خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا ، جو رہی سو بے خبری رہی
وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخہء عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی
کیا خاک آتسِ عشق نے دلِ بے نوائے سراج کو
نہ خطر رہا، نہ حذر رہا، جو رہی سو بے خطری رہی
سراج اورنگ آبادی