عبد الرحمٰن
محفلین
عشق ہی تنہا نہیں شوریدہ سر میرے لئے
حسن بھی بیتاب ہے اور کس قدر میرے لئے
ہاں مبارک اب ہے معراج نظر میرے لئے
جس قدر وہ دور تر نزدیک تر میرے لئے
کھیل ہے بازیچۂ شام و سحر میرے لئے
دو گل بازی ہیں یہ شمس و قمر میرے لئے
وقف ہے صیاد کی اک اک نظر میرے لئے
ہاں مبارک یہ شکست بال و پر میرے لئے
گرم ہے ہنگامۂ شام و سحر میرے لئے
رات دن گردش میں ہیں شمس و قمر میرے لئے
میں ہوں وحشی آہ کس صحرائے آفت خیز کا
ہے گل ویرانہ بھی بیگانہ تر میرے لئے
اس مقام عشق میں ہوں مرحبا اے بے خودی
ذرہ ذرہ ہے جہاں گرم سفر میرے لئے
جذب ہو کر رہ گیا ہوں میں جمال دوست میں
عشق ہے تابندہ تر پائندہ تر میرے لئے
میں نہیں کہتا کہ میں ہوں تو ہو تیری خلوتیں
ہاں مگر سب سے جدا خاص اک نظر میرے لئے
اللہ اللہ میں بھی کیا نازک دماغ عشق ہوں
نکہت گل بھی ہے وجہ درد سر میرے لئے
پھر بھی آنکھیں ڈھونڈھتی ہیں اک سراپا ناز کو
میں نے مانا کچھ نہیں حد نظر میرے لئے
رہرو راہ طلب کو خضر کی حاجت نہیں
ذرہ ذرہ ہے چراغ رہگزر میرے لئے
اپنے دل میں جز ترے میں بھی سما سکتا نہیں
میرا ہر ہر سانس ہے زنجیر در میرے لئے
مجھ کو جنت ہی جو دنیا ہے تو یارب بخش دے
بس یہی دامان تر چشمان تر میرے لئے
ترک مے سے اور بھی میں تو شرابی بن گیا
روز آ جاتا ہے مینائے سحر میرے لئے
جس نے زاہد سے بھی کافر کے اڑا ڈالے ہیں ہوش
اس سے بھی کچھ اور ساقی تیز تر میرے لئے
وہ مرا ساغر بکف ہونا پشیمانی کے ساتھ
ابر رحمت کا وہ اٹھنا جھوم کر میرے لئے
کل شب ماہتاب میں اک بلبل آفت نوا
مرکز غم بن رہا تھا رات بھر میرے لئے
ناگہاں لب ہائے برگ گل سے یہ آئی ندا
نالے کرتا ہے عبث اے بے خبر میرے لئے
میں بھی ہوں اپنی جگہ خونیں جگر خونیں کفن
تو نہ اپنی جان کھو اے مشت پر میرے لئے
بس یہ سننا تھا کہ پائے گل پہ گر کر مر مٹا
بن گیا اک نقش عبرت عمر بھر میرے لئے
زندگی اک تہمت بے جا ہے میری ذات پر
موت اک الزام ناجائز جگرؔ میرے لئے
میں تو ہر حالت میں خوش ہوں لیکن اس کا کیا علاج
ڈبڈبا آتی ہیں وہ آنکھیں جگرؔ میرے لئے
حسن بھی بیتاب ہے اور کس قدر میرے لئے
ہاں مبارک اب ہے معراج نظر میرے لئے
جس قدر وہ دور تر نزدیک تر میرے لئے
کھیل ہے بازیچۂ شام و سحر میرے لئے
دو گل بازی ہیں یہ شمس و قمر میرے لئے
وقف ہے صیاد کی اک اک نظر میرے لئے
ہاں مبارک یہ شکست بال و پر میرے لئے
گرم ہے ہنگامۂ شام و سحر میرے لئے
رات دن گردش میں ہیں شمس و قمر میرے لئے
میں ہوں وحشی آہ کس صحرائے آفت خیز کا
ہے گل ویرانہ بھی بیگانہ تر میرے لئے
اس مقام عشق میں ہوں مرحبا اے بے خودی
ذرہ ذرہ ہے جہاں گرم سفر میرے لئے
جذب ہو کر رہ گیا ہوں میں جمال دوست میں
عشق ہے تابندہ تر پائندہ تر میرے لئے
میں نہیں کہتا کہ میں ہوں تو ہو تیری خلوتیں
ہاں مگر سب سے جدا خاص اک نظر میرے لئے
اللہ اللہ میں بھی کیا نازک دماغ عشق ہوں
نکہت گل بھی ہے وجہ درد سر میرے لئے
پھر بھی آنکھیں ڈھونڈھتی ہیں اک سراپا ناز کو
میں نے مانا کچھ نہیں حد نظر میرے لئے
رہرو راہ طلب کو خضر کی حاجت نہیں
ذرہ ذرہ ہے چراغ رہگزر میرے لئے
اپنے دل میں جز ترے میں بھی سما سکتا نہیں
میرا ہر ہر سانس ہے زنجیر در میرے لئے
مجھ کو جنت ہی جو دنیا ہے تو یارب بخش دے
بس یہی دامان تر چشمان تر میرے لئے
ترک مے سے اور بھی میں تو شرابی بن گیا
روز آ جاتا ہے مینائے سحر میرے لئے
جس نے زاہد سے بھی کافر کے اڑا ڈالے ہیں ہوش
اس سے بھی کچھ اور ساقی تیز تر میرے لئے
وہ مرا ساغر بکف ہونا پشیمانی کے ساتھ
ابر رحمت کا وہ اٹھنا جھوم کر میرے لئے
کل شب ماہتاب میں اک بلبل آفت نوا
مرکز غم بن رہا تھا رات بھر میرے لئے
ناگہاں لب ہائے برگ گل سے یہ آئی ندا
نالے کرتا ہے عبث اے بے خبر میرے لئے
میں بھی ہوں اپنی جگہ خونیں جگر خونیں کفن
تو نہ اپنی جان کھو اے مشت پر میرے لئے
بس یہ سننا تھا کہ پائے گل پہ گر کر مر مٹا
بن گیا اک نقش عبرت عمر بھر میرے لئے
زندگی اک تہمت بے جا ہے میری ذات پر
موت اک الزام ناجائز جگرؔ میرے لئے
میں تو ہر حالت میں خوش ہوں لیکن اس کا کیا علاج
ڈبڈبا آتی ہیں وہ آنکھیں جگرؔ میرے لئے