عروض و بحور

کیا شاعری سے پہلے بحر مقرر کی جاتی ہے؟ کیوں کہ میں نے ابھی تک جتنے بھی اشعار کہے ہیں وہ
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
مفاعیلن مفاعیلن فعولن
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
ان بحروں میں ہی تھے
زیادہ تر پہلی دو میں باقی بہت کم باقی بحروں میں۔

اور علمِ عروض کا بحریں ایک دوسرے میں ملنے سے بچانے کے علاوہ کوئی اور بھی فائدہ ہے ؟ اور کیا اس کے لیے تمام بحور، ان کے فروع اور زحافات ازبر کرنے پڑیں گے؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کیا شاعری سے پہلے بحر مقرر کی جاتی ہے؟ کیوں کہ میں نے ابھی تک جتنے بھی اشعار کہے ہیں وہ
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
مفاعیلن مفاعیلن فعولن
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
ان بحروں میں ہی تھے
زیادہ تر پہلی دو میں باقی بہت کم باقی بحروں میں۔
اور علمِ عروض کا بحریں ایک دوسرے میں ملنے سے بچانے کے علاوہ کوئی اور بھی فائدہ ہے ؟ اور کیا اس کے لیے تمام بحور، ان کے فروع اور زحافات ازبر کرنے پڑیں گے؟
بحر و عروض کا علم اشعار کے تجزیئے اور تحلیل کے لیے ہو نا ضروری ہے ۔ اس کےنظام کو ازبر کیا جانا تو ہر گز ضروری نہیں ۔
البتہ شاعری (اور خصوصا غزلیات ار متعین اصناف کی منظومات ) کو ان کا پابند کیا جانا اوزان کے اعتبار سے ازحد ضروری ہے ۔الا یہ کہ آپ نثری یا آزاد شاعری کرنے لگیں۔
جو بحر آپ کو پسند ہو اس میں بے شک اور بےحد طبع آزمائی کریں البتہ ایک نطم یا غزل میں ایک بحر اختیار کر کے اسے پوری طرح نبھانے کو لازم جانیں۔۔۔
 
آخری تدوین:
کیا شاعری سے پہلے بحر مقرر کی جاتی ہے؟ کیوں کہ میں نے ابھی تک جتنے بھی اشعار کہے ہیں وہ
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
مفاعیلن مفاعیلن فعولن
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
ان بحروں میں ہی تھے
زیادہ تر پہلی دو میں باقی بہت کم باقی بحروں میں۔

اور علمِ عروض کا بحریں ایک دوسرے میں ملنے سے بچانے کے علاوہ کوئی اور بھی فائدہ ہے ؟ اور کیا اس کے لیے تمام بحور، ان کے فروع اور زحافات ازبر کرنے پڑیں گے؟
بات کچھ اپنے مزاج اور میلان کی بھی ہوتی ہے، اور کچھ بحریں بھی عام طور پر زیادہ مانوس لگتی ہیں۔کبھی بحر کا تعین پیشگی بھی کرتے ہیں اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک شعر ایک بحر میں ہو گیا، اسی کو لے کر آگے چل پڑے۔ تعین بہر حال ہوتا ہے، کسی مرحلے پر بھی ہو۔ شعر کے مضمون کی طرح بحر بھی آپ کے اندر سے کہیں پھوٹتی ہے۔
شعر اچھا ہے تو جس بحر میں بھی ہو اچھا ہے۔

میں تو سمجھتا ہوں کہ جملہ بحور، فروعات اور زحافات کو ازبر کرنا ضروری نہیں؛ اور شاید ممکن بھی نہیں۔
 


غزل

شعرکچھ ایسے اب بنائیں گے
ہم نشینوں میں داد پائیں گے

بند کردیں گے قافیوں کو کہیں
ایک لمبی ردیف لائیں گے

یہ عروض و بحور کی قیدیں
ایک دِن سب ہی بھول جائیں گے

چھوڑ کر اب یہ قافیہ پیمائی
نظمِ آزاد گنگنائیں گے

دیکھ کر شاعری ہماری وہ
کیسے کیسے نہ تلملائیں گے

ایسے روٹھے ہو اب نہ مانو گے
شعر کہہ کر کسے منائیں گے

عذرِ مستی رکھیں گے کِس پر ہم
جزو تمہارے کسے ستائیں گے

کیا کہو گے خلیل ؔ جب وہ بھی
اِک جوابی غزل سنائیں گے
 
ایک درستی فرما لیجئے گا
عذرِ مستی رکھیں گے کِس پر ہم
جزو تمہارے کسے ستائیں گے
جز (فارسی): سوا، ماسوا
جزو (عربی): حصہ جسے انگریزی میں پارٹ کہتے ہیں۔​
 
Top