فرخ منظور
لائبریرین
غزل
عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں
اُس سے آنکھیں لگیں تو خواب کہاں
بے کلی دل ہی کی تماشا تھی
برق میں ایسے اضطراب کہاں
خط کے آئے پہ کچھ کہے تو کہے
ابھی مکتوب کا جواب کہاں
ہستی اپنی ہے بیچ میں پردا
ہم نہ ہوویں تو پھر حجاب کہاں
گریہ شب سے سرخ ہیں آنکھیں
مجھ بلا نوش کو شراب کہاں
عشق ہے عاشقوں کے جلنے کو
یہ جہنم میں ہے عذاب کہاں
داغ رہنا دل و جگر کا دیکھ
جلتے ہیں اس طرح کباب کہاں
محو ہیں اس کتابی چہرے کے
عاشقوں کو سرِ کتاب کہاں
عشق کا گھر ہے میر سے آباد
ایسے پھر خانماں خراب کہاں
از میر تقی میر
عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں
اُس سے آنکھیں لگیں تو خواب کہاں
بے کلی دل ہی کی تماشا تھی
برق میں ایسے اضطراب کہاں
خط کے آئے پہ کچھ کہے تو کہے
ابھی مکتوب کا جواب کہاں
ہستی اپنی ہے بیچ میں پردا
ہم نہ ہوویں تو پھر حجاب کہاں
گریہ شب سے سرخ ہیں آنکھیں
مجھ بلا نوش کو شراب کہاں
عشق ہے عاشقوں کے جلنے کو
یہ جہنم میں ہے عذاب کہاں
داغ رہنا دل و جگر کا دیکھ
جلتے ہیں اس طرح کباب کہاں
محو ہیں اس کتابی چہرے کے
عاشقوں کو سرِ کتاب کہاں
عشق کا گھر ہے میر سے آباد
ایسے پھر خانماں خراب کہاں
از میر تقی میر