عرس خواجہ غریب نواز کے موقعہ پر :حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ کی ایک غزل

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
آپ بہت صاحبِ حال بزرگ گزرے ہیں جن کاظاہر شریعت سے مزین اور باطن طریقت و معرفت سے لبریز ہے بالفاظ دیگر ظاہر،باطن اور باطن، ظاہرکا نورہی نور تھا ۔دنیا میں ان کا فیض ہمیشہ جاری ہے ۔ان کی شاعری بناوٹ،تصنع،دکھاوا وغیرہ سے پاک رہی ۔ وہ شاعری شاعری نہیں بلکہ سب اسرار و رموزاِلٰہی کا بیان ہے ۔رب تعالی سے ملنے کے لیے راہِ سلوک کی منزلوں کا بیان ہے ۔​
خواجہ صاحب قدس سرہ کاسلوک چشتیہ "اسم ِذات" اور اس کے ذکر اور" تصور اسم ذات" سے مربوط ہے آپ کی شاعری کا رنگ سب سے الگ اور ممتاز ہےآپ کی غزلیات سے یہاں پر ایک حمدیہ غزل پیش کی جاتی ہےجس کا ہر ایک شعرآپ کی جلالتِ علمی اور ذکرِ حق میں کمالِ استغراق کی داد دیتا ہےاردو ترجمہ ہفت مراحل سلوک سے لیا ہے۔​
ربود جان ودلم را،جمال ِنام خدا​
نو اخت تشنہ لباںرا، زلال نام خدا​
وصال حق طلبی، ہمنشین ِنامش باش​
بہ بین وصال خدا، دروصال ِنامِ خدا​
میانِ اسم ومسمئ، چو نیست فرق بہ مین​
تو درتجلئ اسماء ،کمال ِناِم خدا​
یقین بدان کہ تو باحق نشستہ ای شب وروز​
چو ہم نشین تو باشد، خیال نامِ خدا​
تُراسزوِطیران ورفضائی عالم قدس​
بہ شرط آنکہ بہ پری، بہ بال ِنامِ خدا​
چو نامِ اوشنوم، گربودمرا صدجان​
فدای اوست، بہ عزوجلال نامِ خدا​
معین زگفتنِ نامش ملول کئ گرود​
کہ ازخدا است ملالت، ملال نامِ خدا​
اردو ترجمہ
خداکے نام کاجمال میرے دل وجان کو اُڑالے گیا​
خدا کے نام تشنہ لبوں کو آب زلال (پاک پانی) سے نوازا​
اگر تو حق کےوصال کا طالب ہے تو اس کے نام کا​
ہمنشین بن جا( اور )خداکے نام کے وصال میں خداکا وصال دیکھ لے​
جب نام اور صاحبِ نام میں کوئی فرق نہیں ہے تو​
اسم ذاتِ الہی میں تمام اسمائےصفاتی کی کامل تجلیات دیکھ لے ۔​
یقین جان کہ، تو شب وروز حق کے ساتھ بیٹھاہوا ہے​
جب بھی خدا کے نام کے خیال کا ہمنشین ہے​
عالم قدس کی فضاوں میں پرواز کرنا تجھے سزاوار ہے​
بشرطیکہ تو خدا کے نام کے بازووں سے پرواز کرلے​
ۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃ (بشکریہ کوثربیگ)​
جب بھی میں اس کا نام سنوں اور مجھے سو جانیں مل جائیں تو خدا کے نام کی عزت وجلال کی قسم، اس نام پر تمام جانین قربان ہیں​
معین اس( خدا) کے نام کا ذکر کرنے سے کب ملول​
بیزار) ہو کیوں کی خدا کے نام کے ذکرسے بیزار ہونا( دراصل) خدا سے بیزارہونا ہے.​
مسئلہ شرعی یہی ہے کہ خدا کے نام کاذکر ہی خداہے اور اس کے ذکر سے بیزاری خدا سے بیزاری ہے اور خدا سے بیزاری کفر ہے ۔​
 

نایاب

لائبریرین
حق ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تے کملی یار دی کملی
ذکر یار میں عمر تمام ہو تو فنا کب پاس پھٹکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت شکریہ بہت دعائیں محترم فارقلیط بھائی
یہ کلام " جنوں " کے سلسلے کا ہے ۔ جو " یقین " پر استوار ہوتا ہے ۔
جلوتوں سے دور خلوتوں میں عام ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
عرس خواجہ غریب نواز کے موقعہ پر :حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ کی ایک غزل

آپ بہت صاحبِ حال بزرگ گزرے ہیں جن کاظاہر شریعت سے مزین اور باطن طریقت و معرفت سے لبریز ہے بالفاظ دیگر ظاہر،باطن اور باطن، ظاہرکا نورہی نور تھا ۔دنیا میں اُن کا فیض ہمیشہ جاری ہے ۔اُن کی شاعری بناوٹ،تصنع،دکھاوے وغیرہ سے پاک رہی ۔ وہ شاعری شاعری نہیں بلکہ سب اسرار و رموزاِلٰہی کا بیان ہے ۔رب تعالی سے ملنے کے لیے راہِ سلوک کی منزلوں کا بیان ہے ۔
خواجہ صاحب قدس سرہ کاسلوک چشتیہ "اسم ِذات" اور اس کے ذکر اور" تصور اسم ذات" سے مربوط ہے آپ کی شاعری کا رنگ سب سے الگ اور ممتاز ہےآپ کی غزلیات سے یہاں پر ایک حمدیہ غزل پیش کی جاتی ہےجس کا ہر شعرآپ کی جلالتِ علمی اور ذکرِ حق میں کمالِ استغراق کی داد دیتا ہےاردو ترجمہ ہفت مراحلِ سلوک سے لیا گیاہے:
ربود جان ودلم را، جمال ِنام خدا
نو اخت تشنہ لباں را، زلال نام خدا
وصال حق طلبی، ہم نشین ِنامش باش
بہ بین وصال خدا، دروِصال ِنامِ خدا
میانِ اسم ومسمیٰ، چو نیست فرق بہ مین
تو درتجلئ اسماء ،کمال ِناِم خدا
یقین بدان کہ تو باحق نشستہ ای شب وروز
چو ہم نشین تو باشد، خیال نامِ خدا
تُراسزوِطیران ورفضائی عالم قدس
بہ شرط آنکہ بہ پری، بہ بال ِنامِ خدا
چو نامِ اوشنوم، گربودمرا صدجان
فدای اوست، بہ عزوجلال نامِ خدا
معین زگفتنِ نامش ملول کئ گرود
کہ ازخدا است ملالت، ملال نامِ خدا
اردو ترجمہ
خداکے نام کاجمال میرے دِل وجان کو اُڑالے گیا
خدا کے نام تشنہ لبوں کو آبِ زُلال (پاک پانی) سے نوازا
اگر تو حق کےوصال کا طالب ہے تو اس کے نام کا
ہم نشین بن جا( اور )خداکے نام کے وصال میں خداکا وصال دیکھ لے
جب نام اور صاحبِ نام میں کوئی فرق نہیں ہے تو
اسم ذاتِ الہی میں تمام اسمائےصفاتی کی کامل تجلیات دیکھ لے ۔
یقین جان کہ، تو شب وروز حق کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے
جب بھی خدا کے نام کے خیال کا ہم نشین ہے
عالم قدس کی فضاؤں میں پرواز کرنا تجھے سزاوار ہے
بشرطیکہ تو خدا کے نام کے بازووں سے پرواز کرلے
جب بھی میں اس کا نام سنوں اور مجھے سو جانیں مل جائیں تو خدا کے نام کی عزت وجلال کی قسم، اس نام پر تمام جانین قربان ہیں
معین اس( خدا) کے نام کا ذکر کرنے سے کب ملولبیزار) ہو کیوں کی خدا کے نام کے ذکرسے بیزار ہونا( دراصل) خدا سے بیزارہونا ہے.
مسئلہ شرعی یہی ہے کہ خدا کے نام کاذکر ہی خداہے اور اس کے ذکر سے بیزاری خدا سے بیزاری ہے اور خدا سے بیزاری کفر ہے ۔
ۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہۃ (بشکریہ کوثربیگ)
 
Top