کاشفی
محفلین
غزل
(اصغر حُسین اصغر گونڈوی)
عشوؤں کی ہے نہ اس نگہ فتنہ زا کی ہے
ساری خطا مرے دلِ شورش ادا کی ہے
مستانہ کررہا ہوں رہِ عاشقی کو طے
کچھ ابتداء کی ہے نہ خبر انتہا کی ہے
کھِلتے ہی پھول باغ میں پژمردہ ہو چلے
جنبشِ رگ بہار میں موجِ فنا کی ہے
ہم خستگانِ راہ کو راحت کہاں نصیب
آواز کاں میں ابھی بانگِ درا کی ہے
ڈوبا ہوا سکوت میں ہے جوشِ آرزو
اب تو یہی زبان مرے مدّعا کی ہے
لطفِ نہانِ یار کا مشکل ہے امتیاز
رنگت چڑھی ہوئی ستمِ برملا کی ہے