ربیع م
محفلین
عربی شاعری اندلس میں
ایک طائرانہ جائزہ
ڈاکٹر خورشید رضوی ایک طائرانہ جائزہ
اگر ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب کی اس تازہ تحقیق سے اتفاق کر لیا جائے کہ مسلمان افواج طارق بن زیاد ے بہت پہلے 27ھ میں اندلس میں قدم رکھ چکی تھیں ۔ تو پھر یہاں کی فضاؤں میں اولین عربی اشعار بھی اسی زمانے میں گنگنائے گئے ہوں گے ۔ بعدازاں طارق بن زیادہ اور موسی بن نصیر کے ساتھ اندلس میں عربوں کی آمد اور پھر ان کے نسلی و گروہی تعصبات کے ہنگاموں میں ، ممکن نہیں کہ یاد ماضی اور فخر ومباہات کے جذبات کو شعر کی زبان میں ادا نہ کیا گیا ہو۔ لیکن ان ابتدائی ادوار کی رجز خوانی ہو یا غزل سرائی ، سب ہواؤں میں تحلیل ہو چکی ہے ۔ شاید اس لئے کہ یہ ادوار ایسی عملی کشاکش سے عبارت تھے جس میں ادبی آثار کی حفاظت کا اہتمام ممکن نہ تھا۔
سرزمین اندلس میں تخلیق ہونے والی عربی شاعری کا اولین قابل ذکر نمونہ ، جو محفوظ رہ سکا ہے غالبا صقر قریش عبدالرحمٰن الداخل (متوفی172ھ / 788ء) کے بعض اشعار ہیں جن پر یاد وطن یا فخر کا مضمون غالب ہے ۔ ان میں زیادہ شہرت چار شعر کے اس قطعے کو ملی جو ان نے رُ صافہ قرطبہ میں کھجور کے ایک تنہا درخت کو دیکھ کر کہا۔ کھجور کا درخت اندلس کی چیز نہ تھی یہ اسے اس کے وطن ، سرزمین شام ، اور وہاں امویوں کی عظمت رفتہ کی یاد دلاتا تھا ۔ شاید اسی لئے اس نے مسجد قرطبہ کے ستون اور ان کی درمیانی قوسیں اس وضع پر رکھوائیں کہ ایک نخلستان کا نمونہ پیش کریں ۔ اقبال نے اسی کیفیت کو محسوس کرکے کہاتھا:
تیری بنا پائدار ، تیرے ستون بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل
بہر کیف رصافہ میں کھجور کا پیڑ دیکھ کر عبدالرحمٰن کے دل کے تار جھنجھنا اٹھے اور اس نے اپنے اوراس کے درمیان غریب الوطنی کا اشتراک محسوس کرتے ہوئے کہا:شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل
تَبَدَّت لَنَا وَسْطَ الرُّصافَةِ نَخْلةٌ
تَنَاءت بأرضِ الغَرْبِ عن بَلَدِ النَّخْل
فقُلتُ شَبِيهي في التَغَرُّبِ والنَّوَى
وطُولِ التَّنَاءي عن بَنِيّ وعن أهلي
نشَأتِ بأرضٍ أنتِ فيها غَريبةٌ
فمِثْلُكِ في الإقصاء والمُنْتأى مثلي
سَقَاكِ غَوَادِي المُزْنِ مِن صوبها الذي
يَسُحُّ ويستمرِي السِّماكَين بالوّبْلِ
"رصافہ کے وسط میں ایک کھجور ہمیں دکھائی دی
جو کھجوروں کی سرزمین سے بہت دور ارض مغرب میں کھڑی تھی ۔
میں نے اس سے کہا: اے کہ تو میری شبیہ ہے ۔
غریب الوطنی میں ، بعد مکانی میں ، اور اہل وعیال سے مدتوں کے فراق میں تو نے ایک ایسی زمین میں نشوونما پائی ہے جہاں تو غریب الدیار ہے۔
چنانچہ فاصلوں اور دوریوں کے حوالے سے تو میری مثال ہے
خدا کرے صبح کے بادل تجھے اپنے دھارے سے سیراب کریں جو کھل کر برستا ہے اور (آسمان کے ستاروں ) سماکین ، سے موسلا دھار بارش کھینچ کر لے آتا ہے "۔
اقبال نے بال جبریل میں ان اشعار کا آزاد ترجمہ " عبدالرحمٰن اول کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت سرزمین اندلس میں " کے عنوان سے کیا ہے :
مغرب کی ہوا نے تجھ کو پالا
صحرائے عرب کی حور ہے تو
پردیس میں ناصبور ہوں میں
پردیس میں ناصبور ہے تو
غربت کی ہوا میں بارور ہو
ساقی تیرا نم سحر ہو
اندلس کے اموی حکمرانوں میں عبدالرحمٰن کا ذوق شعری نسل درنسل ظہور کرتا رہا ۔ ابن الابّار نے اس کے بیٹے ہشام اور پوتے الحکم کے اشعار نقل کئے ہیں ۔ اس کا پرپوتا عبدالرحمٰن الاوسط شعر وادب اور فنون لطیفہ سے گہری دلچسپی رکھتا تھا اور گاہے گاہے خود بھی شعر کہتا تھا ۔ مشہور مغنی زریاب اسی کے دربار سے وابستہ تھا۔ اسی کے زیرسرپرستی یحییٰ بن الحکم الغزال جیسا شاعر ابھرا جس کے بارے میں روایت ہے کہ اس نے ایک مرتبہ اہل بغداد کو اپنے چند شعر یہ کہہ کر سنادئیے کہ یہ ابو نواس کے شعر ہیں تو کسی کو اس پر شک نہ گزرا ۔ الغزال نے اندلس کی منظوم تاریخ بھی لکھی ۔ شاعر ہونے کے علاوہ وہ بڑی سمجھ بوجھ کا آدمی بھی تھا ، اور عبدالرحمٰن اس سے سفارتی کام بھی لیتا تھا ۔
عبدالرحمٰن کے درباری شعراء میں عبداللہ بن الشمر کا نام بھی نمایاں ہے ۔
شاعری کا یہ ذوق رفتہ رفتہ اندلسی ثقافت کی رگ و پے میں سرایت کر گیا ۔ صاحبان اقتدار خود شعر کہتے تھے اور شعراء کی سرپرستی کرتے تھے ۔ اگرچہ یہ سب شعراء قبول عام نہ پاسکے مثلا القلفاط محمد بن یحیی اور عبیدیس بن محمود ۔ امیر ابو الحکم المنذر بن محمد ، عبدالرحمٰن الداخل کی پانچویں پشت میں تھا اس کے دربار سے العکّی اور ابن عبد ربّہ وابستہ تھے ۔ تاہم ابن عبد ربہ کی شہرت بھی بطور شاعر کچھ زیادہ نہیں اور وہ " العقد الفرید " کی تالیف کے سبب زیادہ معرو ف ہے ۔ بہرحال وہ اندلس کے سب سے زیادہ پرشکوہ اموی حکمران عبدالرحمٰن الثالث ( الناصر) کے زمانے تک بطور شاعر دربار سے وابستہ رہا اور اس کے دور پر یوں تبصرہ کیا:
قدْ أوضحَ اللهُ للإسلامِ منهاجاً
وَالنَّاسُ قَدْ دَخَلُوا في الدِّينِ أَفْواجا
وقد تزينتِ الدنيا لساكنها
كأنما ألبستْ وشياً وديباجا
اللہ نے اسلام کا راستہ واضح کر دیا
اور لوگ دین میں جوق در جوق داخل ہوئے
اور دنیا اہل دنیا کیلئے بن سنور گئی
گویا اس نے منقش پیرہن اور دیبا کا لباس پہن لیا
رفتہ رفتہ عربی شاعری اہل اندلس کی گھٹی میں پڑ گئی اور امیر وفقیر ، شاہ وگدا ، خواص و عوام سبھی سخن گوئی و سخن فہمی میں شریک ہوگئے ۔ اس صورتحال کا اظہار کرنے کیلئے نکلسن نے قزوینی کی " آثار البلاد" کا ایک دلچسپ حوالہ دیا ہے ۔ قزوینی کے ہاں یہ اقتباس " شلب" کے تحت آیا ہے جس کے بارے میں اس نے وضاحت کی ہے کہ باجہ کے قریب اندلس کا ایک شہر ہے ۔ اصل عبارت یوں ہے :
"من عجائبها ما ذكره خلق لايحصي عددم انه قل ان يري من اهل شلب من لا يقول شعرا ولا يتعاني الادب ولو مررت بالحراث خلف فدانه و سالته الشعر لقرض في ساعته اي معني اقترحت عليه واي معني طلبت منه صحيحا"
یہاں کے عجائب میں سے ایک جس کا ذکر لاتعداد لوگوں نے کیا ہے ، یہ ہے کہ اہل شلب میں خال خال ہی کوئی ہو گا جو شعر نہ کہتا ہو اور ادب سے شغف نہ رکھتا ہو۔ تم اگر کسی ہل چلاتے ہوئے کسان کے پاس سے بھی گزرو اور اس سے شعر کی فرمائش کرو تو وہ فی الفور کسی بھی موضوع پر جو تم اسے تجویز کر دو یا کسی بھی مضمون پر جو تم اس سے طلب کرو ، ٹھیک ٹھیک شعر کہہ دے گا"
ایسی صورت حال میں ظاہر ہے کہ اس موضوع کا اجمالی احاطہ کرنے کیلئے بھی ایک ضخیم تصنیف درکار ہو گی ۔ زیر نظر مضمون کا مقصد اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ اندلسی شاعری کے امتیازی خدوخال اور انہی کے حوالے سے ترتیب زمانی کی پابندی کئے بغیر ، محض آزاد تلازمِ خیال کے تحت ، چند سربر آوردہ شعراء کا ایک سرسری سا جائزہ لیا جاسکے جو قارئین کو اس موضوع پر مزید مطالعے کی تحریک بہم پہنچا سکے ۔
مجموعی طور پر اندلس کی شاعری ، بلاد مشرق میں ہونے والی عربی شاعری ہی کا ایک پرتو تھی ۔ شعر کے جو سانچے دور جاہلیت میں متعین ہو چکے تھے بیشتر قرطبہ واشبیلیہ میں بھی اسی طرح غالب رہے جس طرح بغداد و دمشق میں تھے ۔ روایت کی آہنی گرفت کو جو لفظ سے گزر کر مضامین معانی تک پر اثر انداز ہوئی اور جس نے صدیوں تک عربی شاعری میں تازگی احساس کو در آنے کا کم سے کم موقع دیا، خلاّ ق ذہنوں نے پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا۔ محبوب کے اجڑے ہوئے دیار پر کھڑے ہو کر اشک باری کا مضمون جو امراؤ القیس کے " قفا نبک " سے شروع ہوا تھا ، بعد کے شعراء کیلئے ایک فریضہ مفروضہ بن کر رہ گیا ۔ ابو نواس کی باغی طبیعت اس پر جھنجھلائی چنانچہ اس نے دیار محبوب کے کھنڈر پر " کھڑے ہونے " کی اس فرسودہ روایت پر یوں پھبتی کہی :
قُلْ لمنْ يبْكي على رَسْمٍ دَرَسْ
واق۔ف۔اً ، م۔ا ضَرّ لو ك۔ان جلسْ
"جو شخص مٹے ہوئے نشانات دیار پر " کھڑا ہوا" رو رہا ہے اس سے کہو کہ وہ " بیٹھ " بھی جاتا تو کوئی خاص مضائقے کی بات نہ تھی "۔
اندلسی شاعری کے بعض ناقدین کو بھی روایت کی اسی آہنی گرفت کا شکوہ رہا ہے ۔ معاصر ہسپانوی ناقد Garcia Gomez کی رائے میں اندلس کی عربی شاعری کی بیشتر اصناف سخن میں فکر اور جذبے کی سچائی کا فقدان پایا جاتا ہے ۔ اسی طرح "Schack کی رائے میں شعرائے اندلس کا بیشتر کلام شوکت ، حسن ِ آہنگ اور نیرنگئی خیال سے عبارت ہے جس میں ہمارے احساسات کو متاثر کرنے سے زیادہ ہماری نگاہوں کو خیرہ کردینے پر زور ہے ا ور اس اعتبار سے یہ شاعری آتش بازی سے مشابہ ہے جو اپنی چکا چوند دکھانے کے بعد تاریکی میں کھو جاتی ہے ۔اس کی چمک دمک ذرا دیر کیلئے ضرور حواس پر چھا جاتی ہے لیکن وہ طبیعت پر دیرپا اثر نہیں چھوڑتی ۔
اندلسی شاعری ( بلکہ من حیث الکل اس وقت کی تمام معاصر عربی شاعری ) پر یہ تنقید قابل لحاظ ضرور ہے مگر اس میں " بیشتر " کا لفظ خصوصیت سے قابل لحاظ ہے ۔ چنانچہ ہم دیکھیں گے کہ جس طرح اہل اندلس کے مشرقی معاصرین میں خلاّ ق طبیعتوں نے روایت کے اس آہنی جنگلے پر جابجا تازگئی احساس کے پھول کھلائے اسی طرح اہل اندلس کی طبیعت کی اُپج بھی تازہ کاری سے یکسر عاری نہ رہی اور انھوں نے روایت کی بنی بنائی شاہراہوں سے ہٹ کر اظہار کی نئی راہیں اور ہیئت و اسلوب کی نئی پگڈنڈیاں بھی نکالیں ۔ علاوہ ازیں مستشرقین کے زاویہ نظر سے مشرقی شعر وادب میں جو چیز " روایت کا جمود " قرار پاتی ہے وہ بسا اوقات مشرق کے اجتماعی لاشعور کے ان اعماق سے ذوقی لاتعلقی پر مبنی ہوتی ہے جو اس روایت کے بطون میں مضمر ہوتے ہیں چنانچہ ایک طرف غالب کی اس رائے کو سامنے رکھئے کہ
" شاعر کا کمال یہ ہے کہ فردوسی ہو جائے "
اور دوسری طرف شاہنامہ فردوسی پر Edward Browne کا تبصرہ دیکھئے ۔
اندلس میں عرب ثقافت کا آغاز مشرق کے عرب تمدن کی تقلید سے ہوا۔ انھوں نے وہاں کے شہروں کے نام تک مختلف بلادشرقیہ کے نام پر رکھے ۔ چنانچہ غرناطہ کو دمشق ، اشبیلیہ کو حمص ، شریش کو فلسطین اور جیان کو قِنِسرین کا نام دیا گیا ۔ رفتہ رفتہ تقلید نے منافست کی صورت اختیار کرلی ۔ چنانچہ محلات ، باغات ، درسگاہوں ، اور مساجد وغیرہ کی کثرت میں وہ اہل مشرق سے بازی لے جانے کیلئے کوشاں ہوئے ۔ یہی جذبہ شعروادب اور موسیقی وغیرہ کی سرپرستی میں بھی کارفرما ہوا۔ اندلس کےشعراء کو بلاد شرق کے اساتذہ کے مقابلے میں کھڑا کیا گیا اور انہی کے القاب اور کنیتوں کے یاد کیا گیا ۔ چنانچہ ابن زیدون کو بُحتری اور ابن ہانی کو المتنبی قرار دیا گیا اور ان لوگوں نے اپنے مسلک شعری میں شعرائے عباسی ہی پیروی بھی کی ۔ مدح ، ہجو ، مرثیہ ، فخر و حماسہ ، خمریات ، تغزّ ل اور منظر نگاری وغیرہ اصناف مشرق پیروی میں یہاں بھی اختیار کی گئیں ۔ تاہم اہل اندلس کی زبان اہل مشرق کی طرح محکم نہ تھی اور اکثر قدیم اصناف میں ان کا کلام کلامِ مشارقہ کا ہم پلہ نہ تھا۔ ہاں بعض اصناف مثلا مناظر فطرت کا بیان ، اور مملکتوں کے زوال کا مرثیہ ایسی ہیں جن میں اندلسیوں نے اپنا رنگ پیدا کیا اور مشارقہ پر بازی لے گئے ۔
مرثیے کی روایت تو باقی سب اصناف کی طرح مشرق ہی سے آئی تھی اور افراد کی موت پر انہی روایتی اسالیب کی طرح رنج و غم کا اظہار کیا جاتا تھا جو شعرائے مشرق نے متعین کر دئیے تھے ۔ تاہم اندلس کی طوائف الملوکی کے زمانے میں مملکتوں کے پے درپے سقوط نے شعرائے اندلس کے دل میں درد مندی اور حب الوطنی کے سچے جذبات کو کروٹ دی اور انھوں نے افراد سے بالاتر ہو کر اجتماعی مرثیے یا شہر آشوب کی صنف پیدا کی۔ ایسے مرثیوں میں یوسف بن تاشفین کے ہاتھوں بنو عبّاد اور بنو الافطس کی مملکتوں کے زوال پر علی الترتیب ابن اللبّانہ اور ابن عبدون کے مرثیے نمایاں حیثیت رکھتے ہیں ۔ تاہم سب سے زیادہ درد انگیز ، غالبا ابو البقاء الرّ ندی کا وہ نونیہ ہے جو اندلس کے بعض علاقوں پر عیسائیوں کے قبضے اور مسلمانوں کی بیدخلی سے متاثر ہو کر لکھا گیا ۔
ابن اللبّانہ کا مرثیہ بنو عبّاد کے زوال اور معتمد کی اسیری اور اشبیلیہ سے مراکش کی جانب بےبسی کے سفر سے متعلق تھا۔ اندلسی شعراء میں چونکہ معتمد کو خود ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے لہٰذا یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس کی شخصیت اور فن پر ایک اجمالی نظر ڈالتے چلیں۔
ابوالقاسم محمد بن عبّاد المعتمدعلی اللہ (متوفی 488ھ/ 1095ء) اپنے باپ المعتضد باللہ کے بعد اشبیلیہ اور قرطبہ کا فرماں روا ہوا ۔ وہ طبعا شاعر آدمی تھا اور اس پائے کا کہ بقول ابن الابّار" لم یک فی ملوک الاندلس قبلہ اشعر منہ" " شاہان اندلس میں اس سے پہلے اس سے بہتر شاعرکوئی نہ تھا "
معتمد کی کمزوریاں وہی تھیں جو عموما شعراء میں ہوتی ہیں اور یہی غالبا اس کے زوال کا سبب بھی بنیں ۔ لیکن اس کی فطرت بلند تھی ۔ وہ نہایت سخی بھی تھا اورشجاع بھی ۔ جب کبھی میدان جنگ میں تلوار اٹھانے کا موقع آیا اس نے پامردی کی مثال قائم کی۔ حریر وپرنیاں کے ساتھ سیرتِ فولاد کا یہ امتزاج ایک دل کش امتزاج تھا ۔ چنانچہ معتمد کی شخصیت خاصی ہر دلعزیز شخصیت تھی ۔ شعر کا ذوق اسے ورثے میں ملا تھا ۔ بچپن ہی میں مؤذن کی اذان سن کر اس نے ارتجالا کہا تھا:
هذا الموذن قد بدا باذانه
يرجو الرضا والعفو من رحمانه
طوبي له من ناطق بحقيقة
ان كان عقد ضميره كلسانه
یہ موذن جو اپنی اذان کے ساتھ سامنے آیا ہے
اپنے ربِ رحیم کی خوشنودی و مغفرت کا طالب ہے
یہ شاد وآباد رہے اس کی زبان سے بڑے سچے الفاظ نکل رہے ہیں
بشرطیکہ اس کے ضمیر کی تہوں میں بھی وہی کچھ ہو جو اس زبان پر ہے ۔
معتمد کے شب وروز ، حسن وشباب ، صراحی وکتاب ، اور ندیمان باذوق و حاضروجواب سے عبارت تھے ۔ ایک روز دریا کی سیر کرتے ہوئے معتمد نے سطح آپ پر ہوا سے پیدا ہونے والے تموّج کو دیکھا تو برجستہ یہ مصرع کہا:
صَنَعَ الريحُ من الماءِ زَرَد
ہوا نے پانی پر زرہ سی بُن دی ہے
اس کا شاعر وزیر ابن عماّر بھی ہمراہ تھا ۔ معتمد نے اس سے فرمائش کی کہ گرہ لگائے ۔ ابن عمار نے بہت دماغ لڑایا مگر طبیعت نے راہ نہ دی ایک عورت قریب ہی کہیں بیٹھی کپڑے دھو رہی تھی اس نے وہیں سے جواب دیا:
أَيُّ درعٍ لقتالٍ لو جمدْ
کاش یہ یہیں جم جائے تو جنگ کیلئے کیا خوب زرہ ثابت ہو
معتمد چونکا اور پہلی ہی نظر میں سو جان سے اس پر عاشق ہو گیا۔ یہ خاتون "رُ میکیّہ " اس کی چہیتی ملکہ بنی اور اسے ہمیشہ معتمد کے دل ودماغ پر وہی تصرف حاصل رہا جو نور جہاں کو جہاں گیر پر حاصل تھا۔ رمیکیہ کا اصل نام " اعتماد " تھا ( یہ بھی کہا جاتا ہے کہ معتمد نے اپنا لقب اسی کے نام سے اخذ کیا ) اعتماد کی نازبرداریوں کے سلسلے میں معتمد کے بعض عجیب واقعات منقول ہیں ۔ مثلا یہ کہ ایک موقع پر اعتماد نے اشبیلیہ میں کچھ دودھ بیچنے والی بدو عورتوں کو دیکھا کہ مشکیزوں میں دودھ بھرے پنڈلیوں تک پائنچے اکسائے ، کیچڑ میں چل رہی ہیں ۔ اس پر اس نے اس عجیب وغریب خواہش کا اظہار کیا کہ میں اپنی خواصوں کے جلو میں اسی طرح چلنا چاہتی ہوں ۔
معتمد نے کافور اور مشک و عنبر کے ڈھیر عرق گلاب میں گندھوائے اور یہ " گارا" محل میں بچھا دیا گیا ۔ پھر ابریشم کی ڈوریاں اور مشکیزے تیار کئے گئے اور اعتماد اور اس کی خواصوں نے اس " گارے " میں چل کر یہ خواہش پوری کی ۔
اس دور میں معتمد کا کلام انہی آسائشوں کے گرد گھومتا تھا ۔ مثالیں اس کے دیوان میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔ مگر اسے معلوم نہ تھا کہ کیا کیا سنگینیاں ان رنگینیوں کی گھات میں ہیں ۔ اسی زمانے میں عیسائی قوتوں نے Alfonso کی سربراہی میں خود کو مجتمع کر لیا اور مسلمانوں کی طوائف الملکوکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کو دبا لیا ۔ بعض حالات ۔ جن کی تفصیل میں جانا باعث طوالت ہو گا ۔ ایسے پیش آئے کہ معتمد اس بات پر مجبور ہو گیا کہ مراکش میں مرابطین کے طاقتور سربراہ یوسف بن تاشفین سے مدد چاہے ۔ اس کے خیرخواہوں نے اسے اس اقدام سے باز رکھنے کی کوشش بھی کی لیکن اس کا جواب - جو کہ اس کی حمیت اسلامی کا آئینہ دار ہے – یہ تھا کہ رعی الجمال خیر من رعی الخنازیر " اونٹوں کا چرواہا بننا ( یعنی یوسف بن تاشفین کی غلامی ) سؤروں کا چرواہا بننے سے ( یعنی عیسائیوں کی غلامی )سے بہتر ہے ۔ علاوہ ازیں اس سلسلے میں غالبا مذہبی علماء و فقہاء کا دباؤ اس وقت اتنا زیادہ تھا کہ معتمد کے لئے اس رائے سے اختلاف شاید ممکن بھی نہ رہا ہو۔
بہرحال یوسف بن تاشفین اندلس آیا اور زلّاقہ کی جنگ میں الفانسو کو عبرت ناک شکست دے کر اس نے اندلس پر عیسائی تسلط کے امکانات کو کئی صدیاں پیچھے دھکیل دیا ۔ اس بار وہ اندلس کی پارہ پارہ حکومتیں جوں کی توں ان کے حکمرانوں کو سونپ کر واپس چلا گیا لیکن افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں کے مقابلے میں اندلس کے شاداب علاقوں کی کشش نیز بعض مصاحبوں کے اکسانے نے اسے دوسری بار اس عزم کے ساتھ اندلس کا رخ کرنے کی تحریک فراہم کی کہ وہ ان سب کمزور مسلمان حکمرانوں کو اندلس کی بساط سے ہٹا کر خود وہاں ایک مضبوط حکومت قائم کرے ۔ چنانچہ اس بار وہ ایک فاتح کی حیثیت سے آیا اور خود معتمد کو اس سے جنگ کرنا پڑی ۔ اس جنگ میں معتمد کی پامردی و بے جگری تاریخ کے صفحات میں یادگار ہے ۔ لیکن مقدر کا لکھا یہی تھا کہ اس کی تیغ دودم اب اس کی زنجیر بن جائے ۔ یوسف بن تاشفین نے اس کی جاں بخشی ضرور کردی لیکن اسے پابجولاں طنجہ لے گیا ۔ جب اسے اور اس کے اہل خانہ کو سفینے میں سوار کیا جارہاتھا ، اس کے محب کنارے پر کھڑے زاروقطار رو رہے تھے ۔ بالآخر اسے اغمات کے قید خانے میں ڈال دیا گیا جہاں سے نکلنا اس کے نصیب میں نہ تھا ۔ سیاسی کشمکش کے دوران میں تین بیٹوں کاداغ معتمد کے سینے پر پہلے سے تھا ۔ اب اس کا بیٹا ابوہاشم ، چہیتی ملکہ اعتماد اور اس کی بچیاں در در کی ٹھوکریں کھانے کیلئے رہ گئیں ۔ نازونعم کی پلی ہوئی یہ شہزادیاں اب اجرت پر لوگوں کیلئے سوت کاتتی تھیں ۔
قید خانے میں معتمد نے جو شاعری کی وہ فنی اعتبار سے اس کی بلند ترین تخلیقات سے عبارت ہے کیونکہ ذاتی احساس کی وہ کسک اس شاعری کی جان ہے جس کے فقدان کا شکوہ اندلسی شاعری کے بعض ناقدین کو رہا ہے ۔ ماضی کی بہار اور حال کے خارزار کا موازنہ اس کے نازک دل پر کیا کیا قیامت برپا نہ کرتا ہوگا۔ ایک موقع پر اس نے کہا:
تَبدلتُ مِن عزِّ ظلِّ البُنودِ
بذُلِّ الحَديدِ وَثِقَل القُيود
وَكانَ حَديدي سناناً ذَليقاً
وَعضبا دَقيقاً صَقيل الحَديد
فَقَد صارَ ذاكَ وَذا أَدهَما
يَعُضُّ بِساقيَّ عَضَّ الأُسود
پرچموں کے سائے کی عزت کے عوض
مجھے لوہے کی ذلت اور بیڑیوں کی گرانی نصیب ہوئی
لوہا میرے لئے نیزے کی تیز انی
اور باریک ، صیقل شدہ دھاروں والی شمشیر برّاں سے عبارت ہوا کرتا تھا
اب وہ اور یہ دونوں ایک بیڑی میں ڈھل گئے ہیں
جو میری پنڈلیوں کو شیروں کی طرح چباتی ہے '
انہی اشعار کی ترجمانی اقبال نے " قید خانہ میں معتمد کی فریاد " کے عنوان سے یوں کی ہے :
اک فغاں بے شرر سینے میں باقی رہ گئی
سوز بھی رخصت ہوا، جاتی رہی تاثیر بھی
مرد حر زنداں میں ہے بے نیزہ و شمشیر آج
میں پشیماں ہوں ، پشیماں ہے مری تدبیر بھی
خودبخود زنجیر کی جانب کھچا جاتا ہے دل
تھی اسی فولاد سے شاید مری شمشیر بھی
جو مری تیغ دودم تھی اب مری زنجیر ہے
شوخ و بے پروا ہے کتنا خالق تقدیر بھی
قید وبند کی انہی صعوبتوں میں وہ لمحہ جانگذار بھی آیا کہ عید کے روز اس کی بیٹیاں سلام کی غرض سے قید خانے میں حاضر ہوئیں ان کی زبوں حالی اور بوسیدہ لباس دیکھ کر معتمد کا دل پھٹ کر رہ گیا ۔ یہ اشعار انہی تاثرات کے امین ہیں ۔
فيما مَضى كُنتَ بِالأَعيادِ مَسرورا
فَساءَكَ العيدُ في أَغماتَ مَأسورا
تَرى بَناتكَ في الأَطمارِ جائِعَةً
يَغزِلنَ لِلناسِ ما يَملِكنَ قَطميراً
بَرَزنَ نَحوَكَ لِلتَسليمِ خاشِعَةً
أَبصارُهُنَّ حَسراتٍ مَكاسيرا
يَطأنَ في الطين وَالأَقدامُ حافيَةٌ
كَأَنَّها لَم تَطأ مِسكاً وَكافورا
قَد كانَ دَهرُكَ إِن تأمُرهُ مُمتَثِلاً
فَرَدّكَ الدَهرُ مَنهيّاً وَمأمورا
مَن باتَ بَعدَكَ في مُلكٍ يُسرُّ بِهِ
فَإِنَّما باتَ بِالأَحلامِ مَغرورا
ایک زمانہ تھا کہ عیدیں تیرے لئے خوشیاں لایا کرتی تھیں فَساءَكَ العيدُ في أَغماتَ مَأسورا
تَرى بَناتكَ في الأَطمارِ جائِعَةً
يَغزِلنَ لِلناسِ ما يَملِكنَ قَطميراً
بَرَزنَ نَحوَكَ لِلتَسليمِ خاشِعَةً
أَبصارُهُنَّ حَسراتٍ مَكاسيرا
يَطأنَ في الطين وَالأَقدامُ حافيَةٌ
كَأَنَّها لَم تَطأ مِسكاً وَكافورا
قَد كانَ دَهرُكَ إِن تأمُرهُ مُمتَثِلاً
فَرَدّكَ الدَهرُ مَنهيّاً وَمأمورا
مَن باتَ بَعدَكَ في مُلكٍ يُسرُّ بِهِ
فَإِنَّما باتَ بِالأَحلامِ مَغرورا
ایک وقت یہ بھی ہے کہ اغمات کی اسیری میں عید تیرے دل پر بار ہے تو اپنی بیٹیوں کو بھوک کی کیفیت میں چیتھڑوں ملبوس دیکھتا ہے
وہ لوگوں کیلئے سوت کاتتی ہیں اور ان کی گرہ میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں وہ تیرے پاس اس کیفیت میں سلام کو حاضر ہوئی ہیں کہ ان کی نگاہیں نیچی اور تھکی تھکی اور جھکی جھکی ہیں وہ ننگے پاؤں مٹی پر قدم رکھ رہی ہیں
یوں لگتا ہے کہ یہ قدم کبھی مشک وکافور پر نہیں چلے تھے
وہ دن بھی تھے کہ تو اپنے زمانے کو اگر حکم دیتا تھا تو وہ اسے بجا لاتا تھا
اب زمانے نے تجھے اس حال کو پہنچا دیا کہ جب چاہے تجھےروک دے اور جب چاہے اپنے حکم پر چلائے
تیرے بعد جو کوئی کسی بادشاہی میں خوش ہو کر شب بسری کرتا ہے تو فقط خوابوں کے فریب میں رات گزارتا ہے ۔
معتمد کو اس بندغم سے نجات قید حیات کے ختم ہونے پر ہی نصیب ہوسکی ۔ جب اشبیلیہ کے خواب بالآخر اغمات میں پیوند زمیں ہوگئے ۔
سو یہ تھی دولت بنو عباد کے زوال کی وہ اندوہناک داستان جس پر ابن اللبّانہ نے وہ مرثیہ کہا جس کا مطلع ہے :
تَبْكِي السَّمَاءُ بِدَمْعٍ رَائِحٍ غَادِي
عَلَى البَهَالِيلِ مِنْ أَبْنَاءِ عَبَّادِ
آسماں صبح و شام ابر باراں سے آنسو بہاتا ہے
بنو عباد کے جامع صفات سرداروں پر
دوسرا مشہور مرثیہ ابن عبدون کا ہے جو بنو الافطس کے زوال پر کہا گیا:
الدّهرُ يفجع بعدَ العينِ بالأثرِ
فما البكاءُ على الأشباحِ والصُّوَرِ
زمانہ اصل کے بعد اس کی رہی سہی نشانیوں کا صدمہ بھی دکھاتا ہے
سو پرچھائیوں اور تصویروں پر آہ و بکا سے کیا حاصل ؟
اجتماعی مرثیوں کے سلسلے کی تیسری اور شاید سب سے زیادہ موثر مثال ابو البقاء الرُّندی کا وہ مرثیہ ہے جس کی طرف پہلے اشارہ ہو چکا۔ یعنی وہ نونیہ جو اس نے بعض بلاد اندلس پر عیسائیوں کے تصرف اور مسلمانوں کی بے دخلی کے غم میں کہا:
لكل شيءٍ إذا ما تم نقصانُ
فلا يُغرُّ بطيب العيش إنسانُ
هي الأيامُ كما شاهدتها دُولٌ
مَن سَرَّهُ زَمنٌ ساءَتهُ أزمانُ
ہر شے جب کمال کو پہنچ جائے تو پھر اس کیلئے زوال مقدر ہے سو کوئی شخص آسودگئی حیات کے فریب میں نہ آئے
یہ معاملات زیست جیسا کہ تم دیکھ چکے ، آنی جانی ہیں ایک گھڑی کا سکھ اگر کسی کو ملتا ہے تو کئی گھڑیوں کا دکھ اسے جھیلنا پڑتا ہے ۔
اس مرثیے میں دیار اسلام کے اجڑنے اور کفار کے غلبے کی تصویر شاعر نے اشک خون آلود سے یوں بنائی ہے :
حيث المساجد قد صارت كنائسَ ما
فيهنَّ إلا نواقيسٌ وصُلبانُ
حتى المحاريبُ تبكي وهي جامدةٌ
حتى المنابرُ ترثي وهي عيدانُ
بالأمس كانوا ملوكًا في منازلهم
واليومَ هم في بلاد الكفرِّ عُبدانُ
ولو رأيتَ بكاهُم عندَ بيعهمُ
لهالكَ الأمرُ واستهوتكَ أحزانُ
يا ربَّ أمّ وطفلٍ حيلَ بينهما
كما تفرقَ أرواحٌ وأبدانُ
وطفلةً مثل حسنِ الشمسِ إذ طلعت
كأنما هي ياقوتٌ ومرجانُ
يقودُها العلجُ للمكروه مكرهةً
والعينُ باكيةُ والقلبُ حيرانُ
لمثل هذا يذوب القلبُ من كمدٍ
إن كان في القلبِ إسلامٌ وإيمانُ
جہاں مسجدیں گرجوں میں تبدیل ہوچکی ہیں
ان میں ناقوسوں اور صلیبوں کے سوا کچھ نہیں
محرابیں تک گریہ وزاری کرتی ہیں حالانکہ وہ ایک وجود جامد ہیں
منبر تک مرثیہ خواں ہیں حالانکہ وہ محض چوب خشک ہیں
( مسلماں ) کل تک اپنے گھروں میں بادشاہ تھے
اور آج وہ بلاد کفر میں غلام ہیں
جس وقت انھیں فروخت کیا جاتا ہے اس وقت اگر تو ان کی آہ وبکا کو دیکھے تو یہ صورت حال تیرا دل دھلا دے اور غم و اندوہ تیرے ہوش اڑا دیں ۔
کتنی مائیں اور بچے ہیں جن کے درمیا ن سنگینی حالات حائل ہو گئی یوں جیسے روحوں کو جسموں سے جدا کردیا جائے
کتنی بچیاں ہیں ، چڑھتے سورج کی طرح حسین
یوں گویا وہ یاقوت اور مرجان ہوں
کافربے دین انھیں ناپسندیدہ صورتحال کی طرف زبردستی لئے جاتا ہے جبکہ آنکھ اشک بار ہے اور دل سرگشتہ و حیران ہے
یہ ایسی صورت حال ہے کہ غم و اندوہ سے دل اس پر پگھلا جاتا ہے
اگر دل میں کہیں اسلام اور ایمان کی رمق باقی ہو
سقوط ممالک پر اجتماعی مرثیے یا شہرآشوب کی یہ روایت جس کا آغاز اندلس کے المیوں سے ہوا بعد میں بھی باقی رہی چنانچہ سقوط بغداد پر سعدی نے بڑا درد انگیز نوحہ لکھا:
آسمان راحق بود گر خوں بگرید بر زمیں
بر زوال ملک مستعصم امیر المومنین
قریب کے زمانے میں حالی نے دہلی مرحوم کی بڑے دل گداز انداز میں مرثیہ خوانی کی
تذکرہ دہلئ مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ
نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز
اور اقبال کو جب صقلیہ (جزیرہ سسلی )میں تہذیب حجازی کا مزار نظر آیا اور انھوں نے اپنے دیدہ خوننابہ بار کو دل کھول کر رونے کی دعوت دی تو انھوں نے اجتماعی مرثیے کی اس روایت کے تسلسل کی طرف اشارہ بھی کیا:
نالہ کش شیراز کا بلبل ہوا بغداد پر
داغ رویا خون کے آنسو جہاں آباد پر
آسماں نے دولت غرناطہ جب برباد کی
ابن بدروں کے دل ناشاد نے فریاد کی
غم نصیب اقبال کو بخشا گیا ماتم ترا
چن لیا تقدیر نے وہ دل کہ تھا محرم ترا
اجتماعی مرثیے کے علاوہ جس صنف سخن میں شعرائے اندلس نے اپنا خاص رنگ نکالا وہ وصف Descriptive Poetry ہے ۔ جنگی معرکوں کی منظر کشی ، سیر وشکار کی منظر کشی ، مجالس لہوولعب اور بزم ہائے جام وطرب کی منظر کشی وغیرہ وغیرہ مضامین میں انھوں نے اپنے دقیق مشاہدات کو پیکر شعر میں ڈھالا لیکن اس میدان میں سب سے بڑھ کر جہاں ان کے جوہر کھلے وہ مناظر فطرت کا بیان تھا جس میں وہ اہل مشرق پر بازی لے گئے ۔ سبزۂ و آب رواں ، اشجارو طیور ، چاندستارے ، محلّات اور ان کی آرائش وزیبائش جیسے موضوعات پر ان کے قلم نے موقلم کی سی باریکی دکھائی اور یہ اندلس کی حسین و جمیل فضاؤں کا طبعی تقاضا تھا۔ وصفیہ شاعری کے اس عظیم الشان ذخیرے سے انتخاب اور پھر اس کی چند نمائندہ مثالیں پیش کرنا بھی اس مختصر سے مضون میں ممکن نہ ہوگا ۔ ابن خفاجہ ابراہیم بن ابی الفتح (متوفی 533ھ / 1138 ء) کو چونکہ " وصف الطبیعۃ " یعنی مناظر فطرت کی عکاسی میں نمایاں حیثیت حاصل ہے اس لئے اس کے چند اشعار پر نظر ڈالتے چلیں کہ آب رواں کی تصوپر اس نے کس چابکدستی سے بنائی ہے اور اس میں کیا کیا رنگ صرف کئے ہیں :
متعطفٌ مثل السوار كأنه
والزهر يكنفه مجرًّ سماءِ
قد رق حتى ظُنَّ قرساً مفرغاً
من فضة في بردة خضراءِ
وغدت تَحف به الغصون كأنها
هدب يحف بمقلة زرقاءِ
والريح تعبث بالغصون وقد جَرى
ذهبُ الأصيل على لجين الماءِ
کنگن کی طرح بل کھایا ہواوالزهر يكنفه مجرًّ سماءِ
قد رق حتى ظُنَّ قرساً مفرغاً
من فضة في بردة خضراءِ
وغدت تَحف به الغصون كأنها
هدب يحف بمقلة زرقاءِ
والريح تعبث بالغصون وقد جَرى
ذهبُ الأصيل على لجين الماءِ
پھولوں میں گھرا ہوا(یہ پانی )
یوں لگتاہے جیسے آسماں کی کہکشاں
اس درجہ لطیف کہ سانچے میں ڈھلا ہوا چاندی کا ایک تھال معلوم ہوتاہے
جو ایک سبز چادر پر دھرا ہو
ڈالیاں اس کے گردا گرد یوں ہجوم کئے ہوئے ہوں
جیسے نیلگوں حلقہ چشم کے گرد پلکیں ہوں
اور ہوا ٹہنیوں سے اٹکھیلیاں کر رہی ہے
جبکہ شام کا سونا پانی کی چاندی پر رواں ہے
ابن خفاجہ ہی نے ایک اور موقع پر اندلس کی فضاؤں کو یوں خراج پیش کیا تھا:
يَأَهلَ أَندَلُسٍ لِلَّهِ دَرُّكُمُ
ماءٌ وَظِلٌّ وَأَنهارٌ وَأَشجارُ
ما جَنَّةُ الخُلدِ إِلّا في دِيارِكُمُ
وَلَو تَخَيَّرتُ هَذا كُنتُ أَختارُ
اے اہل اندلس تمہارے کیا کہنے ہیں پانی اور سایہ اور دریا اور درخت ماءٌ وَظِلٌّ وَأَنهارٌ وَأَشجارُ
ما جَنَّةُ الخُلدِ إِلّا في دِيارِكُمُ
وَلَو تَخَيَّرتُ هَذا كُنتُ أَختارُ
باغ خلد اگر کہیں ہے تو تمہارے دیار میں ہے
مجھ سے اگر کہا جائے کہ دونوں میں سے کسی ایک کو اختیار کروں تو میں اسی کو اختیار کروں
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمین است وہمین است
اگر طوالت کاخوف نہ ہوتا تو یہاں علی بن حصن کے وہ شعر بھی نقل کرنے کے لائق تھے جس میں اس نے شاخ پر بیٹھے ہوئے فاختہ کے بچے کے بال وپر کے ایک ایک ریشے کی زندگی سے بھرپور تصویر بنائی ہے یا ابن شہید کے وہ اشعار جن میں اس نے ابروباراں کی منظر کشی کی ہے یا ابن زیدون کا وہ قصیدۂ قاضیّہ جو اس نے مدینۃ الزھراء میں ولّادہ کی یاد میں لکھا۔ ابن زیدون اور ولّادہ کا ذکر آگیا ہے تو اب ضروری ہےکہ ایک مختصر سی ملاقات ان دونوں سے ہو جائے کہ ان کے ذکر کے بغیر اندلسی شاعری کا تذکرہ نامکمل اور بے کیف ہے۔
ابو الولید احمد بن عبداللہ ، ابن زیدون ( م 463ھ / 1071 ء ) بعض نقادوں کی رائے میں اندلس کا سب سے بڑا شاعر تھا۔ جس زمانے میں اس نے نشوونما پائی وہ اندلس میں سخت سیاسی خلفشار کا زمانہ تھا ۔ جو بالآخر ابن زیدون کے وطن قرطبہ میں ابوالحزم ، ابن جہور کی بادلادستی پر منتج ہوئی ۔ حسن اتفاق سے ابن زیدون کا شمار ابن جھور کے حامیوں میں ہوتا تھا اور اس کے بیٹے ابوالولید سے اس کے دوستانہ روابط تھے ۔ نتیجہ یہ کہ ابن زیدون ۔جوبیس برس کی عمر ہی سے اپنے ملکہ شعر گوئی کا لوہامنوا چکا تھا۔ اب سیاسی اہمیت سے بھی بہرہ یاب ہوا ۔ ابن جہور نے اسے قلمدان وزرات سونپا اور سفارت کا کام بھی لیا ۔ معلوم یہ ہوتا تھا کہ وہ دنیوی کامرانیوں کے زینے بڑی تیزی سے طے کرے گا کہ عشق کے اندھے صیّاد نے اپنا تیر اس پر چلایا اور وہ ولّادہ کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہوگیا۔
ولّادہ اپنے دور کی قتّالۂ عالم ، ایک سابق خلیفہ المستکفی کی بیٹی تھی ۔ حسن و جمال کے علاوہ وہ ذہانت وفطانت اور شعر گوئی وادب شناسی میں یکتا تھی ۔ پروفیسر حتِّی نے اسے "ہسپانیہ کی سیفو" قرار دیا ہے ۔ قرطبہ میں اس کا مکان شعراء وادباء کا مرجع تھا۔ المقّری کے بقول تمام تر ظاہری بے حجابانہ انداز کے باوصف ، اس کی عفّت مسلم تھی۔ تاہم اگر وہ بعض اشعار جو خود مقّری نے اس سے منسوب کئے ہیں واقعی اس کے ہیں تو کم از کم گفتار کی حد تک اس کی بے حجابی فحش گوئی تک جا پہنچتی تھی ۔ بطرس البستانی کے تخیّل نے ولّادہ کی تصویر خوب بنائی ہے :
"وكانت ولادة اديبة مثقفة تميل الي الادباء وتعاشرهم و ماجنة لعوبا تعبث بالقلوب و تحطمها , تمنح مودتها لمن تشاء و تستردها متي تشاء , فلم تكن في ودها كاذبة ولا في رجوعها عنه غادرة وانما هو طبعها المرح الهازئ يستلذ خفقان القلوب فتبدل واحدا بعد آخر كما تنقل الفراشة من زهرة الي زهرة"
" ولّادہ اک شائستہ ادیب تھی ۔ ادیبوں سے دل چسپی اور ان سے میل جول رکھنے کا اس میں رجحان تھا ۔ بے باکانہ دل لگی اور ہنسنا کھیلنا اس کی طبیعت کا حصہ تھا۔ وہ دلوں سے کھلونے کی طرح کھیلتی تھی اور انھیں توڑ ڈالتی تھی ۔ جسے چاہتی اپنی سے محبت سے شادکام کرتی اور جب چاہتی یہ عنایات واپس لے لیتی ۔ نہ وہ اپنی محبت میں جھوٹی تھی اور نہ اس سے پھرجانے میں بے وفائی کو دخل تھا ۔ بس اس کی چونچال ، ہنسوڑ سرشت کا تقاضا یہ تھا کہ دلوں کو تڑپانے میں اسے مزا آتا تھا چنانچہ وہ یکے بعد دیگرے نئے دل پر کمند ڈالتی رہتی تھی جیسے کوئی تتلی ایک پھول سے اڑ کر دوسرے پر جابیٹھتی ہے "
ولّادۃ ابن زیدون پر بھی مہربان ہوئی چنانچہ کہا جاتا ہے کہ اس نے ابن زیدون کے نام ایک موقع پر پیغام بھیجا :
ترقَّبْ إذا جنَّ الظَّلامُ زِيارتي
فإنّيرأيْتُ اللَّيلَ أكْتمَ للسِّر
وبِي مِنك ما لو كان بالبَدْرِ ما بَدا
وباللَّيل ما أدْجَى وبالنَّجمِ لم يَسْرِ
"جب اندھیرا خوب چھا جائے تو میری ملاقات کا منتظر رہنا کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ رات کا وقت رازداری کیلئے زیادہ موزوں ہے تیرے سبب سے میری جو کیفیت ہے اگر مہ کامل کی ہوتی تو وہ جلوگر نہ ہوتا اور اگر رات کی یہ کیفیت ہوتی تو تاریک ہونا اس کیلئے ممکن نہ رہتا اور اگر ستارے کی ہوتی تو سفر شب اس کیلئے دشوار ہو جاتا"
ادھر وزیر ابو عامر ابن عبدوس بھی ولّادہ کے دلدادگان میں تھا۔ اور ولّادہ کی عنایات سے سراسر محروم بھی نہ تھا۔ ابن زیدون کا دل رقابت کی آگ میں جلتا تھا مگر مجبور تھا ۔ وزیر ابن عبدوس کے لقب " الفار " (چوہا) سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے اپنے دل کو یوں سمجھایا:
عَيّرْتُمُونا بأنْ قَد صارَ يَخْلُفُنا
فِيمَنْ نُحِبّ وما في ذاكَ مِنْ عارِ
أكلٌ شهيٌّ أصبْنَا منْ أطايبِهِ
بَعْضاً وبَعْضاً صَفَحْنَا عَنهُ للفَارِ
"تم نے ہمیں یہ طعنہ دیا ہے کہ یہ شخص ہمارے بعد ہمارے محبوب کے پاس ہوتا ہے ۔ اس میں عار کی کیا بات ہے
ایک لذیذ غذا تھی جس کے بعض صاف ستھرے حصے ہمارے تصرف میں آئے اور بعض حصے ہم نے خود ہی "چوہے " کیلئے چھوڑ دئیے "۔
اسی رقیبانہ چپقلش میں ابن زیدون نے ولّادہ کی زبانی ابن عبدوس کے نام وہ مشہور مکتوب لکھا جو "رسالہ ابن زیدون " کے نام سے اندلس کے نثری ادب میں یادگار ٹھہرا اور بعد کے زمانے میں کئی ادیبوں نے اس کی شرح لکھی ۔ یہ مکتوب، نادر ادبی تلمیحات کا ایک مرقّع تھا جن کے حوالے سے ابن عبدوس پر سخت کیچڑ اچھالی گئی تھی ۔ اس کشمکش کے نتیجے میں ابن عبدوس نے ابن زیدون کے بعض اورمخالفین سے ساز باز کر کے ابو الحزم ابن جہور کو اس سے بدگمان کر دیا۔ چنانچہ اس نے ابن زیدون کو جیل میں ڈلوا دیا ۔ ابن زیدون نے امیرابن جہور کے نام بہت سے قصیدے مدح وشکایت کے لہجے میں لکھے ۔ اس کے بیٹے ابوالولید کو درمیان میں ڈالنا چاہا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا اور کئی برس اس قید وبند کی صعوبت جھیلنا پڑی زندان کے انہی تلخ ایام میں وہ شاعری بھی تخلیق ہوئی جو ولّادہ کی شیریں یادوں سے عبارت تھی ۔
اس کے بعد کے واقعات میں اختلاف ہے ۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے ابوالولید نے بالآخر ابن زیدون سے حق دوستی نبھایا اور باپ سے سفارش کرکے اسے زنداں سے نکلوایا ۔ بعض کا خیال ہے کہ وہ خود قیدخانے سے فرار ہوگیا۔ ہاں اس بات کا امکان ہوسکتا ہے کہ اس فرار میں ابوالولید نے اسے مدد دی ہو ۔ کچھ عرصہ وہ قرطبہ ہی میں روپوش رہا اور ولّادہ کی یاد میں پرسوز شاعری کرتا رہا اسی اثناء میں ابوالحزم ابن جہور کا انتقال ہوگیا اور ابوالولید نے خود مسند امارت سنبھال لی ۔ اب پھر ابن زیدون کے دن پھرے اور پرانی حیثیت بحال ہوئی ۔ اس سے سفارت کا کام لیا گیا اور جہاں جہاں وہ گیا اس نے بہت اچھا تاثر چھوڑا ۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ درمیان میں کچھ عرصے کیلئے ابوالولید بھی اس سے بدظن و سرگراں ہوگیا لیکن جلد ہی یہ گرہ جاتی رہی ۔ تاہم گمان یہ گزرتا ہے کہ شاید خود ابن زیدون کے آئینہ دل پر کچھ غبار رہ گیا۔ چنانچہ رفتہ رفتہ اس نے اپنے سفارتی اثرورسوخ سے فائدہ اٹھا کر اشبیلیہ کے حکمران معتمد کے والد " عبّاد بن محمد المعتضد باللہ " سے تعلقات استوار کرلئے اور قرطبہ کو چھوڑ کر – جوولّادہ کے بعد اس کیلئے دوسری عزیز ترین چیز تھی – المعتضد ہی کے دربار میں منتقل ہو گیا۔ عین ممکن ہے کہ اس میں ولّادہ کے ہرجائی پن اور اس کی سردمہری کو بھی دخل ہو کیونکہ کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ اس عشق کامنطقی انجام کیا ہوا۔
اشبیلیہ میں ابن زیدون نے اچھے دن دیکھے ۔ وہ معتضد کی مدح میں قصائد کہتا رہا۔ معتضد نے اس سے دوستانہ سلوک رکھا اور اسے بیک وقت وزارت عظمیٰ وسالاری افواج کے مناصب سونپ کر " ذوالوزارتین " دووزارتوں والا" (یعنی وزارت سیف وقلم ) کاخطاب دیا۔ معتضد کے بعد معتمد نے بھی اس کے ساتھ یہی حسن سلوک برقرار رکھا اور اس کے فن کی بڑی قدردانی کی ۔دونوں باہم جو ادبی حظ اٹھاتے تھے اس کاایک نمونہ وہ منظوم پہیلیاں ہیں جو وہ ایک دوسرے کو بھیجتے تھے اور پھر ان کاحل بھی نظم میں پیش کیا جاتا تھا۔ یہ پہیلیاں دیوان معتمد کے حصہ " المعمیات" میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔
ابن زیدون کو قرطبہ سے جو عشق تھا شاید اسی کے سبب وہ رفتہ رفتہ معتمد پر اثرانداز ہوا اور اسے عملا قرطبہ پر لشکر کشی کر کے اسے بنو جہور سے چھین لینے پر آمادہ کرلیا۔ اب معتمد کا دربار عارضی طور پر قرطبہ منتقل ہوگیا اور ابن زیدون اپنی فردوس گم گشتہ میں واپس پہنچ گیا۔ شاید یہ اس کی زندگی کا آسودہ ترین زمانہ تھا جس میں گرتی ہوئی صحت اور ولّادہ کی یاس انگیز یادوں کے سوا غالبا اور کوئی چیز خلل انداز نہ تھی ۔ لیکن سات آسمان رات دن گردش میں ہیں اور ابن آدم کو خبر نہیں ہوتی کہ یہ گردش کہاں اس کیلئے کیا جال بُن رہی ہے۔ معتمد کے قرب ، سیاسی وجاہت ، قرطبہ کو واپسی یہ سب ایسی نعمتیں نہ تھیں کہ بعض دلوں میں حسد کا کانٹا بن کر نہ چبھتیں ۔ معتمد کا دوسرا شاعر دوست اور سیاسی معتمد ، ابوبکر بن عماّر اور ابن مرتین درپردہ اس حسدمیں پیش پیش تھے ۔ شومئی قسمت سے اشبیلیہ میں انہی دنوں مسلمانوں اور یہودیوں میں فساد ہوگیا ۔ معتمد نے اس فتنے کو دبانے کیلئے اپنے بیٹے الحاجب سراج الدولہ کو ایک لشکر کی کمان دے کر قرطبہ سے اشبیلیہ روانہ کیا اور اس کے ہمراہ کچھ علماء اور بعض سربرآوردہ لوگوں کا ایک وفد بھی بھیجا ۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ابن عمار اور ابن مرتین نے معتمد کو مشورہ دیا کہ ابن زیدون کو اشبیلیہ میں خاصا اثرورسوخ حاصل ہے لہذا اسے بھی وفد میں شامل کرنا مناسب ہوگا ۔ معتمد کے حکم پر چاروناچار اسے یہ سفر اختیار کرنا پڑا جو اس کی گرتی ہوئی صحت کے سبب اس کی زندگی کا آخری سفر ثابت ہوا ۔ وطن کی خاک میں شاید کچھ ایسی کشش نہ تھی ۔ چنانچہ وہ اشبیلیہ ہی میں مدفون ہوا۔ قرطبہ سے دور جس کا وہ عاشق زارتھا اور جس کی یاد میں اس نے ایام اسیری کے دوران اپنی مشہور طویل ترین مخمّس کہی تھی :
أقرطبة الغراء هل فيك مطمع
وهل كبد حرى لبينك تنفع
وهل للياليك الحميدة مرجع
إذا الحسن مرأى فيك واللهو مسمع
إِذِ الحُسنُ مَرأىً فيكِ وَاللَهوُ مَسمَعُوهل كبد حرى لبينك تنفع
وهل للياليك الحميدة مرجع
إذا الحسن مرأى فيك واللهو مسمع
وَإِذ كَنَفُ الدُنيا لَدَيكِ مُوَطَّأُ
نَهارُكِ وَضّاحٌ وَلَيلُكِ ضَحيانُ.
وَتُربُكِ مَصبوحٌ وَغُصنُكِ نَشوانُ.
وَأَرضُكِ تُكسى حينَ جَوُّكِ عُريانُ.
وَرَيّاكِ رَوحٌ لِلنُفوسِ وَرَيحانُ.
وَحَسبُ الأَماني ظِلُّكِ المُتَفَيَّأُ.
" اے حسین ودرخشاں قرطبہ کیا تیری آرزو کرنے کی گنجائش ہنوز باقی ہے
اور کیا اس جگر کی پیاس بجھنے کا کوئی امکان ہے جو تیری جدائی کے سبب تشنہ ہے
اور کیا تیری مرغوب وپسندیدہ راتیں پلٹ کر آسکتی ہیں ۔
کہ جب تجھ میں حسن جنت نگاہ تھا اور ہنسی دل لگی کی باتیں فردوس گوش اور جب دنیا تیری فضاؤں میں ہموار وسازگار تھی ۔
جب تیرے دن چمکیلے تھے اور راتیں بے ابر
اور تیری خاک صبوحی پئے ہوئے تھی اور تیری شاخ سرمست اور تیری زمین لباس( سبزہ) میں مستور تھی جبکہ تیری فضا بے لباس تھی اور تیری مہکار دلوں کیلئے راحت ورزق کی حیثیت رکھتی تھی
اور تیرے سائے کی پناہ ، آرزووں کا منتہائے مقصود تھی"
ابن زیدون کی شاعری میں مدح ، مرثیہ ، عشقیہ کلام ، اور گلۂ دوستانہ کی اصناف زیادہ نمایاں ہیں ۔ شعرائے اندلس میں ممکن ہے ، مخمس گوئی میں اولیت اسے حاصل ہو لیکن مشرق میں اس صنف کے بعض نمونے پہلے سے موجود بتائے جاتے ہیں مثلا بشّار بن برد کے مخمسات جو اس نے محض دل لگی کے طور پرکہے ۔ لہٰذا ابن زیدون کو مخمس کا موجد قرار دینا مشکل ہے ۔ اس کی شاعری کابہترین حصہ وہ تصور کیا گیا ہے جو اس نے ایام اسیری میں یا قرطبہ کے فراق میں یا ولّادہ کی یاد میں تخلیق کیا ۔ زنداں سے فرار کے بعد اس نے ولّادہ کے نام ایک نونیہ قصیدہ لکھ کر بھجوایا تھا Garcia Gomez کی رائے میں یہ اندلسی مسلمانوں کی لکھی ہوئی سب سے خوبصورت عشقیہ نظم ہے ۔ اسی کے چند منتخب اشعار پر ہم ابن زیدون کا تذکرہ ختم کرتے ہیں (اشعار کی ترتیب میں ہم نے کچھ تقدیم وتاخیر سے کام لیا ہے ):
حَالَتْ لِفقدِكُمُ أيّامُنا، فغَدَتْ
سُوداً، وكانتْ بكُمْ بِيضاً لَيَالِينَا
إذْ جانِبُ العَيشِ طَلْقٌ من تألُّفِنا؛
وَمَرْبَعُ اللّهْوِ صَافٍ مِنْ تَصَافِينَا
وَإذْ هَصَرْنَا فُنُونَ الوَصْلِ دانية
قِطَافُها، فَجَنَيْنَا مِنْهُ ما شِينَا
أَنَّ الزَمانَ الَّذي مازالَ يُضحِكُنا
أُنساً بِقُربِهِمُ قَد عادَ يُبكينا
غِيظَ العِدا مِنْ تَساقِينا الهوَى فدعَوْا
بِأنْ نَغَصَّ، فَقالَ الدهر آمينَا
كأنّنَا لم نبِتْ، والوصلُ ثالثُنَا،
وَالسّعدُ قَدْ غَضَّ من أجفانِ وَاشينَا
سِرّانِ في خاطِرِ الظّلماءِ يَكتُمُنا،
حتى يكادَ لسانُ الصّبحِ يفشينَا
لا تَحْسَبُوا نَأيَكُمْ عَنّا يغيّرُنا؛
أنْ طالَما غَيّرَ النّأيُ المُحِبّينَا!
وَاللهِ مَا طَلَبَتْ أهْواؤنَا بَدَلاً
مِنْكُمْ، وَلا انصرَفتْ عنكمْ أمانينَا
"تم کیا بچھڑے ہمارے دن ہی پلٹا کھا گئے اور سیاہ فام ہوگئے حالانکہ تمہارے ہونے سے ہماری راتیں بھی درخشاں ہوا کرتی تھیں وہ زمانہ کہ جب ہماری یکجائی کے سبب پہلوئے زیست خوشگوار تھا اور ہمارے دلوں کی صفائے باہمی کے باعث چشمہ لطف وطرب صاف و شفاف تھا
جب ہم نے انس ومحبت کی ڈالیوں کو ، جن کےپھل ہماری دسترس میں تھے ، اپنی طرف جھکایا اور اپنی امنگوں کے مطابق جی بھر کر خوشہ چینی کی وہی زمانہ جو اب تک ہمیں تمہارے قرب مانوس میں ہنسایا کرتا تھا
اب ہمیں رلانے لگا ہے
ہمیں باہم جام محبت پیتے پلاتے دیکھ کر دشمنوں کے دل میں آتش غیظ بھڑک اٹھی انھوں نے بد دعا دی کہ ( اس جام سے ) ہمیں پھندا لگ جائے ؛ تو زمانے نے اس پر آمین کہا
یوں محسوس ہوتاہے کہ ہم دونوں نے وہ راتیں کبھی نہیں گزاریں جن میں اگر کوئی تیسرا تھا تو وہ خود " وصال تھا
اور بخت سازگار نے ہمارے بدخواہ کی نگاہیں نیچی کررکھی تھیں ہم دونوں شب تاریک کے ضمیر میں دو رازوں کی طرح ہوتے تھے جنہیں وہ پوشیدہ رکھتی تھی
تاآنکہ صبح کی زبان ان کے افشا پر آمادہ ہوجاتی تھی
یہ گمان دل میں نہ لانا کہ تمہاری جدائی سے ہماری محبت میں کچھ فرق آسکے گا
گو بسا اوقات جدائی سے عاشقوں کی محبتیں متاثر ہو جاتی ہیں
بخدا ہماری محبتوں نے تمہارا کوئی بدل تلاش نہیں کیا
اور نہ ہماری آرزوؤں کا رخ تمہاری طرف سے پھرا ہے" ۔