طارق شاہ
محفلین
غزل
عطا تراب
کہیں جمال پذیری کی حد نہیں رکھتا
میں بڑھ رہا ہوں تسلسل سے قد نہیں رکھتا
یہ قبل و بعد کے اُس پار کی حکایت ہے
مِرا دوام ازل اور ابد نہیں رکھتا
وہ ایک ہوکے بھی ہم سے گِنا نہیں جاتا
وہ ایک ہوکے بھی آگے عدد نہیں رکھتا
یہ عمر بھر کی ریاضت مِرا مقدّر ہے
تراشتا ہُوں جسے خال و خد نہیں رکھتا
وہ اک سخن ہی ہماری سند نہ بن جائے
وہ اک سخن جو تمھاری سند نہیں رکھتا
تُراب کاسۂ دل پیش کردیا جائے
سُنا ہے کوئی سخاوت کی حد نہیں رکھتا
عطا تُراب