سید زبیر
محفلین
عزم و شجاعت کی لازوال مثال : سکواڈرن لیڈر سرفراز رفیقی شہید
تحریر سید زبیر
پاک فضائیہ کے شاہینوں کی عزم ، ہمت 'بلند حوصلے اور بے خوفی کی داستانیں جو اب فضائی تاریخ میں ضرب المثل کا درج اختیار کر چکی ہیں ایسے مجاہدوں اور شہیدوں نے اپنے لہو سے رقم کی ہیں جنہوں نے وطنِ عزیز کی عزت و حرمت و تقدس پر ہونے والے دشمن کے ہر وار کو کچل کر رکھ دیا شجاعت کے ایسے بے شمار واقعات ہیں جو آج بھی پاک فضائیہ کے شاہینوں کے لہو کو گرما دیتے ہیں ۔ ایسے واقعات اُن کے لیے لیے مشعل راہ ہیں
سرفراز رفیقی شہید ایسی شجاعت ،دلیری اور حب الوطنی کی روشن مثال ثابت ہوئے ۔ ۱۸ جولائی ۱۹۳۵ کو راجشاہی (سابقہ مشرقی پاکستان ) میں پیدا ہونے والے اس بچے کے کان کم سنی ہی سے ' پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔ لا الٰہ الا اللہ کے نعرے سے آشنا تھے ۔ معصوم ذہن میں آزادی کے حصول کے لا تعداد مناظر نقش ہو چکے تھے ۔ سرفراز رفیقی کے والد ایک تعلیم یافتہ شخص تھے اور انشورنس کمپنی میں ملازم تھے ۔ جب سرفراز رفیقی گورنمنٹ ہائی سکول ملتان میں جماعت نہم کے طالب علم تھے تو فرانس میں ہونے والی عالمی سکاوٹ جمبورری میں اُن کا انتخاب ہوا اُس وقت اُن کی عمر صرف بارہ سال تھی ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو آپ فرانس ہی میں تھے کے پاکستان کی آزادی کا اعلان ہو گیا ۔تو شدت جذبات سے مجبور ہو کر اپنے دیگر تین سکاوٹ ساتھیوں کے ہمراہ گرل گائیڈز کے ہاتھوں سے سلا ہوا سبز ہلالی پرچم فرانس کی سڑکوں پر لہرا دیا ۔ اُنہیں خوشی تھی کہ اب اُن کی واپسی ایک آزاد ملک میں ہوگی ۔ سرفراز رفیقی کے بڑے بھائی اعجاز رفیقی بھی پاک فضائیہ میں ہوا باز تھے اور ایک فضائی حادثے میں شہید ہو گئے تھے جب سرفراز رفیقی نے پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کی تو اُن کے والدین مغموم تھے مگر سرفراز رفیقی نے نہائت حوصلہ سے جواب دیا کہ
" جو لوگ وطن کی حفاظت کا ذمہ قبول کرتے ہیں اُن کے لیے زندگی اور موت کوئی حیثیت نہیں رکھتی "
سرفراز رفیقی میں غیرت و حمیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی ۔ ۱۹۶۵ کے اوائل ہی سے پاک بھارت سرحدوں پر کشیدگی بڑھ گئی تھی پاک فضائیہ مکمل جنگی حالت میں تھی پاک فضائیہ کے شاہین اپنے جوہر دکھانے کے لیے بے چین تھے ۔ بقول پاکستان ائر فورس کے اُس وقت کے کمانڈر ان چیف ائر مارشل نور خان مرحوم و مغفور کے " مجھے اپنے ہوابازوں کو جنگ سے دور رکھنے میں دشواری آرہی تھی " (در اصل وہ خود بھی جوہر دکھانے کے لیے بے چین تھے ) یکم ستمبر ۱۹۶۵ میجر جنرل اختر ملک چھمب کے محاذ پر سرحد عبور کر کے جوڑیاں اور اکھنور کی جانب پندرہ میل تک پیش قدمی کرچکے تھے پاک فضائیہ کے دو ایف ۸۶ سیبر اور ایک سٹار فائٹر۱۰۴ ممکنہ فضائی حملوں کے پیش نظر فضا میں محو پرواز تھے سہ پہر تک کسی قسم کی فضائی مزاحمت نہ ہوئی تو ائر مارشل نور خان جن کی دلیری مشہور تھی گجرات سے برّی فوج کا ایک چھوٹا طیارہ لے کر خود محاذ جنگ پر پہنچ گئے واپسی پر کمانڈر ان چیف نے فضائی گشت کا وقت بڑھا دیا ۔ ائر مارشل نور خان کو اندازہ ہو گیا تھا کہ پاکستان کی برّ ی فوج جس طرح دشمن سے نبرد نبرد آزما ہو رہی تھی تو بھارتی فضائیہ ضرور جنگ میں کودے گی ۔پانچ بج کر بیس منٹ پر بھارتی طیارے فضا میں پہنچ گئے تھے ۔ اور آن کی آن ہی میں پاک فضائیہ کے دونوں سیبر دشمن پر لپکے ۔ ایک طیارے میں سکواڈرن لیڈر رفیقی اور دوسرے طیارے میں شاہین صفت فلائیٹ لیفٹنٹ امتیاز بھٹی (یہ ائر کموڈور کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور راقم کو ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہو چکا ہے ) تھے ۔ یہ وہ وقت تھا جب دشمن کے طیارے اپنی ہی فوج کو نشانہ بنا رہے تھے ۔ بھارت کے میجر جنرل جی ایس سندھو اپنی کتاب " ہسٹر ی آف انڈین کیولری " یں لکھتے ہیں
" بھارتی طیارے انتہائی اطمینان سے اپنی برّی فوج کے لیے مدد فراہم کرنے کے لیے روانہ ہوئے اور اپنی ہی فوج کی ایک یونٹ ۲۰ لانسرز کے ٹینکوں پر حملہ آور ہو گئے جس سے تین ٹینک ، اکلوتی ریکوری گاڑی اور اسلحہ کی گاڑی تباہ ہوگئی ۔ زمینی فائر سے بھارت کا ایک ویمپائر تباہ ہوا جو فلائینگ آفیسر پاتھک اُڑا رہا تھا ۔ "
دریں اثنا پاک فضائیہ کے شاہین پہنچ چکے تھے جیسے ہی رفیقی کی نظر دشمن کے جہازوں پر پڑی انہوں نے بھارت کے دو ویمپائر طیاروں کو نشانہ لے کر ڈھیر کردیا تیسرا طیارہ امتیاز بھٹی نے مار گرایا اس طرح بھارت کی اپنی فوج کا نشانہ بننے والے پاتھک کے طیارے کے علاوہ فلائیٹ لیفٹننٹ اے کے بھگ واگر ، فلائیٹ لیفٹننٹ ایم وی جوشی اور فلائٹ لیفٹننٹ ایس بھرواج اپنے ویمپائر سمیت وہیں ڈھیر ہوگئے ۔ یکم ستمبر کے اس فضائی معرکے نے بھارتی فضائیہ کے حوصلے پست کردئیے ان چار طیاروں کی تباہی کے باعث بھارت نے تقریباً ۱۳۰ ویمپائر لڑاکا طیارے اور ۵۰ سے زائد اوریگن طیاروں کو فوری طور پر محاذ جنگ سے پیچھے ہٹا لیا
اس طرح ایک ہی جھٹکے سے بھارت کی فضائی مدافعتی قوت ٹوٹ کر رہ گئی ۔ پاکستان ائر فورس کے سربراہ ائر مارشل نور خان جو اپنے چھوٹے طیارے میں محاذ جنگ کا معائنہ کر کے سرگو دھا پہنچے تھے اُن کو اس شاندار کامیابی کی اطلاع دی گئی ۔ پاکستان ائر فورس کی اس کامیابی نے پاک آرمی کے حوصلے بڑھا دئیے برگیڈئیر امجد چودھری نے پاکستان ائر فورس کو اپنے خط میں لکھا
" چھمب میں آپ کی پہلی کارگزاری نے ہم پر یہ ثابت کردیا کہ ہمیں دشمن کی فضائیہ سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ایک ایسی اعلیٰ مثال قائم ہوئی اور وہ منظر کبھی نہ بھلا سکیں گے اس سے ہمارے حوصلے بلند ہوئے اور ہمیں گویا پر لگ گئے "
سرفراز رفیقی مسلسل فضائی مشقوں میں حصہ لے رہے تھے ۶ ستمبر ۱۹۶۵ جس دن صبح سویرے دشن نے پاکستان پر حملہ کیا تو پاک فضاءیہ نے شام کو غروب آفتاب کے وقت بیک وقت دشن کے ہوائی اڈوں کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا تو سکواڈرن لیڈر رفیقی کی قیادت میں تین طیاروں کا دستہ سرگودھا سے بھارتی ہوائی اڈے ہلواڑہ کو نشانہ بنانے کے لیے اُڑا اُن کے ہمراہ ان کے نمبر ۲فلائیٹ لیفٹننٹ سیسل چودھری اور نمبر ۳ فلا ئیٹ لیفٹننٹ یونس حسین ( پاک فضائیہ کے شہید سربراہ ائر چیف مارشل مصحف علی میر کے ماموں اور آئیڈیل )تھے یہ دستہ شام کی ڈھلتی ہوئی روشنی میں سرحد عبور کر گیا راہ میں واپس آتے ہوئے ایم ایم عالم نے رابطہ پر فضا میں موجود دشمن کے لا تعداد طیروں کی موجودگی سے خبردار کیا ۔ مگر سرفروشوں کی یہ جماعت ہلواڑہ جا پہنچی ۔ بھارتی طیارے فضا میں شہد کی مکھیوں کی طرح اُڑ رہے تھے جب یہ دستہ ہلواڑہ پر حملہ کرہا تھا تو دشمن کے دس لڑاکا ہنٹر طیارے ان پر ٹوٹ پڑے ۔ رفیقی نے اپنے ساتھیوںکو پٹرول کی فالتو ٹنکیاں گرانے کو کہا ۔یونس کی ٹنکیاں فنی خرابی کی وجہ سے نہ گر سکیں جس سے جہاز کی فوری حرکت متاثر ہو رہی تھی رفیقی نے دو ہنٹر طیاروں کو دیکھا اور اُن کے عقب میں جا کر اُن کے قائد کو نشانہ پر لیا ۔ ہنٹر فضا ہی میں پھٹ گیا یونس اور سیسل بھی اپنے شکار پر جھپٹے سیسل نے ایک ہنٹر طیارہ مار گرایا اور دوسرا بھاگ گیا یونس کو گرچہ پلٹنے جھپٹنے میں مشکل پیش آرہی تھی پھر بھی انہوں نےے ایک طیارے کو مار گرایا ۔ مگر دشمن کے ایک طیارے نے عقب سے اُن کی ٹنکیوں کو نشانہ بنا لیا اس طرح فلائیٹ لیفٹننٹ یونس نے جام شہادت نوش کیا
رفیقی اس معرکہ میں جب دشمن سے نبرد آزما تھے اور دشمن کے طیارے اُن کی زد میں تھے تو انہیں معلوم ہوا کہ اُن کی گنیں جام ہو چکی ہیں رفیقی نے راہ فرار اختیار کرنے کی بجائے کمانڈ اپنے نمبر ۲ فلائیٹ لیفٹننٹ سیسل چودھری کو سونپ کر خود سیسل کو عقب سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے عقب میں چلے گئے ۔ جب سیسل دشمن کے طیارے گرا رہے تھے تو دشمن نے رفیقی کے طیارے کو نشانہ بنا ڈالا اور اس طرح رفیقی نے جام شہادت نوش کیا سیسل بخیریت دشمن کے نرغے سے بچ کر واپس پہنچ گئے ۔
سکواڈرن لیڈر رفیقی کی بے مثال جرأ ت پر حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ جرأت عطا کیا
فیصل آباد ڈویژن میں اعلیٰ درجے کی ۱۷۷ ایکڑ زرعی زمین( آج اُس کی مالیت کا اندازہ آپ بخوبی کر سکتے ہیں ) انکے والدین کو دی جو انہوں نے پاک فضائیہ کے درجہ چہارم کے ملازمین کے نام وقف کردی ۔
یقیناً وہ والدین انتہائی خوش قسمت ہیں جن کے دو بیٹے وطن کی راہ میں شہید ہو کر حیات جاوداں پا گئے ۔رب کریم اُن کے درجات بلند فرمائے ( آمین )
تحریر سید زبیر
پاک فضائیہ کے شاہینوں کی عزم ، ہمت 'بلند حوصلے اور بے خوفی کی داستانیں جو اب فضائی تاریخ میں ضرب المثل کا درج اختیار کر چکی ہیں ایسے مجاہدوں اور شہیدوں نے اپنے لہو سے رقم کی ہیں جنہوں نے وطنِ عزیز کی عزت و حرمت و تقدس پر ہونے والے دشمن کے ہر وار کو کچل کر رکھ دیا شجاعت کے ایسے بے شمار واقعات ہیں جو آج بھی پاک فضائیہ کے شاہینوں کے لہو کو گرما دیتے ہیں ۔ ایسے واقعات اُن کے لیے لیے مشعل راہ ہیں
سرفراز رفیقی شہید ایسی شجاعت ،دلیری اور حب الوطنی کی روشن مثال ثابت ہوئے ۔ ۱۸ جولائی ۱۹۳۵ کو راجشاہی (سابقہ مشرقی پاکستان ) میں پیدا ہونے والے اس بچے کے کان کم سنی ہی سے ' پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔ لا الٰہ الا اللہ کے نعرے سے آشنا تھے ۔ معصوم ذہن میں آزادی کے حصول کے لا تعداد مناظر نقش ہو چکے تھے ۔ سرفراز رفیقی کے والد ایک تعلیم یافتہ شخص تھے اور انشورنس کمپنی میں ملازم تھے ۔ جب سرفراز رفیقی گورنمنٹ ہائی سکول ملتان میں جماعت نہم کے طالب علم تھے تو فرانس میں ہونے والی عالمی سکاوٹ جمبورری میں اُن کا انتخاب ہوا اُس وقت اُن کی عمر صرف بارہ سال تھی ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو آپ فرانس ہی میں تھے کے پاکستان کی آزادی کا اعلان ہو گیا ۔تو شدت جذبات سے مجبور ہو کر اپنے دیگر تین سکاوٹ ساتھیوں کے ہمراہ گرل گائیڈز کے ہاتھوں سے سلا ہوا سبز ہلالی پرچم فرانس کی سڑکوں پر لہرا دیا ۔ اُنہیں خوشی تھی کہ اب اُن کی واپسی ایک آزاد ملک میں ہوگی ۔ سرفراز رفیقی کے بڑے بھائی اعجاز رفیقی بھی پاک فضائیہ میں ہوا باز تھے اور ایک فضائی حادثے میں شہید ہو گئے تھے جب سرفراز رفیقی نے پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کی تو اُن کے والدین مغموم تھے مگر سرفراز رفیقی نے نہائت حوصلہ سے جواب دیا کہ
" جو لوگ وطن کی حفاظت کا ذمہ قبول کرتے ہیں اُن کے لیے زندگی اور موت کوئی حیثیت نہیں رکھتی "
سرفراز رفیقی میں غیرت و حمیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی ۔ ۱۹۶۵ کے اوائل ہی سے پاک بھارت سرحدوں پر کشیدگی بڑھ گئی تھی پاک فضائیہ مکمل جنگی حالت میں تھی پاک فضائیہ کے شاہین اپنے جوہر دکھانے کے لیے بے چین تھے ۔ بقول پاکستان ائر فورس کے اُس وقت کے کمانڈر ان چیف ائر مارشل نور خان مرحوم و مغفور کے " مجھے اپنے ہوابازوں کو جنگ سے دور رکھنے میں دشواری آرہی تھی " (در اصل وہ خود بھی جوہر دکھانے کے لیے بے چین تھے ) یکم ستمبر ۱۹۶۵ میجر جنرل اختر ملک چھمب کے محاذ پر سرحد عبور کر کے جوڑیاں اور اکھنور کی جانب پندرہ میل تک پیش قدمی کرچکے تھے پاک فضائیہ کے دو ایف ۸۶ سیبر اور ایک سٹار فائٹر۱۰۴ ممکنہ فضائی حملوں کے پیش نظر فضا میں محو پرواز تھے سہ پہر تک کسی قسم کی فضائی مزاحمت نہ ہوئی تو ائر مارشل نور خان جن کی دلیری مشہور تھی گجرات سے برّی فوج کا ایک چھوٹا طیارہ لے کر خود محاذ جنگ پر پہنچ گئے واپسی پر کمانڈر ان چیف نے فضائی گشت کا وقت بڑھا دیا ۔ ائر مارشل نور خان کو اندازہ ہو گیا تھا کہ پاکستان کی برّ ی فوج جس طرح دشمن سے نبرد نبرد آزما ہو رہی تھی تو بھارتی فضائیہ ضرور جنگ میں کودے گی ۔پانچ بج کر بیس منٹ پر بھارتی طیارے فضا میں پہنچ گئے تھے ۔ اور آن کی آن ہی میں پاک فضائیہ کے دونوں سیبر دشمن پر لپکے ۔ ایک طیارے میں سکواڈرن لیڈر رفیقی اور دوسرے طیارے میں شاہین صفت فلائیٹ لیفٹنٹ امتیاز بھٹی (یہ ائر کموڈور کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور راقم کو ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہو چکا ہے ) تھے ۔ یہ وہ وقت تھا جب دشمن کے طیارے اپنی ہی فوج کو نشانہ بنا رہے تھے ۔ بھارت کے میجر جنرل جی ایس سندھو اپنی کتاب " ہسٹر ی آف انڈین کیولری " یں لکھتے ہیں
" بھارتی طیارے انتہائی اطمینان سے اپنی برّی فوج کے لیے مدد فراہم کرنے کے لیے روانہ ہوئے اور اپنی ہی فوج کی ایک یونٹ ۲۰ لانسرز کے ٹینکوں پر حملہ آور ہو گئے جس سے تین ٹینک ، اکلوتی ریکوری گاڑی اور اسلحہ کی گاڑی تباہ ہوگئی ۔ زمینی فائر سے بھارت کا ایک ویمپائر تباہ ہوا جو فلائینگ آفیسر پاتھک اُڑا رہا تھا ۔ "
دریں اثنا پاک فضائیہ کے شاہین پہنچ چکے تھے جیسے ہی رفیقی کی نظر دشمن کے جہازوں پر پڑی انہوں نے بھارت کے دو ویمپائر طیاروں کو نشانہ لے کر ڈھیر کردیا تیسرا طیارہ امتیاز بھٹی نے مار گرایا اس طرح بھارت کی اپنی فوج کا نشانہ بننے والے پاتھک کے طیارے کے علاوہ فلائیٹ لیفٹننٹ اے کے بھگ واگر ، فلائیٹ لیفٹننٹ ایم وی جوشی اور فلائٹ لیفٹننٹ ایس بھرواج اپنے ویمپائر سمیت وہیں ڈھیر ہوگئے ۔ یکم ستمبر کے اس فضائی معرکے نے بھارتی فضائیہ کے حوصلے پست کردئیے ان چار طیاروں کی تباہی کے باعث بھارت نے تقریباً ۱۳۰ ویمپائر لڑاکا طیارے اور ۵۰ سے زائد اوریگن طیاروں کو فوری طور پر محاذ جنگ سے پیچھے ہٹا لیا
اس طرح ایک ہی جھٹکے سے بھارت کی فضائی مدافعتی قوت ٹوٹ کر رہ گئی ۔ پاکستان ائر فورس کے سربراہ ائر مارشل نور خان جو اپنے چھوٹے طیارے میں محاذ جنگ کا معائنہ کر کے سرگو دھا پہنچے تھے اُن کو اس شاندار کامیابی کی اطلاع دی گئی ۔ پاکستان ائر فورس کی اس کامیابی نے پاک آرمی کے حوصلے بڑھا دئیے برگیڈئیر امجد چودھری نے پاکستان ائر فورس کو اپنے خط میں لکھا
" چھمب میں آپ کی پہلی کارگزاری نے ہم پر یہ ثابت کردیا کہ ہمیں دشمن کی فضائیہ سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ایک ایسی اعلیٰ مثال قائم ہوئی اور وہ منظر کبھی نہ بھلا سکیں گے اس سے ہمارے حوصلے بلند ہوئے اور ہمیں گویا پر لگ گئے "
سرفراز رفیقی مسلسل فضائی مشقوں میں حصہ لے رہے تھے ۶ ستمبر ۱۹۶۵ جس دن صبح سویرے دشن نے پاکستان پر حملہ کیا تو پاک فضاءیہ نے شام کو غروب آفتاب کے وقت بیک وقت دشن کے ہوائی اڈوں کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا تو سکواڈرن لیڈر رفیقی کی قیادت میں تین طیاروں کا دستہ سرگودھا سے بھارتی ہوائی اڈے ہلواڑہ کو نشانہ بنانے کے لیے اُڑا اُن کے ہمراہ ان کے نمبر ۲فلائیٹ لیفٹننٹ سیسل چودھری اور نمبر ۳ فلا ئیٹ لیفٹننٹ یونس حسین ( پاک فضائیہ کے شہید سربراہ ائر چیف مارشل مصحف علی میر کے ماموں اور آئیڈیل )تھے یہ دستہ شام کی ڈھلتی ہوئی روشنی میں سرحد عبور کر گیا راہ میں واپس آتے ہوئے ایم ایم عالم نے رابطہ پر فضا میں موجود دشمن کے لا تعداد طیروں کی موجودگی سے خبردار کیا ۔ مگر سرفروشوں کی یہ جماعت ہلواڑہ جا پہنچی ۔ بھارتی طیارے فضا میں شہد کی مکھیوں کی طرح اُڑ رہے تھے جب یہ دستہ ہلواڑہ پر حملہ کرہا تھا تو دشمن کے دس لڑاکا ہنٹر طیارے ان پر ٹوٹ پڑے ۔ رفیقی نے اپنے ساتھیوںکو پٹرول کی فالتو ٹنکیاں گرانے کو کہا ۔یونس کی ٹنکیاں فنی خرابی کی وجہ سے نہ گر سکیں جس سے جہاز کی فوری حرکت متاثر ہو رہی تھی رفیقی نے دو ہنٹر طیاروں کو دیکھا اور اُن کے عقب میں جا کر اُن کے قائد کو نشانہ پر لیا ۔ ہنٹر فضا ہی میں پھٹ گیا یونس اور سیسل بھی اپنے شکار پر جھپٹے سیسل نے ایک ہنٹر طیارہ مار گرایا اور دوسرا بھاگ گیا یونس کو گرچہ پلٹنے جھپٹنے میں مشکل پیش آرہی تھی پھر بھی انہوں نےے ایک طیارے کو مار گرایا ۔ مگر دشمن کے ایک طیارے نے عقب سے اُن کی ٹنکیوں کو نشانہ بنا لیا اس طرح فلائیٹ لیفٹننٹ یونس نے جام شہادت نوش کیا
رفیقی اس معرکہ میں جب دشمن سے نبرد آزما تھے اور دشمن کے طیارے اُن کی زد میں تھے تو انہیں معلوم ہوا کہ اُن کی گنیں جام ہو چکی ہیں رفیقی نے راہ فرار اختیار کرنے کی بجائے کمانڈ اپنے نمبر ۲ فلائیٹ لیفٹننٹ سیسل چودھری کو سونپ کر خود سیسل کو عقب سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے عقب میں چلے گئے ۔ جب سیسل دشمن کے طیارے گرا رہے تھے تو دشمن نے رفیقی کے طیارے کو نشانہ بنا ڈالا اور اس طرح رفیقی نے جام شہادت نوش کیا سیسل بخیریت دشمن کے نرغے سے بچ کر واپس پہنچ گئے ۔
سکواڈرن لیڈر رفیقی کی بے مثال جرأ ت پر حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ جرأت عطا کیا
فیصل آباد ڈویژن میں اعلیٰ درجے کی ۱۷۷ ایکڑ زرعی زمین( آج اُس کی مالیت کا اندازہ آپ بخوبی کر سکتے ہیں ) انکے والدین کو دی جو انہوں نے پاک فضائیہ کے درجہ چہارم کے ملازمین کے نام وقف کردی ۔
یقیناً وہ والدین انتہائی خوش قسمت ہیں جن کے دو بیٹے وطن کی راہ میں شہید ہو کر حیات جاوداں پا گئے ۔رب کریم اُن کے درجات بلند فرمائے ( آمین )
آخری تدوین: