عشق کے جو اصول ہوتے ہیں ٭ راحیلؔ فاروق

عشق کے جو اصول ہوتے ہیں
کرنے والوں کی بھول ہوتے ہیں

قرض مت دیجیے حسینوں کو
ہوتے ہوتے وصول ہوتے ہیں

جنھیں ہوتا ہے علم کا دعویٰ
وہ ظلوم و جہول ہوتے ہیں

کام کی چیز آدمیت ہے
آدمی سب فضول ہوتے ہیں

کیا خزاں کیا بہار کانٹوں کی
پھول کچھ بھی ہو پھول ہوتے ہیں

نہ ٹھہرنا نہ دیکھنا مڑ کر
لوگ گلیوں کی دھول ہوتے ہیں

مسجدوں میں جو رد ہوئے سجدے
میکدوں میں قبول ہوتے ہیں

درد ایمان کا تقاضا ہے
غم بھی اس کے رسول ہوتے ہیں

ہم تہی دست خوب ہیں راحیلؔ
کچھ نہ کھو کر ملول ہوتے ہیں

راحیلؔ فاروق
 
Top