عطاء الحق قاسمی کی ”یہ شادی نہیں ہوسکتی“!

یوسف-2

محفلین
06_10.gif

حوالہ: جنگ 27 دسمبر 2012 ء
 

یوسف-2

محفلین
شیخ الاسلام کی سادگی
بُرا ہو ان آلات کا، خیالات کا اور احساسات کا جو اک شخص کی معصومیت کو جانچ نہیں سکتے اور جانے کہاں کہاں کے گڑے مردے اکھاڑ کے شیخ الاسلام کی مرصع سادگی مجروح کرنے پر تل گئے ہیں۔ حالانکہ شیخ الاسلام جیسے سادہ منش !اللہ اللہ!!
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
خوش قسمت ہیں اس عہد کے عوام اور لکھنے بولنے والے کہ انھیں سادگی سمجھنے اور سمجھانے کو بطور مثال شیخ الاسلام میسر ہیں۔ورنہ اک میر تھا کہ جانے کن سے ملتا رہااورکہتا پھرا ؂
کوئی سادہ ہی تجھے سادہ کہے
مجھے تو لگے ہے تو عیار سا
مجھے آپ کے بھٹک جانے کا خطرہ ہے یعنی آپ خوش گفتاری، سلیقہ شعاری اور سادہ اطواری کے بجائے ممدوح محترم کی خوش لباسی اور کڑ اکے کے کرو فر کو لے بیٹھیں گے ، یعنی آپکے مہنگے اور جدیدتراش کے سوٹ ، وہ آپکی مسکراہٹوں سے جھلملاتے لاکھوں کے ہورڈنگز،وہ تیس تیس گاڑیوں کے جلو میں آپ کی بلٹ پروف آمد، وہ خطرناک عوام سے دور سیکیورٹی کیبن میں مقیدآپ کا خطاب ،ارے چھوڑئیے بھی ،یہ باطنی باتیں ہیں جنھیں ہم تم ظاہر پرست کیا سمجھیں،ارے وہ تو عہدِغالب کے وضعدار ہیں جوہم تم کی آزمائش کے لیے ،بہروپ بھرے پھرتے ہیں ۔
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
اتنے فرق کے ساتھ کہ آپ نے فقیروں کا نہیں امیروں کا بھیس بھرا ہے ۔اللہ معاف فرمائے ، شروع شروع میں یہ خاکسار بھی علامہ صاحب (کہ تب آپ ابھی شیخ الاسلام نہ ہوئے تھے )کی سادگی بارے کوتاہ فہمی کا شکار تھا، تب آپ کے خوابوں کی بڑی شہر ت تھی ۔ ہر دوسرے خواب میں آپ کا رسول اللہؐ سے مکالمہ ہوتا ،سو ہم ایسے گنہگار اس قائم مقام صحابی سے خوفزدہ رہتے۔پھرایک کتاب ہاتھ لگی ، نام توجس کا سراسر گستاخانہ تھا،یعنی آپ کے نامِ نامی کے ساتھ ’’متنازعہ ترین‘‘ کی پخ لگا ئی گئی تھی،افسوس ہو اکہ جب ’متنازع ‘لگانے سے بات بن سکتی تھی تو ساتھ ’’ترین‘‘ کے اضافے کی کیا ضرور ت تھی؟ یہ کتاب نہ تھی ،آپ پر پورا انسائیکلو پیڈیا تھا ، لکھنے والوں میں ایسے ایسے نام کہ ’معتقد‘ ہوتے ہی بنی، پھرپتا چلا کسی عاقبت نا اندیش نے آپ پر قاتلانہ حملہ کر دیا ، ہائیکورٹ میں معاملہ پہنچا مگر کہاں علامہ صاحب کا مقام و مرتبہ کہ جنھوں نے عالم خواب میں رسول اللہ سے اپنا ادارہ بنانے ، سیاست میں حصہ لینے کی اجازت لی اور خواب ہی میں امام ابوحنیفہؒ کے حضور زانوئے تلمذبھی تہ کئے اورکہاں انگریز کا بنایا یہ ہائیکورٹ کا بے دین قانون، سو نتیجہ یہ نکلا کہ ہائیکورٹ کے فاضل جج نے اس حملے کو خود ساختہ اورآپ کے خون کو بکرے کا قرار دینے کے ساتھ ساتھ کچھ ایسا بھی کہا جونہ سادہ تھا اور نہ ہم ایسے ارادت مندوں کے سہنے کی چیز،آپ مگر با حوصلہ تھے سہہ گئے ۔خیر لوگ تواعتراض کرتے ہی رہتے ہیں جیسے ظاہر بین آپ کی ہزاروں کتابوں کو عمر کے لمحوں سے ضرب تقیسم کرکے دانتوں میں انگلیاں دبائے پھرتے ہیں، ان لوگوں کو اس برکت کا کیا علم جو ایسی وسیع النظر اور کثیر الوسائل شخصیت کو از خود میسرآنے لگتی ہے۔ وہ کیا جانیں کہ اس عہدِ جدید میں جب لوگ اپنی خوابگاہوں میں دبیز فوم کے گدے بچھائے کھجور کی مسنون چٹائی بھول چکے ہیں، آپ نے مولٹی فوم کے گدے پراتباع رسول میں کھجورکی چٹائی بھی بچھا رکھی ہے ۔ آپ اس بلا کے میزبان ہیں کہ رمضان میں انٹرویو دیتے صحافیوں سے پوچھنے لگے، ٹھندا لیں گے یا گرم؟ روزے دار صحافیوں نے اخبار میں چھاپ دیاکہ کیسے علامہ ہیں جنھیں رمضان کا بھی پتانہیں ، ارے بھائی وہ خاطرِ مہمان سے نمٹیں تو رمضان تک پہنچیں۔ایک بار آپ نے فرمایا رسول اللہ ؐ نے مجھے بتادیا ہے کہ میری عمر تریسٹھ برس ہوگی، اس کے فورا بعد آپ نے سکیورٹی گارڈ زرکھ لئے مبادا کوئی حملہ آور آکر فرمانِ رسول جھٹلا جائے۔
مجھے آپ کا ایک انٹرویوپڑھنے کا شرف ملا ، پتا چلا کہ آپ کے والدِ گرامی اردو میں غالب کے پائے کے اور فارسی میں حافظ شیرازیؒ کے درجے کے شاعر تھے مگر افسوس ان کا ایک بھی مصرع کسی انسان تک نہ پہنچ سکا ۔کاش آپ بطور نمونہ ایک آدھ شعر ہی محفوظ کر لیتے تو مثال دینے ہی کے کام آجاتا۔ علامہ صاحب کے بارے پڑھا کہ ڈپو کے دنوں میں پروفیسروں کے ہاں چینی کی تقسیم آپ کے سپر د تھی، آپ کی دیانت وغربت کا عالم یہ تھا کہ گھرمیں چینی کا دانہ تک نہ ہوتا تھااورمجبورا آپکو سیبوں کے مربے سے شیرہ نکال کے چینی کی جگہ برتنا پڑتا۔آہ آہ! کوئی ظاہر دار پوچھ سکتاہے کہ جو غربت آپ کو پاؤ بھرچینی خریدنے نہیں دیتی اس سے آپ کئی گنا مہنگا سیبوں کا مربہ کیسے خرید لیتے تھے؟ اور وہ بھی اتنا کہ جس کا شیرہ آپ کی جملہ چینی کی تلافی کر جاتا ہے؟مگر شکر ہم محب ہیں طاہر بین نہیں۔پچھلے دنوں آپ نے کینیڈا میں کسی کینیڈین ضرورت کے تحت ایک انٹرویو دیا،اور اہانتِ رسول کے سلسلے میں غیر مسلموں کو انگریزی میں سمجھایا ،کہ یہ جواسلام میں شاتمِ رسول کی سزا ہے ،یہ صرف مسلمانوں کیلئے ہے،غیر مسلموں پہ اس کا نفاذ نہیں ہوتا۔ پھر یہ سوچ کر کہ کہیں اس سے مسلمانوں کا دل نہ دکھے اردو انٹرویو میں وضاحت فرما دی کہ ’’ میرا مطلب تھا کوئی بھی ہو سب پہ اس کا اطلاق ہوتا ہے،سوشل میڈیا پہ یہ بات ہم ایسے معتقدوں تک تو کب کی پہنچ ہی چکی تھی ،بھلا ہو ایک نجی چینل کا جس نے افادۂ عام کے لئے اسے نشر بھی کر دیا۔صحافیوں کو اللہ ہدایت دے اگربھلادورانِ تقریرسادگی سے لاکھ کی جگہ بار بار آپ کے منہ سے ملین نکلتا رہا تو یہ زبانِ غیر کا قصور تھا، ہم ایسے معتقدوں کو بتانے اور رنج پہنچانے کی کیا ضرورت تھی؟ ان لوگوں نے تو آپ کے نعرے تک کو نہیں بخشا، یہ تو آپ کی سادگی ہے کہ آپ سیاست کے بغیر ریاست بچانے نکلے ہیں ،چلئے نکلے ہیں تو اس کا یہ جواب کہاں سے ہو گیاکہ سیاست وریاست کو چھو ڑ و اب تم اپنا ایمان بچاؤ، اللہ بچائے لوگوں سے جو بات کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں دراصل یہاں بھی اصل بات اوپری سطح پر نہیں، کسی اندرونی تہ میں ہے وگرنہ شیخ الاسلام کے سوا کون جانتا ہے کہ سیاستدانوں کے کر توت اور گھات میں رہنے والوں کے جھوٹ نے لفظِ سیاست کو کتنا ہی بدنام کیوں نہ کر دیا ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ اس کے باوجود سیاست انبیاء کی سنت ہے، بخاری سمیت حدیث کی متعدد معتبر کتابوں میں موجودہے کہ بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کیا کرتے تھے ، جب ایک نبی چل دیتاتو دوسرا اس کی جگہ سنبھال لیتا ، قصہ کوتاہ آپ کے معاملات کوظاہری نہیں باطنی یعنی خفیہ کے نکتۂ نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔کو تاہ بینوں سے تو ہمیں شکوہ تھا ہی مگر یہاں ایک معتقد انہ گزار ش جناب شیخ الاسلام سے بھی کہ آپ نے ناحق اتنا روپیہ اور وقت اس مادی دنیا پہ صرف کر دیا مثلاً ایک اخبار کے مطابق پندرہ کروڑ تو صرف میڈیا کے لیے سخاوت ہوئی۔ جلسے کے ایک دن کیلئے ایک لاکھ صرف ایک دربار کے واش روم کے ٹھیکیدار کو دینا پڑے۔یعنی ہم عقل کے اندھوں کو وہ بتانے کے لیے جو بدقسمتی سے ہم پہلے ہی جانتے تھے، اب اگر یہی کسی غریب آبادی کی بیواؤںیا یتیم بچیوں کو ،سردی سے ٹھٹھرتے مفلوک الحالوں کو، سماج کے محتاجوں کو، جرمِ غریبی کے باعث شادی کو ترستی بیٹیوں کو، تنور پر روٹیاں لگاتے طالبعلموں کو،بوند بوند کو ترستے صحراکے باسیوں کو دے دیتے تو دنیا یوں سنورتی کہ میڈیا یوں ہاتھ دھو کے پیچھے نہ پڑتا اور نیت کے مطابق آخرت میں بھی کچھ مل ہی جاتا ، مگر اللہ رے آپ کی سادگی اور سادہ دلی اور ہم امید کے مارے عوام ؟
میر کیا سادہ ہیں ، بیمار ہوئے جس کے سبب
اس عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
(حافظ یوسف شیراز کا کالم۔ نئی بات ۔ 28 دسمبر 2012)
 

یوسف-2

محفلین
مسرور اعظم فرخ، نئی بات 28 دسمبر 2012 ء
کسی کی قابلیت وغیرہ ایسی چیز نہیں ہے جو حاسدین کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت ہو جائے۔ اس لیے حاسدین کڑھتے رہتے ہیں اور قابل و عالم فاضل لوگوں پر بے جا تنقید کرتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ’’شیخ الاسلام‘‘ وغیرہ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے پاکستان آئے ہیں اور یہ کہ وہ دراصل الیکشن ملتوی کروانا چاہتے ہیں تا کہ 2014ء میں امریکہ اور نیٹو فورسز کو افغانستان سے نکلنے کا جب مرحلہ در پیش ہو تو پاکستان میں موجودہ حکومتی سیٹ اَپ ہی کارفرما ہو جس میں کچھ مزید ’’اہل عناصر‘‘ کو شامل کر لیا گیا ہو اور اس طرح جس حکومتی سیٹ اپ نے ملک کو اس حال میں پہنچا دیا کہ ’’شیخ الاسلام‘‘ کو ’’ریاست بچاؤ‘‘ کے نعرے کے ساتھ ہنگامی بنیادوں پر ملک میں واپس آنا پڑا، اسی حکومتی سیٹ اَپ کے ہاتھوں جب ریاست مزید برباد ہو جائے تو اسے مزید بچانے کی ضرورت پیش آئے تو شیخ الاسلام اپنا مزید کردار ادا کر سکیں۔ شیخ الاسلام کے جرأت مندانہ اعلانات و اقدامات میں یہ کیڑے بھی دریافت کر لیے گئے ہیں کہ ایم کیو ایم جو پہلے ہی سے نیشنل اور انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کا حصہ چلی آ رہی ہے ، کو بھی شیخ الاسلام کے ساتھ اس ایجنڈے میں شامل کیا گیا ہے کیونکہ ایم کیو ایم کے حوالے سے اس کے کردار کی اس اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی واپسی کے وقت کراچی کی بندرگاہ کا حکومتی پارٹی کی حیثیت سے ایم کیو ایم کے پاس ہونا ضروری ہے۔ یہ ہے وہ انٹرنیشنل سیناریو جس کی وسعتوں میں علامہ ،ڈاکٹر، شیخ الاسلام (اور جو کچھ بھی مستقبل میں وہ مزید بن سکیں) کے کردار کو رکھ کر تانے بانے ملانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
بھئی تف ہے! کس قدر دور دور کی کوڑیاں لائی جا رہی ہیں۔ خواہ مخواہ میں بات کا بتنگڑ بنا دیا۔ دراصل ناقدین میں بات کو سمجھنے کی صلاحیت ہی موجود نہیں ہے۔ وہ کیا ہے کہ علامہ صاحب کی شخصیت کو ایک خاص زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہے اور یہ زاویہ دریافت کرنا ہر آدمی کے بس کی باتنہیں ہے (جس پر ناکام رہنے والوں کو خود شرم آنی چاہیے)۔
جب یہ زاویہ کوئی محنتی اور مخلص محقق دریافت کر لیتا ہے تو شیخ الاسلام کی شخصیت کے تمام گوشے سامنے آ جاتے ہیں۔ اور وہ یہ جان لیتا ہے کہ شیخ الاسلام کے کس وقت ایک بات کہنے کے کیا معنی ہیں اور اگر کسی دوسرے وقت میں اسی بات کے کوئی مختلف معنی ہوں تو وہ کیوں ہیں۔ یہ بڑی باریک بینی سے سمجھنے والا نازک معاملہ ہے۔ جس کے لیے بچپن سے لے کر شیخ الاسلام ہونے تک کے ان کے سفر کے نازک مراحل کو پہلے سمجھنا ضروری ہے۔
وہ دراصل شروع ہی سے ایک (Selfmade) سیلف میڈ (براہ مہربانی انگریزی کے اس لفظ کا ترجمہ ’’خود ساختہ‘‘ نہ کیا جائے اور کمپوزر سے گزارش ہے کہ جہاں ہم نے Selfmade کا انگریزی لفظ لکھا ہے اس کے آخری حرف ’’e‘‘کے موجود ہونے کی اچھی طرح تسلی کرلے) انسان چلے آرہے ہیں۔ حضرت صاحب بچپن ہی سے ’’علامہ‘‘ تھے لیکن بوجوہ انہوں نے اس کا اعلان جواں سالی میں داخل ہونے کے بھی کچھ عرصہ بعد کیا۔ خود کو علامہ بنانا اور اس کا اعلان کرنا خالصتاً ان کی ذاتی محنت کا نتیجہ ہے پھر محنت اور کوششوں کے اس سلسلے کو انہوں نے مسلسل زندہ رکھا۔ یہاں تک کہ ’’ڈاکٹر‘‘ ہونے کے مقام پر فائز ہو کر دینی طبقے کی ایک نئی ضرورت کو پور ا کیا وگرنہ اس طبقے کے اکابرین ابھی تک ’’مولانا‘‘ بنے رہنے پر ہی اکتفا کیے بیٹھے تھے۔ (یاد رہے کہ حضرت صاحب نے خود کو کبھی’’مولانا‘‘ کہلوانا پسند نہیں کیا) ۔ پھر شیخ الاسلام بننے کے بعد انہوں نے قدامت اور جدت کو ایک حسین امتزاج کے ساتھ یکجا کر دیا۔ ڈاکٹر کے بعد شیخ الاسلام ہونا مستقبل میں ایک ایسی ضرورت کو پورا کرتا ہے جس کے بعد اہل اسلام اور اہل کفر دونوں آپ کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ اہل کفر کو اپنی اصلاح کے لئے ایک ایسے ڈاکٹر کی ضرورت ہو سکتی ہے جواپنے اہل دین لوگوں میں شیخ الاسلام بھی ہو۔اوراب کی با ریہی ہوا کہ اہل کفر کو ان کی صلاحیت اور قابلیت کی ضرورت پڑگئی۔ لیکن نقادوں کو تکلیف ہے کہ وہ شیخ الاسلام کیسے بن گئے۔ عالم اسلام کے دیگر ممالک میں تو کوئی ان کو جانتا تک نہیں ۔ بھئی شرم کرو! وہ شیخ الاسلام بن چکے ہوں گے تو عالم اسلام انہیں جان پائے گا!
اور اب تک تو عالم اسلام کو پتہ چل ہی گیا ہو گا کہ یہاں پاکستان کے ایک شیخ الاسلام ہیں جو کہ اب شہری کینیڈا کے ہیں۔ اہل مغرب الگ خوش ہے کہ عالم اسلام کے ایک شیخ الاسلام ہمارے ہاں اب مغرب میں رہتے ہیں اور اس طرح سے کفر اور اسلام کو ایک دوسرے کے قریب آنے کے ایسے مواقع میسر آجائیں گے۔ جس کے نتیجے میں ہو سکتا ہے کہ پورا کفر ہی حلقہ بگوش اسلام ہو جائے۔ کیا کہنے ہیں! لوگ بات کو سمجھ کر ہی نہیں دیتے۔
اس پورے پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب نقادوں کے اس الزام کا جائزہ لیجئے کہ شیخ الاسلام دراصل انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے کا حصہ بن کر پاکستان بچانے آئے ہیں۔ پہلی بات تویہی توجہ طلب ہے کہ ہر انسان نے اپنے برے وقت کے لئے کچھ نہ کچھ بچا رکھا ہوتا ہے لیکن شیخ الاسلام نے اپنے برے وقت کے لئے کچھ بچانے کے بجائے پاکستان کے برے وقت کے لئے خود کو بچا کر رکھا ہواہے۔
اب ذرا دیکھئے کہ ہو ا دراصل کیا ہے۔۔۔؟ ہوا یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے حواریوں کو جنگ میں ناکامی کے بعد افغانستان سے واپس نکلنا تھا۔ا ور وہ خوفزدہ تھا کہ اس کے او ر اس کے حواریوں کی واپسی کا سفر انتہائی غیر محفوظ ہوگا۔اسے عالم اسلام میں ایک ایسی شخصیت کی ضرورت تھی جس میں قابلیت ، اہلیت، دانائی، حکمت عملی، دوراندیشی اور وسعت نظری جیسی تمام صلاحیتیں یکجا ہو ں تاکہ وہ اپنی ان صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر افغانستان سے اس کے نکلنے کا انتظام کر سکے۔ اس کی نظر انتخاب کینیڈا کے ایک شہری شیخ الاسلام پر پڑی جنہوں نے بُرے وقت میں پاکستان کے کام آنے کے لئے خود کو ابھی تک پاکستانی بھی بنے رہنے دیا تھا۔ بس پھر کیا تھا! امریکہ حضرت کے پاؤں پڑا۔ حضرت کو ترس آگیا اور انہوں نے اسلام کے عفو، درگزر اور دشمن پر احسان کرنے جیسے شعائر کو بروئے کار لا کر عزم کیا کہ وہ دشمن کو احسان کر کے شرمندہ کریں گے۔ انہیں ویسے بھی پاکستانی قوم سے گلہ تھا کہ انہوں نے کبھی ان کی اس طرح قدرہی نہیں کی جس طرح کرنی چاہیے تھی۔
مشرف کے دور اقتدار میں انہوں نے اسلام کی خدمت کی خاطر ڈکٹیٹر کا ساتھ دیا تا کہ کسی طرح ملک میں اسلام نافذ ہو جائے اگرچہ وہ قومی غیرت وحمیت سے عاری کسی جرنیل کے ہاتھوں ہی سے ہو۔ ویسے بھی اس جرنیل نے اندر خانے حضرت سے وعدہ کیا تھا کہ انہیں وزیر اعظم بنا دیا جائے گا۔ پھر وزارت عظمیٰ میں کچھ کمی کی گئی تو ان کے لئے ڈپٹی وزیر اعظم کے عہدے کا بھی وعدہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا چلو کوئی بات نہیں ایک مرتبہ کچھ نہ کچھ مزید بننے کا موقع مل جائے تو وہ ملک میں اچانک اسلام لے آئیں گے۔ افسوس کہ ان کے پاس اتنے امیدوار ہی دستیاب نہ ہو سکے کہ جن کے جیتنے کی امید پر اسلامی پارلیمنٹ اسلام نافذ کرنے کا ذریعہ بن سکتی۔ اس بے قدری قوم نے ان کے کسی ایک امیدوار کو بھی نہ جتوایا بلکہ وہ اپنی ایک ذاتی نشست بھی مشرف کے رعایتی نمبروں کے ذریعے حاصل کر سکے۔ انہوں نے اپنی ایک نشست کے ذریعے بھی بہت زور لگایا لیکن وہ کچھ نہ کر پائے او رجلال میں آکر مستعفی ہوئے اور احتجاجاً کینیڈا جا بسے۔ اب جبکہ امریکہ کو ان کی اس قابلیت کی قدر ہوئی جس کی قدر ان کی اپنی پوری قوم نہ کر سکی تو وہ امریکہ کو انکار نہ کر سکے۔ انہوں نے کہا چلو کوئی بات نہیں اسلام میں اس کی اجازت ہے کہ دشمن پر احسان کیا جائے۔ حاسدین کو تکلیف ہو رہی ہے کہ انہوں نے اڑھائی ارب روپے کی رقم کی پہلی قسط دشمن سے اس مہم میں اترنے کے لئے حاصل کی۔ اور لاہور کے جلسے پر تقریباً 60کروڑ روپے خرچ کئے۔اوئے شرم کر و ناقدو! اوّل تو اس کا تمہارے پاس ثبوت ہی کیا ہے۔ تم نے سارے خرچے اور تخمینے اپنے پاس ہی سے لگا لیے۔حالانکہ یہ رقم اوّل تو ان کی جماعت کے غریب کا رکنوں نے اپنے زیورات اور مکان تک بیچ کر اکٹھی کی تھی (جیسا کہ شیخ الاسلام نے خود فرمایا) ۔ یہ جو پچھلے دنوں مختلف شہروں میں سوناروں کی دکان پر زیورات بیچنے والوں کی لمبی لمبی لائنیں دیکھنے میں آئیں یہ انہی غریب کارکنوں کی قطاریں تھیں جو جلسے میں شمولیت کی خاطر اپنے زیورات بیچنے کے لئے آئے تھے۔ حالانکہ جلسے میں شمولیت کے لئے گھر کی بالٹیاں اور دیگچیوں جیسے برتنوں کی فروخت بھی کافی ہو سکتی تھی لیکن جذباتی کارکنوں نے اس کے باوجود زیورات ہی بیچے۔ اور مزید جذباتی کارکنوں نے تو گھر بیچ ڈالے حالانکہ وہ چارپائیاں ہی بیچ دیتے تو جلسے سے واپس آکر زمین پر تو اپنی چھت کے نیچے سوسکتے تھے۔ لیکن انہوں نے شیخ الاسلام کی خاطر بے گھر ہونے ہی کو ترجیح دی۔ اور ابھی جب سخت سردی میں اسلام آباد کا گھیراؤ کرنے کیلئے لانگ مارچ کی کال دی جائے گی تو حضرت صاحب نے کارکنوں کو پہلے ہی ہدایت کر دی ہے کہ جنہوں نے ابھی تک زیورات ومکانات نہیں بیچے ہیں وہ لانگ مارچ کی کال پر بیچ دیں۔ (یہ ہوتی ہے لیڈر شپ!) اچھاذرا ٹھہرئیے! فرض کیجئے کہ اس مہم میں اترنے کے لئے بیرونی قوتوں نے حضرت کو اڑھائی ارب کی پہلی قسط دی بھی تو ایسے موسموں میں جب ملکی بجٹ خسارے میں ہے اور کرپٹ سیاستدان دھڑادھڑ کرپشن کی کمائی باہر منتقل کر رہے ہیں تو ’’زرمبادلہ‘‘ کی یہ رقم ملک میں لائی گئی ہے۔ یہاں سے نکالی تو نہیں گئی
 

نایاب

لائبریرین
روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زرد صحافت کی بہترین مثالیں ہیں مندرجہ بالا کالم ۔۔۔
 

سویدا

محفلین
علامہ قادری سے متعلق عطاء الحق کے گذشتہ کالم کی طرح یہ بھی ایک بہترین مثالی اور لاجواب کالم ہے
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
اسلوب تو اعلیٰ ہے، عطاء الحق قاسمی کی سوچ سے اختلاف ممکن ہے۔
 
نذیر ناجی کو پیپلز پارٹی کے لیڈرز میں، اور عطا الحق قاسمی کو نون لیگ کے لیڈرزمیں کبھی کوئی خامی، کوئی کجی، کوئی کمزوری کبھی نظر نہیں آئی ۔۔۔لیکن جہاں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کا معاملہ آجائے، یہ دونوں مفکر (کاتبین سے گذارش ہے کہ جہاں ہم نے لفظ مفکر لکھا ہےاس لفظ کا پہلا حرف یعنی میم لکھنا نہ بھولیں) صحافی فوراّ اپنے اپنے گیان اور ہذیان کا کچرا باہر اگلنا شروع ہوجاتے ہیں ۔۔۔
وہ دراصل شروع ہی سے ایک (Selfmade) سیلف میڈ (براہ مہربانی انگریزی کے اس لفظ کا ترجمہ ’’خود ساختہ‘‘ نہ کیا جائے اور کمپوزر سے گزارش ہے کہ جہاں ہم نے Selfmade کا انگریزی لفظ لکھا ہے اس کے آخری حرف ’’e‘‘کے موجود ہونے کی اچھی طرح تسلی کرلے) انسان چلے آرہے ہیں۔
 
نذیر ناجی کو پیپلز پارٹی کے لیڈرز میں، اور عطا الحق قاسمی کو نون لیگ کے لیڈرزمیں کبھی کوئی خامی، کوئی کجی، کوئی کمزوری کبھی نظر نہیں آئی ۔۔۔ لیکن جہاں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کا معاملہ آجائے، یہ دونوں مفکر (کاتبین سے گذارش ہے کہ جہاں ہم نے لفظ مفکر لکھا ہےاس لفظ کا پہلا حرف یعنی میم لکھنا نہ بھولیں) صحافی فوراّ اپنے اپنے گیان کا کچرا باہر اگلنا شروع ہوجاتے ہیں ۔۔۔
محمود احمد غزنوی بھائی! یوسف ٹو صاحب کے اچھا شغل ہاتھ میں آیا ہے بلا تشبیہ مثال پیش خدمت ہے:
۔۔۔۔ دے ہتھ ۔۔۔۔

یہ فاضل دوست جس قدر چٹخلے چھوڑ کے کردار کشی کر رہا ہے اسی قدر غمگین ہو گا اگر یہاں ان کے قائد کی اس قسم کی توہین کی گئی۔ مگر ہمیں اس چیز کی تلقین نہیں کی گئی۔ اور یہ بندہ ہے کہ سمجھنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
 
Top