آوازِ دوست

محفلین
کیا یہ خیٰال ہے کہ بہزاد کی غزل اور اس غزل کی بحر ایک ہی ہے؟
ہرگز نہیں سر بلکہ زیرِنظر مقدمہ صرف بہزاد لکھنوی کی غزل سے متعلق ہے یہاں اوزان اور قواعد سے متعلق ایک بحث چل رہی تھی سو اِسے یہاں رکھنے کی جسارت کی ہےورنہ کہاں وہ راجہ بھوج اور کہاں ہم گنگو تیلی :)
 

آوازِ دوست

محفلین
اے برقِ تجلّی کیا تو نے مُجھ کو بھی موسیٰ سمجھا ہے
میں طُور نہیں جو جل جاؤں جو چاہے مُقابل آجائے
مندرجا بالا شعر میری لڑکپن کی یاد داشت کے مطابق اس طرح ہے۔
اے برقِ تجلّی! کوند ذرا۔ کیا مُجھ کو بھی موسیٰ سمجھا ہے
میں طُور نہیں جو جل جاؤں ۔ جو چاہے مُقابل آجائے۔
واللہ اعلم
شاہ جی اگرچہ آپ کا لکھا مصرعہ بھی مطلوبہ بحر میں ہی ہے تاہم میں اپنے سورس کے بااعتمادہونے پر اصرار کروں گا :)
 
آخری تدوین:
جنابِ زاہد کا جو پیغام مجھے ابھی کچھ دیر پہلے ملا، اس میں سوال ہے کہ "کیا بہزاد لکھنوی کی اس غزل پر ہوئی عروضی بحث درست ہے؟" یا "کیا اس غزل میں کوئی عروضی سقم ہے؟"
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں، ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے

منقولہ غزل کے نیچے تقطیع دی گئی ہے: ایک مصرعے کا وزن آٹھ فعلن (فِعلن، فَعِلن برابر متصور) ۔ یہ بالکل درست ہے۔

یہ بحر عرفِ عام میں میر کی بحر کہلاتی ہے۔ اور اس کی تقطیع فعلن فعلن کی نہج پر ہی کی جاتی ہے۔ اس بحر میں (ارکان کی تعداد غزل بہ غزل منفرد) اقبال نے بھی شعر کہے، انشا جی نے بھی، اور میرا جی نے بھی، اوروں نے بھی۔

تقطیع میں اور ارکان و بحور کے ناموں میں میری لفظیات روایتی عروض کے علماء کے نکتہء نظر سے اجنبی (بلکہ ممکن ہے غلط) ہوں۔ تاہم عرض ہے کہ: میں نے اس کو (غضنفر کے تتبع میں) بحرِ زمزمہ کا نام دیا ہے۔ اور "آسان عروض کے دس سبق" میں اس کے لئے ایک سبق مختص کیا ہے۔ تفصیلات یہاں نقل کرنے سے بہتر ہے کہ وہیں سے پڑھ لی جائیں۔ از خود واضح ہو جائے گا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیرِ نظر غزل "اے جذبہء دل ۔۔ ۔۔" میں کہیں کوئی عروضی سقم موجود نہیں۔

نوٹ: شعر نقل کرنے میں کہیں املاء آگے پیچھے ہو گئی ہو تو الگ بات ہے۔
 
آخری تدوین:
عروض ڈاٹ کام والے سید ذیشان اصغر صاحب سے (خاص طور پر اس بحر کی مشینی تقطیع پر) میری بات ہوئی تھی۔ میں نے عرض کیا تھا کہ اس خاص بحر میں آپ فارسی والے علم عروض کی بجائے مقامی چھندا بندی کا اطلاق کر کے دیکھئے۔ اس بات کو بہت دن ہو گئے، انہوں نے کچھ نہ کچھ کیا ضرور ہو گا، وہ الگ بات کہ میرے علم میں نہیں ہے۔
 
اولین مراسلے میں جناب زاہد کی کاوش
عقلِ کامل مجھے ملے یا مِرے جُنوں کو نِکھار دو
خوفِ خزاں نہ ہوجِسے ایسی مُجھے بہار دو
پر موزوں ہونے والی بحر کا تعین میرے لئے مشکل ہو رہا ہے۔ اصحابِ نظر توجہ فرمائیں گے، یقیناً۔
 
بہزاد لکھنوی کی پسندیدہ غزل کی عروض سے کی گئی تقطیع بشمول غزل حاضر ہے۔ یہاں جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کُچھ اشعار وزن سے خارج ہیں یا بحر کے تقاضے نبھانے سے قاصر ہیں لیکن کسی کے اعتراض سے بھی محفوظ ہیں۔ اساتذہ کرام سے گذارش ہے کہ اپنے علمی تبحر سے اِس اُلجھن کو دور کر کے ہمیں بھی معاملہ فہم بنائیں۔

اے جذبۂ دل گر میں چاہوں، ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے

اے دل کی خلش چل یونہی سہی، چلتا تو ہوں اُن کی محفل میں
اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آ جائے

اے رہبرِ کامل چلنے کو تیار تو ہوں پر یاد رہے
اس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آ جائے

ہاں یاد مجھے تم کر لینا، آواز مجھے تم دے لینا
اس راہِ محبت میں کوئی درپیش جو مُشکل آ جائے

اَب کیوں ڈھونڈوں وہ چشمِ کرم ہونے دے ستم بالائے ستم
میں چاہتا ہوں اے جذبۂ غم مُشکل پسِ مُشکل آ جائے

اِس جذبۂ دِل کے بارے میں اِک مشورہ تم سے لیتا ہوں
اِس وقت مُجھے کیا لازم ہے جب تُجھ پہ میرا دِل آ جائے


اے برقِ تجلّی کیا تو نے مُجھ کو بھی موسیٰ سمجھا ہے
میں طُور نہیں جو جل جاؤں جو چاہے مُقابل آجائے

آتا ہے جو طوفاں آنے دو کشتی کا خُدا خود حافظ ہے
مُشکل تو نہیں اِن موجوں میں بہتا ہوا ساحل آ جائے


(بہزاد لکھنوی)

تقطیع بشکریہ عروض:

فعْلن فَعِلن فعْلن فعْلن فعْلن فَعِلن فعْلن فعْلن
فعْلن فَعِلن فعْلن فَعِلن فعْلن فَعِلن فعْلن فعْلن

فعْلن فَعِلن فعْلن فَعِلن فعْلن فَعِلن فعْلن فعْلن
فعْلن فَعِلن فعْلن فَعِلن فعْلن فَعِلن فعْلن فعْلن

فعْلن فَعِلن فعْلن فَعِلن فعْلن فَعِلن فعْلن فعْلن
فعْلن فَعِلن فعْلن فَعِلن فعْلن فَعِلن فعْلن فعْلن

فعْلن فَعِلن فعْلن فَعِلن فعْلن فَعِلن فعْلن فعْلن
فعْلن فَعِلن فعْلن فَعِلن فعْلن فَعِلن فعْلن فعْلن

فعلن فعْل فعول فعولن فعْل فعولن فعْل فَعَل

فعْلن فَعِلن فعْلن فعْلن فعْلن فعْلن فعْلن فعْلن

فعْلن فَعِلن فعْلن فعْلن فعْلن فَعِلن فعْلن فعْلن
فعْلن فَعِلن فعْلن فعْلن فعْلن فعْلن فعْلن فعْلن

فعْلن فَعِلن فعْلن فعْلن فعْلن فعْلن فعْلن فعْلن
کوئی مانوس بحر نہیں مل سکی۔

فعْلن فَعِلن فعْلن فعْلن فعْلن فَعِلن فعْلن فعْلن

فعلن فعْل فعولن فعلن فعْل فعولن فعلن فع
بالترتیب پانچویں، ساتویں اور آخری شعر کے سُرخ رنگ میں نظر آنے والے نتائج سےمتعلق اہلِ علم کی قیمتی آراء کا طالب ہوں :)


بہزاد کی تمام غزل بحر میں ہے۔ جن مصرعوں کے اوزان آپ نے سرخ کیے ہیں وہ محض سافٹ وئیر کی خرابی کے باعث ہے۔ بہزاد کی کوئی غلطی نہیں اس میں۔ :)

اَب کیوں -- ڈھونڈوں -- وہ چش -- مِ کرم -- ہونے -- د ستم -- بالا -- ئ ستم
فعلن -- فعلن -- فعلن -- فعِلن -- فعلن -- فعِلن -- فعلن -- فعِلن

اسی طرح آخر دو اشعار کے مصرعوں کا مسئلہ ہے:

میں طُور نہیں جو جل جاؤں جو چاہے مُقابل آجائے
فعلن فعِلن فعلن فعلن فعلن فعِلن فعلن فعلن

مُشکل تو نہیں اِن موجوں میں بہتا ہوا ساحل آ جائے
فعلن فعِلن فعلن فعلن فعلن فعِلن فعلن فعلن

جہاں عین کے نیچے کسرہ ہے اس کے علاوہ ہر جگہ عین ساکن شمار ہوگا۔
 
دوسری بات یہ ہے کہ یہ ہجائی غلطی کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے۔ ورنہ یہ بحر کوئی ایسی پیچیدہ نہیں ہے جس میں سافت ویر غلطی کرے۔
ذیشان صاحب سے رابطہ کرنا ہوگا۔
 

آوازِ دوست

محفلین
عروض ڈاٹ کام والے سید ذیشان اصغر صاحب سے (خاص طور پر اس بحر کی مشینی تقطیع پر) میری بات ہوئی تھی۔ میں نے عرض کیا تھا کہ اس خاص بحر میں آپ فارسی والے علم عروض کی بجائے مقامی چھندا بندی کا اطلاق کر کے دیکھئے۔ اس بات کو بہت دن ہو گئے، انہوں نے کچھ نہ کچھ کیا ضرور ہو گا، وہ الگ بات کہ میرے علم میں نہیں ہے۔
سر آپ کے بتائے گئے اسباق پڑھنے تک تو جہاں ہے جیسا ہے کی بنیاد پر یہی سمجھ آئی ہے کہ اِس غزل کے زیرِ بحث اشعار کُچھ استثنائی اصولوں کی بناء پر وزن سے خارج نہیں ہیں اور مطلوبہ بحر کی ضرورت پوری کرتے ہیں تو کیا یہ اپنی طرز کی ایک ہی بحر ہے یا دیگر بحور میں بھی ایسے استثنائی عوامل نظر آتے ہیں؟
 

آوازِ دوست

محفلین
دوسری بات یہ ہے کہ یہ ہجائی غلطی کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے۔ ورنہ یہ بحر کوئی ایسی پیچیدہ نہیں ہے جس میں سافت ویر غلطی کرے۔
ذیشان صاحب سے رابطہ کرنا ہوگا۔
اُمید ہے مُحترم سید ذیشان صاحب ہم نو آموزوں پر پڑی اِس اُفتاد کا اُستادِ مُحترم آسی صاحب کی سفارشات اور مُحترم شیخ صاحب کی تجاویزات کی روشنی میں جلد کوئی مؤثر سدِّباب ڈھونڈ نکالیں گے۔
 
سر آپ کے بتائے گئے اسباق پڑھنے تک تو جہاں ہے جیسا ہے کی بنیاد پر یہی سمجھ آئی ہے کہ اِس غزل کے زیرِ بحث اشعار کُچھ استثنائی اصولوں کی بناء پر وزن سے خارج نہیں ہیں اور مطلوبہ بحر کی ضرورت پوری کرتے ہیں تو کیا یہ اپنی طرز کی ایک ہی بحر ہے یا دیگر بحور میں بھی ایسے استثنائی عوامل نظر آتے ہیں؟

نہیں صاحب! یہ استثنائی اصول نہیں ہیں۔ فرق نظام کا ہے۔ یہ بحر پنجابی کی کلاسیکی شاعری میں بھی ہے، اور لوک شاعری میں بھی، دوہے میں بھی ہے اور دوہڑے میں بھی۔ اردو میں اس کا نفوذ پنجابی اور دیگر علاقائی زبانوں کے اثر کے تحت ہوا۔ میر نے بھی اس کو استعمال کیا، امیر خسرو نے بھی۔
اس بحر کو فارسی عروض میں متعدد زحافات کی مدد سے حاصل کیا گیا، جس کی تفہیم جناب مزمل شیخ بسمل بہتر طور پر پیش کر سکتے ہیں۔ ہم فارسی عروض کی طرف سے آئیں گے تو آپ کی استثنا والی بات شاید درست ہو۔ چھندابندی میں اس کو کسی استثنا کی ضرورت نہیں۔
 

آوازِ دوست

محفلین
نہیں صاحب! یہ استثنائی اصول نہیں ہیں۔ فرق نظام کا ہے۔ یہ بحر پنجابی کی کلاسیکی شاعری میں بھی ہے، اور لوک شاعری میں بھی، دوہے میں بھی ہے اور دوہڑے میں بھی۔ اردو میں اس کا نفوذ پنجابی اور دیگر علاقائی زبانوں کے اثر کے تحت ہوا۔ میر نے بھی اس کو استعمال کیا، امیر خسرو نے بھی۔
اس بحر کو فارسی عروض میں متعدد زحافات کی مدد سے حاصل کیا گیا، جس کی تفہیم جناب مزمل شیخ بسمل بہتر طور پر پیش کر سکتے ہیں۔ ہم فارسی عروض کی طرف سے آئیں گے تو آپ کی استثنا والی بات شاید درست ہو۔ چھندابندی میں اس کو کسی استثنا کی ضرورت نہیں۔
بہت شکریہ سر بات کُچھ نہ کُچھ سمجھ آ رہی ہے ۔
 
فعِلُن فعِلُن اصول کا مسئلہ بھی آسان ہے۔
بحر کا نام ہے بحرِ متدارک۔ اس کا سالم رکن:
فاعلن
جب ایک مصرع میں چار ارکان ہوں اور رکن سالم ہو یعنی:
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
تو اسے بحرِ متدارک مثمن سالم کہیں گے۔ (مثمن آٹھ والا۔ یعنی ایک شعر میں آٹھ ارکان ہوں گے)
اگر ان ارکان پر ایک عدد زحاف یعنی خبن لگا دیجیے تو فاعلن کا الف ختم ہو جائے گا۔ اور جو بچے گا وہ فعِلُن ہوگا۔
فعِلُن فعِلُن فعِلُن فعِلُن
یہاں تک بحر کا نام ہوگا "بحرِ متدارک مثمن مخبون" (مخبون یعنی جس پر خبن لگا ہے)
اب اگر اسی بحر کو دوگنا کردیجیے۔ یعنی شعر میں سولہ ارکان اور مصرع میں آٹھ ارکان کردیں تو صورتحال یوں ہوگی:

فعِلُن فعِلُن فعِلُن فعِلُن فعِلُن فعِلُن فعِلُن فعِلُن

اور دوگنا کردینے کی وجہ سے نام کے آگے لفظ "مضاعف" کا اضافہ ہوگا۔

گنجائش اس میں صرف اتنی ہے کہ جہاں کہیں تین متحرک حروف یکجا ہو جائیں ان میں درمیان والے کو تسکینِ اوسط کے قاعدہ کے تحت ساکن کردیجیے۔

اس کا مطلب ہوا کہ فعِلُن میں ف ع اور لام متحرک ہیں۔ اس میں کسی بھی رکن کا عین ساکن کیا جاسکتا ہے۔ چاہیں سب کو ساکن کریں، سب کو متحرک رہنے دیں یا کچھ کو ساکن کریں کچھ کو متحرک رہنے دیں۔

والسلام
 
بہت شکریہ سر بات کُچھ نہ کُچھ سمجھ آ رہی ہے ۔
آرزو لکھنوی کی یہ غزل دیکھئے۔ چھند کی زبان میں اس کے ایک مصرعے کی چال تیس ماتروں کی ہے۔ عرفِ عام میں ساڑھے سات فعلن
۔۔۔عروض میں اس کا نام میرے پاس تو بحرِ زمزمہ ہے، شیخ صاحب کے پاس یقیناً سکہ بند نام ہو گا۔
 
اس کا مطلب ہوا کہ فعِلُن میں ف ع اور لام متحرک ہیں۔ اس میں کسی بھی رکن کا عین ساکن کیا جاسکتا ہے۔ چاہیں سب کو ساکن کریں، سب کو متحرک رہنے دیں یا کچھ کو ساکن کریں کچھ کو متحرک رہنے دیں۔
ایسی جگہ پر آ کے (انسانی فہم میں بالکل واضح ہوتے ہوئے بھی) پروگرامر پھنس جاتا ہے۔ اور اگر اس کو وہ صورت درپیش ہو (مِیرا جی والی )
ع: نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا (پوری غزل)​
تو اس کے حسابات اور بھی الجھ جاتے ہیں۔ سید ذیشان اصغر کے ساتھ بھی کوئی ایسی ہی الجھن ہو گی کہ اس کو سلجھائیں کیسے۔
 
میں نے پہلے گزارش کی تھی کہ میں آپ کی اس کاوش کی بحر کو نہیں پا سکتا۔ میرے لئے کسی بھی "غزل" کو پانے کا پہلا مرحلہ یہی ہوتا ہے، یہاں رک گیا تو رک گیا۔
یہاں سے نکلوں تو دیگر فنیات، صنائع، زبان، مضامین، تخیل، اور دیگر عناصر پر بات چلے۔
صاحبانِ علم و فن کی آراء کا منتظر ہوں۔
 

ابن رضا

لائبریرین
میں نے پہلے گزارش کی تھی کہ میں آپ کی اس کاوش کی بحر کو نہیں پا سکتا۔ میرے لئے کسی بھی "غزل" کو پانے کا پہلا مرحلہ یہی ہوتا ہے، یہاں رک گیا تو رک گیا۔
یہاں سے نکلوں تو دیگر فنیات، صنائع، زبان، مضامین، تخیل، اور دیگر عناصر پر بات چلے۔
صاحبانِ علم و فن کی آراء کا منتظر ہوں۔
سر یہ صاحبان اگر توجہ نہیں کریں گے تو ہم بھی اِن کے لیے اساتذہ کے کلام کی ایسی ذہنی آزمائشیں پیش کرتے رہیں گے :)
تو گویا اب آپ پہلےاپنی کاوش کی بحر کی تفصیل جاری کریں گے۔ یا اس کو مانوس بحر میں ڈھال کر پیش کریں گے؟
 
Top