میری ناقص رائے میں شعر کا موزوں ہونا اس کی اپنی ایک خوبی (بلٹ ان فیچر) ہے۔ علم العروض تو محض ان سے اخذ کیا گیا ہے خاص طور پر ان زبان دانوں کے لیے جو الفاظ پہ دسترس تو رکھتے ہیں لیکن فطری طور پر ان کی طبع موزوں نہیں۔ یہ محض ایک آسان راستہ ہے۔ مثال کے طور پر جو انگریزی ماحول میں رہ کر انگریزی بول چال سیکھ لے اس کے لیے انگریزی گرائمر و دیگر کتب سے انگریزی سیکھنے کے سہارے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ کتب تو زیادہ معاون وہاں ہوتی ہیں جہاں یہ باقاعدہ ماحول نہ ہو بالکل اسی طرح اگر آپ فطری طور پر شعر پڑھنے کا فن جانتے ہیں تو آپ کو علم العروض پہ باقاعدہ دسترس کی ضرورت کم ہی رہتی ہے کیونکہ یہ علم ایجاد شدہ نہیں بلکہ اخذ شدہ ہے۔ اس لیے ہم کبھی بھی نثر کی شعری شکل کو شعر نہیں کہہ سکتے۔ شعر وہی ہے جو موزوں ہے اور موزوں شعر پڑھنے کا اپنا ہی مزہ ہے جیسا کہ ایک باکمال نثر پڑھنے کا۔ اگر کسی کو الفاظ پہ تو مہارت حاصل ہے لیکن اس کی طبع موزوں نہیں تو وہ یہ کہہ کر جان نہیں چھڑا سکتا کہ وزن ایک اضافی شے ہے۔ وزن تو خود موزئیت کا محتاج ہے۔ ماضی میں اکثر شعراء نے تجربات ضرور کیے ہیں لیکن وزن کے بغیر باقاعدہ شاعری تو ماضی میں شاذ ہی ہوئی ہے۔ یہ مسئلہ تو آج کل زیادہ اچھالا جا رہا ہے۔ مرد کو عورت کا لباس پہنا دینے سے وہ عورت نہیں بن سکتی اور عورت کو مرد کا لباس پہنا دینے سے وہ مرد نہیں بن سکتا۔ چائے دودھ نہیں ہو سکتی اور دودھ چائے نہیں ہو سکتا۔
آپ نے بالکل درست فرمایا کہ محض افاعیل کی جگالی زبان دانی کی معراج ہے نہ پہچان لیکن ہر شعر محض افاعیل کی جگالی نہیں ہوتا بلکہ اچھے شعراء کی موزوں شاعری میں بلند خیال موجود ہوتا ہے لیکن یہ بلند خیال ہی صرف شعر کو شعر نہیں بناتا بلکہ موزوں اس میں ایسا رس بھرتا ہے کہ پڑھنے اور سننے والا شعر کا عاشق ہو جاتا ہے۔ آپ ایک چیز کی اہمیت بالکل ختم کر کے اس کو دوسرے پہ فوقیت نہیں دے سکتے ورنہ آپ خود بھی خود کو ان انتہا پسندوں کے زمرے میں کھڑا کر رہے ہیں جو خیال سے ماوراء لفظوں کے ہیر پھیر اور افاعیل کی جگالی کو شعر کہتے ہیں۔ وزن کے بغیر خیالات کا اظہار کا طریقہ نثر ہے اور اچھی اور پڑھنے کے لائق نثر بھی دنیا میں موجود ہے۔ یہ مسئلہ تب کھڑا ہوتا ہے جب آپ زبردستی اچھا شاعر یا نثر نگار بننا چاہتے ہیں۔
محترم جان بھائی جان میں آپ کے خیالات سے کسی حد تک متفق ہوں جیسے یہ کہ "شعر کا موزوں ہونا اس کی اپنی ایک خوبی (بلٹ ان فیچر) ہے" لیکن یہ سمجھ سے بالا تر ہے کہ
1۔شعر کے موزوں ہونے سے علم العروض اخذ کیا گیا ؟
2۔ یہ اخذ کیا گیا ان زبان دانوں کے لیے جو الفاظ پہ دسترس تو رکھتے ہیں لیکن فطری طور پر ان کی طبع موزوں نہیں ؟ اس بات سے دل و جان سے متفق ہوں کہ یہ عروضی حوالے سے شاعری کو سمجھنے سمجھانے کے لیے بالکل آسان راستہ ہے۔
3۔جان بھائی تحت اللفظ پڑھنے میں اور شاعری کو عروضی طور پر پڑھنے میں جو فرق ہے اسے یقینا فورم پر موجود سبھی دوست بخوبی سمجھتے ہیں اس لیے آپ کا کہنا کہ "اگر آپ فطری طور پر شعر پڑھنے کا فن جانتے ہیں تو آپ کو علم العروض پہ باقاعدہ دسترس کی ضرورت کم ہی رہتی ہے" پھر سے میری سمجھ سے بالا تر ہے۔ مثلاً آپ جب تحت اللفظ یہ غزل پڑھیں گے
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
تو آپ قسمت کے بعد وقفہ دیں گے یا توقف کریں گے جب کہ عروضی حوالے سے اس کی تقطیع یوں کریں گے:
ی نہ تھی ہ ما رقسمت کہ و صا ل یار ہوتا
4۔اس بات سے متفق ہوں کہ موزوں شعر پڑھنے کا اپنا ہی مزہ ہے لیکن اگر یہ محض تک بندی ہو تو کیا وزن اسے حض آفریں بناتا ہے ؟ یقینا نہیں۔
5۔ جان بھائی آپ کا فرمانا سر آنکھوں پر کہ بنا وزن کی شاعری دورِ حاضر کا مسئلہ ہے اور یہ بھی کہ مرد عورت نہیں ہوسکتا اور عورت مرد نہیں لیکن معصومانہ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے اردو ادب میں پہلے بھی یہ مردو عورتیں (معذرت کے ساتھ اصنافِ نظم) مستعار نہیں لی گئیں تھیں ؟ غزل، قصیدہ، مرثیہ، مثنوی، واسواخت ۔۔۔۔۔ ایک لمبی فہرست ہے ان میں سے ہماری اپنی کونسی صنف ادب ہے یا تھی ؟اگر آج یورپ اور جاپان سے آزاد نظم، نثم، سانیٹ اور ہائیکو جیسی اصناف کو لے لیا گیا ہے تو میرے خیال میں اس میں کوئی بھی مذائقہ نہیں اور اس سے اصناف پر مردوزن کی قدغن لگانا بھی درست نہیں۔ نہ ہی اسے محض کپڑوں کی تبدیلی کہا جاسکتا ہے۔ جس طرح پہلے اصناف کو مستعار لے کر برتا گیا ویسے ہی آج بھی ہورہا ہے۔ رہا مسئلہ آخری بات کا اور وہ ہے کہ افاعیل کی جگالی اور شعر کی قبولیت تو میں اس میں ہر گز متعصب نہیں۔ میں نے پہلے بھی یہی کہا ہے اور اب بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ اچھا شعر محض افاعیل کی جگالی نہیں نہ ہی تک بندی ہے بلکہ اچھا شعر جہاں ایک طرف عروضی حوالے سے پختگی طلب ہے وہیں بلند خیالی اس کی روح ہے اور اول الذکر کی کمی اور آخر الذکر کی موجودگی بہر حال اسے شعر کے زمرے میں ہی رکھتی ہے نہ کہ باہر۔