امین شارق
محفلین
عشق نہ کرنا کبھی اس میں خسارا بہت ہے
عاشقوں نے عشق میں کم جیتا ہارا بہت ہے
گردشوں میں آج کل قسمت کا تارا بہت ہے
اس لئے مغموم میرا دل بے چارا بہت ہے
تم کو اپنائے یہ دل چاہتا ہمارا بہت ہے
تم یہ کہدو میرے ہو یہ کہنا تمہارا بہت ہے
ان کے آنے سے مریضِ عشق کی آنکھیں کھُلیں
ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا بہت ہے
کب ملی لیلیٰ و شیریں مجنوں و فرہاد کو
جو عقل مند ہیں انہیں اتنا اشارا بہت ہے
کوئی بھی پتھر سے نہ مارےکسی دیوانے کو
دل جلوں نے سنگ سے مجنوں کو مارا بہت ہے
بس تیری اک دید کی آنکھیں میری مشتاق ہیں
دل بہلنے کو ہمیں اتنا نظارا بہت ہے
اس لئے مسکان ہے ناپید میری آنکھ سے
تیرے بن ہم نے جہاں تنہا گزارا بہت ہے
زندگی جب ختم ہوجائے تو کوئی کیا کرے
مرنے والے نے مسیحا کو پکارا بہت ہے
میں کہ جس کی یاد میں تڑپا بہت ہوں روزوشب
اس نے بھی مجھ کو پلٹ دیکھا دوبارا بہت ہے
بس ذرا سا سیکھ لے اوزان وتقطیع وعروض
لوگ کہتے ہیں تیرا انداز پیارا بہت ہے
تو بھی شارؔق عشق میں ناکام عاشق تو نہیں
غزل میں کیوں عشق پہ غصہ اتارا بہت ہے
عاشقوں نے عشق میں کم جیتا ہارا بہت ہے
گردشوں میں آج کل قسمت کا تارا بہت ہے
اس لئے مغموم میرا دل بے چارا بہت ہے
تم کو اپنائے یہ دل چاہتا ہمارا بہت ہے
تم یہ کہدو میرے ہو یہ کہنا تمہارا بہت ہے
ان کے آنے سے مریضِ عشق کی آنکھیں کھُلیں
ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا بہت ہے
کب ملی لیلیٰ و شیریں مجنوں و فرہاد کو
جو عقل مند ہیں انہیں اتنا اشارا بہت ہے
کوئی بھی پتھر سے نہ مارےکسی دیوانے کو
دل جلوں نے سنگ سے مجنوں کو مارا بہت ہے
بس تیری اک دید کی آنکھیں میری مشتاق ہیں
دل بہلنے کو ہمیں اتنا نظارا بہت ہے
اس لئے مسکان ہے ناپید میری آنکھ سے
تیرے بن ہم نے جہاں تنہا گزارا بہت ہے
زندگی جب ختم ہوجائے تو کوئی کیا کرے
مرنے والے نے مسیحا کو پکارا بہت ہے
میں کہ جس کی یاد میں تڑپا بہت ہوں روزوشب
اس نے بھی مجھ کو پلٹ دیکھا دوبارا بہت ہے
بس ذرا سا سیکھ لے اوزان وتقطیع وعروض
لوگ کہتے ہیں تیرا انداز پیارا بہت ہے
تو بھی شارؔق عشق میں ناکام عاشق تو نہیں
غزل میں کیوں عشق پہ غصہ اتارا بہت ہے