صابرہ بہن، آداب!
عشق خود سے ہی بس کیا جائے
ٹوٹ کےخود پہ مر مٹا جائے
شاعری اپنے آپ پر کر کے
پھر مزے سے اسے پڑھا جائے
بے وقوفی کا جام پی پی کر
ایروں غیروں پہ کیوں مرا جائے
مطلع اور اس کی متابعت میں اگلے دو اشعار طنز سے زیادہ مزاحیہ اسلوب کے حامل محسوس ہوئے مجھے، ہوسکتا ہے یہ تاثر صرف مجھ تک گیا ہو، اساتذہ اور دیگر قارئین اسے محسوس نہ کریں۔
بندشیں تھوڑی اور چست ہو سکتی ہیں۔ مثلا مطلع کو یوں کہا جا سکتا ہے
عشق اب خود سے بس کیا جائے
کیوں نہ خود پر ہی مر مٹا جائے۔
(ٹوٹ کر مرنا مجھے کچھ نامانوس سا لگ رہا ہے، ٹوٹ کر چاہنا تو پڑھا سنا ہے، ٹوٹ کر مرنا شاید میری نظر سے نہیں گزرا ۔۔۔ ہرچند کہ یہ کوئی سند یا دلیل نہیں، میری قلت مطالعہ کا اثر بھی ہو سکتا ہے)۔
دوسرے شعر کے لئے مصرعہ اولی میرے خیال میں اصل مسودے والا ہی بہتر رہے گا۔ یعنی
شعر خود پر ہی اب کہے جائیں
پھر مزے سے انہیں پڑھا جائے
تیسرے شعر میں بے وقوفی بہت غیر شاعرانہ لگ رہا ہے، الفاظ بدلے جاسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں، صرف بے وقوفی کا جام کہنا بھی شاید ٹھیک نہ ہو (مطلق شراب کے جام کے بارے میں تو یوں کہا جاتا ہے، مگر کسی اور شے کے بارے علامتاً کہنے کے بارے میں میں خود گنجلک ہوں، خیر! اساتذہ جانیں اور ان کا کام
)
کیوں غباوت کے جام پی پی کر
ایروں غیروں پر اب مرا جائے
زندگانی غضب کی گزرے گی
اپنا اچھا بھلا کیا جائے
اچھا بھلا ’’کرنا‘‘ میرے خیال میں خلافِ محاورہ ہے۔ ’’اچھا بھلا‘‘ کسی بھی شے یا شخصیت کی کیفیت کو بیان کرنے کے لئے کہا جاتا ہے، مثلا کل تک تو وہ اچھا بھلا تھا، اچھا بھلا کام چل رہا تھا۔ گویا اچھا بھلا ’’ہوا‘‘ جاتا ہے، کیا نہیں۔ اس لئے اس شعر پر دوبارہ فکر کر کے دیکھئے۔
بس کہ اندر کہیں خلا ہو گا
اس سے صرفِ نظر کیا جائے
مفہوم واضح نہیں کیونکہ یہ واضح نہیں کہ کس کے درون خلا ہے؟
زندگی ایک بار ملتی ہے
اس کو بھرپور جی لیا جائے
یا
زندگی ایک بار ملتی ہے
اس کا ہر لمحہ جی لیا جائے
یا
زندگی ایک بار ملتی ہے
اپنی مرضی سے جی لیا جائے
میرے خیال میں پہلا مصرعہ اصل مسودے والا ہی بہتر ہے۔
زندگی ایک ہی تو ملتی ہے
اس کو بھرپور جی لیا جائے
نام زندہ رکھے جو نسلوں تک
بیج نیکی کا بو دیا جائے
یا
نام زندہ رکھے جو نسلوں تک
ایسا روشن دیا کیا جائے
یا
نام زندہ رکھے جو نسلوں تک
صدقہءِ جاریہ کیا جائے
یا
نام زندہ رکھے جو نسلوں تک
کارِخیر ایسا کر دیا جائے
اگر یوں کہیں تو؟
نام زندہ رہے زمانوں تک
کام کچھ ایسا کر دیا جائے!
گر ہے بخشش کی آرزو رب سے
سب کو راضی خوشی رکھا جائے
یا
گر ہے بخشش کی آرزو رب سے
سب سے دل صاف کر لیا جائے
گر ہے بخشش کی آرزو رب سے
اس کے احکام پر چلا جائے
تھوڑا سا خیال اور الفاظ بدل کر دیکھیں کیا شکل بنتی ہے، مثلاً
کینہ پرور رہے گا واں مغضوب
صاف دل سب سے کر لیا جائے
جیسے گرتوں کو تھامنے کے لیئے
ہاتھ آگے بڑھا دیا جائے
جیسے کیسے؟؟؟؟ مطلب یہ شعر تو کوئی ادھورا مصرعہ معلوم ہوتا ہے، بات پوری ہوتی نظر نہیں آتی اس میں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ’’جیسے‘‘ یہاں بھرتی کا ہے، جو پہلے مصرعے کو الجھا رہا ہے۔
خیال تھوڑا سا بدلنے کی ضرورت ہے، ورنہ شعر معمولی رہ جائے گا۔
دعاگو،
راحلؔ