عقیدت اور عقیدہ - تبرکات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

مہوش علی

لائبریرین
کہتے ہیں گھر کی مرغی دال برابرا.................آپ سعودیہ میں ہیں اس لیئے آپ کو تو وافر مقدار میں مل جاتا ہو گا پینے کو............لیکن جو دور ہیں قدر و قیمت وہی جانتے ہیں اس کی..........

میں نے خود دیکھا ہے مکہ شریف میں لوگوں کو اس سے وضو کرتے ہوئے .........حالانکہ وہاں وضو کے لیئے انہوں نے عام پانی کا انتظام کیا ہوا ہے.....لوگ کفن ساتھ لے جاتے ہیں اور وہاں زم زم کے پانی سے دھو کر لاتے ہیں کہ شاید قبر میں فرشتے معاف کر دیں ..........اس طرح اگر گناہ کی معافی ملتی تو شیطان بھی خوشی سے جھوم اٹھتا.....کیسے کیسے اعتقادات پالے ہوئے ہیں لوگوں نے.......

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ آپنی پھوپھی سے فرمایا“

“اے میری پھوپھی جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ یہ نہ سمجھنا کہ “ًمحمد“(صلی اللہ علیہ وسلم )میرا بھتیجا ہے تو کل قیامت کے دن خدا مجھے بخش دے گا۔۔۔۔۔۔آپ کو آپ کے عملوں کا حساب وہاں دینا پڑے گا“

خدا کسی کمی بیشی کو معاف فرمائے۔۔

فاروقی برادر،
آپ اپنا جو بھی نظریہ رکھتے ہیں آپکو مبارک ہو اور آپ اس میں آزاد ہیں، مگر دوسروں کو بھی اپنے نظریات سے اختلاف رائے کا حق دیجئیے۔

اللہ اللھم صلی علی محمد و آل محمد

ام المومنین جناب عائشہ اور ان کی بہن اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ ﷺ کے کرتے سے بیماری میں شفا حاصل کرتی تھیں

صحیح مسلم اللباس والزينة تحريم استعمال إناء الذهب والفضة على الرجال والنساء
حدثنا ‏ ‏يحيى بن يحيى ‏ ‏أخبرنا ‏ ‏خالد بن عبد الله ‏ ‏عن ‏ ‏عبد الملك ‏ ‏عن ‏ ‏عبد الله ‏ ‏مولى ‏ ‏أسماء بنت أبي بكر ‏ ‏وكان خال ولد ‏‏ عطاء ‏ ‏قال ‏ ‏أرسلتني ‏ ‏أسماء ‏ ‏إلى ‏ ‏عبد الله بن عمر ‏ ‏فقالت بلغني أنك تحرم أشياء ثلاثة ‏ ‏العلم ‏ ‏في الثوب ‏ ‏وميثرة ‏ ‏الأرجوان ‏ ‏وصوم رجب كله فقال لي ‏ ‏عبد الله ‏ ‏أما ما ذكرت من رجب فكيف بمن يصوم الأبد وأما ما ذكرت من ‏ ‏العلم ‏ ‏في الثوب ‏
فإني سمعت ‏‏ عمر بن الخطاب ‏ ‏يقول سمعت رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏يقول ‏ ‏إنما يلبس الحرير من ‏ ‏لا خلاق له ‏ ‏فخفت أن يكون ‏ ‏العلم ‏ ‏منه وأما ‏ ‏ميثرة ‏ ‏الأرجوان ‏ ‏فهذه ‏ ‏ميثرة ‏ ‏عبد الله ‏ ‏فإذا هي ‏ ‏أرجوان ‏ ‏فرجعت إلى ‏ ‏أسماء ‏ ‏فخبرتها فقالت هذه ‏‏ جبة ‏ ‏رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏فأخرجت إلي ‏‏ جبة ‏ ‏طيالسة ‏ ‏كسروانية ‏ ‏لها ‏ ‏لبنة ‏ ‏ديباج ‏ ‏وفرجيها مكفوفين ‏ ‏بالديباج ‏ ‏فقالت هذه كانت عند ‏ ‏عائشة ‏ ‏حتى قبضت فلما قبضت قبضتها وكان النبي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏يلبسها فنحن نغسلها للمرضى ‏ ‏يستشفى بها

حضرت اسماء کے مولیٰ عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر نے کسروانی طیلسان کا جبہ نکالا جس کے گریبان اور چاکوں پر ریشم کا کپڑا لگا ہوا تھا۔ کہنے لگیں: یہ حضرت عائشہ کے پاس تھا۔ جب وہ فوت ہوئیں تو یہ جبہ میرے قبضے میں آ گیا۔ نبی کریم ﷺ اس کو پہنتے تھے۔ اور اب ہم بیماروں کہ لیے اس کو دھوتے ہیں اور اس سے بیماروں کے لیے شفاء طلب کرتے ہیں۔
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا کہا ہم سے اسرائیل نے، انہوں نے سلیمان بن عبدااللہ وہب سے کہا مجھ کو میرے گھر والوں نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک پیالی پانی کی دے کر بھجوایا، اسرائیل راوی نے تین انگلیاں بند کر لیں۔ یہ پیالی چاندی کی تھی۔ اس میں آنحضرتﷺ کے کچھ بال ڈال دئے گئے۔ عثمان نے کہا کہ جب کسی شخص کو نظرِ بد لگ جاتی تھی یا اور کوئی بیماری ہوتی تو وہ اپنا کنگھال (برتن) پانی کا بی بی ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجتا (اور بی بی ام سلمہ رسول ﷺ کے بالوں سے مس کیا ہوا پانی اس میں ڈال دیتیں)۔ عثمان نے کہا میں نے اس کو جھانک کر دیکھا تو سرخ سرخ بال دکھائی دئیے
صحیح بخاری، کتاب اللباس، ترجمہ از مولانا وحید الزمان

ثابت البنانی بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت انس نے فرمایا:

یہ اللہ کے پیارے رسول ﷺ کا ایک بال مبارک ہے ۔ پس تم اسے میری زبان کے نیچے رکھ دینا۔ وہ کہتے ہی میں نے وہ بال ان کی زبان کے نیچے رکھ دیا اور انہیں اس حال میں دفنایا گیا کہ وہ بال ان کی زبان کے نیچے تھا۔
حوالہ: الاصابہ فی تمیز الصحابہ71:1

رسولﷺ کی پہنی ہوئی چادر کو حصولِ برکت کے لیے اپنا کفن بنانا

ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ نے بیان کیا کہا ہم سے عبد العزیز بن ابی حازم نے انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے سہل بن سعد ساعدی سے کہ ایک عورت آنحضرتﷺ کے پاس آئی اور ایک بنی ہوئی حاشیہ دار چادر آپﷺ کے لئے تحفہ لائی۔ تم جانتے ہو چادر کیا ہے؟ لوگوں نے کہا شملہ، سہل نے کہا ہاں شملہ۔ خیر وہ کہنے لگی یہ میں نے اپنےہاتھ سے بنی ہے اور میں اس لئے لائی ہوں کہ آپﷺ اس کو پہنیں۔ آنحضرتﷺ کو چادر کی اس وقت احتیاج تھی۔ آپﷺ نے لے لی۔ باہر نکلے تو اسی کی تہ بند باندھے ہوئے ایک شخص (عبدالرحمن بن عوف) کہنے لگے کیا عمدہ چادر ہے۔ یہ مجھ کو عنایت کیجیئے۔ لوگوں نے عبد الرحمن سے کہا تم نے اچھا نہیں کیا۔ تم جانتے ہو کہ آنحضرتﷺ کو چادر کی ضرورت تھی۔ آپﷺ نے اس کو پہن لیا پھر تم نے کیسے مانگی؟ تم یہ بھی جانتے ہو کہ آپﷺ کسی کا سوال رد نہیں کرتے۔ عبدالرحمن نے کہا خدا کی قسم! میں نے پہننے کے لئے نہیں مانگی بلکہ میں (نے اس لئے مانگی کہ) اس کو اپنا کفن کروں گا۔ سہل نے کہا پھر وہ ان کے کفن میں شریک ہوئی
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، ترجمہ از مولانا وحید الزمان خان صاحب

اسی طرح کی ایک حدیث یہ بھی ہے کہہ:

جب شیرِ خدا مولا علی (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد کا انتقال ہوا تو رسول ﷺ نے ان کی تجہیز و تکفین کے لیے خصوصی اہتمام فرمایا۔ غسل کے بعد جب انہیں قمیص پہنانے کا موقع آیا تو رسول ﷺ نے اپنا کرتہ مبارک عورتوں کو عطا فرمایا اور حکم دیا کہ یہ کرتہ پہنا کر اوپر کفن لپیٹ دیں۔
المعجم لاکیبر للطبرانی 24:2
الاستیعاب ابن عبد البر 282:4
اسد الغابہ 213:7
الاصابہ فہ تمیز الصحابہ 380:4

جناب انس ابن مالک کے کفن کی کیفیت
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کیا ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نےکہا مجھ سے میرے والد نے انہوں نے ثمامہ سے انہوں نے انس سے، کہ ام سلیم (ان کی والدہ) آنحضرتﷺ کے لئے ایک چمڑا بچھاتیں۔ آپﷺ اسی چمڑے پر ان کے پاس دن کو سو رہتے۔ جب آپﷺ سو جاتے تو ام سلیم کیا کرتیں، آپﷺ کے بدن کا پسینہ اور بالوں کو لیکر ایک شیشی میں ڈالتیں اور خوشبو میں ملا لیتیں (برکت کے لئے)۔ آپﷺ سوتے رہتے، ثمامہ کہتے ہیں جب حضرت انس مرنے لگے تو انہوں نے وصیت کی اُن کے کفن پر وہی خوشبو لگائی جائے، آخر وہی خوشبو اُن کے کفن پر لگائی گئی۔
صحیح بخاری، کتاب الاستئذان، ترجمہ از مولانا وحید الزمان

اس موضوع پر کئی سو احادیث میرے سامنے ہیں۔ آپ اپنے عقیدے میں آزاد ہیں، مگر کیا میں اپنے عقیدے میں آزاد نہیں کہ جو کچھ مجھے قران و سنت سے صحیح نظر آتا ہے [چاہے دوسروں کو وہ جہالت نظر آتی ہو] کا اتباع کروں؟

یاد رکھئیے، ہر ہر پہاڑ ، ہر ہر ذرہ، ہر ہر پرندہ اپنے طریقے سے اللہ تعالی کی حمد و تقدیس کر رہا ہے اور اپنی عبادت میں مصروف ہے۔ اور جب ہم کہتے ہیں کہ آب زمزم میں برکت ہے یا تبرکات نبوی کو چومنے میں برکت ہے، تو اس کا اسکے سوال کوئی اور مطلب نہیں کہ یہ تبرکات اللہ کے حضور ہماری شفاعت کر رہے ہیں۔
[شفاعت کا لغوی مطلب سفارش ہے، اور شرعی اصطلاح میں اگر کوئی ہمارے حق میں اللہ تعالی سے دعا کرے تو اس "دعا" کو شفاعت کہا جاتا ہے۔ رسول ص کی شفاعت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمارے حق میں اللہ سے دعا کریں، اور تبرکات نبوی کی تعظیم کرنے کا مطلب ہے کہ وہ تبرکات اللہ کے حضور ہماری شفاعت کر رہے ہیں [یعنی اللہ سے ہمارے حق میں دعا کر رہے ہیں]
 

مہوش علی

لائبریرین
لیجئے چلتے چلتے یہ دو احادیث کفن دفن کے متعلق اور نظر آ گئیں اور آپ کے لیے ہدیہ کیے دیتی ہوں۔

صحابی کا حضورﷺ کے عصا مبارک کو قبر میں حصولِ برکت کے لیے ساتھ رکھ کر دفن ہونا

مسند احمد بن حنبل، جلد 3
قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ اَخْبَرَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الْوَاحِدِ الْمَكِّيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، اَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ بَلَغَنِي حَدِيثٌ عَنْ رَجُلٍ، سَمِعَهُ مِنْ، رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّ قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَانِي فَقَالَ اَفْلَحَ الْوَجْهُ قَالَ قُلْتُ قَتَلْتُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ صَدَقْتَ قَالَ ثُمَّ قَامَ مَعِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ فِي بَيْتِهِ فَاَعْطَانِي عَصًا فَقَالَ اَمْسِكْ هَذِهِ عِنْدَكَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ اُنَيْسٍ قَالَ فَخَرَجْتُ بِهَا عَلَى النَّاسِ فَقَالُوا مَا هَذِهِ الْعَصَا قَالَ قُلْتُ اَعْطَانِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاَمَرَنِي اَنْ اَمْسِكَهَا قَالُوا اَوَلَا تَرْجِعُ اِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَسْاَلَهُ عَنْ ذَلِكَ قَالَ فَرَجَعْتُ اِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ اَعْطَيْتَنِي هَذِهِ الْعَصَا قَالَ ايَةٌ بَيْنِي وَبَيْنَكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ اِنَّ اَقَلَّ النَّاسِ الْمُتَخَصِّرُونَ يَوْمَئِذٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَقَرَنَهَا عَبْدُ اللَّهِ بِسَيْفِهِ فَلَمْ تَزَلْ مَعَهُ حَتَّى اِذَا مَاتَ اَمَرَ بِهَا فَصُبَّتْ مَعَهُ فِي كَفَنِهِ ثُمَّ دُفِنَا جَمِيعًا
عبداللہ بن انیس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:
جب میں نبیﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو نبیﷺ نے مجھے دیکھ کر فرمایا: کامیاب ہونے والا چہرہ۔ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے اس (خالد بن سفیان) کو قتل کر دیا ہے۔ تو اس پر رسولﷺ نے فرمایا: تو نے سچ کہا۔ پھر رسولﷺ میرے ساتھ کھڑے ہوئے اور اپنے کاشانہ اقدس میں تشریف لے گئے اور مجھے عصا عطا کیا اور فرمایا: اے عبداللہ! اسے اپنے پاس رکھ۔ تو جب میں یہ عصا لیکر لوگوں کے سامنے نکلا تو انہوں نے کہا کہ یہ عصا کیا ہے؟ تو کہتے ہیں کہ میں نے کہا: یہ مجھے رسولﷺ نے عطا کیا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ اسے اپنے پاس رکھوں۔ تو لوگوں نے مجھے کہا: کہا تم اسے رسولﷺ کو واپس نہیں کرو گے، تم اس کے متعلق رسولﷺ سے پوچھو؟ تو عبداللہ بن انیس کہتے ہیں کہ میں نبیﷺ کی خدمت میں حضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! یہ عصا مبارک آپ نے مجھے کس لیے عطا کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: قیامت کے روز یہ تیرے اور میرے درمیان ایک نشانی ہو گی کہ جس دن بہت کم لوگ کسی کے ساتھ تعاون کرنے والے ہوں گے۔ عبداللہ نے اس عصا کو اپنی تلوار کے ساتھ باندھ لیا اور وہ ہمیشہ ان کے پاس رہتا یہاں تک کہ ان کا وصال ہو گیا۔ انہوں نے عصا کے متعلق وصیت کی تھی کہ اس کو میرے کفن میں رکھ دیا جائے۔ تو جب ان کا انتقال ہوا تو ہم نے ان کو اکھٹے دفن کر دیا۔

انس بن مالک سے ایک اور روایت ہے:

البدایہ وا لنہایہ
حدثنا ابو شيبة ابراهيم بن عبد الله بن محمد، ثنا مخول بن ابراهيم، ثنا اسرائيل عن عاصم، عن محمد بن سيرين، عن انس بن مالك انه كانت عنده عصية لرسول الله صلَّى الله عليه وسلَّم فمات فدفنت معه بين جنبه وبين قميصه‏
کہ ان کے پاس رسولﷺ کی ایک چھوٹی سی چھڑی تھی، جب وہ فوت ہوئے تو وہ چھڑی ان کے ساتھ ان کی قمیص اور پہلو کے درمیان دفن کی گئی۔
 

طالوت

محفلین
برکت کے لیے اور بھی بڑے آسان نسخے ہیں ، مثلا ایک صاحب قران کو بیت اللہ کی دیوراوں سے مس کر رہے تھے برکت کے لیے:laugh: اور روایتوں کا کیا ہے ایسی ایسی بھی ہیں کہ لوگ مرتد ہو گئے ۔۔
وسلام
 

فاروقی

معطل
فاروقی برادر،
آپ اپنا جو بھی نظریہ رکھتے ہیں آپکو مبارک ہو اور آپ اس میں آزاد ہیں، مگر دوسروں کو بھی اپنے نظریات سے اختلاف رائے کا حق دیجئیے۔

اللہ اللھم صلی علی محمد و آل محمد

ام المومنین جناب عائشہ اور ان کی بہن اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ ﷺ کے کرتے سے بیماری میں شفا حاصل کرتی تھیں













اس موضوع پر کئی سو احادیث میرے سامنے ہیں۔ آپ اپنے عقیدے میں آزاد ہیں، مگر کیا میں اپنے عقیدے میں آزاد نہیں کہ جو کچھ مجھے قران و سنت سے صحیح نظر آتا ہے [چاہے دوسروں کو وہ جہالت نظر آتی ہو] کا اتباع کروں؟

یاد رکھئیے، ہر ہر پہاڑ ، ہر ہر ذرہ، ہر ہر پرندہ اپنے طریقے سے اللہ تعالی کی حمد و تقدیس کر رہا ہے اور اپنی عبادت میں مصروف ہے۔ اور جب ہم کہتے ہیں کہ آب زمزم میں برکت ہے یا تبرکات نبوی کو چومنے میں برکت ہے، تو اس کا اسکے سوال کوئی اور مطلب نہیں کہ یہ تبرکات اللہ کے حضور ہماری شفاعت کر رہے ہیں۔
[شفاعت کا لغوی مطلب سفارش ہے، اور شرعی اصطلاح میں اگر کوئی ہمارے حق میں اللہ تعالی سے دعا کرے تو اس "دعا" کو شفاعت کہا جاتا ہے۔ رسول ص کی شفاعت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمارے حق میں اللہ سے دعا کریں، اور تبرکات نبوی کی تعظیم کرنے کا مطلب ہے کہ وہ تبرکات اللہ کے حضور ہماری شفاعت کر رہے ہیں [یعنی اللہ سے ہمارے حق میں دعا کر رہے ہیں]

لیجئے چلتے چلتے یہ دو احادیث کفن دفن کے متعلق اور نظر آ گئیں اور آپ کے لیے ہدیہ کیے دیتی ہوں۔


جی میں نے کس سے حق چھینا کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار نہ کرے..............؟
مجھے جو معلوم تھا میں نے بتایا .............آپ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا........تو اس میں میں نے کب اعتراض کیا...؟

ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ حجر اسود کو چومنے لگے تو فرمایا............اے کالے پتھر ......میں تجھے اس لیئے نہیں چومتا کہ تو کوئی نفع یا نقصان دے سکتا ہے بلکہ میں تو تجھے اس لیئے چومتا ہوں کہ تجھے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چوما ہے.........


والسلام
 

مہوش علی

لائبریرین
جی میں نے کس سے حق چھینا کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار نہ کرے..............؟
مجھے جو معلوم تھا میں نے بتایا .............آپ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا........تو اس میں میں نے کب اعتراض کیا...؟

ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ حجر اسود کو چومنے لگے تو فرمایا............اے کالے پتھر ......میں تجھے اس لیئے نہیں چومتا کہ تو کوئی نفع یا نقصان دے سکتا ہے بلکہ میں تو تجھے اس لیئے چومتا ہوں کہ تجھے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چوما ہے.........


والسلام

السلام علیکم
بہت شکریہ فاروقی برادر کہ آپ اس بات کے حق میں ہیں کہ دوسروں کو اختلاف رائے کا حق دیا جائے۔

جہاں تک اس حجر اسود والی روایت کا حوالہ دینے کا تعلق ہے، تو اسکے متعلق میری تحقیق یہ ہے کہ:

1۔ ہمارے لیے ہدایت کے براہ راست ذریعے صرف 2 عدد ہیں۔ ایک قران اور دوسرا سنت رسول۔ صرف ان دونوں ذرائع میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔
آپ یقینا مجھ سے اتفاق کریں گے کہ باقی ماخذ چاہے جتنے بھی بلند ہوں، وہ کچھ معاملات میں اپنے اجتہاد اور اپنی رائے میں غلطی کر سکتے ہیں۔
یقینی طور پر آپ مجھے سے مزید اتفاق کریں گے کہ ہمیں شخصیت پرستی میں مبتلا ہوئے بغیر اولین ترجیح قران و سنت نبوی کو دینی ہو گی اور اگر کوئی تیسری چیز انکے میزان پر پوری نہ اترے، اسے اجتہادی غلطی کا نام دینا ہو گا۔

2۔ میں نے سعودیہ سے چھپنے والے 50 سے زائد کتب اور کتابچوں کا مطالعہ کیا ہے جو کہ سعودیہ کے بلند پایہ مفتی کرام نے لکھی ہیں۔ انہیں پڑھنے کے بعد مجھے یہ محسوس ہوا کہ انکا مقصد کسی طرح تبرکات کا قطعی یا جزوی انکار کرنا ہے اور اسکے لیے صرف اور صرف وہ حضرت عمر والی اس روایت کا حوالہ دے پاتے ہیں۔
[سعودیہ کی ان کتب کے متعلق میرا کثیر مطالعہ اس لیے تھا کیونکہ علم کے معاملے میں میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ کسی تعصب میں مبتلا نہ ہوں گی، اس لیے شروع شروع میں سعودیہ کی ان کتب نے اتنا متاثر کیا کہ میں ان معاملات میں اہلحدیث بن چکی تھی اور توسل کی مطلقا منکر ہو گئی تِھی۔ مگر جوں جوں علم میں اضافہ ہوتا گیا اور فریق مخالف کے دلائل بھی پڑھے، تو پھر مجھے اپنے موقف پر نظر ثانی کرنا پڑی]

مختصر یہ کہ ان تمام تر کتب [اور انٹرنیٹ پر موجود دسیوں آرٹیکلز، یا ڈسکشن فورمز میں سینکڑوں مرتبہ گفتگو کے دوران ایک مرتبہ بھی اپنے موقف کے حق میں یہ حضرات ایک بھی روایت رسول اللہ سے نہیں پیش کر سکے۔ ۔ بلکہ تمام کی تمام احادیث نبوی انکے موقف کی سراسر مخالف ہیں، اور انکی تعداد ڈیڑھ دو سو کے قریب ہے۔

تو جب ایک طرف سیر صحابہ کا صرف ایک یہ واقعہ ہو، اور دوسری طرف سنت رسول سے میرے پاس ڈیڑھ دو سو احادیث نبوی ہوں جو کہ سب کی سب اس بات کی گواہی دے رہی ہوں کہ تبرکات نبوی بے شک اللہ کے حضور ہماری لیے دعا [شفاعت] کر کے ہمیں نفع پہنچا سکتے ہیں اور ہماری مدد کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر بتلائیے کہ میں کس کا اتباع کروں گی۔

//////////////////////////////////////

حجر الاسود کے متعلق مکمل روایت

اور پھر آپ کو علم ہونا چاہیے کہ حجر الاسود والی یہ روایت [جو آپ نے پیش کی ہے ] مکمل روایت نہیں ہے۔ دیگر کتب میں یہ مکمل روایت ان الفاظ میں نقل ہوئی ہے۔

متقی الہندی نے یہی روایت اپنی حدیث کی کتاب "کنزالاعمال" میں یوں نقل کی ہے۔ [روایت نمبر 12521]

12521- عن أبي سعيد الخدري قال: حججنا مع عمر بن الخطاب، فلما دخل الطواف استقبل الحجر فقال: إني لأعلم أنك حجر لا تضر ولا تنفع، ولولا أني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبلك ما قبلتك، ثم قبله، فقال علي بن أبي طالب: يا أمير المؤمنين إنه يضر وينفع، قال: بم؟ قال: بكتاب الله عز وجل قال: وأين ذلك من كتاب الله؟ قال: قال الله تعالى: { وإذ أخذ ربك من بني آدم من ظهورهم ذريتهم} إلى قوله: بلى، خلق الله آدم ومسح على ظهره فقررهم بأنه الرب وأنهم العبيد وأخذ عهودهم ومواثيقهم وكتب ذلك في رق (في رق: والرق بالفتح: الجلد يكتب فيه والكسر لغة قليلة فيه وقرأ بها بعضهم في قوله تعالى: "في رق منشور".انتهى.(1/321) المصباح المنير. ب) وكان لهذا الحجر عينان ولسانان فقال: افتح فاك ففتح فاه، فألقمه ذلك الرق، فقال: اشهد لمن وافاك بالموافاة يوم القيامة وإني أشهد لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: يؤتى يوم القيامة بالحجر الأسود وله لسان ذلق يشهد لمن استلمه بالتوحيد فهو يا أمير المؤمنين يضر وينفع، فقال عمر: أعوذ بالله أن أعيش في قوم لست فيهم يا أبا الحسن.

ترجمہ: ابو سعید خدری کہتے ہیں:
ہم نے عمر ابن خطاب کے ساتھ حج کیا۔ چنانچہ جب وہ طواف کرنے لگے تو حجر اسود کو مخاطب کر کے کہا:
“میں جانتا ہوں کہ تم صرف ایک پتھر ہو جو کہ نہ نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان۔ اور اگر میں نے رسول ﷺ کو تجھے چومتے ہوئے نہیں دیکھا ہوتا، تو میں کبھی تجھے نہ چومتا۔"
اسپر علی (ابن طالب) نے (عمر ابن الخطاب سے) کہا: "یہ (پتھر) نفع بھی پہنچا سکتا ہے اورنقصان بھی۔" عمر (ابن خطاب) نے پوچھا: “وہ کیسے"، اس پر علی [ابن ابی طالب] نے جواب دیا: “کتاب اللہ کی رو سے۔" عمر [ابن الخطاب] نے کہا: “پھر آپ مجھے بھی یہ بات قران میں دکھائیے۔" علی نے کہا کہ اللہ قران میں فرماتا ہے کہ جب اُس نے حضرت آدم کی صلب سے اولاد کو پیدا کیا تو انہیں اپنی جانوں پر گواہ کیا اور سوال کیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ اس کے جواب میں سب نے اقرار کیا کہ تو ہمارا پیدا کرنے والا ہے اور ہمارا پروردگار ہے۔ پس اللہ نے اس اقرار کو لکھ لیا۔ اور اس پتھر کے دو لب اور دو آنکھیں تھیں، چنانچہ اللہ کے حکم سے اس نے اپنا منہ کھولا اور یہ صحیفہ اس میں رکھ دیا اور اس سے کہا کہ میرے عبادت گذاروں کو جو حج پورا کرنے آئیں، اُن کو اس بات کی گواہی دینا۔
اور میں رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے:”اس کالے پتھر کو قیامت کے روز لایا جائے گا، اور اس کو زبان عطا کی جائے گی جو کہ اُن لوگوں کی شہادت دے گی جو توحید پر قائم تھے اور اپنے فرائض انجام بجا لاتے تھے۔" چنانچہ یہ پتھر نفع بھی پہنچا سکتا ہے اور نقصان بھی۔" یہ سن کر عمر [ابن الخطاب] نے کہا۔ "اعوذ باللہ کہ مجھے لوگوں میں ایسے رہنا پڑے کہ جن میں اے ابوالحسن (علی) آپ نہ موجود ہوں۔"

اور غنیۃ الطالبین میں شیخ عبد القادر جیلانی نے ان الفاظ میں یہ روایت نقل کی ہے:

ابو سعید خدری کہتے ہیں: میں حضرت عمر ابن خطاب کی خلافت کے ابتدائی زمانے میں آپ کے ساتھ حج کو گیا۔ عمر ابن خطاب مسجد میں آئے اور حجر اسود کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے اور پھر حجر اسود سے مخاطب ہو کر کہا کہ تو ہر صورت میں پتھر ہے اور تو نہ کچھ فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ ضرر۔ اگر میں نے رسول ﷺ کو تجھے بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھتا تو میں تجھے ہرگز نہ چومتا۔ اسپر علی ابن ابی طالب نے فرمایا: ایسا نہ کہیے، یہ پتھر نقصان بھی پہنچا سکتا ہے اور نفع بھی، مگر نفع اور نقصان اللہ کے حکم سے ہے۔ اگر آپ نے قران پڑھا ہوتا اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اُس کو سمجھا ہوتا تو ہمارے سامنے ایسا نہ فرماتے۔ عمر ابن خطاب نے کہا اے ابوالحسن، آپ ہی فرمائیے کہ قران میں اس کی کیا تعریف ہے۔ علی ابن ابی طالب نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کی صلب سے اولاد کو پیدا کیا تو انہیں اپنی جانوں پر گواہ کیا اور سوال کیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ اس کے جواب میں سب نے اقرار کیا کہ تو ہمارا پیدا کرنے والا ہے اور ہمارا پروردگار ہے۔ پس اللہ نے اس اقرار کو لکھ لیا اور اس کے بعد اس پتھر کو بلایا اور اس صحیفے کو اس کے پیٹ میں بطور امانت کے رکھ دیا۔ پس یہ وہی پتھر اس جگہ اللہ کا امین ہے تاکہ قیامت کے دن یہ گواہی دے کہ وعدہ وفا ہوا یا نہیں۔ اس کے بعد عمر ابن خطاب نے کہا: اے ابوالحسن، آپ کے سینے کو اللہ نے علم اور اسرار کا خزینہ بنا دیا ہے۔
حوالہ:
غنیۃ الطالبین، عبدالقادر جیلانی، صفحہ 534، مطبوعہ مکتبِ ابراہیمیہ، لاہور، پاکستان
مزید حوالے:
اسی روایت کو ابو الحسن القطان نے اپنی کتاب الطوالات میں ذکر کیا ہے۔
اور امام حاکم نے اپنی کتاب "المستدرك"، جلد 1، صفحہ 457 پر بھی نقل کیا ہے۔

امید ہے کہ چیزیں اب آپ پر بہت حد تک واضح ہو چکی ہوں گی۔

اور جو علی ابن ابی طالب نے فرمایا تھا:
اور جو مولا علی ؑ نے فرمایا:

۔۔۔۔حضرت علیؑ نے فرمایا: ایسا نہ کہیے، یہ پتھر نقصان بھی پہنچا سکتا ہے اور نفع بھی، مگر نفع اور نقصان اللہ کے حکم سے ہے۔۔۔۔ (غینیۃ الطالبین، عبدالقادر جیلانی)
تو باخدا بس یہی میرا عقیدہ ہے کہ بیشک اولیاء اللہ مسلمانوں کو اللہ کے حکم و اجازت سے نفع پہنچا سکتے ہیں اور بیشک نفع و نقصان اللہ کے حکم سے ہی ہے۔

اگر آپ کے دل میں ابھی تک شک و وسوسے موجود ہوں تو رسول صلی اللہ علی و آلہ وسلم کی یہ حدیث اور آپکے لیے ھدیہ کرتی ہوں:

باب مَا جَاءَ فِي الْحَجَرِ الأَسْوَدِ
976 - حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنِ ابْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي الْحَجَرِ ‏"‏ وَاللَّهِ لَيَبْعَثَنَّهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَهُ عَيْنَانِ يُبْصِرُ بِهِمَا وَلِسَانٌ يَنْطِقُ بِهِ يَشْهَدُ عَلَى مَنِ اسْتَلَمَهُ بِحَقٍّ ‏" قَالَ اَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ
ترجمہ:
قتیبہ نے جریر سے، اُس نے ابن خثیم سے، اُس نے سعید بن جبیر سے، اُس نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسول ﷺ نے حجر الاسود کے متعلق فرمایا:
خدا کی قسم، اللہ اس (حجر اسود) کو روزِ قیامت آنکھیں عطا کرے گا جو انہیں دیکھیں گی، اور زبان عطا کرے گا جو اُن کے حق میں شہادت دیں گی جنھوں نے اُس کے ساتھ صحیح سلوک کیا ہے۔
ابو عیسی کہتے ہیں یہ حدیث حسن ہے
حوالہ: سنن ترمذی، کتاب الحج [آنلائن لنک]

///////////////////////////////////

اصول: جو چیز بھی رسول/ شعائر اللہ کو چھو جائے، وہ متبرک ہے

اس وقت میرے سامنے احادیث کیا ایک کثیر ذخیرہ ہے۔ مگر ان میں سے چند ایک احادیث کو اوپر بیان کر چکی ہوں۔ باقی مانندہ کچھ احادیث نبوی اگلے مراسلے میں پیش کر دوں گی [بمع قرآنی آیات کے]۔ یہاں شعائر اللہ اور تبرک کے حوالے سے صرف ایک روایت:

وہ چشمہ کہ جہاں حضرت صالح کی اونٹنی نے پانی پیا تھا

ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا کہا ہم سے انس بن عیاض نے انہوں نے عبید اللہ عمری سے انہوں نے نافع سے ان سے عبداللہ بن عمر نے بیان کیا لوگ (غزوہ تبوک میں) آنحضرتﷺ کے ساتھ حجر میں جا کر اترے۔ وہاں کے کنویں سے مشکیں بھریں آٹا گوندھا، آنحضرتﷺ نے یہ حکم دیا کہ پانی (جو مشکوں میں تھا) بہا ڈالیں اور آٹا جو اس سے گوندھا تھا، وہ اونٹوں کو کھلا دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس کنویں کا پانی لو جس کا پانی حضرت صالح(علیہ السلام) کی اونٹنی پیا کرتی تھی۔ عبید اللہ کے ساتھ اس حدیث کو اسامہ نے بھی نافع سے روایت کیا ہے۔
صحیح بخاری، کتاب بدءالخلق، ترجمہ از مولانا وحید الزمان خان صاحب

اس وقت مختصرا عرض یہ کرنا ہے کہ اصول یہ ہے کہ جو چیز بھی رسول ص یا شعائر اللہ سے چھو جائے، وہ متبرک ہو جاتی ہے۔ مثلا:
1۔ رسول ص کا کمبل متبرک
2۔ رسول ص جس جگہ کھڑا ہو جائے وہ متبرک
3۔ رسول ص کا جبہ متبرک
4۔ رسول جس گھر میں رہے وہ متبرک
5۔ رسول جس پانی کو چھو لے وہ متبرک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور صحابہ ان تمام تر تبرکات سے رسول ص کے سامنے برکت حاصل کرتے تھے اور رسول ص اس پر خاموش رہتے تھے [بلکہ حوصلہ افزائی فرماتے تھے اور خود اپنے کٹے ہوئے بال صحابہ میں تقسیم فرمائے]

تو حجر اسود تو وہ ہے جسے صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی نہیں، بلکہ پتا نہیں کتنے انبیاء علیھم السلام چومتے اور چھوتے چلے آئے ہیں۔ اب پتا نہیں کہ انہیں حجر اسود کو چومنے اور چھونے سے برکت ملی یا پھر حجر اسود کو خود انبیاء کے چھونے سے مزید برکت ملی۔۔۔۔۔۔۔ بہرحال ایک بات طے ہے کہ حجر اسود تبرکات میں شاید سب سے بڑا تبرک ہے۔

تو اب لوگ مجھے جتنا مرضی "جہالت" کا سرٹیفکیٹ دیتے رہیں، مگر میں حق کی نشانی دیکھ کر اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی اور میرے نزدیک وہ شخص صریح غلطی پر ہے جو اب بھی کہے کہ تبرکات نبوی اور حجر الاسود کوئی نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتے، چاہے یہ کہنے والا مدینہ یونورسٹی کا مفتی اعظم ہی کیوں نہ ہو۔
میرے نزدیک حضرت عمر نے لمحہ بھر تامل کیے بغیر حق بات سننے کے بعد اسے قبول کر لیا۔ مگر جو حضرات آج ان کا نام لیکر حجر االاسود کی شفاعت کا انکار کر رہے ہیں، وہ بذات خود حضرت عمر کے نام کے ساتھ ناانصافی کر رہے ہیں کیونکہ وہ اس چیز سے اب پاک ہیں کہ انکا نام لیکر یہ کہا جائے کہ وہ حجر الاسود کے نفع پہنچانے کے منکر تھے۔

باقی آپ حضرات اپنی اپنی آراء میں آزاد ہیں۔

والسلام
 

مہوش علی

لائبریرین
آل موسیٰ اور آلِ ہارون کے تبرکات سے حصولِ برکت اور جنگوں میں فتح پانا

اللہ قران میں فرماتا ہے:

وَقَالَ لَهُمْ نِبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلآئِكَةُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
(القران 2:248)"اور ان کے پیغمبرعلیہ السّلام نے یہ بھی کہا کہ ان کی حکومت کی نشانی یہ ہے یہ تمہارے پاس وہ تابوت لے آئیں گے جس میں پروردگار کی طرف سے سامانِ سکون اور آل موسی ٰعلیہ السّلام اور آل ہارون علیہ السّلام کا چھوڑا ہوا ترکہ بھی ہے. اس تابوت کو ملائکہ اٹھائے ہوئے ہوں گے اور اس میں تمہارے لئے تمہارےُ پروردگار کی نشانی ہے اگر تم صاحبِ ایمان ہو"

یہ وہی سکینہ ہے جو کہ اللہ نے جنگ بدر میں براہ ِراست مومنین کے دلوں میں اتاری تھی۔ مگر یہاں اللہ بنی اسرائیل کے دلوں پر براہ ِراست نازل کرنے کی بجائے انہیں حکم دے رہا ہے کہ وہ اسے اس صندوق کے وسلیے سے حاصل کریں۔
اس تابوتِ سکینہ میں جنابِ موسیٰ (علیہ السلام) اور جنابِ ہارون(علیہ السلام) کے تبرکات تھے جیسے عصا، عمامہ، اور نعلین شریف وغیرہ۔ اور بنی اسرائیل کو حکم تھا کہ وہ جنگ کے دوران اس تابوتِ سکینہ کو اپنے سامنے رکھیں تاکہ اس کی برکت و وسیلے سے دشمنوں پر فتح پا سکیں (دیکھیں تفسیر ابن کثیر، تفسیر طبری و قرطبی وغیرہ)

///////////////////////

ان جگہوں کا بابرکت ہونا کہ جہاں سے انبیاء کا گذر ہو جاتا ہے

اللہ قران میں سامری کا واقعہ بیان کر رہا ہے کہ جبکہ اس نے وہ مٹی اٹھا لی تھی کہ جہاں سے حضرت جبرئیل(علیہ السلام) کے گھوڑے کا گذر ہوا تھا۔ اور اس نے جب یہ بابرکت مٹی اپنے بنائے ہوئے گائے کے گوسالہ میں ڈالی، تو اس کے اثر سے وہ گوسالہ بولنے لگا۔
اللہ قران میں فرما رہا ہے:

قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي
اس نے کہا کہ میں نے وہ دیکھا ہے جو ان لوگوں نے نہیں دیکھا ہے تو میں نے نمائندہ پروردگار کے نشانِ قدم کی ایک مٹھی خاک اٹھالی اور اس کو گوسالہ کے اندر ڈال دیا اور مجھے میرے نفس نے اسی طرح سمجھایا تھا (القران 20:96)

نوٹ: قران کی تمام تفاسیر اس بات پر متفق ہیں کہ یہاں نمائندہ پروردگار سے مراد جبرئیل امین(علیہ السلام) ہیں۔ (دیکھئیے تفسیر ابن کثیر و طبری وغیرہ)

/////////////////////////////////
صحابہ کرام کا نبی اکرمﷺ کے لعابِ دہن اور وضو کے پانی کو بطورِ تبرکات استعمال

سن 6 ہجری میں رسولﷺ صحابہ کے ساتھ حج کے ارادے سے مکہ معظمہ کی طرف تشریف لے گڑے تو راستے میں مشرکین نے ان کو روک لیا۔ آپﷺ چونکہ حج کے ارادے سے نکلے تھے اسلئے آپﷺ نے لڑائی کا عندیہ ظاہر نہیں کیا اور دو طرفہ سفارتی مذاکرات جاری ہوئے۔ جب عروہ بن مسعود (جو اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے) سفیر بن کر آئے تو انہوں نے واپس جا کر مشرکین سے یہ کہا:

اے قوم! اللہ کی قسم! میں بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں اور قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے ہاں بھی گیا ہوں۔ اللہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ جس کے اسحاب اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسی محمدﷺ کے اصحاب ان کی کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم! انہوں نے جب کبھی لعاب دہن پہینکا ہے تو ہو آپﷺ کے اصحاب میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ پر گرا ہے جسے انہوں نے اپنے منہ اور جسم پر مل لیا۔ جب وہ اپنے اصحاب کو حکم دیتے ہیں تو وہ اس کی تعمیل کے لیے دوڑتے ہیں اور جب ہو وضو فرماتے ہیں تو وہ ان کے وضو کے پانی کے حصول کے لیے باہم جھگڑنے کہ نوبت تک پہنچ جاتی ہے۔ اور جب وہ گفتگو کرتے ہیں تو اصحاب ان کے سامنے اپنی آوازیں پست کر لیتے ہیں اور ازروئے تعظیم ان کی طرف تیز نگاہ نہیں کرتے ہیں۔ انہوں نے تم پر ایک نیک امر پیش کیا ہے پس تم اسے قبول کر لو۔
حوالہ:
صحیح بخاری، کتاب الشروط، ترجمہ از مولانا وحید الزمان خان

//////////////////////////////

حضرت حجاج بن حسان بیان کرتے ہیں:

ہم حضرت انس کے پاس تھے کہ آپ نے ایک برتن منگوایا جس میں لوہے کہ تین مادہ گوہ اور لوہے کا ایک چھلا تھا۔ آپ نے اسے سیاہ غلاف سے نکالا، جو درمیانے سائز سے کم اور نصف چوتھائی سے زیادہ تھا۔ اور حضرت انس کے حکم سے اس میں ہمارے لیے پانی ڈال کر لایا گیا تو ہم نے پانی پیا اور اپنے سروں اور چہروں پر ڈالا اور رسول ﷺ پر درود پڑھا۔
اس روایت کی اسناد صحیح ہیں۔
مسند احمد بن حنبل 187:3
البدایہ و النہایہ 370:4

حضرت ابو بردہ روایت کرتے ہیں:

مجھے عبد اللہ بن سلام نے کہا: کہا میں آپ کو اس پیالے میں پانی نہ پلاؤں جس میں نبی ﷺ نے پانی نوش فرمایا تھا؟
صحیح بخاری 842:2

حضرت سہل بن سعد روایت کرتے ہیں:
رسول ایک دن اپنے صحابہ کے ہمراہ سقیفہ بنی ساعدہ میں تشریف فرما ہوئے۔ پھر حضرت سہل سے فرمایا کہ مجھے پانی پلاؤ۔ پھر میں نے ان کے لیے یہ پیالا نکالا اور انہیں اس میں پانی پلایا۔ ابو حازم نے کہا: سہل نے ہمارے لیے وہ پیالہ نکالا اورا ہم نے بھی اس میں پانی پیا۔ پھر حضرت عمر بن عبد العزیز نے وہ پیالہ ان سے مانگ لیا تو حضرت سہل نے ہی پیالہ ان کو دے دیا اور ابو بکر ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ اس نے کہا: اے سہل، ہمیں پانی پلاؤ۔
صحیح مسلم، کتاب الاشربہ
////////////////////////

رسولﷺ کی کلی کے پانی سے حصولِ برکت

حضرت ابو موسیٰ روایت کرتے ہیں:
میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ تھا جب آپﷺ جعرانہ میں تشریف لائے، جو کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے۔ آپﷺ کے ساتھ حضرت بلال (رضی اللہ عنہ) بھی تھے۔ ایک اعرابی آپﷺ کے پاس آیا اور بولا: اے محمد! کیا آپ نے مجھ سے کیا ہوا وعدہ پورا نہیں کیا۔ آپﷺ نے اسے فرمایا: خوش ہو جاؤ۔ وہ بولا:آپﷺ نے بہت دفعہ کہا ہے کہ خوش ہو جاؤ۔ یہ سن کر رسولﷺ غصے کی حالت میں حضرت ابو موسیٰ اور حضرت بلال کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اس شخص نے میری بشارت کو رد کیا، اب تم دونوں میری بشارت قبول کرو۔ دونوں نے عرض کی: یا رسول اللہ! ہم نے خوشخبری کو قبول کیا۔ پھر آپﷺ نے ایک پیالہ پانی کا منگوایا اور دونوں ہاتھ اور چہرہ دھوئے اور اس میں کلی کی۔ پھر فرمایا کی اسے پی جاؤ اور اپنے منہ اور سینے پر ڈالو اور خوش ہو جاؤ۔ ان دونوں نے پیالہ لیا اور ایسے ہی کیا جیسے آپﷺ نے انہیں فرمایا تھا۔ حضرت ام سلمہ نے ان کو پردے کے پیچھے سے آواز دی: اپنی ماں کے لیے بھی اپنے برتنوں میں سے بچاؤ۔ پس انہوں نے ان کے لیے بھی کچھ پانی رکھ لیا۔
ھوالہ:
صحیح مسلم، کتاب الفضائل، ج 3 ص 721، ترجمہ از مولانا عزیز الرحمان، جامعہ االاشرفیہ، لاہور
صحیح مسلم، کتاب الفضائل، ج 3 ص 722، ترجمہ از مولانا عزیز الرحمان، جامعہ االاشرفیہ، لاہور
///////////////////////////
رسولﷺ کے موئے مبارک سے حصولِ برکت

حضرت انس سے روایت ہے:
جب رسول ﷺحج کے موقع پر قربانی دینے سے فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے سر کا دایاں حصہ حجام کے سامنے کر دیا۔ اس نے بال مبارک مونڈھ دیے۔ پھر آپ ﷺ نے حضرت طلحہ کو بلایا اور وہ بال ان کو دے دیے ۔ اس کے بعد حجام کے سامنے دوسری جانب فرمائی۔ اس نے ادھر کے بال بھی مونڈھ دیے۔ رسول ﷺ نے وہ بال حضرت ابو طلحہ کو دیے اور فرمایا کہ یہ بال لوگوں میں بانٹ دو۔
صحیح مسلم، کتاب، کتاب الحج ترجمہ از مولانا عزیز الرحمان، جامعہ اشرفیہ لاہور

حضرت انس سے مروی ہے:

میں نے رسول ﷺ کو دیکھا کہ حجام رسول ﷺ کے سر مبارک کی حجامت بنا رہا ہے اور صحابہ کرام رسول ﷺ کے گرد حلقہ باندحے ہوئے کھڑے ہیں اور چاہتے ہیں کہ رسول ﷺ کا جو بال بھی گرے وہ کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرے۔
صحیح مسلم 256:2
مسند احمد بن حنبل 137:3

ابن سیرین بیان کرتے ہیں:

میں نے عبیدہ سے کہا کہ ہمارے پاس بنی اکرم ﷺ کے بال مبارک ہیں جن کو میں نے انس یا ان کے گھر والوں سے حاصل کیا ہے۔ عبیدہ نے کہا کہ اگر ان میں ایک بال میرے پاس ہو تو وہ بال مجھے ساری دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، سے زیادہ محبوب ہے۔
صحیح مسلم، کتاب الوضو

/////////////////////////////
رسولﷺ کے ہاتھ اور پاؤں کو چوم کر صحابہ کا برکت حاصل کرنا

انس بن مالک روایت کرتے ہیں:
اللہ کے رسولﷺ جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو خدام مدینہ اپنے پانی سے بھرے ہوئے برتن لے کر آتے۔ آپﷺ ہر پانی لانے والے کر برتن میں اپنا ہاتھ مبارک ڈبو دیتے۔ بسا اوقات یہ واقعہ موسم سرما کی صبح میں ہوتا اور آپﷺ اپنا ہاتھ اس میں ڈبو دیتے
صحیح مسلم جلد 2، صفحہ 356

عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں:
وہ کچھ اور صحابہ کے ساتھ ایک دفعہ میدانِ جنگ سے بھاگ نکلے۔ پھر جب پشیمان ہوئے تو پھر واپس مدینے جانے کا عزم کیا اور رسولﷺ کے پاس آ کر کہنے لگے: یا رسول اللہﷺ ہم بھاگنے والوں میں سے ہیں۔ رسولﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
نہیں تم پھر لڑائی میں آنے والے ہو۔ عبداللہ ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ یہ سن کر ہم آپﷺ کے نزدیک گئے اور آپﷺکا ہاتھ مبارک چوما۔
سنن ابو داؤد، کتاب الجہاد
سنن ابن ماجہ 271
جامع الترمذی 205:1

امِ ابان بنت وازع بن زارع اپنے دادا زارع۔۔۔ جو وفدِ عبد القیس کے رکن تھے۔۔۔۔ سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے بیان کیا:

جب ہم مدینہ منورہ پہنچے تو اپنی سواریوں سے جلدی جلدی اترے اور اللہ کے پیارے رسولﷺ کے ہاتھ اور پاؤں چومنے لگے۔
سنن ابو داؤد، کتاب الادب

امام بخاری نے یہ روایت ام ابان سے ان الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے کہ ان کے دادا وازع بن عمر نے کہا:

ہم مدینے پہنچے تو کہا گیا: وہ اللہ کے رسولﷺ ہیں۔ پس ہم نے آپﷺ کے ہاتھ اور پاؤں مبارک پکڑے اور انہیں چوما۔
الادب المفرد 339 رقم 975

صفوان بن عسال روایت کرتے ہیں:

یہودیوں کے ایک وفد نے نبیﷺ کے ہاتھ اور پاؤں مبارک کا بوسہ لیا۔
سنن ابن ماجہ 271
جامع الترمذی 98:2
مصنف ابن ابی شیبہ 562:8
مسند احمد بن حنبل 239:4
المستدرک الحاکم 9:1

امام حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا ہے جبکہ امام ذہبی نے بھی ان کی تائید کی ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
میرے سامنے اس وقت احادیث نبوی کی اتنی کثیر تعداد ہے کہ سمجھ میں نہیں آ رہی تھی کہ کون سے پیش کروں اور کون سے نہیں۔
بہرحال، جتنی پیش کر دی ہیں، میں سمجھتی ہوں کہ وہ کافی ہیں۔ مزید احادیث نبوی کے لیے آپ کو مشورہ دوں گی کہ آپ محترم ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی وسیلے اور توسل پر موجود کتاب کا مطاالعہ کریں جو کہ انکی آنلائن لائبریری میں شامل ہے۔
///////////////////
میں اپنی تحریر کا اختتام اس امیج پر کرتی ہوں:
kissingkabadoor1il0.jpg

صرف ایک سوال:
1۔ کیا یہ حجاج خانہ کعبہ کی دیوار کو تبرک کی نیت سے چھو کر شرک کا مرتکب ہو رہے ہیں؟
 

فاروقی

معطل
دیکھیئے خاتون مہوش علی میں کوئی عالم تو نہیں ہوں ............اور آپ سے بھی بہت کم علم ہوں..........لیکن کسی بے جان چیز سے نفع و نقصان کی توقع رکھنا مجھ جیسے جہل کے لیئے بھی قبول نہیں ہے..........

آپ جانتی ہیں شرک کیا ہے............؟

خدا کے علاوہ کسی سے اچھائی برائی کی توقع رکھنا ہی شرک ہے خواہ وہ کوئی ولی ہو یا نبی..............خود حضور صلی اللہ وسلم نے بھی منع فرمایا ہے اللہ کے علاوہ کسی سے مدد مانگنے کو..........

آپ کا مرسلہ میں مکمل نہیں پڑھ سکا کہ طویل بہت ہے...........بہر حال میں صرف اتنا کہوں گا کہ نفع نقصان کا مالک صرف اور صرف اللہ وحدہ لا شریک ہے اور کوئی نہیں ............میرا کام بتانا تھا جو سمجھ رکھتے ہیں وہ سمجھ جاتے ہیں ........

ہم تو اللہ کے دوستوں (اولیا اللہ )کے قدموں کی خاک بھی نہین چہ جائکہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور کسی صحابی رصی اللہ عنہ کی کسی بات یا قول سے روگردانی کی سوچ بھی اپنے اند ر لا سکیں............لیکن اللہ کے سوا کسی سے کچھ نفع نقصان کی توقع رکھنا خود سے ظلم ہے اور اللہ سے شرک...........آج ہر مزار اور قبر پر یہی کچھ ہو رہا ہے .............سجدے ....نیازیں........مشکل کشائی کی باتیں لوگ قبروں سے کرتے ہین ............میں تو اتنا کہا کرتا ہوں.......

جو کروٹ بدلنا نہیں جانتے ہیں
انہیں آپ مشکل کشا مانتے ہیں.​
 

طالوت

محفلین
سب گورکھ دھندہ ! بے کار کی باتیں ! اتنی برکات ہوتیں ان بے جان چیزوں میں تو آج ہم اس حال میں نہ ہوتے ۔۔۔
خیر ہم کچھ نہیں کہتے ورنہ یہ برکات تو کشمیر سے لے کر فلسطین و ترکی تک موجود ہیں اور حال ؟؟؟؟؟
وسلام
 

مہوش علی

لائبریرین
فاروقی بھائی،
ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھنے کا نام عدل ہے۔
مجھے اللہ کی ایک صفت جو بہت محبوب ہے، وہ ہے اسکا عدل۔

جو لوگ اپنی ناعلمی اور جہالت کی وجہ سے کچھ حرام کاموں کے مرتکب ہو رہے ہیں، انکی وجہ سے تبرکات نبوی اور حجر الاسود کی برکت کا انکار کر دینا مناسب نہیں۔

دیکھئیے، اعتراض ایک لائن کا ہوتا ہے، مگر اس کا دلائل اور ثبوتوں کے ساتھ تسلی بخش جواب دینے کے لیے کئی صفحات کی لازمی ضرورت پڑتی ہی ہے۔
اب آپ ایک لائن میں "شرک" کہہ کر الگ ہو جاتے ہیں، اور جب جوابا دلائل بمع ثبوتوں کے پیش کیا گیا تو آپ نے طویل مراسلوں کا عذر کر کے ان کو پڑھنے سے انکار کر دیا۔

اب آپ نے ایک دوسرا موضوع مزاروں کا شروع کر دیا ہے، جس کے دسیوں ضمنی موضوعات ہیں، اور ہمیں ان میں سے ہر ایک کے ساتھ مکمل اور پورا پورا انصاف دلائل کی روشنی میں کرنا ہو گا، اور صحیح/غلط کا فیصلہ قران و سنت کی روشنی میں کرنا ہو گا۔ مگر جب میں یہ کروں گی تو پھر آپ طویل مراسلوں کا عذر پیش کریں گے۔
////////////////////////////////////////////////

بہرحال مختصرا صرف ایک روایت اور اس پر تبصرہ:
ام المومنین جناب عائشہ اور ان کی بہن اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ ﷺ کے کرتے سے بیماری میں شفا حاصل کرتی تھیں

صحیح مسلم اللباس والزينة تحريم استعمال إناء الذهب والفضة على الرجال والنساء

حضرت اسماء کے مولیٰ عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر نے کسروانی طیلسان کا جبہ نکالا جس کے گریبان اور چاکوں پر ریشم کا کپڑا لگا ہوا تھا۔ کہنے لگیں: یہ حضرت عائشہ کے پاس تھا۔ جب وہ فوت ہوئیں تو یہ جبہ میرے قبضے میں آ گیا۔ نبی کریم ﷺ اس کو پہنتے تھے۔ اور اب ہم بیماروں کہ لیے اس کو دھوتے ہیں اور اس سے بیماروں کے لیے شفاء طلب کرتے ہیں۔

کیا اب بھی کوئی ام المومنین جنابِ عائشہ اور ان کی صحابیہ بہن (جناب ابو بکر کی بیٹی) اسماء بنت ابی بکر کی گواہی کو جھٹلا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ تو ایک طرف، آپ ﷺ کا کرتہ تک اتنا بابرکت تھا کہ مدینے کے صحابہ بیماری کی حالت میں اس سے شفا حاصل کرتے تھے (حالانکہ بیماری سے شفا دینا اصل میں اللہ کا کام ہے۔)
کیا ام المومنین عائشہ اور اسماء بنت ابی بکر نے رسول اللہ ﷺ کے اس جبہ سے فائدہ طلب کر کے اس کو اللہ کا شریک بنا دیا؟
اور انہوں نے اللہ سے براہ ِراست بیماری سے شفا کیوں نہیں مانگ لی؟

خود سوچیے کہ جب انہوں نے جبہ سے بیماری کے خلاف مدد طلب کی تو کیا یہ مدد حقیقی معنوں میں تھی؟ یا پھر انہوں نے یہ مدد حقیقی معنوں میں اللہ سے ہی طلب کی تھی اور جبہ سے مدد مانگنے کا مطلب صرف اور صرف یہ تھا کہ اس کے وسیلے سے رسول اللہ ﷺ کی برکت بھی شامل ہو جائے جس کے بعد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی مقبولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں؟

انتہائی اہم اصول: ظاہری عمل بمقابلہ چھپی ہوئی نیت

اگرچہ کی جنابِ عائشہ اور اسماء بنت ابی بکر نے رسول ﷺ کے جبہ سے شفا طلب کرتے ہوئے اللہ کا نام تک نہیں لیا، مگر پھر بھی تمام مسلمان یہ یقین رکہتے ہیں کہ ان دونوں نے ایسا کر کے شرک نہیں کیا ہے۔
اس قسم کے اعمال کو سمجھنے کے دو طریقے ہیں:

1۔ ظاہری عمل کی بنیاد پر فتویٰ دینا کہ شفا حقیقی معنوں میں رسول ﷺ کے جبہ سے طلب کی جا رہی تھی اور شرک کیا جا رہا تھا۔

2۔ عمل کے پیچھے چھپی ہوئی باطنی نیت کو دیکہنا جو یہ بتا رہی ہے کہ جبہ سے شفا کے لیے مدد مانگنا مجازی معنوں میں تھا اور اصل مدد حقیقی معنوں میں اللہ سے ہی طلب کی جا رہی تھی۔ اور یہ باطنی نیت وہ چیز ہے جسے عمل کے ظاہر پر فوقیت حاصل ہے اور ہر عمل کا دار و مدار اس کے ظاہر پر نہیں ہے بلکہ اس کی نیت پر ہے۔

اسی لئے رسول ﷺ نے فرمایا:

اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے

مگر کچھ حضرات نے اسکا بالکل الٹ کیا اور یہ عقیدہ گھڑا کہ:

اعمال کا دارومدار اُن کے ظاہر پر ہے

کہنے کو میرے پاس بہت کچھ ہے، مگر فائدہ نہیں کہ آپ سننے کو تیار نہیں۔ ۔۔۔۔۔

اللہ ہم سب کو صراط مستقیم کی ہدایت عطا فرمائے۔ امین۔
والسلام۔
 

مغزل

محفلین
بہت شکریہ مہوش صاحبہ ، اللہ جزا عطافرمائے
رہی بات فاروقی کی تو اب کیا کہوں کہ مراسلہ پڑھنے کا وقت نہیں اور لگے انکار و مباحث پر۔
فاروقی بھیا یہ اچھا رویہ نہیں ، اس میں سراسر نقصان کے کہ بغیر پڑھے آپ کیا دلائل دو گے
کیا صرف کہیں سے کاپی پیسٹ کرنے سے ہمیں علم مل سکتا ہے ، فلاح و نجات مل سکتی ہے،
امید ہے آپ وہ احادیث پڑھ لیں گے ۔ پھر جو چاہیں کہیں۔۔ حدیث سے انکار کیجئے گا تو اپنے
ہی اعمال اکارت کیجئے گا۔۔

طالوت کی کیا کہوں ۔۔ بس ایک سوال مشورے کی مد میں : (فاروقی کیلئے بھی)

کیا آپ جانتے ہیں کہ :
1- تفضیل کیا ہے ؟
2- تفضیل ِ بعض کیا ہے ؟
3- تفضیلِ کل کیا ہے ؟

ذاتی، صفاتی اور عطائی میں کیا تفریق ہے ؟

پہلے جان لیجئے ، مجھے بھی ( بلکہ ہمیں بھی) بتائیے اور پھر بات کیجئے !
وگرنہ یہ تو وہ بات ہوئی کہ : جراحت سیکھنے گئے نہیں اور لگے جراحت کرنے۔
(معاف کیجئے گا مولوی کا علم مشکوک ہے اور شر سے مبرا نہیں ماسوائے چند ایک کے)
اصل تک پہنچئے اور بغیر کسی تعلق کی پٹی آنکھوں پر چڑھائے ۔۔ انشا اللہ فلاح مل جائے گی۔


والسلام
 

مغزل

محفلین
فاروقی اور طالوت بھیا م

احترام اسلام سے عبارت ہے :
چار مسالک برحق ہیں ان کی اقتدا پر نجات کی راہ ہے۔۔
شافعی ، مالکی، حنبلی اور حنفی

شافعی مسلک کے پیروکار اپنے سالک کی عطاعت میں رفع یدین کرتے ہیں
اور حنفی مسلک کے معتقدین اپنے سالک کی اقتدا میں ایسا نہیں کرتے :اب سنئے !

ایک بار امام ابو حنیفہ کا سفر امام شافعی کی طرف ہوا (آپ کے معتقدین بھی ہمراہ تھے) آپ (نعمان بن ثابت) نے اپنے
ہمراہیوں سے فرمایا کہ شافعی مسلک میں رفع یدین اب تک روا ہے ۔۔ ہم وہاں‌نماز پڑھیں گے اور رفع یدین نہ کریں گے تو
نماز میں تفریق ( جس سے لفظ فاروق ، اس کا حاصل مصد ر فاروقی اور فرق ہے) ہوگی ۔۔ لہذا ہم رفع یدین کریں گے۔
ادھر امام شافعی نے اپنے پیروکاروں سے کہا کہ حفی مسلک میں رفع یدین نہ رہی ، وہ ہمارے ہاں‌مہمان آرہے ہیں اگر ہم نے
رفع یدین کیا تو نماز میں‌تفریق ہوگی ۔ لہذا ان کے مسلک کے احترام میں ہم رفع یدین نہ کریں‌گے۔
تاریخَ عالم اسلام گواہ ہے کہ نماز میں عجیب منظر تھا ۔۔ رفع یدین کرنے والے رفع یدین نہ کر رہے تھے اور رفع یدین کرنے
والے رفع یدین کر رہے تھے ۔۔ یہ ہے احترام اور یہ اسلام ۔۔

فاروقی میاں میں یہی مراسلہ آپ کو ارسال کرنے والا تھا۔۔
وگرنہ اتحادِ اسلامی کا نعرہ لگانے سے کچھ نہ ہوگا ۔۔ماسوائے وقت ضائع کرنے کے ۔۔
اللہ ہمیں سچ سننے ، سمجھے اور اس پر عمل و استقامت عطا فرمائے (اٰمین)
واللہ اعلم باالصواب
نیاز مند
م۔م۔مغل
 

خاور بلال

محفلین
ان روایات سے تو یہی معلوم ہورہا ہے کہ ہر ہر وہ چیز جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ سے رہی ہو، لوگ اس سے عقیدت رکھتے تھے اور بعض چیزوں کو برکت و شفا کے لیے استعمال کرتے تھے۔ غارِ ثور میں ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ جب سانپ کے ڈسنے سے زخمی ہوگئے تو رسول اللہ نے اپنا لعاب ان کے زخموں پر لگایا جس سے شفا ہوگئی۔ خود مجھے زندگی میں کبھی ایسی کوئ چیز مل جائے کہ جس کے بارے میں یقین ہو کہ اسکی نسبت خدا کے رسول سے رہی ہے تو میں اس چیز سے بہت عقیدت سے پیش آؤں گا چاہے وہ ریت کے چند ذرے ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن یہ صرف عقیدت ہوگی۔ نجات کا دارو مدار تو اعمال ہی رہیں گے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی یہ تعلیم دی ہو کہ تم لوگ میرے استعمال کی چیزوں، میرے کپڑوں یا میرے بالوں کو باعثِ شفاعت سمجھنا۔

حجرِ اسود سے متعلق تو میں صرف یہ پوچھنا چاہوں گا کہ کیا مجرد حجرِ اسود کو چوم لینا ہی اور اس سے عقیدت و احترام سے پیش آنا ہی باعثِ شفاعت ہے؟ یعنی ایک شخص جو دل سے حجرِ اسود سے عقیدت رکھتا ہو اور اسے چومنے کی سعادت بھی حاصل کرچکا ہو لیکن اس کے اعمال نیک نہ ہوں تو کیا حجرِ اسود اس کے کسی کام آئیگا؟ یا پھر اصل شرط توحید پر قائم رہنے اور اپنے فرائض انجام بجالانے کی ہے۔ اگر اصل شرط ایمان اور نیک اعمال کی ہے تو پھر حجرِ اسود کو چومنا محض سنت ہے اور سنت پر عمل کرنا بذاتِ خود باعثِ ثواب ہے اس میں حجرِ اسود کا کچھ کمال نہیں۔

ہمارے ہاں عقیدت لمحوں کے فرق سے عقائد میں بدل جاتی ہے۔ شفا سے شفاعت کا سفر چٹکی بجاتے طے ہوجاتا ہے۔ ایک دور میں لوگ کسی چیز کو باعثِ برکت سمجھ رہے ہوتے ہیں اسی چیز کو ان کے بعد والی نسلیں باعثِ ثواب سمجھنے لگ جاتی ہیں۔ امت مسلمہ کو آج جو بڑے بڑے مرائض لاحق ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔
 

مغزل

محفلین
قبلہ اصل معاملہ اصل سےدوری ہے وگرنہ اس عقیدت سے آپ کے اعمال میں کیافرق پر‌جاتا ہے ۔۔ یہ آپ نہیں جانتے !

بشر ایک شخصیت ان کا لقب حافی یعنی ننگے پاؤں دوڑنے والا،

ایک دن بشر شراب کے نشے میں دھت کہیں جارہے تھے کہ ٹھوکر لگی اور منھ کے بل گر پڑے
قریب ہی ایک کاغذ کے ٹکٹرے پر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھا دیکھا اٹھا ، چوما آنکھوں سے لگا یا
اور بازار سے عطر خرید کر خوشبو میں بسا کر ایک محفوظ جگہ رکھ دیا ۔

اسی وقت کے کسی بزرگ کر ندا ہوئی کہ بشر سے کہو کہ تمھاری بخشش ہوگئی ہے۔
بزرگ نے خیال کیا کہ بشر اور مغفرت ؟؟ مجھے یقیناً خواب یاد نہیں ، دوسرے دن
پھر خواب میں ندا ہوئی کہ بشر سے کہو کہ اس کی مغفرت ہوگئی ہے ۔۔ پھر نظر انداز کیا
تیسرے دن پھر بشارت ہوئی کہ بشر سے کہو اس کی مغفرت ہوگئی ہے ۔۔ وہ بزرگ بشر
کے مکان پر تشریف لائے ۔۔ بشر کو خبر ہوئی کی وقت کا برگزیدہ بندہ اس کے گھر کے دروازے پر ہے
تو برہنہ پاؤں دوڑے ۔۔ اس واقعہ کی نسبت سے ا ن کا لقب ’’ حافی ‘‘پڑ گیا ۔۔

باقی آپ نہ مانیں تو ہم کیا کر لیں گے۔۔
واللہ اعلم باالصواب

والسلام
 

مغزل

محفلین
ان روایات سے تو یہی معلوم ہورہا ہے کہ ہر ہر وہ چیز جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ سے رہی ہو، لوگ اس سے عقیدت رکھتے تھے اور بعض چیزوں کو برکت و شفا کے لیے استعمال کرتے تھے۔ غارِ ثور میں ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ جب سانپ کے ڈسنے سے زخمی ہوگئے تو رسول اللہ نے اپنا لعاب ان کے زخموں پر لگایا جس سے شفا ہوگئی۔ خود مجھے زندگی میں کبھی ایسی کوئ چیز مل جائے کہ جس کے بارے میں یقین ہو کہ اسکی نسبت خدا کے رسول سے رہی ہے تو میں اس چیز سے بہت عقیدت سے پیش آؤں گا چاہے وہ ریت کے چند ذرے ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن یہ صرف عقیدت ہوگی۔ نجات کا دارو مدار تو اعمال ہی رہیں گے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی یہ تعلیم دی ہو کہ تم لوگ میرے استعمال کی چیزوں، میرے کپڑوں یا میرے بالوں کو باعثِ شفاعت سمجھنا۔

ارے بھئی منع بھی تو نہیں‌کیا کہ کہ اصحاب ۔ تم مجھ سے یہ عقیدت نہ روا رکھو !
دیجئے کوئی ایک ایسی مثال ۔۔
قرآن میں اللہ فرماتا ہے "
ان الشکرولی ولی ولیدیک ""( تلفظ لکھا ہے ۔۔ اصل عبارت محو ہے )
میرا شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا
اگر یہ شرک ہے تو کیا معاذ اللہ ، اللہ شرک کی تلقین کررہا ہے۔ ؟؟

حجرِ اسود سے متعلق تو میں صرف یہ پوچھنا چاہوں گا کہ کیا مجرد حجرِ اسود کو چوم لینا ہی اور اس سے عقیدت و احترام سے پیش آنا ہی باعثِ شفاعت ہے؟ یعنی ایک شخص جو دل سے حجرِ اسود سے عقیدت رکھتا ہو اور اسے چومنے کی سعادت بھی حاصل کرچکا ہو لیکن اس کے اعمال نیک نہ ہوں تو کیا حجرِ اسود اس کے کسی کام آئیگا؟ یا پھر اصل شرط توحید پر قائم رہنے اور اپنے فرائض انجام بجالانے کی ہے۔ اگر اصل شرط ایمان اور نیک اعمال کی ہے تو پھر حجرِ اسود کو چومنا محض سنت ہے اور سنت پر عمل کرنا بذاتِ خود باعثِ ثواب ہے اس میں حجرِ اسود کا کچھ کمال نہیں۔


حجر ِ اسود کو کما ل حاصل ہے کہ اسے محمد صل اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں نصب کیا ۔۔
ہمیں یہی نسبت کافی ۔ آپ کرتے پھریئے حجت تمام ۔۔ والسلام
 

مہوش علی

لائبریرین
ان روایات سے تو یہی معلوم ہورہا ہے کہ ہر ہر وہ چیز جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ سے رہی ہو، لوگ اس سے عقیدت رکھتے تھے اور بعض چیزوں کو برکت و شفا کے لیے استعمال کرتے تھے۔ غارِ ثور میں ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ جب سانپ کے ڈسنے سے زخمی ہوگئے تو رسول اللہ نے اپنا لعاب ان کے زخموں پر لگایا جس سے شفا ہوگئی۔ خود مجھے زندگی میں کبھی ایسی کوئ چیز مل جائے کہ جس کے بارے میں یقین ہو کہ اسکی نسبت خدا کے رسول سے رہی ہے تو میں اس چیز سے بہت عقیدت سے پیش آؤں گا چاہے وہ ریت کے چند ذرے ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن یہ صرف عقیدت ہوگی۔ نجات کا دارو مدار تو اعمال ہی رہیں گے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی یہ تعلیم دی ہو کہ تم لوگ میرے استعمال کی چیزوں، میرے کپڑوں یا میرے بالوں کو باعثِ شفاعت سمجھنا۔

کیا عقیدت/تعظیم اور اچھے اعمال میں فرق ہے؟
مجھے لگا کہ جو احادیث میں اوپر پیش کر چکی ہوں، وہ اتنی صاف ہیں کہ اسکے بعد کوئی ابہام باقی نہ رہے گا۔ مگر افسوس کہ میں غلطی پر ہوں اور لوگ شرک کے نام پر اس حد تک ذہنی طور پر پروگرامڈ ہو چکے ہیں کہ اتنی صاف و واضح احادیث کے بعد بھی شکوک و وسوسے انکے دلوں میں جگہ بنا لیں گے اور وہ باتیں بطور دلیل پیش کریں گے کہ جو کہ ہرگز چیزوں سے انصاف نہیں کر سکتیں۔

بہرحال، اللہ کے نام سے شروع کرتے ہیں۔

سب سے پہلا سوال: " کیا عقیدت/تعظیم اور اچھے اعمال میں کوئی فرق ہے؟"

خاور صاحب، آپ نے عقیدت/تعظیم کو الگ کر دیا اور "اچھے اعمال" کو الگ کر دیا۔ یہ آپ کی سب سے بڑی اور بنیادی غلطی ہے۔

عقیدتی/تعظیمی اعمال کا شمار بذات خود "اچھے اعمال" میں ہوتا ہے۔
نجات کا دارومدار اچھے اعمال پر ہے۔ اور اگر آپ شعائر اللہ کی تعظیم کر رہے ہیں تو یہ بذات خود "اچھا عمل" ہے جسکا ثواب ہے۔

اب آپ اپنا لکھا ہوا پیراگراف خود اس نیت سے پڑھیں کہ شعائر اللہ کی تعظیم بذات خود "نیک عمل" ہے اور اس دفعہ انشاء اللہ آپ پر واضح ہو جائے گا کہ آپ عقیدت اور نیک اعمال کو الگ الگ کر کے کتنی عجیب اور بڑی غلطی کر رہے تھے۔

اور جو آپ نے فرمایا ہے کہ:
"۔۔۔۔مجھے یاد نہیں پڑتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی یہ تعلیم دی ہو کہ تم لوگ میرے استعمال کی چیزوں، میرے کپڑوں یا میرے بالوں کو باعثِ شفاعت سمجھنا۔"

بھائی جی، یہاں آپ کا یہ بیان اسقدر حقیقت سے دور ہے کہ میں بس حیران ہوں کہ آپ نے اوپر موجود ان دسیوں احادیث کو کن نظروں سے پڑھا ہے۔ کیا اتنی واضح احادیث پیش کرنے کے بعد میرے لیے ممکن ہے کہ میں کوئی اور ان سے زیادہ مزید واضح چیز پیش کر سکوں؟ نہیں میرے لیے ممکن نہیں۔ اور اگر آپ کو یہ چیزیں نظر نہیں آ سکیں تو میں آپ سے اچھے طریقے سے معذرت کر لوں کہ میں آپ سے گفتگو نہیں کر سکتی اور نہ ہی آپ کو راہ دکھا سکتی ہوں۔

/////////////////////////

از خاور بلال:
حجرِ اسود سے متعلق تو میں صرف یہ پوچھنا چاہوں گا کہ کیا مجرد حجرِ اسود کو چوم لینا ہی اور اس سے عقیدت و احترام سے پیش آنا ہی باعثِ شفاعت ہے؟

بھائی جی، آپ نے پہلے فرمایا تھا کہ اگر ریت کے ذروں کے متعلق بھی آپ کو پتا ہو کہ رسول ص سے مس شدہ ہیں تو آپ انکی تعظیم کریں گے۔
میرے خیال میں حجر الاسود کے متعلق تو آپ کو یقین ہونا چاہیے کہ رسول ص نے صرف اسے مس کر چکے ہیں بلکہ چوم چکے ہیں اور ان سے قبل بےتحاشہ انبیاء اور بھی گذرے ہیں جنہوں نے حجر الاسود کو چوما ہے۔
یعنی تبرکات نبوی کے متعلق سعودی علماء کا یہ عمومی عذر ہوتا ہے کہ تبرکات نبوی اب مہیا نہیں اس لیے کسی چیز کی تعظیم واجب نہیں۔ مگر بہرحال حجر الاسود کے متعلق یہ عذر پیش نہیں کیا جا سکتا۔
//////////////////////////////
از خاور بلال:
یعنی ایک شخص جو دل سے حجرِ اسود سے عقیدت رکھتا ہو اور اسے چومنے کی سعادت بھی حاصل کرچکا ہو لیکن اس کے اعمال نیک نہ ہوں تو کیا حجرِ اسود اس کے کسی کام آئیگا؟ یا پھر اصل شرط توحید پر قائم رہنے اور اپنے فرائض انجام بجالانے کی ہے۔ اگر اصل شرط ایمان اور نیک اعمال کی ہے تو پھر حجرِ اسود کو چومنا محض سنت ہے اور سنت پر عمل کرنا بذاتِ خود باعثِ ثواب ہے اس میں حجرِ اسود کا کچھ کمال نہیں۔
اپنی تھیوری کو ثابت کرنے کے لیے آپ ایک بار پھر حجر اسود کی تعظیم کو الگ اور نیک اعمال کو الگ کر رہیں ہیں جو کہ بنیادی طور پر بالکل ہی غلط بات ہے۔
اور صرف حجر اسود کی تعظیم ہی نہیں، بلکہ کسی بھی نیک عمل کی قبولیت کی شرط اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لانے پر ہے۔
اور جو آپ کہہ رہے ہیں :" ۔۔۔ اس میں حجر اسود کا کچھ کمال نہیں۔"
تو یہ فقط آپکا قیاس ہے جو مبنی برخلاف قول رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے۔
کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو اعلان کر رہے ہیں:

باب مَا جَاءَ فِي الْحَجَرِ الأَسْوَدِ
976 - حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنِ ابْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي الْحَجَرِ ‏"‏ وَاللَّهِ لَيَبْعَثَنَّهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَهُ عَيْنَانِ يُبْصِرُ بِهِمَا وَلِسَانٌ يَنْطِقُ بِهِ يَشْهَدُ عَلَى مَنِ اسْتَلَمَهُ بِحَقٍّ ‏" قَالَ اَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ
ترجمہ:
قتیبہ نے جریر سے، اُس نے ابن خثیم سے، اُس نے سعید بن جبیر سے، اُس نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسول ﷺ نے حجر الاسود کے متعلق فرمایا:
خدا کی قسم، اللہ اس (حجر اسود) کو روزِ قیامت آنکھیں عطا کرے گا جو انہیں دیکھیں گی، اور زبان عطا کرے گا جو اُن کے حق میں شہادت دیں گی جنھوں نے اُس کے ساتھ صحیح سلوک کیا ہے۔
ابو عیسی کہتے ہیں یہ حدیث حسن ہے
حوالہ: سنن ترمذی، کتاب الحج [آنلائن لنک]
اور علی ابن ابی طالب بیان کرتے رہیں کہ حجر اسود روز قیامت شفاعت کرے گا، مگر آپ اسے حجر اسود کا کمال نہ مانیں تو میں کوئی زور زبردستی تو کرنے سے رہی۔ آپ سب حضرات اپنے افعال و اعمال میں آزاد ہیں۔
//////////////////////
از خاور بلال:
ہمارے ہاں عقیدت لمحوں کے فرق سے عقائد میں بدل جاتی ہے۔ شفا سے شفاعت کا سفر چٹکی بجاتے طے ہوجاتا ہے۔ ایک دور میں لوگ کسی چیز کو باعثِ برکت سمجھ رہے ہوتے ہیں اسی چیز کو ان کے بعد والی نسلیں باعثِ ثواب سمجھنے لگ جاتی ہیں۔ امت مسلمہ کو آج جو بڑے بڑے مرائض لاحق ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔

لیجئے، پہلے آپ نے نیک اعمال اور عقیدے کے لغو بحث شروع کر دی تھی، اور اب عقیدے اور عقیدت کو ایک دوسرا سے الگ اور متضاد چیزیں بیان کرنے کی بحث شروع کر دی ہے۔
عقیدہ اور شعائر اللہ کی تعظیم/عقیدت کوئی دو مختلف اور ایک دوسرے کے مخالف کھڑی متضاد چیزیں نہیں ہیں، بلکہ قران و احادیث نبوی کی روشنی میں ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ شعائر اللہ کی تعظیم واجب و لازمی ہے، اور یہ کہ شعائر اللہ کی تعظیم نیک عمل ہے، اور یہ کہ شعائر اللہ کی تعظیم کرنے سے شعائر اللہ اللہ کے حکم سے ہمیں نفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں، اور یہ کہ ہر ہر ذرے کو اللہ تعالی نے شعور عطا کیا ہے اور وہ اللہ کی عبادت میں مصروف ہے، اور یہ کہ حجر اسود روز قیامت ہماری شفاعت کرے گا۔
اور خاور صاحب، آپ نے "شفا" اور "شفاعت" کی بھی لغو بحث یہاں چھیڑی ہے۔ "شفا" کا مطلب ہے بیماری سے شفا حاصل ہونا، جبکہ "شفاعت" کا مطلب ہے شعائر اللہ اور تبرکات نبوی کا اللہ کے حضور ہمارے لیے دعا کرنا [سفارش کرنا]۔ مجھے نہیں علم آپ نے یہ بحث کیوں چھیڑی، جبکہ شعائر اللہ اور تبرکات نبوی کے متعلق ہمارا عقیدہ "شفاعت" کا ہے اور اس شفاعت کے آگے "بیماری سے شفا" چھوٹی چیز ہے۔ شفاعت گناہوں کے معافی کا بھی ذریعہ ہے، شفاعت مشکلات کا حل کا بھی ذریعہ ہے، شفاعت دلوں میں سکینہ پیدا کرنے کا بھی ذریعہ ہے۔
امت مسلمہ کو جو آج سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے، وہ ہے "شاہ سے بڑھ کر شاہ پرست ہونا"۔
اللہ نے اپنی توحید قائم کرنے کے لیے جو چیزیں نہیں بھی بیان کیں، آج انہیں اپنی بنائی ہوئی شریعت کے تحت داخل اسلام کر دینا، اور جو چیزیں اللہ نے شریعت اسلامیہ میں حلال ٹہرائِ ہیں، انہیں اپنی اس قیاس کی بنیاد پر حرام قرار دے دینا کہ یہ منافی توحید ہیں۔
 

فاروقی

معطل
محترم مغل صاحب میں نے کسی کو خیالات سے منع نہیں کیا کہ آپنے خیالات یہاں پیش نہ کریں،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری جو سوچ یا نقطہ نظر تھا میں نے واضع کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔آپ نے ،خاتون مہوش علی نے،طالوت صاحب نے، خاور بلال صاحب نے بھی اپنے خیالات بیان کیئے،،،،،،،،،،

میرا عقیدہ یہی ہے کہ خدا کے علاوہ کوئی نفع و نقصان کا مالک نہین ہے ۔۔۔۔۔۔۔وہی جیسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلت۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ازل سے ہے وہی ابد تک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔نہ وہ سوتا ہے نہ اسے اونگھ آتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ کہ کسی کو خیال آئے کہ اب وہ سویا ہوگا اس لیئے اتنی دیر تک کسی اور سے حاجت روائی کر لیتے ہیں۔۔۔۔۔

خاور بلال نے سہی کہا کہ لوگ آج عقیدت کو عقیدہ خیال کر لیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ اکرام کے پاوں کی مٹی اتنی عزیز ہے کہ میں اسے اپنی آنکھ کا سرمہ بھی نہیں بناوں گا کہ کہیں اس میں بھی اس مٹی کی توہین نہ ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم پانچ وقت نماز میں کیا پڑھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں، جو رب ہے سب جہانوں کا،بڑا مہربان، نہایت رحم والا،مالکِ روزِ جزا کا،تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں،دکھا ہم کو راستہ سیدھا،راستہ ان لوگوں کا کہ انعام فرمایا تو نے ان پر ، نہ وہ جن پر غضب ہوا (تیرا) اور نہ بھٹکنے والے۔۔۔

یہ دن میں ہم پانچ نمازوں میں کسے پکارتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور کس سے مدد مانگتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اگر کوئی مدد مانگنے کے لائق ہوتا تو اللہ تعالی ضرور اپنی کتاب میں بتا دیتے۔۔۔۔۔۔۔کہ میرے اس نبی سے بھی مدد مانگ لینا ۔۔۔۔۔۔یا اس ولی سے بھی ۔۔۔۔۔۔۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کے موقع پر فرمایا تھا۔۔۔۔۔۔۔خلاصہ
“ اے اللہ ان لوگوں کو یہاں تک لانا میرا کام تھا میں لے آیا اب ان کو فتح و شکست سے دو چار کر نا تیرا کام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اے اللہ ان کو فتح دے کہ یہ تیرا نام بلند کر سکیں ۔۔۔۔۔ورنہ تیرا دنیا میں کوئی نام لینے والا کوئی نہ ہو گا۔۔۔۔۔۔۔“

اللہ کا نبی خود اللہ سے مدد مانگ رہا ہے اور ہم اللہ کے نبی کے تبر کات سے مدد ما نگ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اب اسے کیا کہٰں ہم۔۔۔۔۔۔۔۔؟


دوسری بات : اتحاد اسلامی میرا ہی نہیں اپ کا بھی مسئلہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔میرا ہی نہین اپ کا بھی فرض ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آواز میں نے ہی پہلے لگائی لیکن اس سے یہ نہین سمجھ لیجیئے کہ میں ہی امیر ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واللہ میں تو کہہ کہہ کے تھک گیا ہوں کہ امیر نہ بناو کسی کو بلکہ مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔تا کہ کسی کو کسی پر انگلی اٹھانے کی جرات نہ ہو اور نہ ہی کوئی یہ خیال کرے کہ امیر ہمارے فرقے کا نہیں کسی دوسرے فرقے کا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسی وجہ سے میں کہتا ہوں امیر نہ بنایا جائے بلکہ مجلس شوری بنائی جائے تو متفقہ طور پر فیصلے کر نہ کہ کسی فرد واحد کے احکامات کی پیروی کرنی پڑھے۔۔۔۔۔۔۔اس لیئے ان دونوں باتوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں میں اپنے خیالات بیان کروں گا لیکن اتحاد اسلامی میں جب ہر فیصلہ متفقہ طور پر ہو گا تو مجھ پر بھی وہی اصول و ضوابط لاگو ہوں گے جو کسی ادنی سے ادنی ممبر پر ہوں گے ۔۔۔۔۔۔امید ہے اپ سمجھ چکے ہوں گے،،،،
 

مہوش علی

لائبریرین
میرا عقیدہ یہی ہے کہ خدا کے علاوہ کوئی نفع و نقصان کا مالک نہین ہے ۔۔۔۔۔۔۔وہی جیسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلت۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم پانچ وقت نماز میں کیا پڑھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں، جو رب ہے سب جہانوں کا،بڑا مہربان، نہایت رحم والا،مالکِ روزِ جزا کا،تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں،دکھا ہم کو راستہ سیدھا،راستہ ان لوگوں کا کہ انعام فرمایا تو نے ان پر ، نہ وہ جن پر غضب ہوا (تیرا) اور نہ بھٹکنے والے۔۔۔

یہ دن میں ہم پانچ نمازوں میں کسے پکارتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور کس سے مدد مانگتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اگر کوئی مدد مانگنے کے لائق ہوتا تو اللہ تعالی ضرور اپنی کتاب میں بتا دیتے۔۔۔۔۔۔۔کہ میرے اس نبی سے بھی مدد مانگ لینا ۔۔۔۔۔۔یا اس ولی سے بھی ۔۔۔۔۔۔۔

فاروقی بھائی،
مسئلہ یہ ہے کہ آپ قران کو ظاہری معنوں میں لیجاتے ہیں اور اسکے مجازی معنی سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اور قران کو ظاہری معنوں میں لے جانے کی بیماری ایسی مضر ہے کہ اس سے قران میں تضاد پیدا ہو جاتا ہے [جسے آپ حضرات چھپانے کی کوشش کرتے ہیں یا کسی بہانوں نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں] اور اسلام کے وہ عقائد جو احادیث رسول سے مکمل طور پر ثابت ہیں، آپ لوگ ان تمام تر احادیث نبوی کا اپنے قیاس کی بنیاد پر انکار کر دیتے ہیں۔ [مثال کے طور پر اسی حجر اسود اور تبرکات نبوی کے متعلق ان حضرات کو ان ڈیڑھ دو سو احادیث نبوی کا مسلسل نظر انداز کرنا پڑ رہا ہے]

تو آئیے ذرا اس ظاہر پرستی کی بیماری کو سمجھ لیں کیونکہ جبتک اس اصل اور بنیادی بیماری کا علاج نہیں ہو گا اُس وقت تک یہ حضرات مسلسل اس بات کا انکار کرتے رہیں گے کہ شعائر اللہ اور تبرکات نبوی نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتے۔
///////////////////
کیا اللہ اکیلا ولی ہے اور کیا وہ بطور ولی کافی ہے اور کیا رسول ﷺ کو ولی ماننا شرک ہے؟
=====================================================================
بیشک اللہ مطلقاً معنوں میں اکیلا ولی ہے اور بیشک وہ بطور ولی کافی ہے۔

لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلاَ يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللّهِ وَلِيًّا[/tahoma]
(القران 4:123) ۔۔۔ اور جو کوئی بھی برا کام کرے گا، بہرحال اسے اس کی سزا ملے گی اور وہ اللہ کے سوا نہ پائے گا کوئی ولی۔۔۔۔

اسی طرح یہ آیت:

(القران 4:45) اور اللہ کو تمہارے دشمنوں کی خوب خبر ہے۔ اور اللہ بطور ولی کافی ہے۔

مگر اللہ اسی قران میں دوسری جگہ فرما رہا ہے کہ وہ ولی ہے اور اس کے ساتھ اس کا رسول بھی مسلمانوں کا ولی ہے اور وہ صالح مومنین بھی ولی ہیں جو کہ حالتِ رکوع میں زکوۃ دیتے ہیں (اشارہ ہے علی ابن ابی طالب کی طرف ہے جب انہوں نے حالتِ رکوع میں سائل کو اپنی انگوٹھی زکوۃ میں دی تھی)۔

إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ
(القران 5:55) تمہارا ولی تو بس اللہ ہے، اور اس کا رسول اور وہ جو ایمان رکہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور حالتِ رکوع میں زکوۃ ادا کرتے ہیں۔

اسی طرح آیت ملاحظہ فرمائیے:

وَمَن يَتَوَلَّ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ فَإِنَّ حِزْبَ اللّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ
(القران 5:56) اور جو اللہ کو اور اس کے رسول کو اور مومنین کو اپنا ولی بناتے ہیں تو بیشک اللہ کی جماعت ہی غالب آنے والی ہے۔

تو ان آیات کی موجودگی میں کیا یہ کہنا اللہ کی ذات میں شرک ہو گا کہ رسول اللہ ﷺ اور دوسرے ایمان والے بھی اللہ کے ساتھ ساتھ ہمارے ولی ہیں؟
اور کیا ان کو ولی بنانے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ بطور ولی کافی نہ تھا اور صرف اسی وجہ سے اللہ کو ضرورت پڑی کہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی ھمارا ولی قرار دے؟

اس سوال کا آسان اور سیدھا جواب یہ ہے کہ ظاہر پرستی کی اس بیماری کے برخلاف کہ پورا قران ظاہر ہے، بیشک قران میں کچھ آیات ایسی بھی ہیں جن کے مجازی معنی بھی ہیں اور اگر ان کو مجازی معنوں میں نہ سمجھا جائے تو یقیناً قران میں تضاد پیدا ہو جائے گا۔

اصول:
=====
جب اللہ کہہ رہا ہے کہ وہ اکیلا ولی ہے اور بطور ولی کے کافی ہے، تو رسول ﷺ اور مومنین بھی مجازی طور پر اس میں شامل ہیں۔

کیا اللہ کے علاوہ کوئی ھماری شفاعت کر سکتا ہے؟
========================================
اللہ قران میں ایک جگہ فرما رہا ہے کہ اس کے سوا کوئی شافع نہیں ہے:

أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ شُفَعَاء قُلْ أَوَلَوْ كَانُوا لَا يَمْلِكُونَ شَيْئًا وَلَا يَعْقِلُونَ
قُل لِّلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا لَّهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

(القران 39 سورہ ، آیات 43 تا 44) کیا ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسرے شفاعت کرنے والے اختیار کر لیے ہیں۔ تو آپ کہہ دیجئیے کی ایسا کیوں ہے چاہے یہ کوئی اختیار نہ رکہتے ہوں اور نہ ھی کسی قسم کی عقل رکہتے ہوں۔ کہہ دیجئیے کی شفاعت کا کُل اختیار تو اللہ کے ہاتھ میں ہی ہے۔۔۔

مگر اللہ اسی قران میں دوسری جگہ فرما رہا ہے کہ کچھ اولیاء اللہ ایسے بھی ہیں کہ جن کے متعلق مسلمانوں کو اجازت ہے کہ ان سے شفاعت طلب کریں کیونکہ اللہ نے انہیں ھماری شفاعت کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔

لَا يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا

(القران 19:87) کسی کے پاس شفاعت کا اختیار نہیں ہے، سوائے ان کے کہ جنہوں نے خدائے رحمان سے شفاعت کا عہد لے رکہا ہے۔

اسی طرح یہ آیت مبارکہ دیکھیں:

وَلَا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَن شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ

(القران 43:86) اور جنہیں یہ (کافر) اللہ کے سوا پکارتے ہیں، ان کے پاس شفاعت کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے، سوائے ان کے جو حق بات کی گواہی دیتے ہیں اور اسے جانتے ہیں۔

تو کیا یہ اللہ کی ذات میں شرک کرنا ہے اگر ہم یہ کہیں کہ رسول اللہ ﷺ بھی مسلمانوں کی شفاعت کر سکتے ہیں؟ کیا واقعی قران میں (معاذ اللہ) تضاد ہے؟

اصول:
====
جب اللہ کہہ رہا ہے کہ وہ اکیلا ہمارا شافع ہے، تو اولیاء اللہ اس میں پہلے سے ہی مجازی طور پر شامل ہیں جو کہ اللہ کے اذن اور حکم سے مسلمانوں کی شفاعت کریں گے۔


کیا رسول اللہ اپنے فضل سے ہمیں غنی کر سکتے ہیں؟
==============================================
اس سلسلے میں آپ کو قران کی یہ آیت نظر آئے گی کہ فضل صرف اللہ کے لیے ہے۔:

لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِّن فَضْلِ اللَّهِ وَأَنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاء وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ

(القران 57:29) تاکہ اہلِ کتاب یہ بات جان لیں کہ ان کے پاس اللہ کے فضل پر کوئی اختیار نہیں ہے اور یہ کہ فضل پورا کا پورا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ جسے چاہتا ہے اس سے نوازتا ہے۔ بیشک اللہ فضلِ عظیم کا مالک ہے۔

ظاہر پرستی کی بیماری ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم یہ نتیجہ نکالیں کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے فضل کا لفظ استعمال کرنا شرک ہے۔ مگر آئیے اب اسی قران کے دو مزید آیات کا مطالعہ کرتے ہیں جو اس ظاہر پرستی کی مکمل طور پر نفی کر رہی ہیں:

وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَ

(القران 9:59) اور اگر وہ اس پر راضی ہو جاتے کی جو کچہ اللہ نے اور اس کے رسول نے انہیں دیا ہے، اور یہ کہتے کہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے۔ اور اللہ جلد ہمیں مزید عطا کرے گا اپنے فضل سے اور اس کا رسول بھی۔

تو کیا یہاں اللہ خود شرک کر رہا ہے یہ کہہ کر کہ رسول بھی ہمیں اپنے فضل سے عطا کرتا ہے؟

يَحْلِفُونَ بِاللّهِ مَا قَالُواْ وَلَقَدْ قَالُواْ كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُواْ بَعْدَ إِسْلاَمِهِمْ وَهَمُّواْ بِمَا لَمْ يَنَالُواْ وَمَا نَقَمُواْ إِلاَّ أَنْ أَغْنَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ فَإِن يَتُوبُواْ يَكُ خَيْرًا

(القران 9:74) یہ قسم کہاتے ہیں کہ انہوں نے ایسا نہیں کہا ہے حالانکہ انہوں نے کلمہِ کفر کہا ہے اور ایمان لانے کے بعد کافر ہو گثے ہیں اور وہ ارادہ کیا تھا جو حاصل نہیں کر سکے اور انہیں صرف اس بات کا غصہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے انہیں (مسلمانوں) کو غنی کر دیا ہے۔ بہرحال یہ اب بھی توبہ کر لیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ھے۔۔۔

فضل سے غنی کرنا تو صرف اللہ کا کام ہے، مگر اللہ اسی قران میں گواہی دے رہا ہے کہ اللہ کا رسول ﷺ بھی اپنے فضل سے مسلمانوں کو غنی کرتا ہے۔ تو اب مسئلہ یہ ہے کہ قران کے صرف ظاہر کو لینے اور مجاز کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے سب سے پہلے اللہ پر مشرک ہونے کا فتویٰ لگے گا۔۔

سوال:
اگر اللہ خالی یہ کہہ دیتا [رسول کا نام لیے بغیر] کہ میں [اللہ] نے اپنے فضل سے غنی کیا، ۔۔۔۔ تو کیا یہ چیز ناکافی ہوتی؟ تو بتائیے کہ پھر اللہ کو کیا ضرورت تھی کہ فضل سے غنی کرتے وقت رسول ص کا نام بھی اپنے ساتھ قرآن میں بیان کرے؟


کیا اللہ بطور مددگار اکیلا اور کافی ہے؟
============================
بیشک اللہ بطور مددگار اکیلا کافی ہے:

وَاللّهُ أَعْلَمُ بِأَعْدَائِكُمْ وَكَفَى بِاللّهِ وَلِيًّا وَكَفَى بِاللّهِ نَصِيرًا

(القران 4:45) اور اللہ کو تمہارے دشمنوں کی خوب خبر ہے۔ اور بیشک اللہ بطور ولی بھی کافی ہے اور بطور مددگار بھی کافی ہے۔

اسی طرح یہ آیت ملاحظہ فرمائیں:.

قُلْ مَن ذَا الَّذِي يَعْصِمُكُم مِّنَ اللَّهِ إِنْ أَرَادَ بِكُمْ سُوءًا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةً وَلَا يَجِدُونَ لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا

(القران 33:17) ۔۔۔۔۔ اور اللہ کے سوا وہ کوئی ولی پائیں گے نہ کوئی مددگار

اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر قران کو پھر ہم صرف ظاہری معنوں میں سمجھیں تو اس میں پھر تضاد آ جاتا ہے اور ذیل کی آیات شرک کی دعوت دیتی نظر آئیں گی۔

إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ

(القران 66:4) (اے نبی کی بیویو) اب تم توبہ کرو کہ تمہارے دل ٹیرھے ہو گئے ہیں ورنہ اگر تم اس (رسول) کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی تو یاد رکہو کہ اس (رسول) کا ولی اللہ ہے اور جبرئیل ہیں اور صالح مومنین اور فرشتے سب اس کے مددگار ہیں۔

کیا واقعی ہمیں یہ آیت ظاہری معنوں میں لینی چاہیے اور اس کا مطلب یہ لینا چاھیے کہ اللہ بطور مددگار اپنے حبیب ﷺ کے لیے کافی نہیں تھا، اسی لیے اپنے ساتھ جبرئیل اور دیگر فرشتوں اور مومنین کا بھی ذکر کر رہا ہے کہ وہ بھی اس کی مدد کریں گے؟

اور کیا یہ واقعی شرک ہے اگر ہم یہ مانیں کہ جبرئیل، صالح مومنین اور دیگر فرشتے بھی ہمارے مولا (سرپرست) اور مددگار ہیں؟

اسی طرح یہ آیت دیکھیں:

وَمَا لَكُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَ۔ذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا

(القران 4:75)۔۔۔۔۔ مرد، عورتیں اور بچے جو برابر دعا کرتے ہیں کہ اے رب ہمیں اس قریہ سے نجات دے دے جس کے باشندے ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی ولی بھیج اور اپنی طرف سے کوئی مددگار بھیج۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ بطور ولی اور مددگار کے کافی ہے تو پھر یہ لوگ کیوں اللہ سے کسی دوسرے شخص کو بطور ولی اور مددگار کے مانگ رہے ہیں؟

اور اگر اللہ خود اس دوسرے شخص کو ولایت اور مددگار (نصرت) کی صفات عطا کر رہا ہے تو پھر یہ کہنا کیوں شرک ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور کسی قسم کا فائدہ نہیں پہنچا سکتا (چاہے وہ ولایت کی صورت میں ہو یا پھر نصرت و مدد کی صورت میں)۔
بیشک اللہ کے اذن سے اولیاء اللہ، شعائر اللہ اور تبرکات نبوی ہماری مدد کرتے ہیں اور اپنی شفاعت سے ہمیں فائدہ پہنچاتے ہیں۔
اور یاد رکہیے کہ اولیاء اللہ بیشک اللہ کے ساتھ ہمارے ولی اور مددگار ہیں (یعنی اس معاملے میں یہ اللہ کے سوا اور الگ نہیں ہیں بلکہ اللہ نے خود انہیں اس معاملے میں اپنے ساتھ رکھا ہے۔
اور مخالف جماعت شیطان اور اس کے اولیاء کا ہے۔ اور بیشک یہ اللہ کے سوا اور الگ ہیں اور اگر کوئی انہیں اپنا ولی اور مددگار بناتا ہے تو یقیناً یہ شرک ہے۔

اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کئی سو احادیث ہیں جو بیان کر رہی ہیں کہ شعائر اللہ اور تبرکات نبوی ہماری مدد کرتے ہیں، ہماری شفاعت کرتے ہیں اور ہمیں نفع و نقصان پہنچاتے ہیں۔ مگر ایک طبقہ فکر اپنے قیاس کی بنیاد پر ان چیزوں کو شرک سمجھتا ہے اور ان کئی سو احادیث رسول کو کہیں نظر انداز کرتا ہے تو کہیں انکا انکار۔
اللہ آپ سب پر اور محمد اور آلِ محمد پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے۔ امین۔
 

مغزل

محفلین
شکریہ مہوش ،

فاروقی اور دیگر احباب
آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے
پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا۔

اگر حقیقی اور مجازی کے معنی معلوم ہوں تو گزارش ہےکہ:
ہاتھ کٹ‌جائے تو ڈاکٹر کے پاس مت جائیں۔۔ وہیں بیٹھ جائیں اللہ مدد فرمائے گا۔
روزی کمانے کیلئے حیلہ بھی مت کیجئے کہ وہ رزاق ہے اس نے دینا ہی ہے۔
اللہ کو براہِ راست مخاطب کیجئے ۔۔ وہ سنتا ہے۔۔
تو نبی کا نہ نام لیجئے اور نہ ان کا کلمہ پڑھیں۔۔
ڈائریکٹ لو لگا لیں۔۔

اب اور کیا کہوں ۔ کہ جب جناب غور ہی نہیں کرنا چاہتے۔۔ محض مولوی کے بتائے پر چلتے ہیں۔
 

فاروقی

معطل
میں نے کہا بھی تھا کہ اللہ جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے بھی شاید اس بات کا ظاہری معنی لیا کہ آج کل عزت دولت سے مشروط ہونے لگی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کا مطلب یہ تھا کہ دیتا سب کچھ اللہ ہی ہے لیکن وہ کچھ بندوں کو زیادہ عزت دیتا ہے یعنی انہیں اختیار دیتا ہے وہ کسی کی مدد کر سکیں یاکسی کا کام کر سکیں ۔۔۔۔۔۔۔جیسا کہ اللہ نے عیسی علیہ السلام کو طاقت دی تھی کہ مردوں کو زندہ کر دیتے تھے یا کوڑیوں کو تند رست کر دیتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔اور بھی نبیوں اور ولیوں کو اللہ نے اختیار دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اس سے یہ مراد نہیں لی جا سکتی کہ وہ اپنی مرضی سے جو چاہے کر سکتے تھے یا ہیں ۔۔۔۔۔۔وہ تو اللہ کی مرضی اور حکم سے یہ سب کر تے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس لیئے حققی مالک تو اللہ تعالی ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی لیئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا
“کہ اگر تمہارے جو تے کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو اللہ سے مانگو“


امید ہے آپ کے شکوک دور ہو گئے ہوں گے
والسلام
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top