طارق شاہ
محفلین
غزل
عِشق میں جینے کے بھی لالے پڑے
ہائے کِس بیدرد کے پالے پڑے
وادئ وحشت میں جب رکھّا قدم
آ کے میرے پاؤں پر چھالے پڑے
دِل چلا جب کوُچۂ گیسو کی سمت
کوس کیا کیا راہ میں کالے پڑے
دُور تھا، زندا تھے کیا دشتِ جنوُں
چلتے چلتے پاؤں میں چھالے پڑے
کِس نگر نے کردِیا عالم کو مست
ہر جگہ لاکھوں ہیں متوالے پڑے
ہجر میں جب منہ لگایا جام کو
سینکڑوں ہونٹوں پہ بُت خالے پڑے
طوقِ وحشت اپنی گردن میں پڑا
یار کے کانوں میں جب بالے پڑے
تجھ کو اِک آنسو کی حسرت ہے، امیر
کِتنے مِینہ برسے، کئی چھالے پڑے
امِیر میںائی