جاسم محمد
محفلین
اسرائیل خطے میں ایک ملک ہے اور ہم سبھی اس بات کو سمجھتے ہیں: اومان
عرب خطے میں سکیورٹی کی سربراہی کانفرنس سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں عرب ممالک کو اسرائیل تو قبول ہے لیکن ایران نہیں۔
اومان کے خارجہ امور کے وزیر یوسف بن علاوی نے کہا ہے کہ 'اسرائیل خطے میں ایک ملک ہے اور ہم سبھی اس بات کو سمجھتے ہیں۔'
انھوں نے مزید کہا کہ 'دنیا بھی اس حقیقت سے واقف ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ اسی طرح سلوک روا رکھا جائے اور اسرائیل پر بھی وہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔'
وزیر داخلہ امور نے کہا کہ 'اسرائیل اور فلسطین کے معاملے میں ہم لوگ ثالث نہیں ہیں لیکن ہم دونوں فریق کو ساتھ آنے کے لیے سہولیات اور خیالات فراہم کرنے کی پیشکش کر تے ہیں۔'
انھوں نے کہا کہ 'ہم اسرائیل اور فلسطین کے متعلق اپنی اس تجویز کے متعلق بہت پرامید ہیں۔'
اس سے قبل سعودی عرب اور اس کے قریبی حلیف بحرین نے سنیچر کو کہا کہ ایران کے 'تاریکی کے وژن' سے لڑتے ہوئے خلیجی ممالک مشرق وسطیٰ میں استحکام برقرار رکھنے کے لیے اہم کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ ریاض کو دہائیوں میں سب سے خراب سیاسی بحران کا سامنا ہے۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل بن احمد الجبیر نے بحرین میں سکیورٹی کی ایک سربراہی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: 'ہمیں مشرق وسطیٰ میں دو وژن کا سامنا ہے۔ ایک (سعودی کا) روشنی کا وژن ہے ۔۔۔ دوسرا (ایران کا) تاریکی کا وژن ہے جو پورے خطے میں فرقہ بندی پھیلانے کی کوشش کررہا ہے۔
'تاریخ بتاتی ہے کہ روشنی کی ہمیشہ تاریکی کے خلاف جیت ہوئی ہے ۔۔۔ سوال یہ ہے کہ ہم اسے کس طرح شکست دیتے ہیں۔'
دوسری جانب سنیچر کو امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے کہا کہ سعودی پالیسی کی تنقید کرنے والے صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے علاقے کے استحکام کو دھچکہ لگا ہے اور واشنگٹن اس قتل کے لیے ذمہ دار 21 لوگوں کے خلاف ویزے کی پابندی کے علاوہ مزید اقدام کا ارادہ رکھتا ہے۔
انھوں نے ایک دوسری سکیورٹی کانفرنس مناما ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی اقدار کی پاسداری کرنے میں کسی بھی ملک کی ناکامی سے علاقے کے استحکام کو نقصان پہنچتا ہے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب اسے اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہو۔
خاشقجی کے قتل کے بعد پہلے سے طے شدہ ایونٹ پر کڑی نظر رہی ہے جبکہ وزیر خارجہ الجبیر نے سوال کیا ہے کہ قتل کا معاملہ خارجہ پالیسی اور سکیورٹی کے معاملے میں سعودی عرب کی معتبریت کو کس طرح متاثر کرسکتا ہے۔
انھوں نے پھر سے کہا کہ خاشقجی کی موت کے ذمہ داروں کو ریاض سزا ضرور دلوائے گا اور ان پر سعودی عرب میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ انھوں نے یہ بات اس قتل میں ملوث مبینہ 18 سعودی ملزمان کو ترکی بھیجنے کے مطالبے پر کہی۔
الجبیر نے کہا کہ سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات 'ناقابل تسخیر' ہیں اور انھوں نے امریکی انتظامیہ کی حالیہ خارجہ پالیسی کو 'منطقی اور حقیقی' قرار دیتے ہوئے اس کی تعریف کی ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ خاشقجی کے معاملے کی تہہ تک پہنچنا چاہتے ہیں جبکہ ایران اور اسلام پسند عسکریوں کے خلاف ریاض کے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ ریاض امریکی اسلحے کا اہم خریدار ہے۔
دوسری جانب بحرین کے وزیر خارجہ شیخ خالد بن احمد الخلیفہ نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علاقائی سکیورٹی کے لیے خلیجی بلاک ایک ستون ہوگا اور انھوں نے امریکہ، خلیجی ممالک، اردن اور مصر کے سکیورٹی اتحاد کے قیام کی تجویز پیش کی۔
واشنگٹن کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی سٹریٹیجک اتحاد (میسا) ایران اور انتہا پسندی کے خلاف فصیل کا کام کرے گا۔ لیکن اس کے موثر ہونے پر خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کیونکہ قطر اور سعودی عرب کی قیادت میں چار عرب ممالک کے درمیان طول پکڑتا ہوا تنازع ہے جو کہ دوحہ کے سنہ 2017 میں بائیکاٹ سے شروع ہوا تھا۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے جون سنہ 2017 میں قطر کے ساتھ سفری رابطے اور تجارت منقطع کر رکھی ہے۔ ان کا الزام ہے کہ قطر ان کے قدیم دشمن ایران کی دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے۔ قطر ان الزامات کی تردید کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ان کا بائيکاٹ ان کی خودمختاری پر حملہ ہے۔
میٹس کا کہنا ہے کہ ایسے میں قطر کے ساتھ جاری 16 ماہ کا تنازع ختم کرنا اہم ہے کیونکہ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس سے ایران کے خلاف علاقائی تعاون کمزور ہوا ہے۔
الجبیر نے کہا ہے میسا کے فریم ورک پر سعودی عرب میں ہونے والی گفتگو میں قطری حکام کو شامل کیا گیا تھا اور مجوزہ اتحاد سفارتی تنازع سے متاثر نہیں ہوگا۔
شیخ خالد نے کہا کہ 'یہ (میسا) علاقے کی سکیورٹی اور خوشحالی کے لیے کیا جانے والا اتحاد ہے اور یہ علاقے کے ان تمام ممالک کے لیے ہے جو اس کے اصول و ضوابط کو قبول کریں۔' اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس اتحاد کے تحت معاشی امود میں بھی تعاون کیا جائے گا۔
عرب خطے میں سکیورٹی کی سربراہی کانفرنس سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں عرب ممالک کو اسرائیل تو قبول ہے لیکن ایران نہیں۔
اومان کے خارجہ امور کے وزیر یوسف بن علاوی نے کہا ہے کہ 'اسرائیل خطے میں ایک ملک ہے اور ہم سبھی اس بات کو سمجھتے ہیں۔'
انھوں نے مزید کہا کہ 'دنیا بھی اس حقیقت سے واقف ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ اسی طرح سلوک روا رکھا جائے اور اسرائیل پر بھی وہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔'
وزیر داخلہ امور نے کہا کہ 'اسرائیل اور فلسطین کے معاملے میں ہم لوگ ثالث نہیں ہیں لیکن ہم دونوں فریق کو ساتھ آنے کے لیے سہولیات اور خیالات فراہم کرنے کی پیشکش کر تے ہیں۔'
انھوں نے کہا کہ 'ہم اسرائیل اور فلسطین کے متعلق اپنی اس تجویز کے متعلق بہت پرامید ہیں۔'
اس سے قبل سعودی عرب اور اس کے قریبی حلیف بحرین نے سنیچر کو کہا کہ ایران کے 'تاریکی کے وژن' سے لڑتے ہوئے خلیجی ممالک مشرق وسطیٰ میں استحکام برقرار رکھنے کے لیے اہم کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ ریاض کو دہائیوں میں سب سے خراب سیاسی بحران کا سامنا ہے۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل بن احمد الجبیر نے بحرین میں سکیورٹی کی ایک سربراہی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: 'ہمیں مشرق وسطیٰ میں دو وژن کا سامنا ہے۔ ایک (سعودی کا) روشنی کا وژن ہے ۔۔۔ دوسرا (ایران کا) تاریکی کا وژن ہے جو پورے خطے میں فرقہ بندی پھیلانے کی کوشش کررہا ہے۔
'تاریخ بتاتی ہے کہ روشنی کی ہمیشہ تاریکی کے خلاف جیت ہوئی ہے ۔۔۔ سوال یہ ہے کہ ہم اسے کس طرح شکست دیتے ہیں۔'
دوسری جانب سنیچر کو امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے کہا کہ سعودی پالیسی کی تنقید کرنے والے صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے علاقے کے استحکام کو دھچکہ لگا ہے اور واشنگٹن اس قتل کے لیے ذمہ دار 21 لوگوں کے خلاف ویزے کی پابندی کے علاوہ مزید اقدام کا ارادہ رکھتا ہے۔
انھوں نے ایک دوسری سکیورٹی کانفرنس مناما ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی اقدار کی پاسداری کرنے میں کسی بھی ملک کی ناکامی سے علاقے کے استحکام کو نقصان پہنچتا ہے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب اسے اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہو۔
خاشقجی کے قتل کے بعد پہلے سے طے شدہ ایونٹ پر کڑی نظر رہی ہے جبکہ وزیر خارجہ الجبیر نے سوال کیا ہے کہ قتل کا معاملہ خارجہ پالیسی اور سکیورٹی کے معاملے میں سعودی عرب کی معتبریت کو کس طرح متاثر کرسکتا ہے۔
انھوں نے پھر سے کہا کہ خاشقجی کی موت کے ذمہ داروں کو ریاض سزا ضرور دلوائے گا اور ان پر سعودی عرب میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ انھوں نے یہ بات اس قتل میں ملوث مبینہ 18 سعودی ملزمان کو ترکی بھیجنے کے مطالبے پر کہی۔
الجبیر نے کہا کہ سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات 'ناقابل تسخیر' ہیں اور انھوں نے امریکی انتظامیہ کی حالیہ خارجہ پالیسی کو 'منطقی اور حقیقی' قرار دیتے ہوئے اس کی تعریف کی ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ خاشقجی کے معاملے کی تہہ تک پہنچنا چاہتے ہیں جبکہ ایران اور اسلام پسند عسکریوں کے خلاف ریاض کے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ ریاض امریکی اسلحے کا اہم خریدار ہے۔
دوسری جانب بحرین کے وزیر خارجہ شیخ خالد بن احمد الخلیفہ نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علاقائی سکیورٹی کے لیے خلیجی بلاک ایک ستون ہوگا اور انھوں نے امریکہ، خلیجی ممالک، اردن اور مصر کے سکیورٹی اتحاد کے قیام کی تجویز پیش کی۔
واشنگٹن کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی سٹریٹیجک اتحاد (میسا) ایران اور انتہا پسندی کے خلاف فصیل کا کام کرے گا۔ لیکن اس کے موثر ہونے پر خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کیونکہ قطر اور سعودی عرب کی قیادت میں چار عرب ممالک کے درمیان طول پکڑتا ہوا تنازع ہے جو کہ دوحہ کے سنہ 2017 میں بائیکاٹ سے شروع ہوا تھا۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے جون سنہ 2017 میں قطر کے ساتھ سفری رابطے اور تجارت منقطع کر رکھی ہے۔ ان کا الزام ہے کہ قطر ان کے قدیم دشمن ایران کی دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے۔ قطر ان الزامات کی تردید کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ان کا بائيکاٹ ان کی خودمختاری پر حملہ ہے۔
میٹس کا کہنا ہے کہ ایسے میں قطر کے ساتھ جاری 16 ماہ کا تنازع ختم کرنا اہم ہے کیونکہ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس سے ایران کے خلاف علاقائی تعاون کمزور ہوا ہے۔
الجبیر نے کہا ہے میسا کے فریم ورک پر سعودی عرب میں ہونے والی گفتگو میں قطری حکام کو شامل کیا گیا تھا اور مجوزہ اتحاد سفارتی تنازع سے متاثر نہیں ہوگا۔
شیخ خالد نے کہا کہ 'یہ (میسا) علاقے کی سکیورٹی اور خوشحالی کے لیے کیا جانے والا اتحاد ہے اور یہ علاقے کے ان تمام ممالک کے لیے ہے جو اس کے اصول و ضوابط کو قبول کریں۔' اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس اتحاد کے تحت معاشی امود میں بھی تعاون کیا جائے گا۔