محسن وقار علی
محفلین
ویسے تو میری امی نے مجھے یہ کالم لکھنے سے منع کیا تھا ان کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں عورتیں ایسے موضوعات پر لکھیں یا بولیں تو ان کو اچھا نہیں سمجھا جاتا مگر میرا موقف یہ ہے کہ اگر عورتیں اپنے ہی مسائل پر چھوئی موئی بن کر دبک جائیں گی تو ان کے مسائل اور ان پر ہونے والا ظلم کیسے سامنے آئے گا۔
عرب سپرنگ والے بعض ممالک میں عورتوں کی حالت کیا ہے؟ اس موضوع پر لکھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہم ان کی معاشرت کی صحیح تصویر دیکھ سکیں۔ آ ج کل ہم پاکستانیوں کی اکثریت اپنے ملک کی جمہوریت پر تھو تھو کرتے ہوئے عرب سپرنگ کو بہت ایڈمائر کرتی ہے یہ لوگ شاید زیادہ ہی احساس کمتری کا شکار ہیں جبکہ ہماری لنگڑی لولی جمہوریتوں نے بھی ہمارے معاشرے کو زندہ دنیا کے قریب لانے میں کوئی نہ کوئی کردار ادا کیا ہے جس کی وجہ سے ہم عرب سپرنگ والے کئی ملکوں سے کئی سماجی معاملات میں آگے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی درست ہے کہ ہمارے ہاں بھی ابھی تک وٹہ سٹہ کی شادیاں، قرآن سے شادیاں ، غیرت کے نام پر قتل اور جبری شادیوں جیسی بیماریاں موجود ہیں مگران کی شرح کئی اور ممالک سے کم ہے اور عورتوں کے بارے میں جو شرمناک رویئے بعض اسلامی ملکوں میں نظر آتے ہیں ہم ان سے کہیں بہتر ہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہمیں ہماری عورتوں کے مسائل پر سوچنے کی مزید کوئی ضرورت نہیں۔ یہ بھی ایک اچھی بات ہے کہ آج ہمارے ہاں عورتوں کی بات کرنے والی کئی قابل قدرتنظیمیں اور شخصیات موجود ہیں یہ ہماری لنگڑی لولی جمہوریتوں کی ہی دین ہے۔ میں آج کل مصر کے بارے میں ایک کتاب پڑھ رہی ہوں جس کا نام ہے ”انٹی میٹ لائف ان اے چینجنگ عرب ورلڈ“ (Anti Mate Life A Changing Arab World)۔ کتاب کی رائٹر شیریں الفیکی (Shereen-el-Feki) ایک مصری نژادعورت ہے جو برطانیہ میں پیدا ہوئی اور اس نے کینیڈا میں تعلیم حاصل کی ۔ اس نے مصری عورتوں کی زندگیوں میں جھانکنے کے لئے وہاں پانچ سال گزارے اور دن رات ریسرچ کی۔ اس کا کہنا ہے کہ مصری عورتیں سمجھتی تھیں کہ عرب سپرنگ کے بعد ان کی زندگیوں پر لگے قدامت پسندی کے تالے بھی ٹوٹنے شروع ہو جائیں گے اور مغربی ممالک کے 60 کی دہائی کے ثقافتی انقلاب کی طرح وہاں کے مرد بھی اپنی عورتوں پر پڑی قبائلی روایات کی زنجیروں کو ڈھیلا کرنا شروع کر دیں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔ مصری عورتوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ وہاں عرب سپرنگ کی باگ ڈور انتہا پسندوں اور قدامت پسندوں کے ہاتھ میں آنے کی وجہ سے عورتوں کو اور بھی پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔
شیریں الفیکی لکھتی ہیں کہ وہاں کامرد خود تو زیادہ سے زیادہ سیاسی و سماجی آزادی حاصل کررہا ہے مگر عورت کو اپنے قبائلی نظام کے اندر جکڑ کر رکھنے کی ضد پر قائم ہے۔ وہاں اب بھی 50 سال کی عمر کی عورتوں کی 90 فیصد تعداد ایسی ہے جن کے ختنے ہو چکے ہیں جبکہ 15 سے 17 سال کی عمر کی 80 فیصد عورتوں کے ختنے ہو چکے ہیں۔ اس بری عرب قبائلی روایت کا مقصد عورت کی جنسی فطرت کو کم کرنا ہے۔ دوسری طرف دیکھیں تو یہی عرب سپرنگ والے اکثر مصری مرد اپنے آپ کو مغربی جنسیت اور اپنی جنسی زندگیوں کو رنگ رلیوں میں ڈھالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ ایسے مرد جو مغربی ممالک میں پیسہ کمانے گئے اور طویل عرصہ گزارنے کے بعد واپس آئے ہیں وہ اپنی بیویوں میں وہی خصوصیات تلاش کرتے ہیں جو انہوں نے مغربی ممالک کی عورتوں میں اپنی پردیس کی عیاشیوں کے دوران دیکھیں جب وہ انہیں اپنی عورتوں میں نہیں ملتیں تو وہ انہیں ٹھنڈی اور گنوارقرار دے کردندناتے ہوئے طوائفوں کا رخ کرتے ہیں۔ اس میں وہ کوئی شرم محسوس نہیں کرتے اور اس برے کام کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ایسی صورتحال کا شکار شریف بیویاں اپنے مردوں کو طوائفوں کے پاس جانے سے روکنے کے لئے سیکس شاپس کا رخ کرتی ہیں جہاں سے وہ شرمناک قسم کے کپڑے اور چیزیں خرید کر اپنے مردوں کی بری عادات اور بری خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔سیکس شاپس والوں کا کہنا ہے کہ ان کی گاہکوں کی بڑی تعداد سکارف پہننے والی شریف عوتوں پرمشتمل ہے۔ شیریں الفیکی کہتی ہیں کہ ان بیچاریوں کازور پھر بھی نہیں چل رہا۔ مرد طویل المدتی متعہ کر کے دوسری عورتوں کو تقریباً سر عام راکھی رکھتے ہیں۔متعہ کرانے والی قانونی فرموں میں دن رات اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ متعہ باقاعدہ وکیل کراتے ہیں جو تحریری ایگریمنٹ کی شکل میں ہوتے ہیں۔ غریب طالبعلم لڑکیاں متعہ کرنے پر مجبور ہو رہی ہیں۔ بعض اوقات ان کے(متعہ) تحریری ایگریمنٹ میں ان کے والدین بھی موجود ہوتے ہیں۔ ان متعوں کے اکثر تحریری ایگریمنٹ میں یہ بات شامل کی جاتی ہے کہ لڑکی کے ساتھ صرف اینل سیکس (Anal Sex) کی جاسکتی ہے تاکہ متعہ والی لڑکیاں اپنا کنوار پن کو اپنی شادی کے موقع کے لئے بچا سکیں۔ شیریں الفیکی لکھتی ہیں کہ ایسے عیاش مردوں کی اکثریت اینل سیکس (Anal Sex) کی عادی ہو چکی ہے۔ عرب سپرنگ کے بعد بھی اپنی ان ظالمانہ عرب قبائلی روایات کو مصری مرد انتہائی مضبوطی کے ساتھ تھامے ہوئے ہیں جبکہ عورتوں کی یہ حالت ہے کہ اکیسویں صدی کے اس دور میں بھی سہاگ رات کی صبح کو دلہن کے کنوارے پن کی گواہی کے لئے سہاگ کے بستر کی چادروں کی نمائش محلے بھر میں کی جاتی ہے بعض دیہاتی علاقوں میں تو دولہا کی ماں چشم دید گواہی کے لئے سہاگ کی رات بیڈ روم کے اندر خود نگرانی کرتی ہے۔
اس اسلامی ملک کے عرب سپرنگ پر ہم رشک کرتے نہیں تھکتے۔ اس کی حکمران جماعت مسلم برادر ہڈ نے گزشتہ دنوں عورتوں کے عالمی دن کے موقع پردنیا بھر کی عورتوں کے لئے اقوام متحدہ میں پیش کئے گئے انسانی حقوق کے بل کی بھی کھل کر مخالفت کی ۔ ہماری لولی لنگڑی جمہوریتیں جیسی بھی ہوں عورتوں کے لئے ایسے عرب سپرنگ اور ہمارے مارشالاؤں سے کہیں بہتر ہیں جن میں عورت کو چادر اور چار دیواری کے نام پر قید رکھ کر نام نہاد مردانگی کی جھوٹی تسکین کی جاتی ہے۔
عرب سپرنگ میں عورتوں کی یہ حالت دیکھ کر ہمیں یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ بس ہم ان سے بہت بہتر ہیں یہ بات اگرچہ بہت حد تک درست ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ابھی ہمارے معاشرے کی عورت کو بھی بہت کچھ دینا باقی ہے۔ اگر ہم نے اس کام کا آغاز جلد نہ کیا تو ہمارے اندر بھی کوئی شیریں الفیکی پیدا ہو گی جو ہماری اندورنی کہانی باہر کی دنیا کو سنائے گی۔ باہر کی دنیا کی نظر میں ابھی ہماری عورت کی حالت بھی عرب سپرنگ کی عورتوں سے کوئی زیادہ بہتر نہیں۔
بہ شکریہ روزنامہ جنگ
عرب سپرنگ والے بعض ممالک میں عورتوں کی حالت کیا ہے؟ اس موضوع پر لکھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہم ان کی معاشرت کی صحیح تصویر دیکھ سکیں۔ آ ج کل ہم پاکستانیوں کی اکثریت اپنے ملک کی جمہوریت پر تھو تھو کرتے ہوئے عرب سپرنگ کو بہت ایڈمائر کرتی ہے یہ لوگ شاید زیادہ ہی احساس کمتری کا شکار ہیں جبکہ ہماری لنگڑی لولی جمہوریتوں نے بھی ہمارے معاشرے کو زندہ دنیا کے قریب لانے میں کوئی نہ کوئی کردار ادا کیا ہے جس کی وجہ سے ہم عرب سپرنگ والے کئی ملکوں سے کئی سماجی معاملات میں آگے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی درست ہے کہ ہمارے ہاں بھی ابھی تک وٹہ سٹہ کی شادیاں، قرآن سے شادیاں ، غیرت کے نام پر قتل اور جبری شادیوں جیسی بیماریاں موجود ہیں مگران کی شرح کئی اور ممالک سے کم ہے اور عورتوں کے بارے میں جو شرمناک رویئے بعض اسلامی ملکوں میں نظر آتے ہیں ہم ان سے کہیں بہتر ہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہمیں ہماری عورتوں کے مسائل پر سوچنے کی مزید کوئی ضرورت نہیں۔ یہ بھی ایک اچھی بات ہے کہ آج ہمارے ہاں عورتوں کی بات کرنے والی کئی قابل قدرتنظیمیں اور شخصیات موجود ہیں یہ ہماری لنگڑی لولی جمہوریتوں کی ہی دین ہے۔ میں آج کل مصر کے بارے میں ایک کتاب پڑھ رہی ہوں جس کا نام ہے ”انٹی میٹ لائف ان اے چینجنگ عرب ورلڈ“ (Anti Mate Life A Changing Arab World)۔ کتاب کی رائٹر شیریں الفیکی (Shereen-el-Feki) ایک مصری نژادعورت ہے جو برطانیہ میں پیدا ہوئی اور اس نے کینیڈا میں تعلیم حاصل کی ۔ اس نے مصری عورتوں کی زندگیوں میں جھانکنے کے لئے وہاں پانچ سال گزارے اور دن رات ریسرچ کی۔ اس کا کہنا ہے کہ مصری عورتیں سمجھتی تھیں کہ عرب سپرنگ کے بعد ان کی زندگیوں پر لگے قدامت پسندی کے تالے بھی ٹوٹنے شروع ہو جائیں گے اور مغربی ممالک کے 60 کی دہائی کے ثقافتی انقلاب کی طرح وہاں کے مرد بھی اپنی عورتوں پر پڑی قبائلی روایات کی زنجیروں کو ڈھیلا کرنا شروع کر دیں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔ مصری عورتوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ وہاں عرب سپرنگ کی باگ ڈور انتہا پسندوں اور قدامت پسندوں کے ہاتھ میں آنے کی وجہ سے عورتوں کو اور بھی پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔
شیریں الفیکی لکھتی ہیں کہ وہاں کامرد خود تو زیادہ سے زیادہ سیاسی و سماجی آزادی حاصل کررہا ہے مگر عورت کو اپنے قبائلی نظام کے اندر جکڑ کر رکھنے کی ضد پر قائم ہے۔ وہاں اب بھی 50 سال کی عمر کی عورتوں کی 90 فیصد تعداد ایسی ہے جن کے ختنے ہو چکے ہیں جبکہ 15 سے 17 سال کی عمر کی 80 فیصد عورتوں کے ختنے ہو چکے ہیں۔ اس بری عرب قبائلی روایت کا مقصد عورت کی جنسی فطرت کو کم کرنا ہے۔ دوسری طرف دیکھیں تو یہی عرب سپرنگ والے اکثر مصری مرد اپنے آپ کو مغربی جنسیت اور اپنی جنسی زندگیوں کو رنگ رلیوں میں ڈھالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ ایسے مرد جو مغربی ممالک میں پیسہ کمانے گئے اور طویل عرصہ گزارنے کے بعد واپس آئے ہیں وہ اپنی بیویوں میں وہی خصوصیات تلاش کرتے ہیں جو انہوں نے مغربی ممالک کی عورتوں میں اپنی پردیس کی عیاشیوں کے دوران دیکھیں جب وہ انہیں اپنی عورتوں میں نہیں ملتیں تو وہ انہیں ٹھنڈی اور گنوارقرار دے کردندناتے ہوئے طوائفوں کا رخ کرتے ہیں۔ اس میں وہ کوئی شرم محسوس نہیں کرتے اور اس برے کام کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ایسی صورتحال کا شکار شریف بیویاں اپنے مردوں کو طوائفوں کے پاس جانے سے روکنے کے لئے سیکس شاپس کا رخ کرتی ہیں جہاں سے وہ شرمناک قسم کے کپڑے اور چیزیں خرید کر اپنے مردوں کی بری عادات اور بری خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔سیکس شاپس والوں کا کہنا ہے کہ ان کی گاہکوں کی بڑی تعداد سکارف پہننے والی شریف عوتوں پرمشتمل ہے۔ شیریں الفیکی کہتی ہیں کہ ان بیچاریوں کازور پھر بھی نہیں چل رہا۔ مرد طویل المدتی متعہ کر کے دوسری عورتوں کو تقریباً سر عام راکھی رکھتے ہیں۔متعہ کرانے والی قانونی فرموں میں دن رات اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ متعہ باقاعدہ وکیل کراتے ہیں جو تحریری ایگریمنٹ کی شکل میں ہوتے ہیں۔ غریب طالبعلم لڑکیاں متعہ کرنے پر مجبور ہو رہی ہیں۔ بعض اوقات ان کے(متعہ) تحریری ایگریمنٹ میں ان کے والدین بھی موجود ہوتے ہیں۔ ان متعوں کے اکثر تحریری ایگریمنٹ میں یہ بات شامل کی جاتی ہے کہ لڑکی کے ساتھ صرف اینل سیکس (Anal Sex) کی جاسکتی ہے تاکہ متعہ والی لڑکیاں اپنا کنوار پن کو اپنی شادی کے موقع کے لئے بچا سکیں۔ شیریں الفیکی لکھتی ہیں کہ ایسے عیاش مردوں کی اکثریت اینل سیکس (Anal Sex) کی عادی ہو چکی ہے۔ عرب سپرنگ کے بعد بھی اپنی ان ظالمانہ عرب قبائلی روایات کو مصری مرد انتہائی مضبوطی کے ساتھ تھامے ہوئے ہیں جبکہ عورتوں کی یہ حالت ہے کہ اکیسویں صدی کے اس دور میں بھی سہاگ رات کی صبح کو دلہن کے کنوارے پن کی گواہی کے لئے سہاگ کے بستر کی چادروں کی نمائش محلے بھر میں کی جاتی ہے بعض دیہاتی علاقوں میں تو دولہا کی ماں چشم دید گواہی کے لئے سہاگ کی رات بیڈ روم کے اندر خود نگرانی کرتی ہے۔
اس اسلامی ملک کے عرب سپرنگ پر ہم رشک کرتے نہیں تھکتے۔ اس کی حکمران جماعت مسلم برادر ہڈ نے گزشتہ دنوں عورتوں کے عالمی دن کے موقع پردنیا بھر کی عورتوں کے لئے اقوام متحدہ میں پیش کئے گئے انسانی حقوق کے بل کی بھی کھل کر مخالفت کی ۔ ہماری لولی لنگڑی جمہوریتیں جیسی بھی ہوں عورتوں کے لئے ایسے عرب سپرنگ اور ہمارے مارشالاؤں سے کہیں بہتر ہیں جن میں عورت کو چادر اور چار دیواری کے نام پر قید رکھ کر نام نہاد مردانگی کی جھوٹی تسکین کی جاتی ہے۔
عرب سپرنگ میں عورتوں کی یہ حالت دیکھ کر ہمیں یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ بس ہم ان سے بہت بہتر ہیں یہ بات اگرچہ بہت حد تک درست ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ابھی ہمارے معاشرے کی عورت کو بھی بہت کچھ دینا باقی ہے۔ اگر ہم نے اس کام کا آغاز جلد نہ کیا تو ہمارے اندر بھی کوئی شیریں الفیکی پیدا ہو گی جو ہماری اندورنی کہانی باہر کی دنیا کو سنائے گی۔ باہر کی دنیا کی نظر میں ابھی ہماری عورت کی حالت بھی عرب سپرنگ کی عورتوں سے کوئی زیادہ بہتر نہیں۔
بہ شکریہ روزنامہ جنگ