آصف شفیع
محفلین
میر کی زمین میں ایک غزل۔ ( احباب سے رائے درکار ہے)
عشق نے کیا کیا کام لیے ہیں ہم جیسے ناداروں سے
"گلیوں گلیوں خوار پھرے ہم، سر مارے دیواروں سے"
رفتہ رفتہ دور ہوئے جاتے ہیں اپنے پیاروں سے
یارو! ہم تو دور ہی اچھے درہموں سے، دیناروں سے
جانے والوں کو تو مانا، اک دن چھوڑ کے جانا ہے
برسوں حسرت جھانکتی رہتی ہے گھر کی دیواروں سے
مہد سے لیکر لحد تلک ہم روپ بدلتے رہتے ہیں
اس دنیا میں ملتے ہیں ہم کتنے ہی کرداروں سے
دل کے تاروں کو جب کوئی آکر چھیڑتا ہے آصف
چشمے پھوٹنے لگ جاتے ہیں دامن میں کہساروں سے
اب بھی درد کا کاسہ لیکر غربت گھر گھر ناچتی ہے
اور توقع رکھیں کتنی، ہم آصف ، زرداروں سے
( آصف شفیع)
عشق نے کیا کیا کام لیے ہیں ہم جیسے ناداروں سے
"گلیوں گلیوں خوار پھرے ہم، سر مارے دیواروں سے"
رفتہ رفتہ دور ہوئے جاتے ہیں اپنے پیاروں سے
یارو! ہم تو دور ہی اچھے درہموں سے، دیناروں سے
جانے والوں کو تو مانا، اک دن چھوڑ کے جانا ہے
برسوں حسرت جھانکتی رہتی ہے گھر کی دیواروں سے
مہد سے لیکر لحد تلک ہم روپ بدلتے رہتے ہیں
اس دنیا میں ملتے ہیں ہم کتنے ہی کرداروں سے
دل کے تاروں کو جب کوئی آکر چھیڑتا ہے آصف
چشمے پھوٹنے لگ جاتے ہیں دامن میں کہساروں سے
اب بھی درد کا کاسہ لیکر غربت گھر گھر ناچتی ہے
اور توقع رکھیں کتنی، ہم آصف ، زرداروں سے
( آصف شفیع)