کاشفی
محفلین
غزل
(ایک فرانسیسی اُردو شاعر : الکزینڈر ہیڈرلی - Alexender Hederley، تخلص آزاد)
عزت سے مجھے پاس جو بٹھلاؤ تو آؤں
کیوں آپ سے آؤں مجھے لے جاؤ تو آؤں
تم دل کو بٹھاتے ہو مرے مجھ کو بلا کر
دل کو نہ بٹھاؤ مجھے بٹھلاؤ تو آؤں
کیا گھر میں تمہارے درودیوار کو دیکھوں
تم اپنی جو صورت مجھے دکھلاؤ تو آؤں
غیرت کو رکھا طاق میں جب کی ہے محبت
دشمن کے بھی گھر میں مجھے بلواؤ تو آؤں
گر کوئی بلاتا ہے ہے تو کہتے ہیں وہ ضد سے
آزاد کو محفل میں نہ بلواؤ تو آؤں
تعارفِ شاعر: اُردو کی داغ بیل کچھ ایسی خوش گھڑی ڈالی گئی تھی اور اس کا سنگِ بنیاد ایسے مقدس ہاتھوں رکھا گیا تھا کہ یہ نوزائیدہ ابتدا ہی سے ایسی شوخ، چنچل، رسیلی، چھبیلی نکلی کہ بڑے بڑے کٹّر بھی اس پر جان دینے لگے۔ آقایانِ ایران نے اپنی فارسی کو چھوڑ کر اسے پسند کیا۔ زبان آدرانِ عرب نے عربی سے منہ موڑ کر اس سے ناتا جوڑا اور تو اور فاتحینِ فرنگ بھی باوجود فرزانگی اپنے تئیں اسے بچا نہ سکے۔ آخر انہیں بھی نیم بسمل ہونا پڑا۔ چنانچہ سینکڑوں فرانسیسی پرتوگیزی اور یورپین اردو کے دامِ زلف میں پہن کر بقول شخصے "فاتح مفتوح" ہورہے۔ ان ہی میں سے ایک صاحبِ دیوان فرانسیسی نژاد نومسلم اردو شاعر الکزینڈر ہیڈرلی بھی تھے۔ آزاد تخلص کرتے تھے۔ رسالہ مخزن لاہور میں 1909ء کی اشاعت میں الکزینڈر ہیڈرلی کے عنوان سے سید محمد فاروق صاحب شاہ پوری کا ایک تفصیلی مضمون شائع ہوا ہے اور اس کے بعد رسالہ معارف اعظم گڑھ میں 1922ء کی اشاعت میں "مرزا غالب کا ایک فرنگی شاگرد "آزاد فرانسیسی" کے عنوان سے عبدالماجد صاحب کا ایک مقالہ طبع ہوا ہے۔
یوں تو کئی ایک تذکرہ نویسوں نے آزاد کا ذکر کیا ہے مگر تفصیل اور زیادہ حالات لالہ سری رام ہی نے خمخانہء جاوید میں لکھے ہیں اور لالہ جی کے پیشِ نظر دیوانِ آزاد بھی رہا ہے۔