حسیب احمد حسیب
محفلین
غزل ... !
عشق زادوں کو محبت کی نشانی دے گیا
ہم جسے دھرائینگے ایسی کہانی دے گیا
زلزلہ اس زور کا آیا تھا میرے شہر میں
ساکنوں کو عمر بھر کی لا مکانی دے گیا
ڈوبنے کو میں گیا تھا پاس دریا کے مگر
وہ ہنسا ہنس کر میرے چلو میں پانی دے گیا
دل کا مہماں بن کہ وہ ٹھہرا تھا دل میں چار دن
بے سکونی دے گیا بے اطمنانی دے گیا
میں نے جب پوچھا محبت کیا ہے تو کچھ نہ کہا
گنجلک سے چند صفحے امتحانی دے گیا
عشق کا یہ معجزہ مرنے نہیں دیتا مجھے
ایک فانی کو یہ ظالم زندگانی دے گیا
کس مسیحا کا ترے ہر شعر پر اعجاز ہے
کون لفظوں میں ترے ایسی روانی دے گیا
کون تھا وہ جو ہماری زندگی پر نقش ہے
کون یادوں کی ہمیں شامیں سہانی دے گیا
کیا عجب نکتے اٹھائے تھے ہمارے سامنے
ہم زمیں زادوں کو فکر آسمانی دے گیا
شیخ نے ایسا تصرف کر دیا دل پر میرے
قلب مردہ کو حیات جاودانی دے گیا
کب تلک یادوں میں اس کی گم رہو گے تم حسیب
شعر کر دو تم اسے جو بھی کہانی دے گیا
حسیب احمد حسیب
عشق زادوں کو محبت کی نشانی دے گیا
ہم جسے دھرائینگے ایسی کہانی دے گیا
زلزلہ اس زور کا آیا تھا میرے شہر میں
ساکنوں کو عمر بھر کی لا مکانی دے گیا
ڈوبنے کو میں گیا تھا پاس دریا کے مگر
وہ ہنسا ہنس کر میرے چلو میں پانی دے گیا
دل کا مہماں بن کہ وہ ٹھہرا تھا دل میں چار دن
بے سکونی دے گیا بے اطمنانی دے گیا
میں نے جب پوچھا محبت کیا ہے تو کچھ نہ کہا
گنجلک سے چند صفحے امتحانی دے گیا
عشق کا یہ معجزہ مرنے نہیں دیتا مجھے
ایک فانی کو یہ ظالم زندگانی دے گیا
کس مسیحا کا ترے ہر شعر پر اعجاز ہے
کون لفظوں میں ترے ایسی روانی دے گیا
کون تھا وہ جو ہماری زندگی پر نقش ہے
کون یادوں کی ہمیں شامیں سہانی دے گیا
کیا عجب نکتے اٹھائے تھے ہمارے سامنے
ہم زمیں زادوں کو فکر آسمانی دے گیا
شیخ نے ایسا تصرف کر دیا دل پر میرے
قلب مردہ کو حیات جاودانی دے گیا
کب تلک یادوں میں اس کی گم رہو گے تم حسیب
شعر کر دو تم اسے جو بھی کہانی دے گیا
حسیب احمد حسیب