عشق میں پہلے ڈرتے تھے بربادی سے ۔۔ آصف شفیع

آصف شفیع

محفلین
احبابِ محفل! آداب، آج کل محفل میں خاموشی کیوں ہے؟ بہت کم لوگ اپنا کلام پوسٹ کر رہے ہیں۔ کیا سب مصروف ہو گئے ہیں؟ چلیں اس خاموشی کو توڑتے ہیں اور میں اپنی کتاب " کوئی پھول دل میں کھلا نہیں" سے ایک غزل پیش کرتا ہوں۔

عشق میں پہلے ڈرتے تھے بربادی سے
ہوتے ہوتے ہو گئے ہیں اب عادی سے

پیار کہانی سننے والے ! یہ تو بتا
شہزادہ کیا بولا تھا شہزادی سے

کتنی آہیں اس کے لب پر لرزاں ہیں
کچھ تو پوچھو اپنے اس فریادی سے

کنجِ قفس سے آنے جانے والوں کو
گھومتے پھرتے دیکھتا ہوں آزادی سے

آپس میں مل جل کر رہنے والے لوگ
اک دن دور نکل آئے آبادی سے

دنیا کی رنگینی کو مت دیکھ آصف
اندازہ کر اس کی بے بنیادی سے

آصف شفیع
 

الف عین

لائبریرین
یہ تو کوئی بات ہی نہیں ہوئی۔ آصف یہاں ایک غزل پوسٹ کر کے گئے اور کسی نے پذیرائی ہی نہیں کی؟ میں نے بھی صرف شکریے کا بٹن دبا دیا تھا کہ کچھ بعد میں لکھوں گا۔ الفاظ کی اتنی کنجوسی کیوں؟
 

الف عین

لائبریرین
عشق میں پہلے ڈرتے تھے بربادی سے
ہوتے ہوتے ہو گئے ہیں اب عادی سے

اچھا شعر ہے، نفسیاتی تجزئے کی مثال

پیار کہانی سننے والے ! یہ تو بتا
شہزادہ کیا بولا تھا شہزادی سے

یہاں ’بولا‘ کچھ اچھا نہیں لگ رہا، بمبئیا زبان لگ رہی ہے۔ ’کہتا‘ کہنے میں کیا حرج ہے؟

آپس میں مل جل کر رہنے والے لوگ
اک دن دور نکل آئے آبادی سے

واہ، اچھی بات کہی ہے۔

دنیا کی رنگینی کو مت دیکھ آصف
اندازہ کر اس کی بے بنیادی سے
مقطع سمجھ میں نہیں آیا آصف۔ بے بنیادی کا اس سے تعلق؟
 

فاتح

لائبریرین
سبحان اللہ! خوبصورت غزل شریکِ محفل کرنے پر شکریہ۔ مزید لب کشائی کی استطاعت نہیں پاتا۔
 

آصف شفیع

محفلین
تمام احباب کا شکریہ۔ خاص طور پر اعجاز صاحب کا جنہوں نے کچھ اشعار پر اپنی رائے دی ہے۔ امید ہے باقی احباب بھی رائے سے نوازیں گے
 

مغزل

محفلین
بہت خوب ، ماشا اللہ ، کیا خوب کلام ہے ، بہت شکریہ آصف شفیع صاحب، پیش کرنے پر، بہت شکریہ
 

محمداحمد

لائبریرین
عشق میں پہلے ڈرتے تھے بربادی سے
ہوتے ہوتے ہو گئے ہیں اب عادی سے

کنجِ قفس سے آنے جانے والوں کو
گھومتے پھرتے دیکھتا ہوں آزادی سے


بہت خوب آصف شفیع صاحب!

بہت اچھی غزل ہے پڑھ کر دل خوش ہو گیا۔ خاص طور پر مطلع تو بہت لاجواب ہے۔

نذرانہءتحسین پیش خدمت ہے جناب!

تاخیر کے لئے معذرت کے پچھلے کچھ دنوں مصروفیت کچھ زیادہ ہی رہی!
 
Top