عشق کے اب جو طلب گار نظر آتے ہیں

صابرہ امین

لائبریرین
محترم اساتذہ الف عین ، ظہیراحمدظہیر محمّد احسن سمیع :راحل: محمد خلیل الرحمٰن ، یاسر شاہ ، سید عاطف علی

السلام علیکم،
آپ سب کی خدمت میں ایک غزل حاضر ہے ۔ آپ سے اصلاح کی درخواست ہے۔

عشق کے اب جو طلب گار نظر آتے ہیں
سب کے سب حسن کے بیمار نظر آتے ہیں

جو محبت کے سزاوار نظر آتے ہیں
جانے کیوں سب کو گنہگار نظر آتے ہیں

ہم کو جنت کے وہ حق دار نظر آتے ہیں
جو بظاہر تمہیں میخوار نظر آتے ہیں

کل تلک چھانتے تھے عشق کے صحرا، وہ بھی
آج کل عشق سے بیزار نظر آتے ہیں

دوستی ہو چکی پامال کہ جگ میں اب تو
ہم کو ہر سمت اداکار نظر آتے ہیں

حق پرستی پہ جو قائم ہیں، زمانے بھر کو
راہ کے کانٹے یا دیوار نظر آتے ہیں

بخت سویا ہے تو ہم خواب کہاں تک دیکھیں
رات بھر اس لیے بیدار نظر آتے ہیں

ہے تو سینے میں ہمارے مگر اب اس دل کے
آپ ہی مالک و مختار نظر آتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
مطلع ایک یا دو ہی رکھو، جو تم کو خود پسند ہوں، میرے خیال میں تین کی ضرورت نہیں

کل تلک چھانتے تھے عشق کے صحرا، وہ بھی
آج کل عشق سے بیزار نظر آتے ہیں
.. چھانتے کی ے کے اسقاط کے ساتھ ت، تھ کی وجہ سے تنافر بھی در آیا ہے، پہلا مصرع بدل دو
دوستی ہو چکی پامال کہ جگ میں اب تو
ہم کو ہر سمت اداکار نظر آتے ہیں
.. جگ یہاں کچھ اجنبی لگ رہا ہے
.. کہ اب دنیا میں
یا اگر "تو" بھی لا سکو تو کچھ اور الفاظ کے ساتھ بدل دو

حق پرستی پہ جو قائم ہیں، زمانے بھر کو
راہ کے کانٹے یا دیوار نظر آتے ہیں
.. بیانیہ میں ایک "وہ" کی کمی ہے جو دوسرے مصرعے کا فاعل بنے، پھر کانٹے کی ے کا اسقاط جائز تو ہے لیکن ناگوار لگتا ہے۔ کچھ اور کہو
آخری دو اشعار درست بلکہ بہت خوب، داد قبول کرو
 

صابرہ امین

لائبریرین
استاد محترم الف عین تبدیلیاں ملاحظہ کیجیئے۔

مطلع ایک یا دو ہی رکھو، جو تم کو خود پسند ہوں، میرے خیال میں تین کی ضرورت نہیں
ایک مطلع کا یہ متبادل کیسا رہے گا؟

جو زمانے میں محبت کے سزاوار ہیں، وہ
جانے کیوں سب کو گنہگار نظر آتے ہیں

کل تلک چھانتے تھے عشق کے صحرا، وہ بھی
آج کل عشق سے بیزار نظر آتے ہیں

دشت چھانے تھے کبھی عشق کے جن لوگوں نے
وہ بھی اب عشق سے بیزار نظر آتے ہیں

دوستی ہو چکی پامال کہ جگ میں اب تو
ہم کو ہر سمت اداکار نظر آتے ہیں

دوستی ہو چکی پامال زمانے میں، اب
یا
دوستی ہو چکی پامال زمانے بھر میں
ہم کو ہر سمت اداکار نظر آتے ہیں
حق پرستی پہ جو قائم ہیں، زمانے بھر کو
راہ کے کانٹے یا دیوار نظر آتے ہیں


حق پرستی پہ جو قائم ہیں، وہ دنیا بھر کو
راہ کے کانٹے یا دیوار نظر آتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
مطلع کا متبادل اور دشت والا شعر درست ہو گئے لیکن دوستی والا اور آخری شعر اب بھی پسند نہیں، بس قابل قبول لگتے ہیں، کچھ مزید کوشش کی جائے
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
دوستی ہو چکی پامال زمانے میں، اب
یا
دوستی ہو چکی پامال زمانے بھر میں
ہم کو ہر سمت اداکار نظر آتے ہیں
دوستی بن گئی ہے ایک ڈرامہ، سو اب
ہم کو ہر سمت اداکار نظر آتے ہیں

حق پرستی پہ جو قائم ہیں، وہ دنیا بھر کو
راہ کے کانٹے یا دیوار نظر آتے ہیں
حق پرستی نے وہ دن ہم کو دکھائے ہیں کہ اب
خود کو بھی راہ کی دیوار نظر آتے ہیں
 
آخری تدوین:
محترم اساتذہ الف عین ، ظہیراحمدظہیر محمّد احسن سمیع :راحل: محمد خلیل الرحمٰن ، یاسر شاہ ، سید عاطف علی

عشق کے اب جو طلب گار نظر آتے ہیں
سب کے سب حسن کے بیمار نظر آتے ہیں

بخت سویا ہے تو ہم خواب کہاں تک دیکھیں
رات بھر اس لیے بیدار نظر آتے ہیں

ہے تو سینے میں ہمارے مگر اب اس دل کے
آپ ہی مالک و مختار نظر آتے ہیں
بہت خوب صابرہ صاحبہ!
اللہ تعالٰی آپ کو مزید ترقیاں عطا کرے!
 

صابرہ امین

لائبریرین

صابرہ امین

لائبریرین
استاد محترم ، آپ سے اصلاح کی درخواست ہے۔
مطلع کا متبادل اور دشت والا شعر درست ہو گئے لیکن دوستی والا اور آخری شعر اب بھی پسند نہیں، بس قابل قبول لگتے ہیں، کچھ مزید کوشش کی جائے


کئی چہرے لیے جب لوگ نظر آتے ہیں
ہم کو ہر سمت اداکار نظر آتے ہیں

یا
کئی چہرے لیے جب دوست نظر آتے ہیں
ہم کو ہر سمت اداکار نظر آتے ہیں

حق پرستی پہ جو قائم ہیں، وہ دنیا بھر کو
راہ کے کانٹے یا دیوار نظر آتے ہیں

حق پرستی پہ جو قائم ہیں ہر ایک شخص کو وہ
راہ کے کانٹے یا دیوار نظر آتے ہیں

ان کے علاوہ رؤوف بھائی کے بھی اشعار ملاحظہ کیجیے گا۔ شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
عبد الرؤوف کے بہتر ہیں، چاہو تو قبول کر لو
اداکار والے تمہارے شعر میں تو تقابل ردیفین کا سقم ہے
 
Top