محب علوی
مدیر
موسم ، طوفان ِ باد و باراں کےاشاروں پر رقص کررہا تھا۔
سپیڈ کم ہوئی اور کار رک گئی۔اس نےہا رن دبایا۔تیسری آواز پرگیٹ کھل گیا۔
بادل ایک بار پھر بڑےزور سےگرجی۔ بارش میں اور شدت آگئی۔کار آگے کو سرکی مگر اس سے پہلے کہ کار گیٹ سےاندر داخل ہو تی ‘ بجلی زور سے چمکی۔ فانوس سے روشن ہوگئی۔
وہ چونک اٹھا۔
اس کی تیز نظریں گیٹ کے باہر بائیں ہاتھ بنے چھوٹے سے سائبان تلے چھائے اندھیرے میں جم گئیں۔
”کیا بات اےصاب! “ پٹھان چوکیدار نےبارش میں بھیگتےہوئےپوچھا۔
”خان۔۔۔“لیکن اس سےپہلےکہ وہ فقرہ پورا کرتا‘برق پھر کوندی۔وہ تیزی سےکار کا دروازہ کھول کر باہر کو لپکا۔اس دوران خان بھی گیٹ سےباہر نکل آیا۔
بارش اور تیز ہوا کی پرواہ کئےبغیردو تین لمبےلمبےڈگ بھر کر وہ اس اندھیرےکونےمیں پہنچ گیا‘جہاں دو بار برق نےاجالا کیا تھا۔
ایک سایہ تھا جو بیدِ مجنوں کی طرح لرز رہا تھا۔
”کون ہو تم؟“ اس نےجلدی سےپوچھا اورایک بار پھر اس کی نظریں چندھیا گئیں۔
”میں۔۔۔“ ایک کمزور سی نسوانی آواز ابھری ۔ پھراس سےپہلےکہ وہ اجنبی وجود زمین پر آرہتا‘ اس کےمضبوط اور گرم بازوؤں نےاسےسنبھال لیا۔
”خان۔“ اس نےپلٹ کر پکارا۔
”جی صاب۔ “قریب ہی سے آواز ابھری۔
”میں کمرےمیں جارہا ہوں ۔گاڑی گیراج میں بند کرکےوہیں چلے آؤ۔ جلدی۔“
”جی صاب۔ “وہ تعمیل حکم کےلئےجلدی سےگاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
اس نےاس نازک ، برف سےزیادہ سرد اور لہروں سےزیادہ نرم وجود کو باہوں میں بھر لیا‘جو اَب لکڑی کی مانند کھردرا اور پتھر کی مانند سخت ہوا جارہا تھا۔تیز تیز چلتا ہواوہ پورچ پار کرکےبر آمدےمیں پہنچا۔ پاؤں کی ٹھوکر سےدروازہ کھولااور مختصر سی راہداری کو طےکرکےہال میں چلا آیا۔ایک لمحےکو کچھ سوچا‘ پھرسیڑھیاں چڑھتا چلا گیا۔
ایک کمرہ چھوڑ کر دوسرےکمرےکےدروازےپر پہنچ کر اس نےپھر دائیں پاؤں سےکام لیا ۔اندر داخل ہوا اور بستر کی طرف بڑھ گیا۔
دھیرےسےاس نےاپنےبازوؤںمیں بھرےاس ریشمیں خزانےکو احتیاط سےسمیٹ کر بیڈ پر رکھ دیا‘پھراسےگرم لحاف میں چھپا دیا۔ شاید اس لئےکہ کوئی اور دیکھ نہ لی۔ایک لمحےکو اس کی نظریں اس سمٹےپڑےخزانےکےتر بتر چہرےپرجم گئیں‘جہاں سیاہ لانبی زلفیں کسی بادلوں میں چھپےچاندیا گھٹاؤں میں قید برق کا سماں پیش کررہی تھیں۔اسی وقت خان اندر داخل ہوا۔
”اوہ خان۔“ اس نےجلدی سےکہا۔کچھ سوچا پھر تیزی سےٹیلی فون کی طرف بڑھ گیا۔
ڈاکٹر کو فون کرکےوہ حکم کےمنتظر اور چور نظروں سےاس خوابیدہ حسن کو تکتےخان کی طرف متوجہ ہوا اور ہولےسےمسکرایا۔
”خان۔“
”جی صاب۔“ وہ گھبرا سا گیا۔
”تمام نوکر تو سوچکےہوں گی۔“
”جی صاب۔“ اس نےاپنا مخصوص جواب دہرایا۔
”ہوں ۔“وہ کچھ سوچنےلگا۔پھر کہا۔”تم نیچےچلےجاؤ ۔ اپنےڈاکٹر صاحب آرہےہیں۔ان کو لےکر اوپر چلے آنا۔“
”جی صاب!“ اور خان ایک نظر بستر پر ڈال کر دروازےکی طرف بڑھ گیا۔
اس نے آگےبڑھ کر سوئچ بورڈ پر ایک بٹن دبا دیا۔ایر کنڈیشنڈ سسٹم گہری نیند سےجاگ گیا۔پھر اس کی نادیدہ تپش نےدھیرےدھیرےکمرےکو گرم کرنا شروع کیا۔اس نےمطمئن انداز میں سرہلا کر بند کھڑکیوں کی جانب دیکھا اور کرسی گھسیٹ کر بسترکےقریب لے آیا۔ بیٹھتےہوئےوہ قدرےجھک گیا اور نظریں اس خاموش گلاب پر جما دیں جس کی دو پنکھڑیاں اپنی سرخی کھونےلگی تھیں۔ نیلاہٹ ابھری چلی آرہی تھی۔
وہ آہستہ سےلرزی تو بےچینی سےوہ کلائی پر بندھی رسٹ واچ پر نظر ڈال کر رہ گیا۔ رات کا ایک بج رہا تھا۔
اس کی بےتاب نظریں اس غنچہ دہن پر جم گئیں‘جس میں اب پھر کوئی حرکت نہیں تھی۔ آہستہ سےاٹھا۔ جھکا اور لحاف کو اچھی طرح اس پر لپیٹ کر سیدھا کھڑا ہوگیا۔اب وہ بےچینی سےٹہلنےلگا۔ اسی وقت ایسا محسوس ہوا جیسےکوئی تیزی سےسیڑھیاں چڑھتا چلا آرہا ہو۔
” آئیے آیئےانکل۔ “وہ کمرےمیں داخل ہوتےادھیڑ عمر مگر مضبوط جسم کےمالک ڈاکٹر ہاشمی کی طرف بڑھا۔ڈاکٹر ہاشمی نےرین کوٹ اتار کر اس سےمصافحہ کیا۔
”کیا بات تھی بیٹی۔ میں تو تمہارا فون سنتےہی۔۔۔“اور ان کی آواز حلق ہی میںاٹک گئی۔حیرت زدہ نظریں بستر پر پڑی جوان اور نیلی پڑتی لڑکی کےوجود پر ٹھہر گئیں۔وہ تیزی سےاس کی طرف بڑھی۔چند لمحوںبعدان کا تجربہ کارہاتھ لڑکی کےماتھےسےہٹا تو وہ کچھ مضطرب سےنظر آرہےتھی۔
”خان۔ ۔۔میرا بیگ ۔“ وہ بولےاور خان کےساتھ ہی وہ بھی ان کےقریب چلا آیا۔
بیگ کھلا اور ڈاکٹر اپنےفرض میں ڈوبتا چلا گیا۔وہ خاموشی سےڈاکٹر ہاشمی کی کوششوں کا جائزہ لیتا رہا۔کتنی ہی دیر گذر گئی اور تب ڈاکٹر ہاشمی ایک طویل سانس لےکر بستر کی پٹی سےاٹھ کھڑےہوئی۔
”انکل!“ وہ مضطربانہ انداز میں اتنا ہی کہہ سکا۔
”الحمدللہ ۔خطرہ ٹل چکا ہی۔ “ وہ آگےبڑھ کر کرسی پر بیٹھ گئی۔”خان۔ کچن سےدودھ لے آؤ۔“انہوں نےکہا اور خان کمرےسےنکل گیا۔”ہاں۔اب کہو۔ یہ سب کیا چکر ہی؟“ ڈاکٹر ہاشمی کےہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
”چکر۔۔۔؟“ وہ جھینپ گیا۔”چکر تو کوئی نہیں ہےانکل! میں پکچر دیکھ کر لوٹا تو یہ باہر گیٹ کےپاس کھڑی نظر آئی۔ میں کار سےنکل کر اس کےقریب پہنچامگرکچھ پوچھنےاور بتانےکی نوبت ہی نہ آئی اور یہ بےہوش ہوگئی۔ میں اسےاٹھا کر اندر لے آیا اور آپ کو فون کردیا۔ بس ‘یہ ہےساری بات۔“
”ہوں ۔ڈاکٹر ہاشمی کےہونٹ شرارت سےپھڑکی۔” بیٹے۔ لڑکی تھی ناں۔ اگر صنف کرخت ہوتی تو۔۔۔“
” آپ مجھےاچھی طرح جانتےہیں انکل۔“وہ مسکرا کر بولا اور ڈاکٹر ہاشمی ہنس دیی۔
”میں تو مذاق کررہا تھا۔ ہاں۔۔۔بیگم صاحبہ زمینوں سےنہیں لوٹیں ابھی؟“
”جی نہیں ۔ابھی کافی دن رکیں گی وہاں۔“
اسی وقت خان دودھ کا بھر ا جگ اور گلاس لئےاندر داخل ہوا۔”صاب۔ دودھ بہوت تا۔ہم گرم کر لائی۔ “وہ جگ میز پر رکھتےہوئےبولا۔
”یہ تو بہت اچھا کیاخان۔ “وہ دودھ گلاس میں انڈیلتا ہوا بولا۔
دودھ پی کر فارغ ہوگئےتو ڈاکٹر ہاشمی اٹھ کھڑےہوئی۔”اچھا بیٹی۔ میں چلتا ہوں۔بارش کا زور کم ہو رہا ہے۔کہیں پھر زور نہ پکڑلی۔“
”بہتر انکل۔ “وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔خان نےڈاکٹر کا بیگ تھام لیا۔
”صبح دس بجےسےپہلےہوش نہیں آئےگا۔ پریشان نہ ہونا۔ “وہ پھر مسکرا دیےاور وہ جھینپ کران کی ہدایات کو ذہن نشین کرنےلگا۔” نیند کےانجکشن کا اثر کم از کم نو گھنٹےرہےگا۔ کیپسول تپائی پر پڑےہیں۔ ہوش آنےپر ہر چار گھنٹےبعد گرم دودھ سےدو کیپسول دیتےرہنا۔“ ڈاکٹر ہاشمی رخصت ہوگئی۔
کمرہ خاصا گرم ہوچکا تھا۔نیلےہونٹ اب کچھ کچھ گلابی نظر آرہےتھی۔اس نےمطمئن انداز میں سر ہلایااور بستر کےقریب چلا آیا۔ سانس اب مناسب رفتار سےچل رہا تھا۔چہرہ پُرسکون تھا۔کتنی ہی دیر تک وہ اس محو استراحت حسنِ بےپرواہ کو تکتا رہا۔
”صاب۔“ خان کی آواز اسےبچھو کےڈنک ہی کی طرح لگی۔
وہ تیزی سےپلٹا۔ ”تم ابھی تک یہیں ہو۔“اس کےلہجےمیں کچھ اکتاہٹ تھی مگر خان بھی مجبور تھا۔ اسےنیند نےتنگ کررکھا تھا۔ وہ بلاوجہ اس کی محویت کو ختم کرنےکا قصور وار نہ ہوا تھا۔
”کوئی حکم صاب؟“ وہ ڈر سا گیا۔
”کچھ نہیں۔بس جاؤ۔اور دیکھو۔ اس کمرےمیں کوئی مت آئے۔ میںساتھ والےکمرےمیں آرام کروں گا۔ “
”جی صاب۔“وہ سلام کرکےدروازےکی طرف بڑھ گیا۔
چند لمحےوہ بستر پر پڑےمصور کےاس حسین خیال کوگل پاش نظروں سےدیکھتا رہا۔ پھر پلٹ کر دھیرےدھیرےچلتا ہوا کمرےسےباہر نکل گیا۔
سپیڈ کم ہوئی اور کار رک گئی۔اس نےہا رن دبایا۔تیسری آواز پرگیٹ کھل گیا۔
بادل ایک بار پھر بڑےزور سےگرجی۔ بارش میں اور شدت آگئی۔کار آگے کو سرکی مگر اس سے پہلے کہ کار گیٹ سےاندر داخل ہو تی ‘ بجلی زور سے چمکی۔ فانوس سے روشن ہوگئی۔
وہ چونک اٹھا۔
اس کی تیز نظریں گیٹ کے باہر بائیں ہاتھ بنے چھوٹے سے سائبان تلے چھائے اندھیرے میں جم گئیں۔
”کیا بات اےصاب! “ پٹھان چوکیدار نےبارش میں بھیگتےہوئےپوچھا۔
”خان۔۔۔“لیکن اس سےپہلےکہ وہ فقرہ پورا کرتا‘برق پھر کوندی۔وہ تیزی سےکار کا دروازہ کھول کر باہر کو لپکا۔اس دوران خان بھی گیٹ سےباہر نکل آیا۔
بارش اور تیز ہوا کی پرواہ کئےبغیردو تین لمبےلمبےڈگ بھر کر وہ اس اندھیرےکونےمیں پہنچ گیا‘جہاں دو بار برق نےاجالا کیا تھا۔
ایک سایہ تھا جو بیدِ مجنوں کی طرح لرز رہا تھا۔
”کون ہو تم؟“ اس نےجلدی سےپوچھا اورایک بار پھر اس کی نظریں چندھیا گئیں۔
”میں۔۔۔“ ایک کمزور سی نسوانی آواز ابھری ۔ پھراس سےپہلےکہ وہ اجنبی وجود زمین پر آرہتا‘ اس کےمضبوط اور گرم بازوؤں نےاسےسنبھال لیا۔
”خان۔“ اس نےپلٹ کر پکارا۔
”جی صاب۔ “قریب ہی سے آواز ابھری۔
”میں کمرےمیں جارہا ہوں ۔گاڑی گیراج میں بند کرکےوہیں چلے آؤ۔ جلدی۔“
”جی صاب۔ “وہ تعمیل حکم کےلئےجلدی سےگاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
اس نےاس نازک ، برف سےزیادہ سرد اور لہروں سےزیادہ نرم وجود کو باہوں میں بھر لیا‘جو اَب لکڑی کی مانند کھردرا اور پتھر کی مانند سخت ہوا جارہا تھا۔تیز تیز چلتا ہواوہ پورچ پار کرکےبر آمدےمیں پہنچا۔ پاؤں کی ٹھوکر سےدروازہ کھولااور مختصر سی راہداری کو طےکرکےہال میں چلا آیا۔ایک لمحےکو کچھ سوچا‘ پھرسیڑھیاں چڑھتا چلا گیا۔
ایک کمرہ چھوڑ کر دوسرےکمرےکےدروازےپر پہنچ کر اس نےپھر دائیں پاؤں سےکام لیا ۔اندر داخل ہوا اور بستر کی طرف بڑھ گیا۔
دھیرےسےاس نےاپنےبازوؤںمیں بھرےاس ریشمیں خزانےکو احتیاط سےسمیٹ کر بیڈ پر رکھ دیا‘پھراسےگرم لحاف میں چھپا دیا۔ شاید اس لئےکہ کوئی اور دیکھ نہ لی۔ایک لمحےکو اس کی نظریں اس سمٹےپڑےخزانےکےتر بتر چہرےپرجم گئیں‘جہاں سیاہ لانبی زلفیں کسی بادلوں میں چھپےچاندیا گھٹاؤں میں قید برق کا سماں پیش کررہی تھیں۔اسی وقت خان اندر داخل ہوا۔
”اوہ خان۔“ اس نےجلدی سےکہا۔کچھ سوچا پھر تیزی سےٹیلی فون کی طرف بڑھ گیا۔
ڈاکٹر کو فون کرکےوہ حکم کےمنتظر اور چور نظروں سےاس خوابیدہ حسن کو تکتےخان کی طرف متوجہ ہوا اور ہولےسےمسکرایا۔
”خان۔“
”جی صاب۔“ وہ گھبرا سا گیا۔
”تمام نوکر تو سوچکےہوں گی۔“
”جی صاب۔“ اس نےاپنا مخصوص جواب دہرایا۔
”ہوں ۔“وہ کچھ سوچنےلگا۔پھر کہا۔”تم نیچےچلےجاؤ ۔ اپنےڈاکٹر صاحب آرہےہیں۔ان کو لےکر اوپر چلے آنا۔“
”جی صاب!“ اور خان ایک نظر بستر پر ڈال کر دروازےکی طرف بڑھ گیا۔
اس نے آگےبڑھ کر سوئچ بورڈ پر ایک بٹن دبا دیا۔ایر کنڈیشنڈ سسٹم گہری نیند سےجاگ گیا۔پھر اس کی نادیدہ تپش نےدھیرےدھیرےکمرےکو گرم کرنا شروع کیا۔اس نےمطمئن انداز میں سرہلا کر بند کھڑکیوں کی جانب دیکھا اور کرسی گھسیٹ کر بسترکےقریب لے آیا۔ بیٹھتےہوئےوہ قدرےجھک گیا اور نظریں اس خاموش گلاب پر جما دیں جس کی دو پنکھڑیاں اپنی سرخی کھونےلگی تھیں۔ نیلاہٹ ابھری چلی آرہی تھی۔
وہ آہستہ سےلرزی تو بےچینی سےوہ کلائی پر بندھی رسٹ واچ پر نظر ڈال کر رہ گیا۔ رات کا ایک بج رہا تھا۔
اس کی بےتاب نظریں اس غنچہ دہن پر جم گئیں‘جس میں اب پھر کوئی حرکت نہیں تھی۔ آہستہ سےاٹھا۔ جھکا اور لحاف کو اچھی طرح اس پر لپیٹ کر سیدھا کھڑا ہوگیا۔اب وہ بےچینی سےٹہلنےلگا۔ اسی وقت ایسا محسوس ہوا جیسےکوئی تیزی سےسیڑھیاں چڑھتا چلا آرہا ہو۔
” آئیے آیئےانکل۔ “وہ کمرےمیں داخل ہوتےادھیڑ عمر مگر مضبوط جسم کےمالک ڈاکٹر ہاشمی کی طرف بڑھا۔ڈاکٹر ہاشمی نےرین کوٹ اتار کر اس سےمصافحہ کیا۔
”کیا بات تھی بیٹی۔ میں تو تمہارا فون سنتےہی۔۔۔“اور ان کی آواز حلق ہی میںاٹک گئی۔حیرت زدہ نظریں بستر پر پڑی جوان اور نیلی پڑتی لڑکی کےوجود پر ٹھہر گئیں۔وہ تیزی سےاس کی طرف بڑھی۔چند لمحوںبعدان کا تجربہ کارہاتھ لڑکی کےماتھےسےہٹا تو وہ کچھ مضطرب سےنظر آرہےتھی۔
”خان۔ ۔۔میرا بیگ ۔“ وہ بولےاور خان کےساتھ ہی وہ بھی ان کےقریب چلا آیا۔
بیگ کھلا اور ڈاکٹر اپنےفرض میں ڈوبتا چلا گیا۔وہ خاموشی سےڈاکٹر ہاشمی کی کوششوں کا جائزہ لیتا رہا۔کتنی ہی دیر گذر گئی اور تب ڈاکٹر ہاشمی ایک طویل سانس لےکر بستر کی پٹی سےاٹھ کھڑےہوئی۔
”انکل!“ وہ مضطربانہ انداز میں اتنا ہی کہہ سکا۔
”الحمدللہ ۔خطرہ ٹل چکا ہی۔ “ وہ آگےبڑھ کر کرسی پر بیٹھ گئی۔”خان۔ کچن سےدودھ لے آؤ۔“انہوں نےکہا اور خان کمرےسےنکل گیا۔”ہاں۔اب کہو۔ یہ سب کیا چکر ہی؟“ ڈاکٹر ہاشمی کےہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
”چکر۔۔۔؟“ وہ جھینپ گیا۔”چکر تو کوئی نہیں ہےانکل! میں پکچر دیکھ کر لوٹا تو یہ باہر گیٹ کےپاس کھڑی نظر آئی۔ میں کار سےنکل کر اس کےقریب پہنچامگرکچھ پوچھنےاور بتانےکی نوبت ہی نہ آئی اور یہ بےہوش ہوگئی۔ میں اسےاٹھا کر اندر لے آیا اور آپ کو فون کردیا۔ بس ‘یہ ہےساری بات۔“
”ہوں ۔ڈاکٹر ہاشمی کےہونٹ شرارت سےپھڑکی۔” بیٹے۔ لڑکی تھی ناں۔ اگر صنف کرخت ہوتی تو۔۔۔“
” آپ مجھےاچھی طرح جانتےہیں انکل۔“وہ مسکرا کر بولا اور ڈاکٹر ہاشمی ہنس دیی۔
”میں تو مذاق کررہا تھا۔ ہاں۔۔۔بیگم صاحبہ زمینوں سےنہیں لوٹیں ابھی؟“
”جی نہیں ۔ابھی کافی دن رکیں گی وہاں۔“
اسی وقت خان دودھ کا بھر ا جگ اور گلاس لئےاندر داخل ہوا۔”صاب۔ دودھ بہوت تا۔ہم گرم کر لائی۔ “وہ جگ میز پر رکھتےہوئےبولا۔
”یہ تو بہت اچھا کیاخان۔ “وہ دودھ گلاس میں انڈیلتا ہوا بولا۔
دودھ پی کر فارغ ہوگئےتو ڈاکٹر ہاشمی اٹھ کھڑےہوئی۔”اچھا بیٹی۔ میں چلتا ہوں۔بارش کا زور کم ہو رہا ہے۔کہیں پھر زور نہ پکڑلی۔“
”بہتر انکل۔ “وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔خان نےڈاکٹر کا بیگ تھام لیا۔
”صبح دس بجےسےپہلےہوش نہیں آئےگا۔ پریشان نہ ہونا۔ “وہ پھر مسکرا دیےاور وہ جھینپ کران کی ہدایات کو ذہن نشین کرنےلگا۔” نیند کےانجکشن کا اثر کم از کم نو گھنٹےرہےگا۔ کیپسول تپائی پر پڑےہیں۔ ہوش آنےپر ہر چار گھنٹےبعد گرم دودھ سےدو کیپسول دیتےرہنا۔“ ڈاکٹر ہاشمی رخصت ہوگئی۔
کمرہ خاصا گرم ہوچکا تھا۔نیلےہونٹ اب کچھ کچھ گلابی نظر آرہےتھی۔اس نےمطمئن انداز میں سر ہلایااور بستر کےقریب چلا آیا۔ سانس اب مناسب رفتار سےچل رہا تھا۔چہرہ پُرسکون تھا۔کتنی ہی دیر تک وہ اس محو استراحت حسنِ بےپرواہ کو تکتا رہا۔
”صاب۔“ خان کی آواز اسےبچھو کےڈنک ہی کی طرح لگی۔
وہ تیزی سےپلٹا۔ ”تم ابھی تک یہیں ہو۔“اس کےلہجےمیں کچھ اکتاہٹ تھی مگر خان بھی مجبور تھا۔ اسےنیند نےتنگ کررکھا تھا۔ وہ بلاوجہ اس کی محویت کو ختم کرنےکا قصور وار نہ ہوا تھا۔
”کوئی حکم صاب؟“ وہ ڈر سا گیا۔
”کچھ نہیں۔بس جاؤ۔اور دیکھو۔ اس کمرےمیں کوئی مت آئے۔ میںساتھ والےکمرےمیں آرام کروں گا۔ “
”جی صاب۔“وہ سلام کرکےدروازےکی طرف بڑھ گیا۔
چند لمحےوہ بستر پر پڑےمصور کےاس حسین خیال کوگل پاش نظروں سےدیکھتا رہا۔ پھر پلٹ کر دھیرےدھیرےچلتا ہوا کمرےسےباہر نکل گیا۔