عشق کرتا ہوں جان سے جاؤں ( غزل )

عظیم

محفلین



عشق کرتا ہوں جان سے جاؤں
اب میں اپنے گمان سے جاؤں

یہ زمیں پہلے ہی نہیں میری
اب تو میں آسمان سے جاؤں

کس لئے غیر کے جھکوں آگے
اپنی اس آن بان سے جاؤں

نام لیتا ہوں تیرا ہر دم مَیں
جا نہ پاؤں جو جان سے جاؤں

کیسے آداب آ گئے مجھ کو
صاف ستھری زبان سے جاؤں

ڈر کے بھاگوں بھی تو کہاں بھاگوں
جاؤں بھی کس مکان سے جاؤں

وہ پرندہ ہوں میں عظیم کہ جو
دور اپنی اڑان سے جاؤں

×××​
 
Top