مہوش علی
لائبریرین
کہتے ہیں گھر کی مرغی دال برابرا.................آپ سعودیہ میں ہیں اس لیئے آپ کو تو وافر مقدار میں مل جاتا ہو گا پینے کو............لیکن جو دور ہیں قدر و قیمت وہی جانتے ہیں اس کی..........
میں نے خود دیکھا ہے مکہ شریف میں لوگوں کو اس سے وضو کرتے ہوئے .........حالانکہ وہاں وضو کے لیئے انہوں نے عام پانی کا انتظام کیا ہوا ہے.....لوگ کفن ساتھ لے جاتے ہیں اور وہاں زم زم کے پانی سے دھو کر لاتے ہیں کہ شاید قبر میں فرشتے معاف کر دیں ..........اس طرح اگر گناہ کی معافی ملتی تو شیطان بھی خوشی سے جھوم اٹھتا.....کیسے کیسے اعتقادات پالے ہوئے ہیں لوگوں نے.......
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ آپنی پھوپھی سے فرمایا“
“اے میری پھوپھی جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ یہ نہ سمجھنا کہ “ًمحمد“(صلی اللہ علیہ وسلم )میرا بھتیجا ہے تو کل قیامت کے دن خدا مجھے بخش دے گا۔۔۔۔۔۔آپ کو آپ کے عملوں کا حساب وہاں دینا پڑے گا“
خدا کسی کمی بیشی کو معاف فرمائے۔۔
فاروقی برادر،
آپ اپنا جو بھی نظریہ رکھتے ہیں آپکو مبارک ہو اور آپ اس میں آزاد ہیں، مگر دوسروں کو بھی اپنے نظریات سے اختلاف رائے کا حق دیجئیے۔
اللہ اللھم صلی علی محمد و آل محمد
ام المومنین جناب عائشہ اور ان کی بہن اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ ﷺ کے کرتے سے بیماری میں شفا حاصل کرتی تھیں
صحیح مسلم اللباس والزينة تحريم استعمال إناء الذهب والفضة على الرجال والنساء
حدثنا يحيى بن يحيى أخبرنا خالد بن عبد الله عن عبد الملك عن عبد الله مولى أسماء بنت أبي بكر وكان خال ولد عطاء قال أرسلتني أسماء إلى عبد الله بن عمر فقالت بلغني أنك تحرم أشياء ثلاثة العلم في الثوب وميثرة الأرجوان وصوم رجب كله فقال لي عبد الله أما ما ذكرت من رجب فكيف بمن يصوم الأبد وأما ما ذكرت من العلم في الثوب
فإني سمعت عمر بن الخطاب يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إنما يلبس الحرير من لا خلاق له فخفت أن يكون العلم منه وأما ميثرة الأرجوان فهذه ميثرة عبد الله فإذا هي أرجوان فرجعت إلى أسماء فخبرتها فقالت هذه جبة رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخرجت إلي جبة طيالسة كسروانية لها لبنة ديباج وفرجيها مكفوفين بالديباج فقالت هذه كانت عند عائشة حتى قبضت فلما قبضت قبضتها وكان النبي صلى الله عليه وسلم يلبسها فنحن نغسلها للمرضى يستشفى بها
حضرت اسماء کے مولیٰ عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر نے کسروانی طیلسان کا جبہ نکالا جس کے گریبان اور چاکوں پر ریشم کا کپڑا لگا ہوا تھا۔ کہنے لگیں: یہ حضرت عائشہ کے پاس تھا۔ جب وہ فوت ہوئیں تو یہ جبہ میرے قبضے میں آ گیا۔ نبی کریم ﷺ اس کو پہنتے تھے۔ اور اب ہم بیماروں کہ لیے اس کو دھوتے ہیں اور اس سے بیماروں کے لیے شفاء طلب کرتے ہیں۔
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا کہا ہم سے اسرائیل نے، انہوں نے سلیمان بن عبدااللہ وہب سے کہا مجھ کو میرے گھر والوں نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک پیالی پانی کی دے کر بھجوایا، اسرائیل راوی نے تین انگلیاں بند کر لیں۔ یہ پیالی چاندی کی تھی۔ اس میں آنحضرتﷺ کے کچھ بال ڈال دئے گئے۔ عثمان نے کہا کہ جب کسی شخص کو نظرِ بد لگ جاتی تھی یا اور کوئی بیماری ہوتی تو وہ اپنا کنگھال (برتن) پانی کا بی بی ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجتا (اور بی بی ام سلمہ رسول ﷺ کے بالوں سے مس کیا ہوا پانی اس میں ڈال دیتیں)۔ عثمان نے کہا میں نے اس کو جھانک کر دیکھا تو سرخ سرخ بال دکھائی دئیے
صحیح بخاری، کتاب اللباس، ترجمہ از مولانا وحید الزمان
ثابت البنانی بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت انس نے فرمایا:
یہ اللہ کے پیارے رسول ﷺ کا ایک بال مبارک ہے ۔ پس تم اسے میری زبان کے نیچے رکھ دینا۔ وہ کہتے ہی میں نے وہ بال ان کی زبان کے نیچے رکھ دیا اور انہیں اس حال میں دفنایا گیا کہ وہ بال ان کی زبان کے نیچے تھا۔
حوالہ: الاصابہ فی تمیز الصحابہ71:1
رسولﷺ کی پہنی ہوئی چادر کو حصولِ برکت کے لیے اپنا کفن بنانا
ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ نے بیان کیا کہا ہم سے عبد العزیز بن ابی حازم نے انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے سہل بن سعد ساعدی سے کہ ایک عورت آنحضرتﷺ کے پاس آئی اور ایک بنی ہوئی حاشیہ دار چادر آپﷺ کے لئے تحفہ لائی۔ تم جانتے ہو چادر کیا ہے؟ لوگوں نے کہا شملہ، سہل نے کہا ہاں شملہ۔ خیر وہ کہنے لگی یہ میں نے اپنےہاتھ سے بنی ہے اور میں اس لئے لائی ہوں کہ آپﷺ اس کو پہنیں۔ آنحضرتﷺ کو چادر کی اس وقت احتیاج تھی۔ آپﷺ نے لے لی۔ باہر نکلے تو اسی کی تہ بند باندھے ہوئے ایک شخص (عبدالرحمن بن عوف) کہنے لگے کیا عمدہ چادر ہے۔ یہ مجھ کو عنایت کیجیئے۔ لوگوں نے عبد الرحمن سے کہا تم نے اچھا نہیں کیا۔ تم جانتے ہو کہ آنحضرتﷺ کو چادر کی ضرورت تھی۔ آپﷺ نے اس کو پہن لیا پھر تم نے کیسے مانگی؟ تم یہ بھی جانتے ہو کہ آپﷺ کسی کا سوال رد نہیں کرتے۔ عبدالرحمن نے کہا خدا کی قسم! میں نے پہننے کے لئے نہیں مانگی بلکہ میں (نے اس لئے مانگی کہ) اس کو اپنا کفن کروں گا۔ سہل نے کہا پھر وہ ان کے کفن میں شریک ہوئی
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، ترجمہ از مولانا وحید الزمان خان صاحب
اسی طرح کی ایک حدیث یہ بھی ہے کہہ:
جب شیرِ خدا مولا علی (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد کا انتقال ہوا تو رسول ﷺ نے ان کی تجہیز و تکفین کے لیے خصوصی اہتمام فرمایا۔ غسل کے بعد جب انہیں قمیص پہنانے کا موقع آیا تو رسول ﷺ نے اپنا کرتہ مبارک عورتوں کو عطا فرمایا اور حکم دیا کہ یہ کرتہ پہنا کر اوپر کفن لپیٹ دیں۔
المعجم لاکیبر للطبرانی 24:2
الاستیعاب ابن عبد البر 282:4
اسد الغابہ 213:7
الاصابہ فہ تمیز الصحابہ 380:4
جناب انس ابن مالک کے کفن کی کیفیت
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کیا ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نےکہا مجھ سے میرے والد نے انہوں نے ثمامہ سے انہوں نے انس سے، کہ ام سلیم (ان کی والدہ) آنحضرتﷺ کے لئے ایک چمڑا بچھاتیں۔ آپﷺ اسی چمڑے پر ان کے پاس دن کو سو رہتے۔ جب آپﷺ سو جاتے تو ام سلیم کیا کرتیں، آپﷺ کے بدن کا پسینہ اور بالوں کو لیکر ایک شیشی میں ڈالتیں اور خوشبو میں ملا لیتیں (برکت کے لئے)۔ آپﷺ سوتے رہتے، ثمامہ کہتے ہیں جب حضرت انس مرنے لگے تو انہوں نے وصیت کی اُن کے کفن پر وہی خوشبو لگائی جائے، آخر وہی خوشبو اُن کے کفن پر لگائی گئی۔
صحیح بخاری، کتاب الاستئذان، ترجمہ از مولانا وحید الزمان
اس موضوع پر کئی سو احادیث میرے سامنے ہیں۔ آپ اپنے عقیدے میں آزاد ہیں، مگر کیا میں اپنے عقیدے میں آزاد نہیں کہ جو کچھ مجھے قران و سنت سے صحیح نظر آتا ہے [چاہے دوسروں کو وہ جہالت نظر آتی ہو] کا اتباع کروں؟
یاد رکھئیے، ہر ہر پہاڑ ، ہر ہر ذرہ، ہر ہر پرندہ اپنے طریقے سے اللہ تعالی کی حمد و تقدیس کر رہا ہے اور اپنی عبادت میں مصروف ہے۔ اور جب ہم کہتے ہیں کہ آب زمزم میں برکت ہے یا تبرکات نبوی کو چومنے میں برکت ہے، تو اس کا اسکے سوال کوئی اور مطلب نہیں کہ یہ تبرکات اللہ کے حضور ہماری شفاعت کر رہے ہیں۔
[شفاعت کا لغوی مطلب سفارش ہے، اور شرعی اصطلاح میں اگر کوئی ہمارے حق میں اللہ تعالی سے دعا کرے تو اس "دعا" کو شفاعت کہا جاتا ہے۔ رسول ص کی شفاعت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمارے حق میں اللہ سے دعا کریں، اور تبرکات نبوی کی تعظیم کرنے کا مطلب ہے کہ وہ تبرکات اللہ کے حضور ہماری شفاعت کر رہے ہیں [یعنی اللہ سے ہمارے حق میں دعا کر رہے ہیں]