عشق نے کیا کیا کام لیے ہیں۔ آصف شفیع

آصف شفیع

محفلین
میر کی زمین میں ایک غزل۔ ( احباب سے رائے درکار ہے)

عشق نے کیا کیا کام لیے ہیں ہم جیسے ناداروں سے
"گلیوں گلیوں خوار پھرے ہم، سر مارے دیواروں سے"

رفتہ رفتہ دور ہوئے جاتے ہیں اپنے پیاروں سے
یارو! ہم تو دور ہی اچھے درہموں سے، دیناروں سے

جانے والوں کو تو مانا، اک دن چھوڑ کے جانا ہے
برسوں حسرت جھانکتی رہتی ہے گھر کی دیواروں سے

مہد سے لیکر لحد تلک ہم روپ بدلتے رہتے ہیں
اس دنیا میں ملتے ہیں ہم کتنے ہی کرداروں سے

دل کے تاروں کو جب کوئی آکر چھیڑتا ہے آصف
چشمے پھوٹنے لگ جاتے ہیں دامن میں کہساروں سے

اب بھی درد کا کاسہ لیکر غربت گھر گھر ناچتی ہے
اور توقع رکھیں کتنی، ہم آصف ، زرداروں سے

( آصف شفیع)
 

جیا راؤ

محفلین
چند لمحو ں کو پنچھی آکر بیٹھتے ہیں، اڑ جاتے ہیں
کوئی تو دل کی حالت پوچھے جاکر ان اشجاروں سے

دل کے تاروں کو جب کوئی آکے چھیڑتا ہے آصف
چشمے پھوٹنے لگ جاتے ہیں دامن میں کہساروں سے



واہ۔۔۔ بہت ہی خوبصورت۔۔۔ !:):)




اور توقع رکھیں کتنی، ہم آصف ، زرداروں سے


اسے ہم روانی میں کچھ اور پڑھ گئے تھے۔۔۔۔۔۔ :noxxx::biggrin::biggrin:
 

آصف شفیع

محفلین
چند لمحو ں کو پنچھی آکر بیٹھتے ہیں، اڑ جاتے ہیں
کوئی تو دل کی حالت پوچھے جاکر ان اشجاروں سے

دل کے تاروں کو جب کوئی آکے چھیڑتا ہے آصف
چشمے پھوٹنے لگ جاتے ہیں دامن میں کہساروں سے



واہ۔۔۔ بہت ہی خوبصورت۔۔۔ !:):)




اور توقع رکھیں کتنی، ہم آصف ، زرداروں سے


اسے ہم روانی میں کچھ اور پڑھ گئے تھے۔۔۔۔۔۔ :noxxx::biggrin::biggrin:

جی بہت شکریہ۔ ویسے اس طرح بھی ٹھیک ہے جیسے آپ پڑھ رہی تھیں۔:)
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ واہ آصف صاحب، بہت خوبصورت غزل ہے، بہت داد قبول کیجیے قبلہ:

رفتہ رفتہ دور ہوئے جاتے ہیں اپنے پیاروں سے
یارو! ہم تو دور ہی اچھے درہم اور دیناروں سے

جانے والوں کو تو مانا، اک دن چھوڑ کے جانا ہے
برسوں حسرت جھانکتی رہتی ہے گھر کی دیواروں سے

مہد سے لیکر لحد تلک ہم روپ بدلتے رہتے ہیں
اس دنیا میں ملتے ہیں ہم کتنے ہی کرداروں سے

دل کے تاروں کو جب کوئی آکے چھیڑتا ہے آصف
چشمے پھوٹنے لگ جاتے ہیں دامن میں کہساروں سے


لا جواب!
 

ناہید

محفلین
آصف، غزل اچھی ہے۔
شجر کی جمع تو اشجار ہے یہ اشجاروں کیا ہوتا ہے؟
یہ میں‌نے پہلی بار سُنا ہے کہ جمع کی جمع بھی ہوتی ہے۔ آپ اس پر غور کر لیں۔
شکریہ
ناہید
 

آصف شفیع

محفلین
اچھی غزل ہے آصف، لیکن ’اشجاروں‘ کی جمع الجمع کا کوئی جواز نہیں۔
شکریہ سر! آپ نے صحیح فرمایا۔( یہ اشعار کل ایک ہی نشست میں ہوئے ہیں ابھی کچھ اور اضافہ بھی ہو سکتا ہے ۔ اسی لیے احباب سے رائے لی ہے تاکہ اگر کوئی خامی ہو تو دور ہو جائے۔)
 

آصف شفیع

محفلین
آصف، غزل اچھی ہے۔
شجر کی جمع تو اشجار ہے یہ اشجاروں کیا ہوتا ہے؟
یہ میں‌نے پہلی بار سُنا ہے کہ جمع کی جمع بھی ہوتی ہے۔ آپ اس پر غور کر لیں۔
شکریہ
ناہید

شکریہ/ چلیں اشجار کے بہانے آپ محفل میں تو تشریف لائیں۔ لیجیے ہم نے تمام اشجار کاٹ ڈالے۔:)
 

آصف شفیع

محفلین
آصف صاحب بہت اچھی غزل ہے
مبارک باد قبول ہو۔
’اپنا لہو پھر اپنا لہو ہے‘ وطن یاد آگیا ہی گیا

شکریہ عمران! وطن سے باہر رہنے والوں کیلے اپنوں سے دوری ہی سب سے بڑا المیہ ہے۔

دشتِ غربت کے خارزاروں میں
یاد آتا رہا وطن مجھ کو:sad2:
 

ایم اے راجا

محفلین
عشق نے کیا کیا کام لیے ہیں ہم جیسے ناداروں سے
"گلیوں گلیوں خوار پھرایا، سر مارے دیواروں سے"​

واہ واہ لاجواب، آصف صاحب بہت خوب کہی ہے واہ واہ۔
 

الف عین

لائبریرین
اک تکنیکی غلطی کا اور خیال آیا۔۔ عشق نے آپ سے کام کروائے ہیں، تو دیواروں سے بھی سر مروائے ہوں گے نا!!
"گلیوں گلیوں خوار پھرایا، سر مارے دیواروں سے"
عشق نے خود تو سر نہیں مارے ہوں گے نا!!
 
کیوں آصف صاحب! آپ کو ای میل کے ذریعے جس غلطی کی نشاندہی کی تھی۔ الف عین صاحب نے بھی واضح کر دی
اور سناؤ۔۔۔۔۔۔!
 

آصف شفیع

محفلین
کیوں آصف صاحب! آپ کو ای میل کے ذریعے جس غلطی کی نشاندہی کی تھی۔ الف عین صاحب نے بھی واضح کر دی
اور سناؤ۔۔۔۔۔۔!

در اصل مجھے کل یہاں جو طرح مصرع دیا گیا تھا وہ یونہی تھا
" گلیوں گلیوں خوار پھرایا، سر مارے دیواروں سے"
لہذا اسی کے اوپر گرہ لگائی۔ مجھے خود مصرعے کے دوسرے حصے پر اطمینان نہیں تھا۔ ذہن میں تھا کہ مصرعہ چیک کروں گا لیکن آج آپ نے میل کے ذریعے بتایا کہ اصل مصرعہ یوں ہے۔

" گلیوں گلیوں خوار پھرے ہم، سر مارے دیواروں سے"
لہذا اس کو تبدیل کر دیتے ہیں۔
اعجاز صاحب کی فراست کی داد دیتے ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
رفتہ رفتہ دور ہوئے جاتے ہیں اپنے پیاروں سے
یارو! ہم تو دور ہی اچھے درہموں سے، دیناروں سے

جانے والوں کو تو مانا، اک دن چھوڑ کے جانا ہے
برسوں حسرت جھانکتی رہتی ہے گھر کی دیواروں سے

مہد سے لیکر لحد تلک ہم روپ بدلتے رہتے ہیں
اس دنیا میں ملتے ہیں ہم کتنے ہی کرداروں سے

دل کے تاروں کو جب کوئی آکر چھیڑتا ہے آصف
چشمے پھوٹنے لگ جاتے ہیں دامن میں کہساروں سے


بہت خوب آصف شفیع صاحب،

بہت اچھی غزل ہے اور خاص طور پر اوپر دیئے گئے اشعار بہت اچھے ہیں۔

داد حاضر ہے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔

خوش
رہیے۔
 
Top