کاشفی
محفلین
غزل
عشق میں ترے مرنا عمرِ جاودانی ہے
یہ جو زندگانی ہے خاک زندگانی ہے
ان کے سننے کے قابل کب مری کہانی ہے
وہ کبھی جو سنتے ہیں اپنی خوش بیانی ہے
آہ کی شرر ریزی آج آزمانی ہے
آگ گھر میں دشمن کے، شب مجھے لگانی ہے
جو کریں وہ بدوضعی ان کے وضعداری ہے
گر کریں وہ بے مہری عین مہربانی ہے
مجھ پہ گو مصیبت ہے یاد تو ہوں میں ان کو
وہ ستم جو کرتے ہیں ان کی مہربانی ہے
اک اُمید رہتی ہے ہم کو نااُمیدی میں
موت کی توقع پر اپنی زندگانی ہے