نوید صادق
محفلین
غزل
عریاں ہیں ان کہی کے تقاضے نگاہ میں
کن منزلوں کا درد چمکتا ہے راہ میں
اک سیلِ زندگی ہے کہ تھمتا نہیں کہیں
دیکھو تو کوئی اُس نگہِ بے پناہ میں
عکسِ بدن سے یوں ہوئی گلنار ہر نگاہ
تمئیز اٹھ گئ ہے سپید و سیاہ میں
پھلتی نہیں جو شاخِ تماشا پھر اس سے کیا
رقصاں ہو لاکھ رنگِ نمو، ہر گیاہ میں
جنگل کے اس طرف کوئ پہنچے تو کس طرح
پیڑوں نے سخت جال بچھائے ہیں راہ میں
یکساں نہ تھا زمانہ ، سو یکسو نہ ہو سکے
گزری ہے زندگی یونہی خواہ و نخواہ میں
تا چند اس سے صرفِ نظر، اہلِ انتظار
یہ مرحلہ تو آنا تھا آخر نباہ میں
یک لخت، جیسے ارض و سما زلزلا گئے
قرنوں کا کرب گونج اٹھا، ایک آہ میں
اُس روز، وہ تو کہیے کہ دل آڑے آ گیا
ورنہ کچل گئے تھے، انا کی سپاہ میں
حکمِ ازل کے ساتھ بہر رنگ منسلک
مصروفِ بندگی ہیں، ثواب و گناہ میں
ممکن ہے اٹھ ہی جائے کبھی پردہء محال
فی الحال تو پڑے ہیں بڑے اشتباہ میں
پھر اُس کے بعد، کس کو خبر، کس خلا میں ہوں
نکلا تھا گھر سے تیز ہواؤں کی چاہ میں
کس طمطراق سے ہیں خراماں، روش روش
بے چہرہ لوگ، پھول سجائے کلاہ میں
فرصت ملے تو دیکھ ، یہ فطرت کے کھیل بھی
بیٹھا ہے منہ چھپائے ہوئے کوہ، کاہ میں
کل بھی گلہ گزار نہیں تھا کسی کا، یہ
دل، مطمئن ہے آج بھی حالِ تباہ میں
پہنچا فلک پہ کارِ جنوں، میر کی طرح
دیکھی ہے رات میں نے بھی اک شکل ماہ میں
اپنا ہی عکسِ ذات دکھائی دیا، حبیب
صدیوں کے سوچتے ہوئے لمحوں کی تھاہ میں
( قاضی حبیب الرحمٰن)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکریہ: ماہنامہ "سیارہ" سالنامہ 2008ء، اشاعتِ خاص: 56
عریاں ہیں ان کہی کے تقاضے نگاہ میں
کن منزلوں کا درد چمکتا ہے راہ میں
اک سیلِ زندگی ہے کہ تھمتا نہیں کہیں
دیکھو تو کوئی اُس نگہِ بے پناہ میں
عکسِ بدن سے یوں ہوئی گلنار ہر نگاہ
تمئیز اٹھ گئ ہے سپید و سیاہ میں
پھلتی نہیں جو شاخِ تماشا پھر اس سے کیا
رقصاں ہو لاکھ رنگِ نمو، ہر گیاہ میں
جنگل کے اس طرف کوئ پہنچے تو کس طرح
پیڑوں نے سخت جال بچھائے ہیں راہ میں
یکساں نہ تھا زمانہ ، سو یکسو نہ ہو سکے
گزری ہے زندگی یونہی خواہ و نخواہ میں
تا چند اس سے صرفِ نظر، اہلِ انتظار
یہ مرحلہ تو آنا تھا آخر نباہ میں
یک لخت، جیسے ارض و سما زلزلا گئے
قرنوں کا کرب گونج اٹھا، ایک آہ میں
اُس روز، وہ تو کہیے کہ دل آڑے آ گیا
ورنہ کچل گئے تھے، انا کی سپاہ میں
حکمِ ازل کے ساتھ بہر رنگ منسلک
مصروفِ بندگی ہیں، ثواب و گناہ میں
ممکن ہے اٹھ ہی جائے کبھی پردہء محال
فی الحال تو پڑے ہیں بڑے اشتباہ میں
پھر اُس کے بعد، کس کو خبر، کس خلا میں ہوں
نکلا تھا گھر سے تیز ہواؤں کی چاہ میں
کس طمطراق سے ہیں خراماں، روش روش
بے چہرہ لوگ، پھول سجائے کلاہ میں
فرصت ملے تو دیکھ ، یہ فطرت کے کھیل بھی
بیٹھا ہے منہ چھپائے ہوئے کوہ، کاہ میں
کل بھی گلہ گزار نہیں تھا کسی کا، یہ
دل، مطمئن ہے آج بھی حالِ تباہ میں
پہنچا فلک پہ کارِ جنوں، میر کی طرح
دیکھی ہے رات میں نے بھی اک شکل ماہ میں
اپنا ہی عکسِ ذات دکھائی دیا، حبیب
صدیوں کے سوچتے ہوئے لمحوں کی تھاہ میں
( قاضی حبیب الرحمٰن)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکریہ: ماہنامہ "سیارہ" سالنامہ 2008ء، اشاعتِ خاص: 56