فہد اشرف
محفلین
عرضداشت بخدمت سر سید احمد خاں مرحوم و مغفور
(جو سن 1907 ع میں مرحوم کے برسی کے لیے کہی گئی اور اولڈ بوائز ڈنر میں پڑھ کر سنائی گئی)
بیاں کس طرح ہو اے سید احمد خاں کہ کیا تم ہو
ہمارے عاشق دلدادہ تم ہو دلربا تم ہو
تمہی تھے پیشوائے قوم جب تک جان تھی تن میں
مگر سید، موئے پر بھی ہمارے پیشوا تم ہو
خبر لو قوم کی کشتی کی، گو کشتی سے باہر ہو
ہوئے ساحل پہ بھی تو کیا ہمارے ناخدا تم ہو
یہاں مانا کہ تاثیر دعا میں شک رہا تم کو
وہاں ضائع نہ ہوگی پھر بھی مشغول دعا تم ہو
کرو اس قوم کے حق میں دعا اے سید احمد خاں
کہ معتوب الہی ہم ہیں، مقبول خدا تم ہو
بہت تھے باخدا دنیا میں جب تم ایک کافر تھے
مگر دارالجزا میں شک نہیں اک باخدا تم ہو
نہ ہوں بیدل تمہارے بعد لڑکے قوم کے کیوں کر
ہمارا دل تمہاری قبر میں ہے دلربا تم ہو
تمہارے جذبۂ دل کا اثر اب تک نمایاں ہے
فدا ہے تم پہ کالج کیونکہ کالج پر فدا تم ہو
تمہی کو ڈھونڈتی پھرتی ہیں آنکھیں اب علیگڑھ میں
اور اس پر یہ تماشا ہر طرف اور جا بجا تم ہو
تمہاری روح منڈلائی ہوئی پھرتی ہے کالج پر
قفس خالی ہے لیکن عندلیب باوفا تم ہو
لحد پر تیری کشکول گدائی سایہ افگن ہے
کہ زیر چرخ زیر خاک بس قومی گدا تم ہو
صف آخر میں سرداروں کے جو رہتے تھے دنیا میں
تعجب کیا صف اول میں جو روز جزا تم ہو
جنہیں احساس ہے قومی محبت کا وہی جانیں
نہیں معلوم جس کو، کیا کہیں اس سے کہ کیا تم ہو
سوا اللہ کے ہم کو نہیں امید غیروں سے
سہارا ہے محمد کا ہمیں دنیا میں یا تم ہو
ملا ہے تم کو ورثہ قوم کی مشکل کشائی کا
عزیز مصطفی تم ہو، عزیز مرتضی تم ہو
حسین ابن علی کا تم سکھاتے ہو سبق ہم کو
کہ کالج کے محرم میں بھی یاد کربلا تم ہو
یداللہ چوم کر جب تک تم آنکھوں سے لگاتے ہو
تو ہم ہرگز نہ مانیں گے کہ اب بے دست و پا تم ہو
نئی خواہش نہیں کچھ قوم کی ہم تم کو روتے ہیں
ہماری آرزو تم ہو ہمارے مدعا تم ہو
سکھایا تھا تمہیں نے قوم کو یہ شور و شر سارا
جو اسکی انتہا ہم ہیں تو اس کی ابتدا تم ہو
تم عاشق قوم کے ہو اور سب معشوق امت ہیں
جو پابند جفا ہیں وہ تو پابند وفا تم ہو
تمہارے جانشیں پیرو نہیں اگلے اصولوں کے
جو پگڈنڈی ہیں ٹیڑھی ہم تو سیدھا راستہ تم ہو
رہا کرتے تھے اکثر سرگراں تم، ہم سبک سر ہیں
جو تعبیر مذلت ہم ہیں تفسیر حیا تم ہو
تمہیں ہو زندہ و جاوید باقی جانے والے ہیں
نمونہ ہیں فنا کا ہم تو تمثیل بقا تم ہو
تمہارے دوستوں¹ کو ضعف دل ضعف بصارت ہے
دلاسا تم ہو پیری کا اندھیرے کا دیا تم ہو
بتا دو صاف رستہ ہم کو تم قومی ترقی کا
کہ ہم گم کردہ رہ ہیں ہمارے رہنما تم ہو
وقار الملک کی قوت ہو، حالی کی زباں ہو تم
تو ہر مہدئ امت کی بس آنکھوں کی ضیا ہو تم
یہی کافی نہیں ہے، قوت بازو ہی ہو ان کی
اور ان کے قلب کی قوت ہو، سینے کی صفا تم ہو
جو ہیں محتاج رہبر افسران مدرسہ سید
تو بک² مرحوم یہ کہہ دو کہ ان کے رہنما تم ہو
یہ سب کچھ ہو مگر ان اولڈ بوائز سے بھی تو کہہ دو
تمہیں محسن بنو اس کے وقار اس قوم کا تم ہو
(محمد علی جوہر)
1 اشارہ نواب محسن الملک(جو سن 1907 ع میں مرحوم کے برسی کے لیے کہی گئی اور اولڈ بوائز ڈنر میں پڑھ کر سنائی گئی)
بیاں کس طرح ہو اے سید احمد خاں کہ کیا تم ہو
ہمارے عاشق دلدادہ تم ہو دلربا تم ہو
تمہی تھے پیشوائے قوم جب تک جان تھی تن میں
مگر سید، موئے پر بھی ہمارے پیشوا تم ہو
خبر لو قوم کی کشتی کی، گو کشتی سے باہر ہو
ہوئے ساحل پہ بھی تو کیا ہمارے ناخدا تم ہو
یہاں مانا کہ تاثیر دعا میں شک رہا تم کو
وہاں ضائع نہ ہوگی پھر بھی مشغول دعا تم ہو
کرو اس قوم کے حق میں دعا اے سید احمد خاں
کہ معتوب الہی ہم ہیں، مقبول خدا تم ہو
بہت تھے باخدا دنیا میں جب تم ایک کافر تھے
مگر دارالجزا میں شک نہیں اک باخدا تم ہو
نہ ہوں بیدل تمہارے بعد لڑکے قوم کے کیوں کر
ہمارا دل تمہاری قبر میں ہے دلربا تم ہو
تمہارے جذبۂ دل کا اثر اب تک نمایاں ہے
فدا ہے تم پہ کالج کیونکہ کالج پر فدا تم ہو
تمہی کو ڈھونڈتی پھرتی ہیں آنکھیں اب علیگڑھ میں
اور اس پر یہ تماشا ہر طرف اور جا بجا تم ہو
تمہاری روح منڈلائی ہوئی پھرتی ہے کالج پر
قفس خالی ہے لیکن عندلیب باوفا تم ہو
لحد پر تیری کشکول گدائی سایہ افگن ہے
کہ زیر چرخ زیر خاک بس قومی گدا تم ہو
صف آخر میں سرداروں کے جو رہتے تھے دنیا میں
تعجب کیا صف اول میں جو روز جزا تم ہو
جنہیں احساس ہے قومی محبت کا وہی جانیں
نہیں معلوم جس کو، کیا کہیں اس سے کہ کیا تم ہو
سوا اللہ کے ہم کو نہیں امید غیروں سے
سہارا ہے محمد کا ہمیں دنیا میں یا تم ہو
ملا ہے تم کو ورثہ قوم کی مشکل کشائی کا
عزیز مصطفی تم ہو، عزیز مرتضی تم ہو
حسین ابن علی کا تم سکھاتے ہو سبق ہم کو
کہ کالج کے محرم میں بھی یاد کربلا تم ہو
یداللہ چوم کر جب تک تم آنکھوں سے لگاتے ہو
تو ہم ہرگز نہ مانیں گے کہ اب بے دست و پا تم ہو
نئی خواہش نہیں کچھ قوم کی ہم تم کو روتے ہیں
ہماری آرزو تم ہو ہمارے مدعا تم ہو
سکھایا تھا تمہیں نے قوم کو یہ شور و شر سارا
جو اسکی انتہا ہم ہیں تو اس کی ابتدا تم ہو
تم عاشق قوم کے ہو اور سب معشوق امت ہیں
جو پابند جفا ہیں وہ تو پابند وفا تم ہو
تمہارے جانشیں پیرو نہیں اگلے اصولوں کے
جو پگڈنڈی ہیں ٹیڑھی ہم تو سیدھا راستہ تم ہو
رہا کرتے تھے اکثر سرگراں تم، ہم سبک سر ہیں
جو تعبیر مذلت ہم ہیں تفسیر حیا تم ہو
تمہیں ہو زندہ و جاوید باقی جانے والے ہیں
نمونہ ہیں فنا کا ہم تو تمثیل بقا تم ہو
تمہارے دوستوں¹ کو ضعف دل ضعف بصارت ہے
دلاسا تم ہو پیری کا اندھیرے کا دیا تم ہو
بتا دو صاف رستہ ہم کو تم قومی ترقی کا
کہ ہم گم کردہ رہ ہیں ہمارے رہنما تم ہو
وقار الملک کی قوت ہو، حالی کی زباں ہو تم
تو ہر مہدئ امت کی بس آنکھوں کی ضیا ہو تم
یہی کافی نہیں ہے، قوت بازو ہی ہو ان کی
اور ان کے قلب کی قوت ہو، سینے کی صفا تم ہو
جو ہیں محتاج رہبر افسران مدرسہ سید
تو بک² مرحوم یہ کہہ دو کہ ان کے رہنما تم ہو
یہ سب کچھ ہو مگر ان اولڈ بوائز سے بھی تو کہہ دو
تمہیں محسن بنو اس کے وقار اس قوم کا تم ہو
(محمد علی جوہر)
2 تھیوڈر بیک
آخری تدوین: