عشق زادوں کو محبت کی نشانی دے گیا

غزل ... !

عشق زادوں کو محبت کی نشانی دے گیا
ہم جسے دھرائینگے ایسی کہانی دے گیا

زلزلہ اس زور کا آیا تھا میرے شہر میں
ساکنوں کو عمر بھر کی لا مکانی دے گیا

ڈوبنے کو میں گیا تھا پاس دریا کے مگر
وہ ہنسا ہنس کر میرے چلو میں پانی دے گیا

دل کا مہماں بن کہ وہ ٹھہرا تھا دل میں چار دن
بے سکونی دے گیا بے اطمنانی دے گیا

میں نے جب پوچھا محبت کیا ہے تو کچھ نہ کہا
گنجلک سے چند صفحے امتحانی دے گیا

عشق کا یہ معجزہ مرنے نہیں دیتا مجھے
ایک فانی کو یہ ظالم زندگانی دے گیا

کس مسیحا کا ترے ہر شعر پر اعجاز ہے
کون لفظوں میں ترے ایسی روانی دے گیا

کون تھا وہ جو ہماری زندگی پر نقش ہے
کون یادوں کی ہمیں شامیں سہانی دے گیا

کیا عجب نکتے اٹھائے تھے ہمارے سامنے
ہم زمیں زادوں کو فکر آسمانی دے گیا

شیخ نے ایسا تصرف کر دیا دل پر میرے
قلب مردہ کو حیات جاودانی دے گیا


کب تلک یادوں میں اس کی گم رہو گے تم حسیب
شعر کر دو تم اسے جو بھی کہانی دے گیا

حسیب احمد حسیب
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بہت اچھے اشعار ہیں ماشاءاللہ۔۔۔ ۔مگر ایک رائے ہے ۔
میرے کو مرے باندھا ہی نہیں بلکہ لکھا بھی جاسکتا ہے۔ حسیب صاحب۔ بہتر ہے کہ کتابت بھی موافق کر دی جائے۔
وہ ہنسا ہنس کر میرے چلو میں پانی دے گیا
یہاں مرے کی جگہ مجھے زیادہ مناسب ہو گا۔
ساکنوں کو عمر بھر کی لا مکانی دے گیا
لا مکانی سے ایک مختلف معنوی تاثر ابھر تا ہے۔ اس کی جگہ بے مکانی کر دیا جائے توبہتر ہوگا۔
امید ہے کہ دخل در معقولات نہیں سمجھا جائے گا۔
 
Top