امین شارق
محفلین
الف عین سر یاسر شاہ سر
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
یہ منقبت افتخار عارف صاحب کی ایک منقبت کی زمین میں لکھی ہےٰ۔
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
یہ منقبت افتخار عارف صاحب کی ایک منقبت کی زمین میں لکھی ہےٰ۔
عظیم جِس کو کہیں ایسا گھر حسین کا ہے
جو کٹ کے نامِ خُدا لے وہ سر حسین کا ہے
شہید ہو کے بچایا ہے دِین کو اُس نے
ہمارے دِیں پہ کرم کس قدر حسین کا ہے
شہید ہو گیا اکبر، بہادری سے لڑا
جوان لاشہ یہ نورِ نظر حسین کا ہے
شہید ہو گیا اصغر، گلے میں تیر لگا
وہ ننھا بچہ جو لختِ جگر حسین کا ہے
نہ ہار مانے گا عباس فوجِ باطل سے
علم نہ چھوڑے گا ہاں یہ نڈر حسین کا ہے
وہاں اُکھاڑا تھا خیبر، یہاں یزید کا شر
وہ دل علی کا تھا، اور یہ جگر حسین کا ہے
وہ ماں حسین کی ہیں جو ہے جنتی ملکہ
خُدا کا شیر ہے جو وہ پِدر حسین کا ہے
جِسے نبی نے محبت سے بارہا چوما
وہ پُھول جیسا بدن خوں میں تر حسین کا ہے
پلٹ کے بھاگتے ہیں، گرتے ہیں، لرزتے ہیں
یزیدی فوج میں بھگدڑ ہے، ڈر حسین کا ہے
ہے ذوالجناح کے لئے شور فوجِ باطل میں
اِسے نہ چھیڑ کہ یہ جانور حسین کا ہے
یزید کو جو نہ مانے غلط، وہ خود ہے غلط
ادب سے دے گا سلامی، اگر حسین کا ہے
حُسینی کارواں نے یہ سبق دیا ہے ہمیں
وہ جنتی ہے کہ جو ہمسفر حسین کا ہے
یزید لوگوں نے گھیرا ہے چار جانب سے
یہ دِین آج بھی پھر مُنتظر حسین کا ہے
لبِ رسُول سے سُن لوں میں کاش پیشِ خُدا
گُناہ گار ہے شارؔق مگر حسین کا ہے
جو کٹ کے نامِ خُدا لے وہ سر حسین کا ہے
شہید ہو کے بچایا ہے دِین کو اُس نے
ہمارے دِیں پہ کرم کس قدر حسین کا ہے
شہید ہو گیا اکبر، بہادری سے لڑا
جوان لاشہ یہ نورِ نظر حسین کا ہے
شہید ہو گیا اصغر، گلے میں تیر لگا
وہ ننھا بچہ جو لختِ جگر حسین کا ہے
نہ ہار مانے گا عباس فوجِ باطل سے
علم نہ چھوڑے گا ہاں یہ نڈر حسین کا ہے
وہاں اُکھاڑا تھا خیبر، یہاں یزید کا شر
وہ دل علی کا تھا، اور یہ جگر حسین کا ہے
وہ ماں حسین کی ہیں جو ہے جنتی ملکہ
خُدا کا شیر ہے جو وہ پِدر حسین کا ہے
جِسے نبی نے محبت سے بارہا چوما
وہ پُھول جیسا بدن خوں میں تر حسین کا ہے
پلٹ کے بھاگتے ہیں، گرتے ہیں، لرزتے ہیں
یزیدی فوج میں بھگدڑ ہے، ڈر حسین کا ہے
ہے ذوالجناح کے لئے شور فوجِ باطل میں
اِسے نہ چھیڑ کہ یہ جانور حسین کا ہے
یزید کو جو نہ مانے غلط، وہ خود ہے غلط
ادب سے دے گا سلامی، اگر حسین کا ہے
حُسینی کارواں نے یہ سبق دیا ہے ہمیں
وہ جنتی ہے کہ جو ہمسفر حسین کا ہے
یزید لوگوں نے گھیرا ہے چار جانب سے
یہ دِین آج بھی پھر مُنتظر حسین کا ہے
لبِ رسُول سے سُن لوں میں کاش پیشِ خُدا
گُناہ گار ہے شارؔق مگر حسین کا ہے