ایم اے راجا
محفلین
ایک پرانی اور بھولی بسری غزل جو ہ صفائی کے دوران ہاتھ لگ گئی برائے نقید و اصلاح حاضر ہے۔
عشقِ بے مہر سے نکل آیا
درد کے قہر سے نکل آیا
میں کہ جنت تلاش کرتا ہوا
محورِ دہر سے نکل آیا
بھا گیا دشت کا سکوں مجھکو
اس لیئے شہر سے نکل آیا
اسنے تھاما جو ہاتھ کو میرے
لڑ، کے ہر لہر سے نکل آیا
شکر ہے صد مرے خدا تیرا
زلف کے سحر سے نکل آیا
فرطِ جذبات میں کہی وہ غزل
بندشِ بحر سے نکل آیا
اوڑھ کر سر پہ شام کو راجا
زرد دوپہر سے نکل آیا