عرب ممالک کو اسرائیل قبول ہے لیکن ایران نہیں۔ عرب عمان نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا

جاسم محمد

محفلین
اسرائیل خطے میں ایک ملک ہے اور ہم سبھی اس بات کو سمجھتے ہیں: اومان
46060387_303.jpeg

عرب خطے میں سکیورٹی کی سربراہی کانفرنس سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں عرب ممالک کو اسرائیل تو قبول ہے لیکن ایران نہیں۔

اومان کے خارجہ امور کے وزیر یوسف بن علاوی نے کہا ہے کہ 'اسرائیل خطے میں ایک ملک ہے اور ہم سبھی اس بات کو سمجھتے ہیں۔'

انھوں نے مزید کہا کہ 'دنیا بھی اس حقیقت سے واقف ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ اسی طرح سلوک روا رکھا جائے اور اسرائیل پر بھی وہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔'

وزیر داخلہ امور نے کہا کہ 'اسرائیل اور فلسطین کے معاملے میں ہم لوگ ثالث نہیں ہیں لیکن ہم دونوں فریق کو ساتھ آنے کے لیے سہولیات اور خیالات فراہم کرنے کی پیشکش کر تے ہیں۔'

انھوں نے کہا کہ 'ہم اسرائیل اور فلسطین کے متعلق اپنی اس تجویز کے متعلق بہت پرامید ہیں۔'

اس سے قبل سعودی عرب اور اس کے قریبی حلیف بحرین نے سنیچر کو کہا کہ ایران کے 'تاریکی کے وژن' سے لڑتے ہوئے خلیجی ممالک مشرق وسطیٰ میں استحکام برقرار رکھنے کے لیے اہم کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ ریاض کو دہائیوں میں سب سے خراب سیاسی بحران کا سامنا ہے۔

سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل بن احمد الجبیر نے بحرین میں سکیورٹی کی ایک سربراہی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: 'ہمیں مشرق وسطیٰ میں دو وژن کا سامنا ہے۔ ایک (سعودی کا) روشنی کا وژن ہے ۔۔۔ دوسرا (ایران کا) تاریکی کا وژن ہے جو پورے خطے میں فرقہ بندی پھیلانے کی کوشش کررہا ہے۔

'تاریخ بتاتی ہے کہ روشنی کی ہمیشہ تاریکی کے خلاف جیت ہوئی ہے ۔۔۔ سوال یہ ہے کہ ہم اسے کس طرح شکست دیتے ہیں۔'

دوسری جانب سنیچر کو امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے کہا کہ سعودی پالیسی کی تنقید کرنے والے صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے علاقے کے استحکام کو دھچکہ لگا ہے اور واشنگٹن اس قتل کے لیے ذمہ دار 21 لوگوں کے خلاف ویزے کی پابندی کے علاوہ مزید اقدام کا ارادہ رکھتا ہے۔

انھوں نے ایک دوسری سکیورٹی کانفرنس مناما ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی اقدار کی پاسداری کرنے میں کسی بھی ملک کی ناکامی سے علاقے کے استحکام کو نقصان پہنچتا ہے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب اسے اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہو۔

خاشقجی کے قتل کے بعد پہلے سے طے شدہ ایونٹ پر کڑی نظر رہی ہے جبکہ وزیر خارجہ الجبیر نے سوال کیا ہے کہ قتل کا معاملہ خارجہ پالیسی اور سکیورٹی کے معاملے میں سعودی عرب کی معتبریت کو کس طرح متاثر کرسکتا ہے۔

انھوں نے پھر سے کہا کہ خاشقجی کی موت کے ذمہ داروں کو ریاض سزا ضرور دلوائے گا اور ان پر سعودی عرب میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ انھوں نے یہ بات اس قتل میں ملوث مبینہ 18 سعودی ملزمان کو ترکی بھیجنے کے مطالبے پر کہی۔

الجبیر نے کہا کہ سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات 'ناقابل تسخیر' ہیں اور انھوں نے امریکی انتظامیہ کی حالیہ خارجہ پالیسی کو 'منطقی اور حقیقی' قرار دیتے ہوئے اس کی تعریف کی ہے۔

صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ خاشقجی کے معاملے کی تہہ تک پہنچنا چاہتے ہیں جبکہ ایران اور اسلام پسند عسکریوں کے خلاف ریاض کے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ ریاض امریکی اسلحے کا اہم خریدار ہے۔

دوسری جانب بحرین کے وزیر خارجہ شیخ خالد بن احمد الخلیفہ نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علاقائی سکیورٹی کے لیے خلیجی بلاک ایک ستون ہوگا اور انھوں نے امریکہ، خلیجی ممالک، اردن اور مصر کے سکیورٹی اتحاد کے قیام کی تجویز پیش کی۔

واشنگٹن کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی سٹریٹیجک اتحاد (میسا) ایران اور انتہا پسندی کے خلاف فصیل کا کام کرے گا۔ لیکن اس کے موثر ہونے پر خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کیونکہ قطر اور سعودی عرب کی قیادت میں چار عرب ممالک کے درمیان طول پکڑتا ہوا تنازع ہے جو کہ دوحہ کے سنہ 2017 میں بائیکاٹ سے شروع ہوا تھا۔

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے جون سنہ 2017 میں قطر کے ساتھ سفری رابطے اور تجارت منقطع کر رکھی ہے۔ ان کا الزام ہے کہ قطر ان کے قدیم دشمن ایران کی دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے۔ قطر ان الزامات کی تردید کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ان کا بائيکاٹ ان کی خودمختاری پر حملہ ہے۔

میٹس کا کہنا ہے کہ ایسے میں قطر کے ساتھ جاری 16 ماہ کا تنازع ختم کرنا اہم ہے کیونکہ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس سے ایران کے خلاف علاقائی تعاون کمزور ہوا ہے۔

الجبیر نے کہا ہے میسا کے فریم ورک پر سعودی عرب میں ہونے والی گفتگو میں قطری حکام کو شامل کیا گیا تھا اور مجوزہ اتحاد سفارتی تنازع سے متاثر نہیں ہوگا۔

شیخ خالد نے کہا کہ 'یہ (میسا) علاقے کی سکیورٹی اور خوشحالی کے لیے کیا جانے والا اتحاد ہے اور یہ علاقے کے ان تمام ممالک کے لیے ہے جو اس کے اصول و ضوابط کو قبول کریں۔' اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس اتحاد کے تحت معاشی امود میں بھی تعاون کیا جائے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
اُمید ہے اس خبر کے بعد الباکستانیوں کے 14 طبق روشن ہو گئے ہوں گے جو پچھلے 71 سالوں سے اپنے عرب بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی میں اسرائیل سے بیر لگائے بیٹھے تھے۔
 

ربیع م

محفلین
اُمید ہے اس خبر کے بعد الباکستانیوں کے 14 طبق روشن ہو گئے ہوں گے جو پچھلے 71 سالوں سے اپنے عرب بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی میں اسرائیل سے بیر لگائے بیٹھے تھے۔
جو پاکستانی عربوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی وجہ سے اسرائیل سے بیر لگائے بیٹھے تھے تو ان کے 14 طبق تو معاہدہ اوسلو کے بعد ہی روشن ہو گئے ہوں گے البتہ جنہیں فلسطینیوں سے ہمدردی اسلام قبلہ اول اور اسلامی اخوت جیسے نظریے کی بنیاد پر ہے جیسا کہ آپ کی صہیونیوں سے تو ان کیلئے اس کی کوئی اہمیت نہیں.
 

جاسم محمد

محفلین
جو پاکستانی عربوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی وجہ سے اسرائیل سے بیر لگائے بیٹھے تھے تو ان کے 14 طبق تو معاہدہ اوسلو کے بعد ہی روشن ہو گئے ہوں گے البتہ جنہیں فلسطینیوں سے ہمدردی اسلام قبلہ اول اور اسلامی اخوت جیسے نظریے کی بنیاد پر ہے جیسا کہ آپ کی صہیونیوں سے تو ان کیلئے اس کی کوئی اہمیت نہیں.
ظالم اسرائیلیوں کے خلاف عربوں نے تین بڑی جنگیں کی ہیں: 1948، 1967 اور 1973 ۔ اس کے باوجود آج پیشتر عرب ممالک کے لئے اسرائیل قابل قبول ہے لیکن ہمسایہ مسلم ملک ایران نہیں۔ کہیں تو مسئلہ آ رہا ہے۔ کوشش کریں۔ جلد پہنچ جائیں گے۔
 

فرقان احمد

محفلین
اُمید ہے اس خبر کے بعد الباکستانیوں کے 14 طبق روشن ہو گئے ہوں گے جو پچھلے 71 سالوں سے اپنے عرب بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی میں اسرائیل سے بیر لگائے بیٹھے تھے۔
ہمیں ظلم کو ظلم کہنا سیکھنا چاہیے۔ اسرائیلی مظالم کے سامنے فلسطینیوں کا 'ردعمل'کوئی حیثیت نہیں رکھتا ہے؛ اگر آپ اسرائیل کو حق بجانب سمجھتے ہیں تو معاملہ مختلف ہے۔ اگر پاکستانی مسلم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں تو اس میں آخر مسئلہ کیا ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
اگر آپ اسرائیل کو حق بجانب سمجھتے ہیں تو معاملہ مختلف ہے۔
میں نے ایسا کچھ نہیں کہا ۔ اسرائیلیوں کے فلسطینیوں پر مظالم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ہر طاقتور ملک کمزور وں کے ساتھ ایسا سلوک ہی کرتا چلا آ رہا ہے۔ بھارت میں کشمیری، چین میں یوغر، برما میں روہنگیا مسلمان ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔
اگر پاکستانی مسلم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں تو اس میں آخر مسئلہ کیا ہے؟
مسئلہ اظہار یکجہتی کانہیں۔ اسرائیل کو سرے سے ہی تسلیم نہ کرنے کاہے۔ اوپر ربیع م نے اوسلو معاہدہ کا حوالہ دیا تھا۔ جس کی رو سے فلسطینیوں نے اسرائیل، اور اسرائیل نے فلسطینیوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا تھا۔ اس کے باوجود پاکستان اور دیگر ممالک کی ہٹ دھرمی کہ ہم اسرائیل کو نہیں مانتے، انا اور ضد کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
میں نے ایسا کچھ نہیں کہا ۔ اسرائیلیوں کے فلسطینیوں پر مظالم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ہر طاقتور ملک کمزور وں کے ساتھ ایسا سلوک ہی کرتا چلا آ رہا ہے۔ بھارت میں کشمیری، چین میں یوغر، برما میں روہنگیا مسلمان ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔

مسئلہ اظہار یکجہتی کانہیں۔ اسرائیل کو سرے سے ہی تسلیم نہ کرنے کاہے۔ اوپر ربیع م نے اوسلو معاہدہ کا حوالہ دیا تھا۔ جس کی رو سے فلسطینیوں نے اسرائیل، اور اسرائیل نے فلسطینیوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا تھا۔ اس کے باوجود پاکستان اور دیگر ممالک کی ہٹ دھرمی کہ ہم اسرائیل کو نہیں مانتے، انا اور ضد کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔

اسرائیل نے ایسا کون سا تیر مار لیا ہے کہ اُسے تسلیم کیے بغیر ہمارے لیے سانس لینا مشکل ہو۔ اسرائیل کو فلسطینیوں پر مظالم کا سلسلہ ترک کرنا ہو گا۔ ہماری کوئی ایسی مجبوری نہیں ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے۔ جس قدر مظالم فلسطینیوں کے ساتھ ہوئے ہیں، اُن سے اظہار یکجہتی کے لیے امت مسلمہ بلکہ پوری دُنیا کو یک آواز ہو جانا چاہیے یا کم از کم ہر ملک کو اپنے طورپر پُرامن احتجاج جاری رکھنا چاہیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اسرائیل نے ایسا کون سا تیر مار لیا ہے کہ اُسے تسلیم کیے بغیر ہمارے لیے سانس لینا مشکل ہو۔
اسرائیل نے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں سارے تیر مار کر پاکستان کے دشمن بھارت کے حوالہ کر دئے ہیں۔ کارگل جنگ میں جب بھارت کو پاکستانی افواج کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا تھا تواس نے اسرائیل سے رجوع کیا جو میدان دفاع میں انتہائی آگے ہیں۔ چنانچہ اسرائیلی لیزرگائیڈڈ میزائل، ڈرونز وغیرہ کی مدد سے پاک افواج کو پسپائی ہوئی۔
انڈوپاک کا ایک بڑامعاشی سیکٹر زراعت پر مبنی ہے۔ اسرائیلی اس میدان میں بھی بہت آگے ہیں۔ اسرائیل-بھارت پارٹنرشپ کی بدولت بھارتی کسانوں کی پیداوار میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اس سلسلہ میں ہر سال نئے پراجیکٹ لگائے جا رہے ہیں۔
اسرائیل کو سرے سے ہی تسلیم نہ کر کے پاکستان نے اپنا ہی نقصان کروایا ہے۔ جو اہم ٹیکنالوجیز پاکستان اسرائیل سے حاصل کر سکتا تھا، وہ اپنے دشمن بھارت کو دلوا دی ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہماری کوئی ایسی مجبوری نہیں ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے۔ جس قدر مظالم فلسطینیوں کے ساتھ ہوئے ہیں
مظالم تو ہمارا جگری یار چین بھی اپنے مسلمانوں کے ساتھ رواں رکھے ہوئے ہے۔ تو کیا صرف اس بنیاد پر چین سے سارے تعلقات ختم کر دینے چاہئے؟ یاد رہے کہ یہی دلیل اسرائیل پر لاگو ہوتی ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
اسرائیل نے سائنس و ٹیکنالوجی میں سارے تیر مار کر پاکستان کے دشمن بھارت کے حوالہ کر دئے ہیں۔ کارگل جنگ میں جب بھارت کو پاکستانی افواج کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا تھا تواس نے اسرائیل سے رجوع کیا جو میدان دفاع میں انتہائی آگے ہیں۔ چنانچہ اسرائیلی لیزرگائیڈڈ میزائل، ڈرونز وغیرہ کی مدد سے پاک افواج کو پسپائی ہوئی۔
انڈوپاک کا ایک بڑامعاشی سیکٹر زراعت پر مبنی ہے۔ اسرائیلی اس میدان میں بھی بہت آگے ہیں۔ اسرائیل-بھارت پارٹنرشپ کی بدولت بھارتی کسانوں کی پیداوار میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
اسرائیل کو سرے سے ہی تسلیم نہ کر کے پاکستان نے اپنا ہی نقصان کروایا ہے۔ جو اہم ٹیکنالوجیز پاکستان اسرائیل سے حاصل کر سکتا تھا، وہ اپنے دشمن بھارت کو دلوا دی ہیں۔
اسرائیل کے پاس ایسی کون سی ٹیکنالوجی ہے جو بھارت کو صرف اسی ایک ملک سے مل سکتی تھی؟ اور آپ نے کیا جواز تراشا ہے اسرائیل کو تسلیم کروانے کا۔۔۔ سبحان اللہ!
 

ربیع م

محفلین
میں نے ایسا کچھ نہیں کہا ۔ اسرائیلیوں کے فلسطینیوں پر مظالم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ہر طاقتور ملک کمزور وں کے ساتھ ایسا سلوک ہی کرتا چلا آ رہا ہے۔ بھارت میں کشمیری، چین میں یوغر، برما میں روہنگیا مسلمان ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔

مسئلہ اظہار یکجہتی کانہیں۔ اسرائیل کو سرے سے ہی تسلیم نہ کرنے کاہے۔ اوپر ربیع م نے اوسلو معاہدہ کا حوالہ دیا تھا۔ جس کی رو سے فلسطینیوں نے اسرائیل، اور اسرائیل نے فلسطینیوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا تھا۔ اس کے باوجود پاکستان اور دیگر ممالک کی ہٹ دھرمی کہ ہم اسرائیل کو نہیں مانتے، انا اور ضد کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
معاہدہ أوسلو کے بعد اس معاہدے کے کرداروں کو فلسطینی قوم نے جس طرح رد کیا وہ اس بات کی دلیل ہے کہ فلسطینیوں نے اس معاہدہ کو کبھی بھی قبول نہیں کیا. چنانچہ فلسطینیوں پر یہ الزام مت دھریں.
بفرض محال اگر تمام تر فلسطینی اسرائیل کو تسلیم کر بھی لیں تب بھی قبلہ اول کا مسئلہ محض فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری مسلم امت کا مسئلہ ہے.
 

جاسم محمد

محفلین
معاہدہ أوسلو کے بعد اس معاہدے کے کرداروں کو فلسطینی قوم نے جس طرح رد کیا وہ اس بات کی دلیل ہے کہ فلسطینیوں نے اس معاہدہ کو کبھی بھی قبول نہیں کیا. چنانچہ فلسطینیوں پر یہ الزام مت دھریں.
معاہدہ اوسلو کی مسلسل خلاف ورزیوں کے بعد اسرائیلیوں نے بھی اسے کوڑے کے بن میں پھینک دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر فلسطینی حکومت ماڈریٹ جماعت فتح کی ہے۔ مگر تمام جھڑپوں میں مخالف جماعت اسلامی حماس شریک ہوتی ہے۔
 

ربیع م

محفلین
معاہدہ اوسلو کی مسلسل خلاف ورزیوں کے بعد اسرائیلیوں نے بھی اسے کوڑے کے بن میں پھینک دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر فلسطینی حکومت ماڈریٹ جماعت فتح کی ہے۔ مگر تمام جھڑپوں میں مخالف جماعت اسلامی حماس شریک ہوتی ہے۔
صہیونیوں کا درد دل میں پالنے پر جو کہ اچھل اچھل کر باہر امنڈ رہا ہے ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں.
باقی آپ کا مراسلہ لفظ بہ لفظ حقائق کے برعکس ہے.
 

جاسم محمد

محفلین
صہیونیوں کا درد دل میں پالنے پر جو کہ اچھل اچھل کر باہر امنڈ رہا ہے ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں.
آپ ہر بات کا اُلٹا مطلب کیسے لے لیتے ہیں؟ معاہدہ اوسلو کو اسرائیل نے خود توڑا تھا۔ کیونکہ وہ دائیں بازوں کے یہودی شدت پسند وزیر اعظم بی بی نیتانیاہو کے لئے ناگزیر تھا۔ جواب میں دائیں بازوں کی اسلامی جماعت حماس نے بھی اسے توڑ دیا اور دوبارہ ہتھیار اٹھا لئے۔
 

جاسم محمد

محفلین
صہیونیوں کا درد دل میں پالنے پر جو کہ اچھل اچھل کر باہر امنڈ رہا ہے ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں.
یہ لیں صہیونیوں کی حکومتی ترجمان عرب امارات میں کھلے عام گھوم پھر رہی ہیں۔ یہ وہی ملک ہےجہاں آج سے کچھ سال قبل ایک فلسطینی لیڈر کو اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے قتل کیا تھا۔
192249_3996043_updates.jpg

اسرائیلی وزیر ثقافت و کھیل کا جامعہ مسجد ابوظہبی کا دورہ
اہل عرب، پاکستانیوں کو ساری عمراسرائیل و یہود مخالفت کا بھاشن دینے کے بعد ایران سے خوفزدہ ہو کر خود ان کی گود میں جا کر بیٹھ کر گئے۔ حد ہو گئی بھئی یہ تو۔
 

ربیع م

محفلین
یہ لیں صہیونیوں کی حکومتی ترجمان عرب امارات میں کھلے عام گھوم پھر رہی ہیں۔ یہ وہی ملک ہےجہاں آج سے کچھ سال قبل ایک فلسطینی لیڈر کو اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے قتل کیا تھا۔
192249_3996043_updates.jpg

اسرائیلی وزیر ثقافت و کھیل کا جامعہ مسجد ابوظہبی کا دورہ
عرب پاکستانیوں کو ساری زندگی اسرائیل و یہود مخالفت کا بھاشن دینے کے بعد خود ان کی گود میں جا کر بیٹھ کر گئے۔ حد ہو گئی بھئی یہ تو۔
دوبارہ پڑھ لیں تاکہ افاقہ ہو.
جو پاکستانی عربوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی وجہ سے اسرائیل سے بیر لگائے بیٹھے تھے تو ان کے 14 طبق تو معاہدہ اوسلو کے بعد ہی روشن ہو گئے ہوں گے البتہ جنہیں فلسطینیوں سے ہمدردی اسلام قبلہ اول اور اسلامی اخوت جیسے نظریے کی بنیاد پر ہے جیسا کہ آپ کی صہیونیوں سے تو ان کیلئے اس کی کوئی اہمیت نہیں.
ویسے آپ بہت سوں میں صیہونیت نوازی تو اس سب سے قبل پائی جاتی ہے.
 

جاسم محمد

محفلین
دوبارہ پڑھ لیں تاکہ افاقہ ہو.
دوبارہ پڑھنے سے خبر تبدیل نہیں ہوگی۔ وہی رہے گی۔

دبئی: اسرائیل کی وزیر ثقافت و کھیل نے ابوظہبی کی شیخ زید جامعہ مسجد کا دورہ کیا ہے۔

اسرائیلی وزیر کھیل کا دورہ ایسے موقع پر ہوا ہے جب اسرائیل کی ٹیم نے ابوظہبی میں جوڈو کے مقابلوں میں شرکت کی اور پہلی پوزیشن حاصل کی۔


متحدہ عرب امارات کے روزنامے دی نیشنل نے کے مطابق اسرائیلی وزیر ميری ريغيف نے اتوار کو شیخ زید جامعہ مسجد ابوظہبی کا دورہ کیا۔

اسرائیلی وزیر کے دورے کی تصاویر سوشل میڈیا پر بھی سامنے آئیں جس میں انہیں مسجد کے اندر سرڈھانپے اور برقعہ پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔

اسرائیلی وزیر کا سوشل میڈیا پوسٹ میں کہنا تھا کہ انہیں خوشی ہے وہ پہلی سینئر اسرائیلی شخصیت ہیں جنہوں نے مسجد میں مہمانوں کی کتاب میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔
اسرائیلی وزیر ثقافت و کھیل کا جامعہ مسجد ابوظہبی کا دورہ

پاک بھارت و کشمیر تنازعہ کی وجہ سے یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ہاں کھیلنا تک پسند نہیں کرتے۔ عرب ممالک کو یہ معلوم ہے۔ اسکے باوجود بھارت سے ان کے دوستانہ و قریبی مراسم ہیں۔ ان کے دل میں کشمیری مسلمانوں کا درد نہیں جاگتا۔نہ فلسطینی عرب مسلمانوں پر ہونے والے اسرائیلی مظالم سے کوئی تکلیف ہے۔ جبکہ پاکستان شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار والا رول ادا کر رہا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ویسے آپ بہت سوں میں صیہونیت نوازی تو اس سب سے قبل پائی جاتی ہے.
جلد یا بدیر جب مشرق وسطیٰ کے اکثر عرب ممالک، ایران مخالفت میں، اسرائیل کو تسلیم کر کے سفارتی تعلقات قائم کر لیں گے۔ تب بھی پاکستان کا وہی پرانا موقف ہوگا۔ بقول حبیب جالب:
"میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا"
ممالک کے درمیان تعلقات منجمد نہیں ہوتے۔ بدلتے حالات و واقعات کے ساتھ تغیر میں رہتے ہیں۔ کسی زمانہ میں برطانیہ و امریکہ ایک دوسرے کا قتل عام کر رہے تھے۔ آج ایک مٹھی کی طرح اکٹھے ہیں۔ جرمنی،فرانس دو جنگ عظیم میں لڑتے جھگڑتے رہے۔ آج یورپی یونین میں اکٹھے ہیں۔ عربوں نے اسرائیل کے خلاف تین بڑی جنگیں کی۔ اب وہ بھی رفتہ رفتہ بدل رہے ہیں۔ ایک پاکستا ن ہی بچا ہے چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ اسکی خارجہ پالیسی بدلتی ہی نہیں۔
 
Top