عشق میں شاید دل بھی پتھر ہو جاتا ہے

عظیم

محفلین


عشق میں شاید دل بھی پتھر ہو جاتا ہے
کہتا نہیں کچھ لیکن کتنے غم کھاتا ہے

دنیا بہا لے جائیں گے میرے آنسو
کبھی کبھی یوں بھی مجھ کو رونا آتا ہے

مجبوری کی قید میں پستا ہے دن بھر
ایک پرندہ رات کو چھپ کر سو جاتا ہے

علم بھی ہونا ایک مصیبت ہے جیسے
ہوش میں آنا ظلم قیامت کا ڈھاتا ہے

جب تک حق بندوں کا ادا ہوتا ہے خوب
تب تک دل میں خوف نہ کوئی ڈر آتا ہے

وہ بھی ہے کیا خوب کہ رکھتا ہے بے حال
اور کبھی بے بات پہ مجھ کو بہلاتا ہے

کون سمجھتا ہے دنیا میں اور کا دکھ
اے دل تو دیوانہ ہے جو سمجھاتا ہے


 
Top