عطا شاد کی ایک غزل

شعیب خالق

محفلین
بڑا کھٹن ہے راستا، جو آسکو تو ساتھ دو
یہ زندگی کا فاصلہ مٹا سکو تو ساتھ دو

بڑے فریب کھاؤگے، بڑے ستم اُٹھاؤگے
یہ عمر بھر کا ساتھ ہے، نبھا سکو تو ساتھ دو

جو تم کہوں یہ دل تو کیا میں جان بھی فداکروں
جو میں کہوں بس اِک نظر لٹا سکو تو ساتھ دو

میں اِک غریبِ بے نوا، میں اِک فقیر بے صدا
مری نظر کی التجا جو پا سکو تو ساتھ دو

ہزار امتحان یہاں، ہزار آزمائشیں
ہزار دکھ، ہزار غم اُٹھاسکو تو ساتھ دو

یہ زندگی یہاں خوشی غموں کاساتھ ساتھ ہے
رُلا سکو تو ساتھ دو، ہنسا سکو تو ساتھ دو
(عطا شاد)​
 

شعیب خالق

محفلین
شکریہ! اچھی غزل ہے لیکن عطا شاد صاحب کا تعارف بھی کروا دیجیے۔
السلام علیکم
جناب عطا شاد بلوچی زبان کے ایک نامی گرامی شاعر تھے ۔ بلوچی کے علاوہ عطا شاد نے اردو زبا ن میں‌ بھی شاعری کی تھی۔ ایک دو مجمو عہ کلام بھی اردو میں‌ چھپ چکے ہیں ۔۔
شکریہ
 

جاوید مرزا

محفلین
عطا شاد 13 نومبر 1939ء کو سنگانی سرکیچ، مکران میں پیدا ہوئے تھے۔ عطا شاد کا اصل نام محمد اسحاق تھا- 1962ء میں پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد وہ پہلے ریڈیو پاکستان سے اور پھر 1969ء میں بلوچستان کے محکمہ تعلقات عامہ سے بطور افسر اطلاعات وابستہ ہوئے ۔ 1973ء میں وہ بلوچستان آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور ترقی کرتے کرتے سیکریٹری کے عہدے تک پہنچے۔

ان کی اردو شعری مجموعوں میں سنگاب اور برفاگ، بلوچی شعری مجموعوں میں شپ سہارا ندیم، روچ گر اور گچین اور تحقیقی کتب میں اردو بلوچی لغت، بلوچی لوک گیت اور بلوچی نامہ شامل ہیں۔ حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔
13 فروری 1997ء کو عطا شاد کوئٹہ میں وفات پاگئے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اللہ بخشے عطا شاد جدید غزل کے اچھے شاعر تھے ۔ کئی مرتبہ انہیں مشاعروں میں سننے کا اتفاق ہوا تھا ۔ اچھی غزل کہتے تھے ۔
 
Top