہیں، کہ جو حاملہ ہیں۔ جن کے پاس میں رات کی تاریکی میں پہنچ کر لذت وصل کی ترغیب کے ذریعے ان کو ایک سال کے بچہ کی طرف سے غافل کردیا۔ دودھ پلانے والی عورتوں کی تخصیص اس لیے کی ہے کہ کہ ان میں وصل کی خواہش کم ہوتی ہے۔
(۱۷)۔۔۔۔۔(شاعر اپنی عیاشی کے حالات کھل کر بیان کرتا ہے) جب حفاظتی تعویذ پہنے ہوئے ایک سال کا بچہ، اپنی ماں کی پشت سے روتا تھا، تو وہ اپنے جسم کا اوپر والا حصہ اس کی طرف پھیرتی تھی (شاعر اس بات پر فخر کرتا ہے، اور محبوباہ سے کہتا ہے کہ) ایسی حاملہ عورتوں کو اپنی طرف مائل کر لیا، تو پھر اے عنیزہ! تم تو کنواری ہو، پھر کس طرح مجھ سے گریز کر سکتی ہو۔
(۱۸)۔۔۔۔۔ایک روز اس محبوبہ (عنیزہ) نے ٹیلے کی پشت پر آڑ میں کھڑے ہوکر بڑی سختی اور ناگواری کے ساتھ مجھ سے ترک تعلق کی بات کی، اور مجھے چھوڑ کر چلے جانےکی قطعی قسم کھائی، ایسی قسم جس کو توڑا نہیں جاسکتا۔
(۱۹)۔۔۔۔۔میں نے اس سے کہا کہ اے فاطمہ (عنیزہ کا دوسرا نام) یہ ناز و نخرے چھوڑ دو، اور اگر تم نے مجھ سے ترک تعلق اور جدا ہونے کا فیصلہ کر ہی لیا تو پھر خوش اسلوبی سے علیحدگی اختیار کرو۔
(۲۰)۔۔۔۔۔شاید تم کو اس احساس نے دھوکہ میں ڈال دیا ہے اور تمہارے اندر غرور پیدا کر دیا ہے کہ تمہاری محبت مجھے مار ڈالے گی اور میں تمہارا ہر حکم بجا لاؤں گا، کہ میرا دل تمہارے حکم کا پابند ہے۔
(۲۱)۔۔۔۔۔تم نے میرے دل کے دو حصے کر دیے ہیں۔ ایک حصہ تو ختم ہوچکا ہے، اور دوسرا لوہے کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔
(۲۲)۔۔۔۔۔اگر تم کو میری کوئی عادت پسند نہیں ہے۔ کوئی خصلت بری معلوم ہوتی ہے۔ تو میرے کپڑوں سے اپنے کپڑے الگ کردو۔ یعنی مجھ سے ترک تعلق کرلو۔ اگر تمہیں جدائی پسند ہے تو میں بھی اسے پسند کرتا ہوں۔ حالانکہ یہ میرے لیے ہلاکت کا باعث ہوگی۔
(۲۳)۔۔۔۔۔تمہاری دونوں آنکھوں سے، جو آنسو بہتے ہوئے نظر آ رہے ہیں، وہ صرف اس لیے ہیں کہ میرے شکستہ دل پر تمہاری دونوں نگاہوں کے تیر اثر انداز ہوں۔ یہ دل جو پہلے ہی تمہارے عشق میں خستہ و خوار ہے اور زیادہ زخم خوردہس ہوجائے۔
(۲۴)۔۔۔۔۔محبت کی راہ میں لوگوں کی کورچشمی ختم ہوچکی ہے، لیکن میرے دل سے اس کا خیال نہیں نکل سکتا کیونکہ میں محبت میں آنکھ بند رکھتا ہوں، یعنی انجام سے بے خبر اندھی محبت میں مبتلا ہوں۔
(۲۵)۔۔۔۔۔بہت سی وہ حسین دوشیزائیں ہیں، جو پردہ نشین ہیں، جن کے خیموں کے آس پاس، سخت نگرانی کے سبب کوئی جانے کی ہمت نہیں کرسکتا۔ لیکن میں بغیر کسی خوف کے ان کے پاس پہنچ کر، لطف اندوز ہوتا ہوں۔ ان سے گھنٹوں ہنسی دل لگی کرتا ہوں۔
(۲۶)۔۔۔۔۔میں اس پردہ نشین محبوبہ سے ملنے کے لیے آگے بڑھ گیا جب کہ اس کے محافظ جو میرے قتل کے لیے بے چین تھے اس کی حفاظت کر رہے تھے۔
(۲۷)۔۔۔۔۔میں محبوبہ سے ملنے کے لیے اس وقت آگے بڑھا جس وقت آسمان پر کہکشاں کا کنارہ اس طرح چمک رہا تھا جس طرح ہار میں موتیوں کے دانے چمکتے ہیں۔ یعنی میں محبوبہ کے پاس اس وقت پہنچا جس وقت کہکشاں کے ستارے علیحدہ علیحدہ چمک رہے تھے۔
(۲۸)۔۔۔۔۔ان حالات میں، اپنی محبوبہ کے پاس اس وقت پہنچا، جب اس نے اپنے کپڑے اتار ڈالے تھے۔ اور شب خوابی کے لباس میں، پردے کے پاس کھڑی، میرا انتظار کر رہی تھی۔ (لباس شب خوابی اس لیے پہنا تھا کہ گھر کے لوگ سمجھ لیں کہ وہ سونے جا رہی ہے)۔
(۲۹)۔۔۔۔۔جب محبوبہ کے پاس پہنچ گیا، تو مجھے دیکھ کر اس نے کہا، خدا کی قسم تم کو ٹالنے کا کوئی حیلہ بہانہ مجھ سے بن نہیں پڑتا ہے۔ مجھ کو اس کی امید بھی نہیں ہے، کہ یہ جنون عشق کی گمراہی تم کو راہ راست پر آنے دے۔
(۳۰)۔۔۔۔۔میں اس کو پردے سے باہر لایا۔ اور ساتھ لے کر چلنے لگا، وہ ہم دونوں کے نشانات قدم مٹانے کے لیے، اپنی منقش چادر کا دامن زمین پر گھسیٹتی ہوئی چل رہی تھی، تاکہ قدموں کے نشانوں سے کوئی ہمارا سراغ نہ لگا سکے گا۔
(۳۱)۔۔۔۔۔جب ہم نے اس کے قبیلے کا میدان طے کر لیا اور ایک کشادہ ریگستان میں پہنچے، جو تہہ بہ تہہ ریت کے جم جانے سے بلند چبو ترے کی طرح تھا۔
(۳۲)۔۔۔۔۔تو میں نے اس کی زلفوں کی دونوں لٹیں پکڑ کر، اس کو اپنی طرف جھکایا، تو وہ بلا عذر جھک آئی۔ اس کی کمر بہت پتلی اور پنڈلیاں گداز ہیں۔
(۳۳)۔۔۔۔۔اس کا شکم سستا ہوا، کمر باریک، رنگت گوری، اور جسم چست ہے۔ سینہ آئنہ کی طرح چمکتا ہے اور جسم ڈھیلا ڈھالا نہیں ہے۔
(۳۴)۔۔۔۔۔اس کے گورے گورے رنگ میں، ہلکی ہلکی زردی کی جھلک نظر آتی ہے۔ بالکل شتر مرغ کے زردی مائل سفید انڈے کی طرح، جو ہاتھ لگانے سے میلا نہیں ہوتا ہے۔ اس کی پرورش ایسے صاف و شفاف پانی سے ہوتی ہے، جو گدلا نہیں ہوا تھا۔ یا وہ ایسے نرم و نازک سفید نرکل سے مشابہ ہے جس کی نشو و نما صاف ستھرے پانی میں ہوئی ہو۔
(۳۵)۔۔۔۔۔وہ محبوبہ، ناز و انداز دکھانے کے لیے ہم سے اٹھکھیلیاں کرتی ہے، اس طرح کہ اپنا حسین رخسار بطور لگاوٹ ہمارے سامنے کرتی ہے، اور اپنی آنکھوں کو مقام و جرہ کے وحشی بچہ دار ہرنوں کی طرح، اپنے اور میرے درمیان حائل کرلیتی ہے۔ میں ان مست نگاہوں کو دیکھ کر مدہوش ہو جاتا ہوں۔ اور تاب نظارہ باقی نہیں رہتی۔ (بچے والے ہرنوں کی تخصیص اس لیے کی ہے کہ وہ جس وقت محبت بھری نظر سے اپنے بچوں کو دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھیں نہایت دل کش اور خوشنما معلوم ہوتی ہیں)۔
(۳۶)۔۔۔۔۔وہ اپنی ہرن جیسی خوشنما گردن بلند کرتی ہے لیکن اس کی گردن ہرن کی طرح لمبی اور بے ڈول نہیں ہے۔ اور نہ زیور سے خالی ہے۔
(۳۷)۔۔۔۔۔اس کے گھنے اور کوئلے جیسے سیاہ گیسو، اتنے دراز ہیں کہ زینت کمر بن گئے ہیں، اور ایسے ابھرے ہوئے ہیں کہ کھجور کے خوشہ کی طرح نظر آتے ہیں۔
(۳۸)۔۔۔۔۔وہ گیسو اس طرح گوندھے گئے ہیں کہ ابھرے ہوئے نظر آتے ہیں اور گندھے ہوئے بال بے گندھے ہوئے بالوں میں چھپ جاتے ہیں۔ یعنی اس کے بال بہت زیادہ گھنے ہیں۔
(۳۹)۔۔۔۔۔اس کی کمر اونٹ کی مہار جیسی پتلی ہے۔ پنڈلی ایسی صاف و شفاف، جیسے تازہ نرکل کا پور، جو زیادہ سینچائی کے سبب سے نہایت نرم و نازک ہو۔ (عرب میں نرمی اور نزاکت کے لیے نرکل کی تشبیہ ضرب المثل ہے)۔
(۴۰)۔۔۔۔۔اس کی نرم و نازک انگلیاں، ایسی باریک اور سیدھی ہیں جیسے اسحل2 کی مسواکیں، یا وادی ظبی کے اس کیڑے کی طرح ہیں، جس کا جسم سفید اور سر سرخ ہوتا ہے۔
(۴۱)۔۔۔۔۔وہ دن چڑھے تک سوئی رہتی ہے۔ مشک کے کٹے ہوئے ٹکڑے، اس کے بستر پر پڑے رہتے ہیں۔ شب خوابی کا لباس پہننے کے بعد وہ کمر پر پٹکا نہیں باندھتی ہے۔ یہ کام اس کی خادمہ کا ہے۔ کیونکہ وہ خوش حال اور ناز پروردہ ہے۔ اپنے ہاتھ سے کوئی کام نہیں کرتی، اس کی خدمت کے لئے خادمائیں موجود ہیں۔
(۴۲)۔۔۔۔۔رات کی تاریکی میں وہ اپنے رخ تاباں سے روشنی پھیلا دیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے گویا وہ تارک الدنیا راہب کا چراغ ہے 3۔
(۴۳)۔۔۔۔۔ایسی بے نظیر حسینہ کو نظر بھر کر دیکھنے کے لیے، عقل مند اور پرہیز گار لوگ بھی مجبور ہوجاتے ہیں۔ ان کو اپنے جذبات پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے۔ پھر ایسی حالت میں کہ جب وہ کرتی اور انگیا زیب تن کیے ہو۔ یعنی جب وہ جذبات انگیز لباس میں نظر آتی ہے، تو اس وقت محتاط لوگوں اور زاہدوں کے دل و دماغ بھی جذبہ عشق سے مسحور ہوجاتے ہیں۔
(۴۴)۔۔۔۔۔اور لوگوں کے جذبات تو اس وقت سرد پڑ گئے،جب وہ نگاہوں سے اوجھل ہوگئی۔ لیکن میرا دل تو محبت کے رشتہ سے الگ نہیں ہوسکتا ۔ یعنی دوسری تو عشق کی گمراہی سے بچ گئے، لیکن میرا عشق جوں کا توں ہے۔
(۴۵)۔۔۔۔۔(محبوبہ) کے سامنے، عشق میں اپنی ثابت قدمی کا حال بیان کرتا ہے، تاکہ وہ متاثر ہوکر مہربان ہوجائے)۔ اے محبوبہ! میں نے ان لوگوں کو ناکام لوٹا دیا، جو تجھ سے محبت کرنے کے سبب مجھ سے دشمنی اور نزاع پر آمادہ ہیں، اور اپنے کو میرا ناصح سمجھتے ہیں۔ میں نے ایسے لوگوں کی نصیحت پر کان نہیں دھرے۔ بلکہ سنی ان سنی کردی۔
(۴۶)۔۔۔۔۔اور اس رات نے، جو سمندروں کی لہروں کی طرح، خوفناک اور تاریک تھی۔ میری آزمائش کے لئے، مصائب و آلام کی جھولیں مجھ پر ڈال دیں۔ وہ میرے ضبط و تحمل کی آزمائش کرنا چاہتی تھی۔
(۴۷)۔۔۔۔۔جب رات نے اپنی پشت دراز کی، سرین پیچھے کی طرف نکالا، اور سینہ کو ابھارا (یعنی رات طویل ہونے لگی) تو اس وقت میں نے اس سے کہا:
(۴۸)۔۔۔۔۔اے شب دراز، کیا تو صبح کا روپ اختیار نہیں کرسکتی؟ (پھر ہوش میں آ کر کہتا ہے) مگر وہ صبح تجھ سے بہتر نہیں ہوسکتی یعنی جس طرح میں دن میں پریشان رہتا ہوں، اسی طرح رات بھی بے چینی میں گزرتی ہے۔
(۴۹)۔۔۔۔۔اے شب دراز! تو کسی طرح ختم ہی نہیں ہو رہی ہے۔ تیری حالت پر تعجب ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تیرے ستارے، سن کی مضبوط رسی سے کسی سخت پتھر کے ساتھ باندھ دیے گئے ہیں کہ وہ اپنی جگہ سے حرکت ہی نہیں کرتے۔ جو کسی طرح صبح کی روشنی نظر آئے۔
(۵۰)۔۔۔۔۔میری قوم کے پاس پانی کے لیے بہت سی مشکیں ہیں جن کے دوال (یعنی تسمے) میں نے اپنے فرمانبردار اور بوجھ اُٹھانے والے کاندھوں پر اٹھائے ہیں۔ یعنی دوران سفر اپنے ساتھیوں کی خدمت بھی کرتا رہا ہوں۔ یعنی مجھے پانی سے بھری ہوئی مشکیں کاندھوں سے لٹکا کر ان کے لیے لاتا تھا۔
(۵۱)۔۔۔۔۔میں نے اپنے سفر کے دوران بہت سی وادیوں کو طے کیا ہے۔ ان میں وہ سنسان اور بے آب و گیاہ وادی غیر بھی ہے۔ جو گدھے کے پیٹ کی طرح سرسبزی و شادابی سے خالی تھی۔ اور اس وادی میں ایک بھیڑیا بھوک سے بیتاب ہوکر اس طرح چیخ رہا تھا، جیسے بازی ہارنے والا جواری چیختا ہے، جس کے بال بچے ہوں اور ان کے خرچ کے لئے کچھ بھی نہ بچا ہو، اور وہ حالت نااُمیدی میں غم و غصے سے بے چین ہوکر فریاد و فغاں میں مصروف ہو۔
(۵۲)۔۔۔۔۔جب وادی غیر میں وہ بھوکا بھیڑا چلایا تو میں نے اس سے کہا، اگر تو کبھی مالدار نہیں ہوا تو میں بھی تیری طرح کبھی صاحب ثروت نہ ہوسکا، یعنی ہم تم دونوں ایک جیسے ہیں۔ نہ تمہارے پاس کچھ ہے نہ میرے پاس، اس میں ہم اور تم یکساں ہیں۔
(۵۳)۔۔۔۔۔ہم دونوں کا حال یہ ہے کہ جب کچھ ہاتھ آتا ہے ، تو اس کو ضائع کردیتے ہیں، یعنی سب کچھ خرچ کر ڈالتے ہیں اور جو شخص میری طرح، اور تیری طرح کمائی کرے گا۔ آخر کو بھوک اور پیاس کے باعث دبلا ہوجائے گا۔ یعنی فضول خرچی کا انجام فقر و فاقہ ہوتا ہے۔
(۵۴)۔۔۔۔۔میں صبح تڑکےاس وقت بیدار ہوتا ہوں جب پرندے اپنے آشیانوں میں محو خواب ہوتے ہیں۔ اور ایک مضبوط، بلند قامت گھوڑے پر سوار ہوکر نکلتا ہوں۔ وہ ایسا گھوڑا ہے، جس کے جسم پر بال کم ہیں۔ اور اتنا تیز رفتا ہے، کہ جنگلی جانور اس کے آگے بھاگ نہیں سکتے۔ وہ ان کو بھی پکڑ لیتا ہے۔
(شاعر نے پہلے اپنی ان تکالیف کا ذکر کیا جو راہ عشق میں برداشت کرتا رہا، اسی کے ساتھ شب ہجر کی طوالت کی شکایت کی، پھر اپنی مہمان نوازی اور قوم کی غم خواری کا تذکرہ کیا۔ اور اپنی شہسواری کے کمالات بیان کئے۔ اب اپنے گھوڑے کی چستی، چالاکی اور تیز رفتاری کی تعریف بہترین انداز میں کرتا ہے: مؤلف)
(۵۵)۔۔۔۔۔"میرا" وہ گھوڑا چتکبرہ ہے۔ اتنا موٹا تازہ ہے کہ کاٹھی بھی اس کی پیٹھ سے پھسل کر گر جاتی ہے۔ وہ گھوڑا دشمن پر حملہ کرنے کے وقت زبردست حملہ آور ہے۔ اور جب اس کو پیچھے ہٹانا چاہو، تو بڑی تیزی سے ہٹا ہے۔ وہ آگے بڑھنے اور پیچھے ہٹنے میں بہت چست ہے۔ دونوں متضاد اوصاف اس میں موجود ہیں۔ وہ اس تیزی سے بڑھتا ہے جیسے سیلاب کے اثر سے کوئی پتھر پہاڑ سے پھسل کر گرتا ہے۔
(۵۶)۔۔۔۔۔ اس گھوڑے کا جسم چھریرا ہے، اس کے باوجود جب اس کو چلنے کا اشارہ کیا جاتا ہے، تو بہت گرم ہوجاتا ہے، اور جب وہ گرم ہوکر فراٹے بھرنے لگتا ہے، اس وقت اس کی آواز تیز آنچ پر لپکتی ہوئی پرجوش ہانڈی کی آواز سے مشابہ ہوتی ہے۔
(۵۷)۔۔۔۔۔ وہ ایسا گھوڑا ہے جو ایک چال کے بعد دوسری چال نکالتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ برستا ہوا مینہ ہے۔ حالانکہ اور گھوڑے تھک کر سست ہوجاتے ہیں اور سموں سے روندی ہوئی سخت زمین میں غبار اڑانے لگتے ہیں۔ یعنی جب اور اچھے اچھے گھوڑے کثرت سفر سے تھک کر زمین سے پاؤں رگڑنے لگتے ہیں، اور ان میں چلنے کی ہمت اور طاقت نہیں رہ جاتی ہے، اس وقت میرا گھوڑا تازہ دم اور سبک رفتار رہتا ہے۔
(۵۸)۔۔۔۔۔ میرا وہ گھوڑا دبلے پتلے نئے سوار کو اپنی تیز رفتاری کے باعث کمر سے پھسلا کر گرا دیتا ہے۔ اور موٹے تازے جسم والے تجربیکار سوار کے کپڑے پھینک دیتا ہے۔ یعنی اناڑی سوار کو تو گرا دیتا ہے اور مشتاق سوار کو بھی چالاکی کے باعث کپڑے درست کرنے کی مہلت بھی نہیں دیتا۔
(۵۹)۔۔۔۔۔وہ گھوڑا اتنا چالاک اور پھرتیلا ہے کہ کاوا دینے سے پھرکی کی طرح گھوم جاتا ہے۔ جیسے کسی لڑکے کے دونوں ہاتھوں نے پھر کی کو بار بار زور سے گھمایا ہو، اور اس سے آواز نکلتی ہو، یعنی وہ گھوڑا ذرا سے اشارے پر فراٹے بھرنے لگتا ہے۔
(۶۰)۔۔۔۔۔اس کی کمر ہرن کی طرح پتلی ہے، ٹانگیں شتر مرغ کے مانند سیدھی، اور گوشت سے بھری ہوئی ہیں۔ اور رفتار بھیڑیے جیسی ہے۔ چھلانگ لگانے میں لومڑی کے بچہ کی طرح پھرتیلا ہے، شاعر نے اس شعر میں چار تشبیہیں نہایت اچھی جمع کردی ہیں)۔
(۶۱)۔۔۔۔۔اس کا سینہ چوڑا چکلا ہے اور سارے اعضا مکمل ہیں۔ دم اتنی دراز کہ زمین سے کچھ ہی اونچی رہتی ہے۔ اور اتنی گھنی ہے کہ اگر اس کو پیچھے سے دیکھو تو دونوں ٹانگوں کے درمیانی فاصلہ کوگھنی دم سے ڈھکا ہوا پاؤگے۔ اس کی دم میں خم نہیں ہے، کہ عجیب سمجھا جاتا ہے۔
(۶۲)۔۔۔۔۔جب وہ گھوڑا ہمارے گھر کے پاس کھڑا ہوتا ہے تو اس کی چوڑی پشت اس پتھر کی طرح معلوم ہوتی ہے جس پر دلہن کے لیے خوشبو پیسی جاتی ہے۔ یا اندرائن کا پھل توڑا جاتا ہے۔
(۶۳)۔۔۔۔۔وہ گھوڑا اپنی تیز رفتار کے باعث نیزے سے زخمی ہوکر بھاگنے والی جنگلی گایوں سے اتنا قریب ہوجاتا ہے کہ اس کے سینہ پر ان کے خون کے چھینٹے ایسے نظر آتے ہیں، جیسے کنگھی کیے ہوئے ہوئے سفید بالوں پر مہندی کے عرق کے دھبے۔
(۶۴)۔۔۔۔۔ہمارے سامنے نیل گایوں کا ایک گلہ ظاہر ہوا، وہ گائیں گھومتی ہوئی گھاس چر رہی تھیں۔ ان کی دم اور گردن کے بال بہت گھنے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ لانبی چادروں میں ملبوس دوشیزائیں ہیں، جو مشہور بت "دوار" کا طواف کر رہی ہیں۔
(۶۵)۔۔۔۔۔ہم کو دیکھ کر وہ نیل گائیں پیچھے لوٹیں۔ اس وقت وہ سفیدی اور سیاہی آمیز یمنی مہرہ کے ہار کی طرح نظر آ رہی تھیں، جس میں جواہرات جڑے ہوئے ہوں، اور وہ ایک نجیب الطرفین لڑکے کی گردن میں آویزاں ہو۔ (نیل گایوں کو یمن کے مہرہ سے تشبیہہ دی ہے۔ کیونکہ وہ دو طرف سے سیاہ اور باقی سفید ہوتا ہے) (یمنی مہرہ کو مہرۂ سلیمانی کہا جاتا ہے)۔
(۶۶)۔۔۔۔۔میرے اس برق رفتار گھوڑے نے اپنی تیز روی اور چالاکی سے ہمیں گلہ کے آگے چلنے والی گایوں سے، اس طرح ملا دیا کہ پیچھے رہ جانے والی گائیں تتر بتر نہ ہوسکیں۔ اس طرح اس نے سب کو قابو میں کر لیا۔
(۶۷)۔۔۔۔۔اس تیز رفتار گھوڑے نے بہت پھرتی کے ساتھ چمٹ کر ایک نر اور ایک مادہ نیل گایوں کو آگے پیچھے سے نرغے میں لے لیا (یعنی شکار کرلیا) اس کے باوجود اس کے جسم سے پسینہ تک نہ نکلا۔ یعنی اتنی بھاگ دوڑ کے بعد بھی نہ وہ تھکا، نہ ہمت ہارا۔
(۶۸)۔۔۔۔۔اب ان شکار کی ہوئی نیل گایوں کا گوشت جو بہت زیادہ تھا اس کو پکانے والے لوگ دوگروہوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ گرم پتھروں یا کوئلوں پر کباب پکانے لگا اور دوسرے نے ہانڈیاں چڑھادیں۔ تاکہ گوشت جلدی تیار ہوجائے۔ (تھکے ماندے شکاریوں پر بھوک کا غلبہ ہوتا ہے اس لیے چاہتے تھے جلدی پک جائے)۔
(۶۹)۔۔۔۔۔ہم شکار کرنے اور گوشت اور کباب کے بعد شام کو گھر واپس آئے۔ ہمارے گھوڑے کا یہ حال تھا کہ تھکان کے باوجود، اس کے حسن و خوبصورتی میں کوئی کمی نہیں آئی تھی، بلکہ آنکھیں اس کی خوبیوں کا جائزہ لیتے وقت چکا چوند ہوجاتی تھیں۔ جب اس کے جسم کے اوپری حصہ پر نظر ڈالتے تو نگاہ نہیں پڑتی تھی اور نیچے کے حصے کی طرف دیکھتے تو بھی یہی حال ہوتا تھا۔
(۷۰)۔۔۔۔۔ساری رات زین اور لگام اس گھوڑے پر رہا، اور وہ رات بھر میرے سامنے کھڑا رہا۔ اس کو چراگاہ میں نہیں چھوڑا گیا۔ (شاعر نے اپنے گھورے کی قوت برداشت، محنت اور فرمانبرداری کا حال بتایا ہے)۔
(۷۱)۔۔۔۔۔اے میرے دوست تم اس چمکتی ہوئی بجلی کو دیکھ رہے ہو، آؤ میں تم کو ایسی بجلی دکھاؤں جس کی چمک بادلوں کے اندر ایسی تہ در تہ نظر آتی ہے، جیسے دونوں ہاتھوں کا حرکت کرنا۔
(۷۲)۔۔۔۔۔برق تاباں دو متحرک ہاتھوں سے مشابہ ہے۔ یا اس عیسائی راہب کے چراغوں کی طرح ہے جس نے اچھی طرح بٹی ہوئی۔ بیتوں پر خوب تیل چھڑک دیا ہو، اور وہ بتیاں اچھی طرح روشن ہوں۔
(۷۳)۔۔۔۔۔میں خود اور میرے ساتھی، بہت سوچ سمجھ کر مقام ضارخ اور عذیب کے درمیان چمکتی بجلی کا تماشا دیکھنے کے لیے بیٹھ گئے۔
(۷۴)۔۔۔۔۔بجلی کے چمکنے سے ہم کو معلوم ہوتا تھا کہ ہمارے دائیں جانب "قطن" پہاڑ پر بارش ہو رہی ہے اور بائیں طرف ستار اور یذل (نام پہاڑ) پر بھی پانی برس رہا ہے۔ بجلی کی چمک نہ ہوتی تو کچھ پتہ نہ چلتا۔
(۷۵)۔۔۔۔۔وہ بادل مقام کتیفہ پر ایسے زور سے پانی برسانے لگا کہ کنہل 4 کے مضبوط جڑوں والے بڑے برے درخت اکھڑ کر منہ کے بل گر پڑے۔
(۷۶)۔۔۔۔۔اور جب اس تیز و تند بارش کے چھینٹے "قنان" پہاڑ پر پڑے تو اس نے پہاڑی بکروں کو ہر جگہ سے نیچے اتار دیا۔ یعنی خوفناک بارش کے اثر سے اس پہاڑ پر رہنے والے بکرے اپنے سب ٹھکانوں کو خالی کر کے جان کے خوف سے نیچے اتر آئے۔
(۷۷)۔۔۔۔۔اس شدید بارش کے اثر سے موضع تیما کی یہ حالت ہوئی کی کھجور کے درختوں کا کوئی تنا کھڑ کر گرنے سے نہیں بچا، اور کوئی قلعہ منہدم ہونے سے نہیں رہ گیا اور قلعے جو مضبوط پتھروں سے تعمیر ہوئے تھے، یعنی نہ کوئی درخت محفوظ رہا نہ مکان سب گر گئے۔ بارش نے سب کو زمین بوس کر دیا۔
(۷۸)۔۔۔۔۔جب ثبیر پہاڑ پر، بڑے بڑے قطروں کا مینہ برسنے لگا، اور اس کی نالیوں سے جھاگ دار پانی بہا ، تو وہ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ گویا کوئی بڑا سردار دھاری دار کمبل اوڑھے بیٹھا ہے۔
(پھاڑ کی بہت سی نالیوں سے بہتے ہوئے جھاگ دار پانی کا منظر دیکھ کر شاعر نے، پہاڑ کو بڑے سردار اور نالیوں کو دھاری دار کمبل سے مشابہ ظاہر کیا ہے، بہت اچھی اور انوکھی تشبیہ ہے)۔
(۷۹)۔۔۔۔۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مجیمر پہاڑ کی چوٹیاں صبح کے وقت سیلاب اور کوڑے کرکٹ کی وجہ سے تکلے کا دمڑکا ہیں۔ یعنی مذکورہ پہاڑ کی چوٹیاں، گھاس پھوس اور کوڑے کے جمع ہونے کی وجہ کہ جو چوٹی تک پہنچ گیا تھا، اس کی وجہ سے وہ چوٹیاں دمڑکا کی طرح گول دکھائی دیتی تھیں۔
(۸۰)۔۔۔۔۔اس زور دار بادل نے اپنا سارا بوجھ صحرائےعبیط میں ڈال دیا ہے۔ یعنی بہت زیادہ پانی برسایا۔ بالکل اسی یمنی5 تاجر کی طرح جس کے پاس کپڑے کے بہت سے گٹھر ہوں۔ پانی برسنے کی تشبیہ کپڑے کے اس یمنی تاجر سے دی ہے جو بہت سارے تھان دکھانے کے لیے دور تک پھیلا دیتا ہے تاکہ خریدار اچھی طرح دیکھ سکیں۔
(۸۱)۔۔۔۔۔بارش کی وجہ سے موسم ایسا خوشگوار ہو گیا تھا کہ صحرا کے سفید پرندے فرط نشاط سے ہر طرف نغمہ سنج نظر آ رہے تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان پرندوں کو سیاہ مرچ ملی ہوئی عمدہ شراب پلائی گئی ہے، جس نے ان کو مست کردیا، اور وہ خوب چہک رہے ہیں۔
(۸۲)۔۔۔۔۔وادی جوا میں شدت باراں کے باعث جو پرندے اور درندے پانی میں غرق ہو گئے تھے، وہ اس وادی کے اطراف میں شام کے وقت جنگلی پیاز کی جڑوں کی طرح نظر آ رہے تھے۔ (شاعر نے کیچڑ میں لت پت ہونے والے جانوروں کو جنگلی پیاز کی جڑوں سے تشبیہ دی ہے)۔
۱۔ خطل، ایک درخت کا پھل ہے، جس کو توڑنے سے اسی طرح آنسو نکلنے لگتے ہیں جس طرح پیاز کاٹنے سے نکلتے ہیں، اردو میں اس کو اندرائن کہتے ہیں۔
۲۔ اسحل، پیلو، ایک درخت کا نام ہے جس کی لکڑی سے مسوا کیں بنتی ہیں۔ اردو میں اس کا نام پیلو ہے۔
۳۔ عرب میں یہ طریقہ جاری تھا کہ عیسائی راہب رات میں کسی اونچی جگہ پر چراغ روشن کردیتے تھے تاکہ بھولے بھٹکے مسافروں کو ان کے پاس جا کر راستہ معلوم کرنے میں آسانی ہو۔ بعض عرب قبائل بھی مسافروں کے لئے اونچے مقام پر آگ روشن کردیتے تھے۔ تاکہ ان کو مہمان نوازی کا موقع ملے۔ اور مسافر کو صحیح راہ بھی مل جائے۔
۴۔ کنہل ایک جنگلی درخت کا نام ہے جس کی لکڑی بہت مضبوط ہوتی ہے۔
۵۔ زمانہ قدیم میں ملک یمن کا بنا ہوا ریشمی کپڑا بہت مشہور تھا۔ برد یمانی (یمنی چادر) کا ذکر عربی نظم و نثر میں بہت ہے۔