طارق شاہ
محفلین
غزل
عزیز حامد مدنی
ثباتِ غم ہے محبّت کی بے رُخی آخر
کسی کے کام تو آئی، یہ زندگی آخر
کوئی بتاؤ کہ، ہے بھی ، تو اس قدر کیوں ہے؟
ہوا کو میرے گریباں سے دشمنی آخر
تری قبا، تری چادر کا ذکر کس نے کیا
مگرفسانہ ہوئی، بات ان کہی آخر
ترے خیال نے سو رُخ دیے تصوّر کو
ہزار شیوہ تھی تیری سپردگی آخر
میں اپنی بات کا، اپنے خیال کا ہُوں حرِیف
گیا نہ سر سے مرے ، خبطِ سرکشی آخر
ہوا نے مانگ لیا ، آج تار و پو کا حساب
قبا بھی کیا کوئی حصہ کفن کا تھی آخر
حنائے پا سے کھلا اُس کا شوقِ آرائش
نکل چلی تھی دبے پاؤں سادگی آخر
ہزار، اُس کے تغافل کی داستانیں ہیں
مگر یہ بات! کہ وہ بھی ہے آدمی آخر
وہی ہیں گیسوئے جاناں کے خم، وہی ہم ہیں
وہی ہے کشمکشِ ربطِ باہمی آخر
پروفیسر عزیز حامد مدنی