جنابِ زاہد کا جو پیغام مجھے ابھی کچھ دیر پہلے ملا، اس میں سوال ہے کہ "کیا بہزاد لکھنوی کی اس غزل پر ہوئی عروضی بحث درست ہے؟" یا "کیا اس غزل میں کوئی عروضی سقم ہے؟"
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں، ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے
منقولہ غزل کے نیچے تقطیع دی گئی ہے: ایک مصرعے کا وزن آٹھ فعلن (فِعلن، فَعِلن برابر متصور) ۔
یہ بالکل درست ہے۔
یہ بحر عرفِ عام میں
میر کی بحر کہلاتی ہے۔ اور اس کی تقطیع
فعلن فعلن کی نہج پر ہی کی جاتی ہے۔ اس بحر میں (ارکان کی تعداد غزل بہ غزل منفرد) اقبال نے بھی شعر کہے، انشا جی نے بھی، اور میرا جی نے بھی، اوروں نے بھی۔
تقطیع میں اور ارکان و بحور کے ناموں میں میری لفظیات روایتی عروض کے علماء کے نکتہء نظر سے اجنبی (بلکہ ممکن ہے غلط) ہوں۔ تاہم عرض ہے کہ: میں نے اس کو (غضنفر کے تتبع میں)
بحرِ زمزمہ کا نام دیا ہے۔ اور "آسان عروض کے دس سبق" میں اس کے لئے ایک سبق مختص کیا ہے۔ تفصیلات یہاں نقل کرنے سے بہتر ہے کہ وہیں سے پڑھ لی جائیں۔ از خود واضح ہو جائے گا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیرِ نظر غزل "اے جذبہء دل ۔۔ ۔۔" میں کہیں کوئی عروضی سقم موجود نہیں۔
نوٹ: شعر نقل کرنے میں کہیں املاء آگے پیچھے ہو گئی ہو تو الگ بات ہے۔