حسان خان
لائبریرین
اے عزادارانِ قائد، اے وفادارانِ قوم
اے غم اندوزانِ پاکستان، اے اعیانِ قوم
مرگِ قائد سے تمہیں شعلہ بجاں پاتا ہوں میں
مضمحل، مایوس، زار و ناتواں پاتا ہوں میں
جانتا ہوں موت کا اور زندگی کا راز میں
دونوں عالم میں رہا ہوں مائلِ پرواز میں
موت قائد کی سیاسی زندگی کی موت ہے
موت اس کی دوسرے لفظوں میں اپنی موت ہے
ایسا منزل آشنا صدیوں میں آتا ہے کوئی
جس کو دیتی ہے مشیت جرأتِ منزل رسی
کارواں جس کی قیادت میں بھٹک سکتا نہیں
راستہ ہو پا شکن کتنا ہی تھک سکتا نہیں
اس نے آخر اپنا نصب العین پا کر دم لیا
کاروانِ قوم کو منزل پہ لا کر دم لیا
وہ جری، وہ دھن کا پکا، صاحبِ عزمِ قوی
جس کے اک ذہنِ رسا میں دفترِ صد آگہی
پھر وہ اک انسان تھا مجبورِ دستورِ فنا
زندہ رہتا گر ہزاروں سال، مرنا پھر بھی تھا
موت کے آگے کوئی تدبیر چل سکتی نہیں
موت اپنے وقت پر آتی ہے ٹل سکتی نہیں
وقت یہ وہ تھا کہ منزل پر تھا میرِ کارواں
ختم ہو جاتا تھا اس کا کام بھی آ کر یہاں
کام اپنا ختم کر کے ہو گیا وہ محوِ خواب
پھر نہیں معلوم کیوں ہے قوم میں یہ اضطراب
نَو بہ نَو ماحولِ منزل سے گذرنا چاہیے
قوم کو اب اس سے آگے کام کرنا چاہیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب صفِ ماتم اٹھا دو نوحہ خوانی چھوڑ دو
موت ہے عنوان جس کا، وہ کہانی چھوڑ دو
زندگی کو کوندتی آواز سے آواز دو
زندگی کے ہاتھ میں عزم و عمل کا ساز دو
نغمہ وہ چھیڑو کہ گونج اٹھے فضائے کائنات
وجد میں آ جائے ہستی، رقص میں آئے حیات
تم تو منزل پر ہو، پھر یہ بے دلی و یاس کیوں؟
بے کسی کا اپنی ناحق ہے تمہیں احساس کیوں؟
فائزِ منزل تمہیں کر کے امیرِ کارواں
ہے تمہیں میں خواب آسودہ سرِ منزل یہاں
خواب بھی اس کا ہے بیداری، جو ہو تم کو یقیں
موت بھی اک زندگی ہے تم ابھی واقف نہیں
جن کے دل زندہ ہیں، جب رسماً انہیں آتی ہے موت
زندگی کا اک نیا عنوان بن جاتی ہے موت
تم اسے زندہ سمجھ کر ہوش میں جب آؤ گے
اُس کو ہر عالم میں اپنا ہم نشیں ہی پاؤ گے
قائدِ اعظم کے جب دنیا میں زندہ ہیں اصول
اُن کا مر جانا کرے گی عقل پھر کیونکر قبول
قائدِ اعظم کے جب 'نقشِ قدم' ہیں دستیاب
کارواں کو پھر ہے کیوں راہِ عمل میں اضطراب
قائدِ اعظم کا ہر قول و عمل موجود ہے
نالہ افشانی پھر اُن کی موت پر بے سود ہے
قائدِ اعظم ہیں زندہ اس یقیں سے کام لو
جو کہے مردہ اُنہیں اُس کا گریباں تھام لو
کر دو یہ اعلان اب منزل کے ہم ہیں ذمہ دار
قائدِ اعظم کے پیرو، میرِ میداں، مردِ کار
ہیں تمہارے آب و گِل میں قوتیں ایمان کی
حوصلوں کے ساتھ ہو تکمیل پاکستان کی
جو چٹانیں راہ میں حائل ہوں اُن کو توڑ دو
زندہ دل ہو، نام لینا بھی اجل کا چھوڑ دو
یہ تصرف قائدِ مرحوم کا کیا کم ہے آج
ہر جوانِ قوم گویا 'قائدِ اعظم' ہے آج
(سیماب اکبرآبادی)
۱۹۴۸ء
اے غم اندوزانِ پاکستان، اے اعیانِ قوم
مرگِ قائد سے تمہیں شعلہ بجاں پاتا ہوں میں
مضمحل، مایوس، زار و ناتواں پاتا ہوں میں
جانتا ہوں موت کا اور زندگی کا راز میں
دونوں عالم میں رہا ہوں مائلِ پرواز میں
موت قائد کی سیاسی زندگی کی موت ہے
موت اس کی دوسرے لفظوں میں اپنی موت ہے
ایسا منزل آشنا صدیوں میں آتا ہے کوئی
جس کو دیتی ہے مشیت جرأتِ منزل رسی
کارواں جس کی قیادت میں بھٹک سکتا نہیں
راستہ ہو پا شکن کتنا ہی تھک سکتا نہیں
اس نے آخر اپنا نصب العین پا کر دم لیا
کاروانِ قوم کو منزل پہ لا کر دم لیا
وہ جری، وہ دھن کا پکا، صاحبِ عزمِ قوی
جس کے اک ذہنِ رسا میں دفترِ صد آگہی
پھر وہ اک انسان تھا مجبورِ دستورِ فنا
زندہ رہتا گر ہزاروں سال، مرنا پھر بھی تھا
موت کے آگے کوئی تدبیر چل سکتی نہیں
موت اپنے وقت پر آتی ہے ٹل سکتی نہیں
وقت یہ وہ تھا کہ منزل پر تھا میرِ کارواں
ختم ہو جاتا تھا اس کا کام بھی آ کر یہاں
کام اپنا ختم کر کے ہو گیا وہ محوِ خواب
پھر نہیں معلوم کیوں ہے قوم میں یہ اضطراب
نَو بہ نَو ماحولِ منزل سے گذرنا چاہیے
قوم کو اب اس سے آگے کام کرنا چاہیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب صفِ ماتم اٹھا دو نوحہ خوانی چھوڑ دو
موت ہے عنوان جس کا، وہ کہانی چھوڑ دو
زندگی کو کوندتی آواز سے آواز دو
زندگی کے ہاتھ میں عزم و عمل کا ساز دو
نغمہ وہ چھیڑو کہ گونج اٹھے فضائے کائنات
وجد میں آ جائے ہستی، رقص میں آئے حیات
تم تو منزل پر ہو، پھر یہ بے دلی و یاس کیوں؟
بے کسی کا اپنی ناحق ہے تمہیں احساس کیوں؟
فائزِ منزل تمہیں کر کے امیرِ کارواں
ہے تمہیں میں خواب آسودہ سرِ منزل یہاں
خواب بھی اس کا ہے بیداری، جو ہو تم کو یقیں
موت بھی اک زندگی ہے تم ابھی واقف نہیں
جن کے دل زندہ ہیں، جب رسماً انہیں آتی ہے موت
زندگی کا اک نیا عنوان بن جاتی ہے موت
تم اسے زندہ سمجھ کر ہوش میں جب آؤ گے
اُس کو ہر عالم میں اپنا ہم نشیں ہی پاؤ گے
قائدِ اعظم کے جب دنیا میں زندہ ہیں اصول
اُن کا مر جانا کرے گی عقل پھر کیونکر قبول
قائدِ اعظم کے جب 'نقشِ قدم' ہیں دستیاب
کارواں کو پھر ہے کیوں راہِ عمل میں اضطراب
قائدِ اعظم کا ہر قول و عمل موجود ہے
نالہ افشانی پھر اُن کی موت پر بے سود ہے
قائدِ اعظم ہیں زندہ اس یقیں سے کام لو
جو کہے مردہ اُنہیں اُس کا گریباں تھام لو
کر دو یہ اعلان اب منزل کے ہم ہیں ذمہ دار
قائدِ اعظم کے پیرو، میرِ میداں، مردِ کار
ہیں تمہارے آب و گِل میں قوتیں ایمان کی
حوصلوں کے ساتھ ہو تکمیل پاکستان کی
جو چٹانیں راہ میں حائل ہوں اُن کو توڑ دو
زندہ دل ہو، نام لینا بھی اجل کا چھوڑ دو
یہ تصرف قائدِ مرحوم کا کیا کم ہے آج
ہر جوانِ قوم گویا 'قائدِ اعظم' ہے آج
(سیماب اکبرآبادی)
۱۹۴۸ء
آخری تدوین: