صریر
محفلین
الف عین
سید عاطف علی
شکیب
ظہیراحمدظہیر
یاسر شاہ
استادِ محترم اور احباب مُکرّم، آداب! بغرض اصلاح ایک غزل
پیش خدمت ہے۔ آپ سے اصلاح کی درخواست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عقل نے دِل سے یہ شکایت کی
اُن سے کیا سوچ کر محبت کی
یوں تو ہر چیز ہے سہولت کی
لذّتیں اور ہیں شکایت کی
لو بچھڑنے لگے ہیں وہ ہم سے
منزل آہی گئی محبت کی
حشر کے دن کا انتظار کِیا
رات گزری ہے وہ قیامت کی
عمر ساری، بُتوں سے الجھا کِیے
اپنے ایمان کی حفاظت کی
دھیان بندوں سے شیخ کا نہ ہٹا
اتنی یکسوئی سے عبادت کی
بے تُکی باتیں اُن کو سننی تھیں
ہم نے پھر اِک غزل عنایت کی
چپ رہو، اب صریر بس بھی کرو
تم کو سننے کی خوب زحمت کی
سید عاطف علی
شکیب
ظہیراحمدظہیر
یاسر شاہ
استادِ محترم اور احباب مُکرّم، آداب! بغرض اصلاح ایک غزل
پیش خدمت ہے۔ آپ سے اصلاح کی درخواست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عقل نے دِل سے یہ شکایت کی
اُن سے کیا سوچ کر محبت کی
یوں تو ہر چیز ہے سہولت کی
لذّتیں اور ہیں شکایت کی
لو بچھڑنے لگے ہیں وہ ہم سے
منزل آہی گئی محبت کی
حشر کے دن کا انتظار کِیا
رات گزری ہے وہ قیامت کی
عمر ساری، بُتوں سے الجھا کِیے
اپنے ایمان کی حفاظت کی
دھیان بندوں سے شیخ کا نہ ہٹا
اتنی یکسوئی سے عبادت کی
بے تُکی باتیں اُن کو سننی تھیں
ہم نے پھر اِک غزل عنایت کی
چپ رہو، اب صریر بس بھی کرو
تم کو سننے کی خوب زحمت کی
آخری تدوین: